کیا بنگلہ دیش واقعی
عالمی بینک نے 2013میں دنیا بھرکے ممالک کی ترقی کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی سالانہ رپورٹ میں پیشگوئی کی تھی کہ بنگلہ دیش کی ترقی کی رفتار برقرار رہی تو بنگلہ دیش مستقبل کا چین ہوگا۔ ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے ایک آرٹیکل میں بنگلہ دیش کے ماڈل کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش نے اس صدی میں اپنے پڑوسی ممالک بھارت، پاکستان، سری لنکا اور برما کے مقابلے میں حیرت انگیز ترقی کی۔
بنگلہ دیش جب 1971میں پاکستان سے آزاد ہوا تو انتہائی پسماندہ علاقہ تھا۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں ہر سال سمندری اور ہوائی طوفان تباہی مچاتے تھے۔ 1970میں سابقہ مشرقی پاکستان میں آنے والے ہوائی سمندری طوفان نے زبردست تباہی مچائی تھی۔ اس طوفان میں لاکھوں افراد جاں بحق اور برباد ہوئے تھے۔ پاکستان کے سینئر صحافی عبداﷲ ملک جو اس وقت بائیں بازو کے اخبار روزنامہ '' آزاد'' کے ایڈیٹروں میں شامل تھے وہ واحد پاکستانی صحافی تھے جو طوفان زدہ علاقے میں گئے تھے۔
عبداﷲ ملک اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں،گدھ لاشوں کو ٹھکانے لگا رہے تھے۔ مغربی پاکستان سے کوئی مدد نہیں آئی تھی۔ اس وقت بحرۂ ہند میں موجودہ امریکی بحری بیڑہ کے فوجی طوفان زدہ علاقوں میں پہنچے تھے اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام کیا تھا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں ہر طرف غربت نظر آئی تھی۔ ماہرین کا تخمینہ تھا کہ 70 سے 80 فیصد آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ اس وقت فی کس آمدنی 50 سے 60 ڈالر سالانہ تھی، آبادی کا بیشتر حصہ ناخواندہ تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق خواندگی کا تناسب 20 سے 25 فیصد تھا۔ اسی طرح 1000 نوزائیدہ بچوں میں سے 150 سے 200 ہلاک ہوجاتے تھے۔
1971ء کی خانہ جنگی نے ہر طرف تباہی مچائی تھی۔ سڑکیں، پل اور ریلوے لائن تباہ ہوگئی تھی۔ بیشتر سرکاری عمارتیں مخدوش حالت میں تھیں۔ امن و امان کی صورتحال نا گفتہ بے تھی۔ نوجوانوں کے مسلح گروہوں کو قابو پانا ایک اہم مسئلہ تھا۔ ہر شہر میں پناہ گزینوں کے کیمپ لگے ہوئے تھے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس وقت نئے ملک کو زرعی اور صنعتی شعبہ میں انتہائی کم پیداوار کا سامنا تھا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں اوسط عمر 45 سے50 سال کے قریب تھی۔ بنگلہ دیش کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی آبادی کا تھا۔ 70کی دہائی میں مشرقی پاکستان کی آبادی 7,874,000 تھی۔ ایک تخمینہ کے مطابق 1990میں آبادی 100 ملین کے قریب پہنچ گئی تھی۔ پھر شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے آبادی کم کرنے کے منصوبہ پر کام شروع کیا۔ حکومت کی کوششوں سے علماء نے بھی آبادی کم کرنے کی اہمیت کو محسوس کیا۔ یوں بنگلہ دیش کی آبادی کی شرح میں اضافہ 2.55 فیصد تک محدود ہوگیا۔
اس وقت بنگلہ دیش آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 8بڑے ممالک میں شامل ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ 2022میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق بنگلہ دیش کی آبادی 166 ملین تھی۔ آبادی میں کمی سے سماجی اور اقتصادی ترقی تیز ہوئی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی 2 ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ اب صحت کی سہولتوں کے بہتر ہونے سے زیادہ سے زیادہ عمر 72 سال تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح کم ہوگئی ہے۔
1000 نوزائیدہ بچوں میں سے صرف 25 سے 30 بچے زندہ نہیں رہ پاتے۔ ترقیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں شرکت سے خواتین میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سے 24 سال کی عمرکی خواتین میں خواندگی کا تناسب 83.4 فیصد ہے۔ 25 سے35 سال کی عمر میں خواندگی کا تناسب 76.3 فیصد کے قریب ہے۔ اب خواتین کی اکثریت ہر شعبے میں کام کرنے جاتی ہے اور کام کرنے والی خواتین میں دیر سے شادی کرنے کے رجحانات تقویت پارہے ہیں۔ اب بنگلہ دیش کی خواتین اپنے والدین، بھائیوں اور شوہر پر بوجھ بننے کے بجائے خاندان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں اپنی توانائی صرف کرتی ہیں۔
