ناکامی کا خوف ۔۔۔۔ کام یابی کی موت
موت سے انسان ایک دفعہ مرتا ہے، لیکن ناکامی کے خوف سے ہر روز مرتا ہے
خوف انسان کی لامحددو صلاحیتوں کو محددو کر دیتا ہے۔ خوف نے کئی خواب، ادارے، عزم، منصوبے اور پلان تباہ کیے ہیں۔ آر۔ڈبلیو۔ایمرسنن نے کیا خوب صورت الفاظ میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے،''خوف نے اس دُنیا میں کسی اور چیز کی نسبت سب سے زیادہ لوگوں کو شکست دی ہے۔''
ہم ایک ایسی دُنیا اور معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ناکامی کا خوف اس قدر شدید ہے کہ انسان اپنے اندر قدرتی صلاحیتوں کو دیکھنے کی بجائے خوف کے سیاہ میں زندگی بسر کر رہا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ناکامی کاتصور اس قدر منفی اور محدود ہے کہ ناکامی کا لفظ سنتے ہی ہم حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ بچپن ہی سے ہمارے ذہنوں اور دلوں میں ناکامی کا ڈر اس قدر انڈیل دیا جاتا ہے کہ ہم ناکامی کے خوف سے ساری زندگی باہر ہی نکل پاتے ہیں۔ ناکامی کے لفظ کے ساتھ جُڑی شرمندگی اور نفرت ہمیں مجبور کردیتی ہے کہ ہم کام یابی کے لیے جستجو کرنے ہی کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔
معروف مصنف عرفان جاوید لکھتے ہیں کہ ''حادثے کا خوف حادثے سے زیادہ جان لیوا ہوتا ہے۔''
ہمارے معاشرے میں ہر انسان کام یاب ہونا سکھاتا ہے، ناکام ہونا نہیں؛ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کام یابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ، ناکامی کا خوف اور کام یابی کا دباؤ ہے۔ نتائج کے خوف کی پرواہ کیے بغیر، صرف عمل (Process) پر توجہ دینے سے ہی کام یابی حاصل ہوتی ہے۔ آج کے مضمون میں ہم اس بات پر گفتگو کریں گے کہ ناکامی کے خوف سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے؟ کام یابی کے لیے ناکامی کے عمل سے گزرنا کیوں ضروری ہے؟ ناکامی کے بارے میں آپ اپنا نقطۂ نظر بدل کر کیسے کام یابی حاصل کر سکتے ہیں؟ اور کیسے ناکامی کو قبول کرنے سے آپ کام یابی کی جانب گام زن ہوسکتے ہیں۔
میں نے اپنی زندگی کے مختصر تجربے اور زندگی براہ راست مشاہدات سے چند بہترین نکات اخذ کیے ہیں جو میں آپ کے ساتھ شیئر کروں گا۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار اور مختلف شعبوں میں بہت ناکامیوں کا سامنا کیا ہے، اس لیے شاید میں کام یابی کے بارے میں کم اور ناکامی کے بارے میں زیادہ بات کر سکتا ہوں۔ میں ناکامی کے بعد کی کیفیت، خوف اور دباؤ سے بخوبی واقف ہوں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ناکامی کے بارے میں مزید گفتگو کرنی چاہیے۔ میری نظر میں آپ کی ناکامی اُس وقت ناکامی ہوتی ہے، جب آپ ناکامی کو حتمی منزل اور زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں۔ اصل میں ناکامی کام یابی کی جانب سفر میں ہماری ہم سفر ہوتی ہے اور ہم اسے اپنے دشمن سمجھتے ہیں۔
ناکامی سے ناکافی کا خوف
کچھ لوگوں کو ناکامی کا نہیں، ناکافی کا خوف مار دیتا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کام یابی اور ناکامی کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ناکامی کا خوف ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے۔ ڈر ہر انسان کو، ہر بڑا، مشکل اور کھٹن کام کرنے کے آغاز میں لگتا ہے۔ نامعلوم کا خوف، ان جانے راستے کی پریشانی، ناکامی کا ڈر اور سب سے بڑا خوف اپنے اندر کے خوف پر فتح....! ناکام لوگ اس ڈر سے ڈر جاتے ہیں اور فاتح اپنے اندر کے ڈر پر قابو پالیتے ہیں۔
