آوارہ گردی اور ادب

وقت کا سفر انسان کو ان خوشیوں سے محروم کرتا جاتا ہے

umerkazi555@yahoo.com

وقت کا سفر انسان کو ان خوشیوں سے محروم کرتا جاتا ہے جن کا شمار کرنے بیٹھا جائے تو انسان آخر میں ہر طرف مایوسیوں کے سائے میں لہراتا محسوس کرتا ہے۔ اس ضمن میں، میں ایک مرد کے ان مسرتوں کا تذکرہ کرکے اپنی اور اپنے دوستوں کے دل بوجھل کرنا نہیں چاہتا۔ حالانکہ میں تفصیل کے ساتھ تذکرہ کرنا چاہتا تھا اس ٹیلفیون کال کا جو میں نے ایک دوست کو اس وقت کی جب وہ کسی پرشور دکان کے پاس کھڑا ت

ھا۔ اس نے مجھ سے پریشان لہجے میں کہا کہ ''اس وقت میں تم سے بات نہیں کرسکتا کیوں کہ یہاں بہت شور ہے اور میں دوا لینے کے لیے میڈیکل اسٹور پر کھڑا ہوں''۔ میں نے اسے ہنستے ہوئے کہا کہ ''ظاہر ہے انسان اس عمر میں دوا کی دکان پر ہی کھڑا ہوسکتا ہے، یہ عمر دارو کی دکان پر کھڑے ہونے کی تو ہے نہیں''۔ میرے یہ الفاظ سن کر اس دوست نے دل کی گہرائیوں سے قہقہہ لگایا اور وہ جو دوا لینے آیا تھا اس کا نام بھی بھول گیا۔

مگر میرا یہ کالم ظالم عمر کی اس ستم ظریفی کا مرثیہ نہیں جس کا تذکرہ کرتے ہوئے اردو کے بہترین نثر نویس مشتاق یوسفی نے کیا خوب لکھا تھا کہ ''کبھی ہماری حیثیت وہ تھی کہ ہمارا تعارف جان پہچان والے خاندانوں کی بہو بیٹیوں سے کراتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ فلاں کا بیٹا ہے یا فلاں کا بھانجا ہے، اب ہمارا تعارف کراتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ فلاں کے والد ہیں اور فلاںکے ماموں ہیں اور کہتے ہیں کہ عمر کا یہ سفر یہاں رکنے والا نہیں کیوں کہ اس سے آگے بھی مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں''۔ مگر میرے اس تذکرے کا مقصد ان زخموں کو کریدنا بالکل نہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی گہرے ہوتے رہتے ہیں۔

میں تو صرف ''ایکسپریس'' میں شایع ہونے والے اس انٹرویو کا تذکرہ کرنا چاہتا تھا جو اردو کے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کا تھا، جس میں کسی سوال پر انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میری کتابوں کی تعداد بہت زیادہ اس لیے ہے کیوں کہ میں بہت آوارہ مزاج ہوں اور انھوں نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میری تحریر میں قصہ گوئی کا عنصر اس لیے ہے کیوں کہ میری مادری زبان پنجابی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا وہ انٹرویو پڑھ کر میں سوچنے لگا اس وقت کے بارے میں جب ہماری نوجوانی کے دنوں میں نہ تو موبائل فون تھا نہ انٹرنیٹ، نہ کیبل کلچر والا ٹیلی وژن اور نہ پوری دنیا کو مٹھی میں سمانے والا کمپیوٹر۔ اس دور میں ہم ان چیزوں سے محروم تھے اور میں اس محرومی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس کی وجہ سے ہمارے دل کو بہلانے کے لیے صرف دو چیزیں موجود تھیں، ایک کتاب اور دوسری آوارہ گردی۔

اس دور میں ہم مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے اور ہمیں لگتا تھا کہ ''آوارہ گردی میں وہ ہمارا آئیڈل ہونا چاہیے'' مگر جس طرح انسان عقل کے آتے جذبے سے محروم ہوجاتا ہے ویسے جب عمر اور مطالعے میں اضافہ ہوا تب ہم نے جانا کہ وہ مصنف جس کو ہم آوارہ گرد سمجھتے تھے اس نے تو اپنی پوری زندگی میں ایک ایک قدم مکمل کیلکولیشن کے ساتھ رکھا۔ آپ ان کی بہت مرتبہ شایع ہونے والی کتابیں پھر سے پڑھیں۔


