’’ سوشل میڈیا ‘‘ ایک مصنوعی دنیا

تب وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمزچاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی جادو نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک مصنوعی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اکثر اپنے اردگرد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے، ''دنیا بدل گئی ہے'' مگر مجھے نہیں لگتا کہ دنیا کبھی بدل سکتی ہے۔ وہ ویسی ہی ہے، زمین،آسمان، سورج،چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں کے رہائش کی وسیع وعریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔ البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اْن کی یہ تبدیلی اتنی جادوئی ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا سیدھا سادہ جواب ہے، انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات و واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اْن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں، Millennials, G i generation, Lost generation Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation, Generation Z۔ یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اْس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے سے قدرے مختلف ہے تو اْن کی تفریح کے ذرائع کیسے یکساں ہوسکتے ہیں۔

اپنے ابتدائی دور میں انسان داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سْن کر اپنے تصور میں افسانوی دنیا تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتا تھا، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتا تھا۔ چونکہ انسان ہر چیز سے جلد اْکتا جاتا ہے لہٰذا جب کہانیاں سْن سْن کر اْس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اْسے اس کام میں خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے وہ کہانی سننے میں کہاں میسر ہے لیکن یہاں بھی انسان کی طبیعت نے اْس کو چین نہ لینے دیا اور وہ اپنے اس نئے شوق سے بھی بیزار ہوگیا۔

تب وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، '' ڈیجیٹل فرینڈ شپ'' کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل گئی۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اْن انٹرنیٹ چیٹ رومزکی ہی جدید شکل ہیں، جنھوں نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا قیمتی وقت ان پرکثرت سے ضائع کررہا ہے۔ پہلے پہل بنی نوع انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سْنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔


جس کا مرکزی کردار وہ خود ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اورکہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا ظالم سماج۔ دور حاضر کا انسان عقل و شعورکے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اْس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر وہ طبیعتاً بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی وہیں انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عطا کیا ہے۔ہم انسان سوشل میڈیا پر نظر آنے والے دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پْر آسائش زندگیوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔

یہ سوچے بغیرکہ جو دکھایا جارہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اْڑا کر اْس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے، جو وہ ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے لوگ کم پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں،کیونکہ یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔ حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش ہیں۔

جب کوئی انسان کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے، اْسے داخلی دروازے پر ایک مکھوٹا دیا جاتا ہے جسے عقلمند لوگ فوراً توڑ دیتے ہیں جبکہ بے عقل افراد اْس کو اپنی شخصیت کا اہم جز بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتے ہیں تب اپنی کیفیات کو من و عن ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پننی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اپنے صارفین کو آپسی اختلافات کے دوران اْن کے حریف پر اقوالِ زریں کی مارکا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اور اْدھر طنزکی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اْس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے،کڑواہٹ سب کی ایک جیسی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب مانے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کوکم کرنے، بچھڑے ہوؤں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کے لیے وجود میں لائے گئے تھے۔ چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کر کے اْس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑکر اْس کی منفیت کو منظر عام پر لانے میں مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا، تب تک وہ بندر کی طرح بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا تماشا بنواتا رہے گا۔
Load Next Story