ناکامی سے بد نامی کا خوف
بہت سارے لوگ ناکامی سے اس لیے بھی خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ بدنام ہوجائیں گے، اور لوگ اُن کو ناکامی کا طعنہ دیں گے۔ یاد رکھیں، ہماری حقیقی، دیرپا اور پُراثر ترقی کا آغاز، سکون اور خوف کے دائرے سے باہر نکل کر ہی ہوتا ہے، ورنہ ہم ساری زندگی دائروں کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ مستقبل کے امکانات کو زندہ رکھنے کے لیے ماضی کے خوف سے نجات ضروری ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے مختصر تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ جب جب مشکلات کے طوفانوں نے مجھے گھیرا، میں نے خود کو اور مضبوط ہوتے دیکھا ہے۔
ناکامی سے غلامی کا خوف
ڈاکٹر شیفالی شبیبری کا کہنا ہے،''آپ کے بچے آپ کے خوف کو اپنے اندر جذب کریں گے، تو باخبر رہیں اُس خوف کے بارے میں جسے آپ اپنے اندر دبائے ہوئے ہیں۔'' کہتے ہیں پہاڑوں کو سر کرنے سے کہیں مشکل اپنے اندر کے خوف پر فتح حاصل کرنا ہے۔ پیٹر این زارلنگا نے اس حقیقت کو جملے میں بیان کردیا ہے۔ ''عمل، خوف کو فتح کرتا ہے۔''
یہ بالکل درست ہے کہ ناکامی کا خوف، کام یابی کا خطرناک دشمن ہے۔ عربی کہاوت ہے کہ ''کتب فروش کو اپنا سامان چوری ہونے کا خوف نہیں ہوتا کیوںکہ طالب علم چوری نہیں کرتے، اور چور مطالعہ نہیں کرتے۔'' ناکامی کے خوف کو اپنا غلام بنائیں، اُس کے غلام نہ بنیں۔
ناکامی ابتدا ہے انتہا نہیں
ناکامی ہمارے سفر کی ابتدا ہوتی ہے انتہا نہیں ہوتی ہے۔
معروف مصنف ایڈم گرانٹ اپنی کتاب Hidden Potential کے صفحہ نمبر 19 پر لکھتے ہیں:
''آپ کا صحیح پیمانہ اس چوٹی کی اونچائی نہیں ہے جس پر آپ پہنچے ہیں، بلکہ آپ وہاں پہنچنے کے لیے کتنی دور چڑھے ہیں۔''
اس لیے بے شمار لوگ اپنے سفر کے آغاز پر ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد ہمت ہار جاتے ہیں، اور بہت کم لوگ مستقل مزاجی سے ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے کام یابی کی طرف جستجو کرتے رہتے ہیں۔
ناکامی سفر ہے سزا نہیں
اس مصنوعی دُنیا میں ناکامی کے سبب سخت اور کرخت بننے کی بجائے، مضبوط اور ذہنی پر محفوظ بن جائیں۔
ؔمرزا عظیم بیگ نے کیا خوب کہا ہے:
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
بہت سارے لوگ ناکامی کو سزا سمجھتے ہیں جب کہ یہ ایک سفر ہے، اور سفر میں نشیب وفراز آتے ہیں۔ اس لیے ناکامی کے ڈر سے حوصلہ ہار کر مایوس مت ہوں بلکہ آگے بڑھیں نئے عزم اور جذبے کے ساتھ۔
ناکامی سوچ سے ہے نتائج سے نہیں
ناکامی کے بارے میں لوگ اپنے تجربات کی نہیں بلکہ لوگوں کے کہے کی پرواہ کرتے ہیں، اس لیے وہ نتائج پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ناکامی اور کام یابی کے درمیاں صرف سوچ کا فرق ہے کہ کچھ لوگوں کو جلد اور کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے بعد کام یابی مل جاتی ہے۔ فرق سوچ اور فاصلے کا ہوتا ہے۔ اس بارے میں میرے درینہ دوست ریاست رضا کہا کرتے ہیں کہ ''جن کے جتنے بڑے خواب؛ اُن کی اُتنی زیادہ مشقت!'' اگر آپ کی سوچ اور منزل بلند ہے تو آپ کو محنت بھی زیادہ کرنی پڑے گی اور ناکامی کا بھی زیادہ مرتبہ سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے نتائج کو بدلنے سے قبل ناکامی کے بارے میں اپنی سوچ بدلیں۔
