زیر التوا مقدمات کا خاتمہ جسٹس منصور کا عدالت آنے سے پہلے ثالثی کا مشورہ
اس وقت عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں، ہمیں زیر التواء مقدمات کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ زیر التوا مقدمات کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے اس لیے عدالتوں سے رجوع کرنے سے قبل پہلے ثالثی کی کوشش کریں۔ ان خیالات کا اظہا انہوں نے مصالحتی فورم سینٹر کے افتتاحی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ جوڈیشل جسٹس سسٹم میں بہتری کیلئے کام کا آغاز ہوا ہے، یہاں بزنس اسکول کے احاطے میں جوڈیشری کا اشتراک اچھا اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں زیر التواء مقدمات کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں، 24 ہزار مقدمات ہائیکورٹس میں جبکہ 38 ہزار مقدمات سیشن عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 8 ہزار ججوں کی موجودگی میں ایسے مقدمات کا التواء ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے میں کہوں گا کہ بزنس سیکٹر کے لوگ مصالحتی فورم سے رجوع کریں، آپ خود بھی اس ثالثی پلیٹ فارم سے رابطہ کریں اور عدالتوں سے رجوع کرنے سے قبل پہلے ثالثی کی کوشش کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، سنگاپور میں یہ عام کلچر ہے، وہاں کوآپریٹ سیکٹر کے مسائل ثالثی فورم میں گھر بیٹھے حل ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں یہاں بزنس سیکٹر کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے مسائل اور شکایات کا ازالہ جلد از جلد کرسکتے ہیں، ایمیزون میں بھی ثالثی پلیٹ فارم موجود ہے آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں اور خود کو اس کا عادی بنائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ صحت کی کمپنیاں اپنا سسٹم متعارف کرائیں اور ثالثی کا کردار ادا کریں، کلائمٹ چینج، سپلائی چین اور دیگر مسائل کاروباری مسائل کی وجہ بن رہے ہیں، اے ڈی آر کو استعمال کرکے بزنس کو نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔
گلوبل پارٹنرز اور ایگریمنٹ کے ذریعے مسائل کوحل کیا جاسکتا ہے۔ لیگل ایجوکیشن میں ہم اسے شامل کرنے کی بھی کوشش کریں گے، تاکہ اس حوالے سے بھی آگاہی مل سکے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایکسپرٹس، کوآپریٹ سیکٹر کے لوگ اس میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ چائنا کے ساتھ جو ہمارے معاہدے ہیں ہم ان معاملات کو ثالثی کے ذریعے حل کرسکتے ہیں، چائنیز کسی بھی سرمایہ کاری معاہدوں میں تاخیر پسند نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ چائنہ پاکستان کا دوست ہے اور وہ یہاں باہمی کاروباری مواقع دینا چاہتا ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا جس سے معیشیت اور ملکی بہتری کے لیے کام ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ جوڈیشل جسٹس سسٹم میں بہتری کیلئے کام کا آغاز ہوا ہے، یہاں بزنس اسکول کے احاطے میں جوڈیشری کا اشتراک اچھا اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں زیر التواء مقدمات کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت عدالتوں میں 24 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں، 24 ہزار مقدمات ہائیکورٹس میں جبکہ 38 ہزار مقدمات سیشن عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 8 ہزار ججوں کی موجودگی میں ایسے مقدمات کا التواء ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے میں کہوں گا کہ بزنس سیکٹر کے لوگ مصالحتی فورم سے رجوع کریں، آپ خود بھی اس ثالثی پلیٹ فارم سے رابطہ کریں اور عدالتوں سے رجوع کرنے سے قبل پہلے ثالثی کی کوشش کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، سنگاپور میں یہ عام کلچر ہے، وہاں کوآپریٹ سیکٹر کے مسائل ثالثی فورم میں گھر بیٹھے حل ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں یہاں بزنس سیکٹر کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے مسائل اور شکایات کا ازالہ جلد از جلد کرسکتے ہیں، ایمیزون میں بھی ثالثی پلیٹ فارم موجود ہے آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں اور خود کو اس کا عادی بنائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ صحت کی کمپنیاں اپنا سسٹم متعارف کرائیں اور ثالثی کا کردار ادا کریں، کلائمٹ چینج، سپلائی چین اور دیگر مسائل کاروباری مسائل کی وجہ بن رہے ہیں، اے ڈی آر کو استعمال کرکے بزنس کو نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔
گلوبل پارٹنرز اور ایگریمنٹ کے ذریعے مسائل کوحل کیا جاسکتا ہے۔ لیگل ایجوکیشن میں ہم اسے شامل کرنے کی بھی کوشش کریں گے، تاکہ اس حوالے سے بھی آگاہی مل سکے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایکسپرٹس، کوآپریٹ سیکٹر کے لوگ اس میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ چائنا کے ساتھ جو ہمارے معاہدے ہیں ہم ان معاملات کو ثالثی کے ذریعے حل کرسکتے ہیں، چائنیز کسی بھی سرمایہ کاری معاہدوں میں تاخیر پسند نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ چائنہ پاکستان کا دوست ہے اور وہ یہاں باہمی کاروباری مواقع دینا چاہتا ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا جس سے معیشیت اور ملکی بہتری کے لیے کام ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