بنگلہ دیش میں خواتین کو بااختیار کرنے میں نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک کا اہم کردار ہے۔ گرامین بینک نے خواتین کو آسان اقساط پر قرضے دے کر ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا، یوں نہ صرف خواتین کے حالاتِ کار بہتر ہوئے بلکہ اقتصادی اور سماجی صورتحال میں بھی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ڈاکٹر اکبر زیدی لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش دنیا میں گارمنٹس کی مصنوعات تیار کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات 60 بلین ڈالر کے قریب ہیں۔
ان میں ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات کا تناسب 32 بلین ڈالر کے قریب ہے مگر ساری ترقی کے ماڈل میں ایک اہم حصہ ریاست کے سیکولر کردار کا ہے۔ بنگلہ دیش کے آئین کے تحت تمام شہری خواہ ان کا مذہب، جنس اور ذات کوئی بھی ہو ریاست کی نظر میں برابر ہیں اور تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں مگر اس ترقی کے ماڈل میں کچھ Variablesبھی نظر آتے ہیں۔ تعلیم کی شرح بڑھنے اور روزگارکی سہولتیں بہتر ہونے سے Urbanization کا عمل بڑھ گیا۔ شہروں کی آبادی بڑھی اورکئی نئے شہر آباد ہوئے۔ اس کے ساتھ متوسط طبقے کا سائز بڑھا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے معاشی ترقی کی اہمیت کو تو محسوس کیا اور حیرت انگیز ٹارگٹ حاصل کیے مگر ایک جدید جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا، یوں ایک تو 15 سال کا طویل اقتدار ، پھر عوام کی رائے جمع کرنے کے طریقے ترک کردیے گئے، یوں انسانی حقوق کی پامالی عام سی بات بن گئی۔ شخصی آمریت قائم ہوگئی۔ شیم جمہوریت نظر آنے لگی۔ کامریڈ ناصر منصور کا بیانیہ ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت نے مزدور طبقے کے حالات کو انتہائی خراب کردیا تھا، ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ مزدوروں سے ہڑتال کا حق چھین لیا گیا تھا، جو ٹریڈ یونین کارکن مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے تھے لاپتہ کردیے جاتے تھے۔
مشرقی بنگال کی تاریخ سے مدد لی جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیشہ طالب علموں نے تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 50ء کی دہائی کی بنگالی زبان کی تحریک ہو یا ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں ہمیشہ طلبہ نے ہی تبدیلی کے عمل کو تیزکیا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت عوام سے دور چلی گئی تھی۔ جمہوریت کے ایک طالب علم نے لکھا ہے کہ اگر شیخ حسینہ واجد 10 سال بعد اقتدار کسی اور ساتھی کو سونپ دیتیں تو آج نیلسن منڈیلا کی طرح بنگلہ دیش کے عوام کی ہیرو ہوتیں۔
بہرحال ابھی فوج نے مکمل طور پر اقتدار نہیں سنبھالا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مسلح گروہوں نے عوامی لیگ کے 20 کے قریب اراکینِ پارلیمنٹ کو قتل کردیا ہے اور جنونی گروہ اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ڈاکٹر یونس کو عارضی حکومت چلانے کی ذمے داری دی گئی۔ اب ڈاکٹر یونس کی حکومت کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ ڈاکٹر یونس کو بنگلہ دیش کے سیکولر کردارکو تحفظ دینا ہے اور ان انتہا پسند عناصرکو قابو میں لانا ہے جو اقلیتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھیں معیشت کو بچانا ہے اور حقیقی جمہوریت کو بحال کرنا ہے۔ ڈاکٹر یونس نے اپنے لیے وزیر اعظم کا لقب استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے کابینہ کے اراکین بھی مشیر کہلائیں گے۔ کابینہ میں طالب علم، ماہرِ معاشیات، انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنما اور ایک سابق فوجی شامل ہیں۔
اب شیخ حسینہ واجد کے جانے کے بعد یہ طے ہوگا کہ آیا بنگلہ دیش ترقی کر کے چین بنے گا یا پاکستان کی طرح پسماندہ ہی رہ جائے گا۔