ناکامی کو قبول کریں، مقبول نہیں
ناکامی کام یابی کی بنیاد ہے، متضاد نہیں ہے اور ناکام لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ناکامی کو تسلیم کرنے سے ناکامی کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بہت سارے لوگ اسپتال میں جانا نہیں چاہتے کیوںکہ اسپتال ہمیں زندگی کی حقیقت یعنی فانی ہونے کی یاد دلاتے ہیں۔ اسپتال جہاں ایک بلاک میں پیدا ہونے والے بچے کی آواز نئی زندگی اور خوشیوں کا پیغام دیتی ہے جب کہ ایک دوسرے کمرے مریض کی موت خاموشی کا خوف طاری کیے ہوتی ہے۔ اسپتال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم جتنا مرضی سمجھیں کہ ہم بالکل صحت مند ہیں۔ ایک فون کال ایک بلڈ ٹیسٹ ایک ایکسرے اور ایک رپورٹ ہماری زندگی کی حقیقت کو عیاں کردیتی ہے۔ زندگی کوئی ادویات کا ڈبا نہیں اور نہ کوئی انجیکشن ہے۔ یہ زندگی جسے وقت اور حالات و واقعات کی قید سے آزاد ہوکر جینا چاہے کیا پتا اس ہوا کے غبارے میں کب آکسیجن آنا بند ہوجائے۔ ناکامی کو قبول کریں اور زندگی میں آگے بڑھیں۔
معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا تھا:
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہوسکتا ہے
کچھ اور تو اکثر ہوتا ہے
تم جس لمحے میں زندہ ہو
یہ لمحہ تم سے زندہ ہے
یہ وقت نہیں پھر آئے گا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جائے گا
میں اپنی زندگی کے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ زندگی اور اُمید کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔
مشکلات کے طوفان، خدشات کے بادل، اور خوف کا سمندر آپ کے ارادوں اور خوابوں کو جھنجھوڑنے آئیں گے
اور لوگ بھی تمہیں ڈریں گے لیکن تم ایک بہادر سپاہی کی طرح، آخری دم لڑتے رہنا، تاکہ موت جب تمہیں ملنے آئے تو اگر ایک فاتح سے نہ سہی ایک بہادر سپاہی سے ضرور ملے...!
میں زندگی میں جتنی بار ناکام ہوا ہوں، سوچتا ہوں اس پر کتاب لکھوں، کتاب کا نام رکھوں ''ناکام ہونے کے کام یاب طریقے''ہم سب زندگی میں ناکام ہوتے ہیں، کچھ لوگ ناکامی کوجواز اور کچھ ناکامی کو بنیاد بنا لیتے ہیں، اگر آپ چھوٹے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کے مسائل بڑے، اور وسائل تھوڑے ہیں! لیکن اگر آپ خواب اور کتاب کی اہمیت سے واقف ہیں، آپ طالب علم ہیں، آپ استاد ہیں، ایک کوچ، ٹرینر یا مینٹور ہیں، اگر آپ محنت کرکے تھک چکے ہیں، اور آپ کو ری اسٹارٹ ہونے کی ضرورت ہے۔۔۔ تو اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اردگرد کا پورا نظام آپ کی ناکامی کا سبب ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اردگرد روشنی کا کوئی نشان نہیں، تو باہر کے اندھیرے سے زیادہ اندر کے اندھیرے سے ڈرنے کی ضرورت ہے، اور یہاں روشنی پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے، جو آپ کے اندر جنون، ہمت اور آگے بڑھنے کی جستجو کو نئی آگ اور توانائی دے گی! اور آپ کو ارد گرد سہارے ڈھونڈنے کی بجائے اپنے اندر چھپے خزانوں کی تلاش میں مدد دے گی۔