آپ کو خود محسوس ہوگا کہ انھوں نے اپنی کتابیں اس لیے نہیں لکھیں کیوں کہ انھوں نے بہت سارے سفر کیے بلکہ انھوں نے سفر ہی اس لیے کیے کیوں کہ انھیں اپنی مسافری پر کتابیں لکھنا تھیں۔ اس لیے ان کے سفر آوارہ گردی نہیں بلکہ ایک منظم اور بامقصد مسافری کے زمرے میں آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ منظم اور بامقصد مسافری اچھی نہیں ہوتی، گھر پر پڑے رہنے سے تو انسان ہوا کے دوش پر پتے کی طرح کسی راہ پر چلتا رہے بھی تو یہ کہیں بہتر ہے مگر کسی ادیب کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے پڑھنے والوں سے غلط بیانی کرے۔ جو ادیب اپنے پڑھنے والوں سے غلط بیانی کرتے ہیں ان کے بارے میں، میں چڑ سے سوچتا ہوں کہ کیا غلط بیانی کرنے کے لیے ان کے پاس بیوی نہیں؟

انسان کو صرف اپنی بیوی سے غلط بیانی کرنے کا حق حاصل ہے اور وہ بھی اس لیے کیوں کہ بیوی کے ساتھ غلط بیانی کے بغیر ازدواجی زندگی سکھی تو کیا دکھی بھی نہیں گزر سکتی۔ مگر بدقسمتی کے ساتھ میں ایسے ادیبوں سے آگاہ ہوں جو پڑھنے والوں سے تو غلط بیانی کرتے ہیں مگر اپنی بیگم سے سب سوچ بولتے اور کہتے ہیں۔ ان ادیبوں کو بیوی کے ساتھ غلط بیانی نہ کرنے کا جرم تو معاف کیا جاسکتا ہے مگر اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ غلط بیانی کرنا ایک ایسا جرم ہے جو کبھی اور کسی بھی صورت میں معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانی میں، میں جس ادیب کو پسند کیا کرتا تھا انھوں نے اپنے پڑھنے والوں سے غلط بیانی کی ہے۔

کیوں کہ ان کے انٹرویو کے بعد میں نے پھر سے ان کی کتابوں کی ورق گردانی کی اور مجھے محسوس ہوا کہ انھوں نے جو بھی سفر کیا وہ سفر برائے سفر نہیں بلکہ ایک اسائنمنٹ تھا، کسی نہ کسی کتاب کو لکھنے کے لیے اور اگر آپ کی چند کتابیں چھپ چکی ہوں اور وہ کتابیں آپ اپنے جاننے والے بیوروکریٹس کو دیتے ہیں تو ان کی نظر میں آپ کا رتبہ بڑھ جاتا ہے اور وہ پھر آپ کو گریڈ کے حوالے سے نہیں بلکہ کتاب کے حوالے سے عزت دیتے ہیں، پھر بھلے وہ افسر آپ کی کتاب پڑھے یا نہ پڑھے۔

ویسے بھی ہماری افسر شاہی میں ایسے افراد کی بہتات ہے جنہیں فائلیں پڑھنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں آتا۔ وہ جب کسی کی کتاب دیکھتے ہیں تو اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور جب بیوروکریسی میں آپ کے تعلقات بن جائیں تو پھر کوئی بیوروکرریٹ کسی ریسٹ ہاؤس میں آپ کے قیام کا بندوبست کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اگر آپ اس کا شکریہ اپنی کتاب کے پری فیس میں بھی کردیں تو پھر کیا بات ہے۔

مستنصر حسین تارڑ نے اسی انداز کو اپنایا اور کتابوں کو اپنی ترقی کی سیڑھی بنا کر انھوں نے بہت سارے سفر کیے اور قریب قریب ہر سفر پر ایک کتاب لکھی اس طرح سفر مفت کا، طعام اور قیام فری اور اوپر سے کتاب اور اس کی رائلٹی، اس سے زیادہ کسی کو اور کیا چاہیے؟ اس انداز سے وہ چلتے رہے اور کتابیں لکھتے رہے اور ان کی کتابیں ان کو مشہور کرتی گئیں، مگر کاش، وہ امریکا کے ادیب اسٹین جان بیک سے آگاہ ہوتے تو اپنی زندگی کا ایک سچا سفر بھی کرتے اور اس سفر پر مبنی ایک ایسی کتاب بھی لکھتے جیسی کتاب مذکورہ امریکی ادیب نے نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد لکھی۔ جس میں اس نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ میں نے ابھی جو لکھا ہے وہ سچ نہیں مگر مجھے حیرت ہے کہ لوگوں نے میرے جھوٹ کو اس قدر پسند کیا ہے؟

اس لیے اب میں ایک سچی کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ کاش! ہمارے سینئر رائٹر کو یہ حوصلہ ہو اور وہ بھی بہت ساری افسانوی کتابوں کے بعد ایک حقیقی کتاب بھی لکھیں جس میں لکھیں کہ جو آوارہ گردی سوچ سمجھ کر کی جائے وہ آوارہ گردی نہیں ہوتی۔ بالکل اس طرح جس طرح جو محبت سوچ سمجھ کر کی جائے وہ محبت نہیں ہوتی، وہ شادی ہوتی ہے۔ اور ادب سوچ سمجھ کا نہیں بلکہ احساساتی آوارگی کا نام ہے۔
Load Next Story