ہمارے ہاں، کہتے بہت سارے لوگ ہیں،''ہم چاہتے ہیں کہ آپ ترقی کریں!'' لیکن ٹانگیں کھینچنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس کلچر کی حوصلہ شنکی کیے بغیر پائے دار اور اجتماعی ترقی مکمن نہیں ہے۔ خود کو اس سوچ سے باہر نکالیں اور لوگوں کی ترقی اور بہتری میں اگر ساتھ نہیں دے سکتے تو ناکامی میں اپنا ساتھ بھی نہ دیں۔'' خُدا ہمیں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری اور اچھائی کو فروغ دینے کا وسیلہ بنائے۔
ناکام انسان کی کہانی کوئی نہیں سننا چاہتا ہے، کسی کو اس سے کوئی پرواہ نہیں کہ آپ کن مسائل سے دوچار رہے۔ آپ کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ تھے، دُنیا صرف کامیاب لوگوں کی ناکامیوں کو اچیومنٹ مانتی ہے، اور ناکام لوگ کی ناکامیوں کو بہانے بازی...! یاد رکھیں، ناکام ہونا الگ بات ہے اور ناکام رہنا الگ بات ہے، ناکام سب ہوتے ہیں، لیکن کام یاب انسان ناکامی کو حتمی نہیں مانتے ہیں، جب کہ ناکام لوگ ناکامیوں اور حالات کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ کیا آپ اپنی کام یابی کو کہانی بنانا چاہتے ہیں، یا ناکامی کو بدنامی! فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے! اپنی کام یابی کو اپنے دماغ اور ناکامی کو دل میں مت اترانے دو! ورنہ کام یاب ہو کر ناکام اور ناکام ہوکر برباد ہوجاؤ گے! اگر آپ زندگی میں اپنے حالات، مشکلات، واقعات اور دوسروں کے رویوں کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں یا آپ اپنی زندگی کو قسمت، دوسروں کے فیصلے اور وقت کا انتقام سمجھتے ہیں یا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ باصلاحیت ہیں، محنت کرتے ہیں اور اس کے باوجود آپ کو وہ مقام نہیں ملا جس کے آپ حق دار ہیں، اگر آپ ٹرینر، مینٹور، کوچ، کنسلٹنٹ اور استاد ہیں، اگر آپ کھلاڑی ہیں، آرٹسٹ ہیں یا طالب علم ہیں، ناکامی سے کام یابی کی جانب جانا آسان بہ نسبت بہانے بازی سے کام یابی کی طرف گام زن ہونے سے۔'' (جان سی میکسویل)
ہم ایک ایسی دُنیا اور معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ناکامی کا خوف اس قدر شدید ہے کہ انسان اپنے اندر قدرتی صلاحیتوں کو دیکھنے کی بجائے خوف کے سیاہ میں زندگی بسر کر رہا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ناکامی کاتصور اس قدر منفی اور محدود ہے کہ ناکامی کا لفظ سنتے ہی ہم حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ بچپن ہی سے ہمارے ذہنوں اور دلوں میں ناکامی کا ڈر اس قدر انڈیل دیا جاتا ہے کہ ہم ناکامی کے خوف سے ساری زندگی باہر ہی نکل پاتے ہیں۔ ناکامی کے لفظ کے ساتھ جُڑی شرمندگی اور نفرت ہمیں مجبور کردیتی ہے کہ ہم کام یابی کے لیے جستجو کرنے ہی کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔
معروف مصنف عرفان جاوید لکھتے ہیں کہ ''حادثے کا خوف حادثے سے زیادہ جان لیوا ہوتا ہے۔''
ہمارے معاشرے میں ہر انسان کام یاب ہونا سکھاتا ہے، ناکام ہونا نہیں؛ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کام یابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ، ناکامی کا خوف اور کام یابی کا دباؤ ہے۔ نتائج کے خوف کی پرواہ کیے بغیر، صرف عمل (Process) پر توجہ دینے سے ہی کام یابی حاصل ہوتی ہے۔ آج کے مضمون میں ہم اس بات پر گفتگو کریں گے کہ ناکامی کے خوف سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے؟ کام یابی کے لیے ناکامی کے عمل سے گزرنا کیوں ضروری ہے؟ ناکامی کے بارے میں آپ اپنا نقطۂ نظر بدل کر کیسے کام یابی حاصل کر سکتے ہیں؟ اور کیسے ناکامی کو قبول کرنے سے آپ کام یابی کی جانب گام زن ہوسکتے ہیں۔
میں نے اپنی زندگی کے مختصر تجربے اور زندگی براہ راست مشاہدات سے چند بہترین نکات اخذ کیے ہیں جو میں آپ کے ساتھ شیئر کروں گا۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار اور مختلف شعبوں میں بہت ناکامیوں کا سامنا کیا ہے، اس لیے شاید میں کام یابی کے بارے میں کم اور ناکامی کے بارے میں زیادہ بات کر سکتا ہوں۔ میں ناکامی کے بعد کی کیفیت، خوف اور دباؤ سے بخوبی واقف ہوں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ناکامی کے بارے میں مزید گفتگو کرنی چاہیے۔ میری نظر میں آپ کی ناکامی اُس وقت ناکامی ہوتی ہے، جب آپ ناکامی کو حتمی منزل اور زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں۔ اصل میں ناکامی کام یابی کی جانب سفر میں ہماری ہم سفر ہوتی ہے اور ہم اسے اپنے دشمن سمجھتے ہیں۔
ناکامی سے ناکافی کا خوف
کچھ لوگوں کو ناکامی کا نہیں، ناکافی کا خوف مار دیتا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کام یابی اور ناکامی کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ناکامی کا خوف ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے۔ ڈر ہر انسان کو، ہر بڑا، مشکل اور کھٹن کام کرنے کے آغاز میں لگتا ہے۔ نامعلوم کا خوف، ان جانے راستے کی پریشانی، ناکامی کا ڈر اور سب سے بڑا خوف اپنے اندر کے خوف پر فتح....! ناکام لوگ اس ڈر سے ڈر جاتے ہیں اور فاتح اپنے اندر کے ڈر پر قابو پالیتے ہیں۔
ناکامی سے بد نامی کا خوف
بہت سارے لوگ ناکامی سے اس لیے بھی خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ بدنام ہوجائیں گے، اور لوگ اُن کو ناکامی کا طعنہ دیں گے۔ یاد رکھیں، ہماری حقیقی، دیرپا اور پُراثر ترقی کا آغاز، سکون اور خوف کے دائرے سے باہر نکل کر ہی ہوتا ہے، ورنہ ہم ساری زندگی دائروں کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ مستقبل کے امکانات کو زندہ رکھنے کے لیے ماضی کے خوف سے نجات ضروری ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے مختصر تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ جب جب مشکلات کے طوفانوں نے مجھے گھیرا، میں نے خود کو اور مضبوط ہوتے دیکھا ہے۔
ناکامی سے غلامی کا خوف
ڈاکٹر شیفالی شبیبری کا کہنا ہے،''آپ کے بچے آپ کے خوف کو اپنے اندر جذب کریں گے، تو باخبر رہیں اُس خوف کے بارے میں جسے آپ اپنے اندر دبائے ہوئے ہیں۔'' کہتے ہیں پہاڑوں کو سر کرنے سے کہیں مشکل اپنے اندر کے خوف پر فتح حاصل کرنا ہے۔ پیٹر این زارلنگا نے اس حقیقت کو جملے میں بیان کردیا ہے۔ ''عمل، خوف کو فتح کرتا ہے۔''
یہ بالکل درست ہے کہ ناکامی کا خوف، کام یابی کا خطرناک دشمن ہے۔ عربی کہاوت ہے کہ ''کتب فروش کو اپنا سامان چوری ہونے کا خوف نہیں ہوتا کیوںکہ طالب علم چوری نہیں کرتے، اور چور مطالعہ نہیں کرتے۔'' ناکامی کے خوف کو اپنا غلام بنائیں، اُس کے غلام نہ بنیں۔
ناکامی ابتدا ہے انتہا نہیں
ناکامی ہمارے سفر کی ابتدا ہوتی ہے انتہا نہیں ہوتی ہے۔
معروف مصنف ایڈم گرانٹ اپنی کتاب Hidden Potential کے صفحہ نمبر 19 پر لکھتے ہیں:
''آپ کا صحیح پیمانہ اس چوٹی کی اونچائی نہیں ہے جس پر آپ پہنچے ہیں، بلکہ آپ وہاں پہنچنے کے لیے کتنی دور چڑھے ہیں۔''
اس لیے بے شمار لوگ اپنے سفر کے آغاز پر ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد ہمت ہار جاتے ہیں، اور بہت کم لوگ مستقل مزاجی سے ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے کام یابی کی طرف جستجو کرتے رہتے ہیں۔
ناکامی سفر ہے سزا نہیں
اس مصنوعی دُنیا میں ناکامی کے سبب سخت اور کرخت بننے کی بجائے، مضبوط اور ذہنی پر محفوظ بن جائیں۔
ؔمرزا عظیم بیگ نے کیا خوب کہا ہے:
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
بہت سارے لوگ ناکامی کو سزا سمجھتے ہیں جب کہ یہ ایک سفر ہے، اور سفر میں نشیب وفراز آتے ہیں۔ اس لیے ناکامی کے ڈر سے حوصلہ ہار کر مایوس مت ہوں بلکہ آگے بڑھیں نئے عزم اور جذبے کے ساتھ۔
ناکامی سوچ سے ہے نتائج سے نہیں
ناکامی کے بارے میں لوگ اپنے تجربات کی نہیں بلکہ لوگوں کے کہے کی پرواہ کرتے ہیں، اس لیے وہ نتائج پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ناکامی اور کام یابی کے درمیاں صرف سوچ کا فرق ہے کہ کچھ لوگوں کو جلد اور کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے بعد کام یابی مل جاتی ہے۔ فرق سوچ اور فاصلے کا ہوتا ہے۔ اس بارے میں میرے درینہ دوست ریاست رضا کہا کرتے ہیں کہ ''جن کے جتنے بڑے خواب؛ اُن کی اُتنی زیادہ مشقت!'' اگر آپ کی سوچ اور منزل بلند ہے تو آپ کو محنت بھی زیادہ کرنی پڑے گی اور ناکامی کا بھی زیادہ مرتبہ سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے نتائج کو بدلنے سے قبل ناکامی کے بارے میں اپنی سوچ بدلیں۔
ناکامی کو قبول کریں، مقبول نہیں
ناکامی کام یابی کی بنیاد ہے، متضاد نہیں ہے اور ناکام لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ناکامی کو تسلیم کرنے سے ناکامی کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بہت سارے لوگ اسپتال میں جانا نہیں چاہتے کیوںکہ اسپتال ہمیں زندگی کی حقیقت یعنی فانی ہونے کی یاد دلاتے ہیں۔ اسپتال جہاں ایک بلاک میں پیدا ہونے والے بچے کی آواز نئی زندگی اور خوشیوں کا پیغام دیتی ہے جب کہ ایک دوسرے کمرے مریض کی موت خاموشی کا خوف طاری کیے ہوتی ہے۔ اسپتال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم جتنا مرضی سمجھیں کہ ہم بالکل صحت مند ہیں۔ ایک فون کال ایک بلڈ ٹیسٹ ایک ایکسرے اور ایک رپورٹ ہماری زندگی کی حقیقت کو عیاں کردیتی ہے۔ زندگی کوئی ادویات کا ڈبا نہیں اور نہ کوئی انجیکشن ہے۔ یہ زندگی جسے وقت اور حالات و واقعات کی قید سے آزاد ہوکر جینا چاہے کیا پتا اس ہوا کے غبارے میں کب آکسیجن آنا بند ہوجائے۔ ناکامی کو قبول کریں اور زندگی میں آگے بڑھیں۔
معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا تھا:
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہوسکتا ہے
کچھ اور تو اکثر ہوتا ہے
تم جس لمحے میں زندہ ہو
یہ لمحہ تم سے زندہ ہے
یہ وقت نہیں پھر آئے گا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جائے گا
میں اپنی زندگی کے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ زندگی اور اُمید کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔
مشکلات کے طوفان، خدشات کے بادل، اور خوف کا سمندر آپ کے ارادوں اور خوابوں کو جھنجھوڑنے آئیں گے
اور لوگ بھی تمہیں ڈریں گے لیکن تم ایک بہادر سپاہی کی طرح، آخری دم لڑتے رہنا، تاکہ موت جب تمہیں ملنے آئے تو اگر ایک فاتح سے نہ سہی ایک بہادر سپاہی سے ضرور ملے...!
میں زندگی میں جتنی بار ناکام ہوا ہوں، سوچتا ہوں اس پر کتاب لکھوں، کتاب کا نام رکھوں ''ناکام ہونے کے کام یاب طریقے''ہم سب زندگی میں ناکام ہوتے ہیں، کچھ لوگ ناکامی کوجواز اور کچھ ناکامی کو بنیاد بنا لیتے ہیں، اگر آپ چھوٹے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کے مسائل بڑے، اور وسائل تھوڑے ہیں! لیکن اگر آپ خواب اور کتاب کی اہمیت سے واقف ہیں، آپ طالب علم ہیں، آپ استاد ہیں، ایک کوچ، ٹرینر یا مینٹور ہیں، اگر آپ محنت کرکے تھک چکے ہیں، اور آپ کو ری اسٹارٹ ہونے کی ضرورت ہے۔۔۔ تو اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اردگرد کا پورا نظام آپ کی ناکامی کا سبب ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اردگرد روشنی کا کوئی نشان نہیں، تو باہر کے اندھیرے سے زیادہ اندر کے اندھیرے سے ڈرنے کی ضرورت ہے، اور یہاں روشنی پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے، جو آپ کے اندر جنون، ہمت اور آگے بڑھنے کی جستجو کو نئی آگ اور توانائی دے گی! اور آپ کو ارد گرد سہارے ڈھونڈنے کی بجائے اپنے اندر چھپے خزانوں کی تلاش میں مدد دے گی۔
ہمارے ہاں، کہتے بہت سارے لوگ ہیں،''ہم چاہتے ہیں کہ آپ ترقی کریں!'' لیکن ٹانگیں کھینچنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس کلچر کی حوصلہ شنکی کیے بغیر پائے دار اور اجتماعی ترقی مکمن نہیں ہے۔ خود کو اس سوچ سے باہر نکالیں اور لوگوں کی ترقی اور بہتری میں اگر ساتھ نہیں دے سکتے تو ناکامی میں اپنا ساتھ بھی نہ دیں۔'' خُدا ہمیں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری اور اچھائی کو فروغ دینے کا وسیلہ بنائے۔
ناکام انسان کی کہانی کوئی نہیں سننا چاہتا ہے، کسی کو اس سے کوئی پرواہ نہیں کہ آپ کن مسائل سے دوچار رہے۔ آپ کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ تھے، دُنیا صرف کامیاب لوگوں کی ناکامیوں کو اچیومنٹ مانتی ہے، اور ناکام لوگ کی ناکامیوں کو بہانے بازی...! یاد رکھیں، ناکام ہونا الگ بات ہے اور ناکام رہنا الگ بات ہے، ناکام سب ہوتے ہیں، لیکن کام یاب انسان ناکامی کو حتمی نہیں مانتے ہیں، جب کہ ناکام لوگ ناکامیوں اور حالات کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ کیا آپ اپنی کام یابی کو کہانی بنانا چاہتے ہیں، یا ناکامی کو بدنامی! فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے! اپنی کام یابی کو اپنے دماغ اور ناکامی کو دل میں مت اترانے دو! ورنہ کام یاب ہو کر ناکام اور ناکام ہوکر برباد ہوجاؤ گے! اگر آپ زندگی میں اپنے حالات، مشکلات، واقعات اور دوسروں کے رویوں کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں یا آپ اپنی زندگی کو قسمت، دوسروں کے فیصلے اور وقت کا انتقام سمجھتے ہیں یا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ باصلاحیت ہیں، محنت کرتے ہیں اور اس کے باوجود آپ کو وہ مقام نہیں ملا جس کے آپ حق دار ہیں، اگر آپ ٹرینر، مینٹور، کوچ، کنسلٹنٹ اور استاد ہیں، اگر آپ کھلاڑی ہیں، آرٹسٹ ہیں یا طالب علم ہیں، ناکامی سے کام یابی کی جانب جانا آسان بہ نسبت بہانے بازی سے کام یابی کی طرف گام زن ہونے سے۔'' (جان سی میکسویل)