ڈیجیٹل لٹریسی پر توجہ دینی ہوگی
میں اور میرے خیال کے حامی یہ سمجھتے ہیں فائروال کی وجہ سے انٹرنیٹ میں مشکلات آرہی ہیں
اگر ہم نے دنیا کے ساتھ جدیدیت اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے یا اپنی نئی نسل کو دنیا میں موجود سیاسی ،سماجی ، علمی ، فکری یا مہارتوں کی بنیاد پر معاشی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانا ہے تو ہمیں جدید دنیا سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔
یہ دنیا امکانات اور مواقع کی دنیا ہے اور آپ ایک ملک میں بیٹھ کر دیگر ملکوں سمیت دنیا سے نہ صرف اپنے رابطوں کو موثر بناسکتے ہیں بلکہ اپنے لیے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر دنیا میں موجود نئے معاشی امکانات سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ اس کے لیے جہاں آپ کو علم اور مہارتوں کی ضرورت ہے وہیں خود کو ڈیجیٹل لائز کرنے پر بھی فوقیت یا اسے ترجیحی بنیادوں پر اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔کیونکہ ہم گلوبل دنیا میں ہیں اور گلوبل تعلقات یا گلوبل کمیونٹی کی بنیاد پر معیشت کی ترقی میں خود کو جوڑ سکتے ہیں ۔ پاکستان ان ملکوں میں ہے جہاں 18سے 35برس کے نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ اسی بنیاد پر ہم نئی نسل پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور ان کو بنیاد بنا کر ترقی کے نقشوں کو کھینچتے ہیں ۔
پاکستان میں اس وقت 2024 کے آغاز میں 111 ملین افراد ڈیجیٹل یا انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہیں اور یہ تقریبا 45.07 فیصد تعداد ہے جو کہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتی ہے ۔اسی طرح 2024 کے اوائل میں پاکستان میں کل 188.09 ملین سیلولرموبائل کنکشن فعال تھے۔
یہ تعداد کل آبادی کے 77.08 فیصد کے برابر ہے۔تقریباً تیس لاکھ افراد پاکستان میں فری لانسر کی بنیادوں پر کام کررہے ہیں اور عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان چوتھے نمبر پر بطور فری لانسر کا درجہ رکھتا ہے اور سالانہ بنیادوں پر اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔صرف2022تک ہم نے تقریباً 500 ملین کمایا ہے ۔ یہ رقم پاکستان میں قانونی ضابطوں کے مطابق آئی ہے اوران میں زیادہ تر نوجوانوں کی تعداد ہے جن کو ہم 30برس کی عمروں تک دیکھ سکتے ہیں ۔فری لانسنگ میں پنجاب 40فیصد، سندھ 29.05فیصد، خیبر پختونخواہ 14.07فیصد، بلوچستان کی سطح پر 10.05 فیصداور آزاد کشمیر میں 05.03فیصد ہے ۔
اصولی طور پر ڈیجیٹل میڈیا یا انٹرنیٹ تک عام لوگوں اور بالخصوص نئی نسل کی رسائی کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنی نئی نسل کی سطح پر زیادہ معاشی امکانات کو شفافیت کے ساتھ اور بہتر رسائی کے ساتھ ممکن بناسکیں ۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہاں بھی ٹیکنالوجی کی رفتار کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے ۔ ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کی دنیا کو دیکھیں تو پاکستان کی حکومت کو نئی نسل سے بہت زیادہ شکایات ہیں ۔
ان کے خیال میں نئی نسل کا نام استعمال کرکے ایک مخصوص عزائم کا حامل گروہ تحریک انصاف اور عمران خان کی محبت میں انتشار، نفرت اور محاذآرائی کو فروغ دے رہا ہے اور طالبانائزیشن کو پرموٹ کر رہا ہے ۔اسی طرح کچھ گروہ پاکستان کے عوام کو فرقہ واریت، صوبائیت کی بنیاد پر تقیسم کرنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔کئی جرائم پیشہ افراد سوشل میڈیا پرسنز کہلاتے ہیں۔ یقینی طور پر حکومت کی شکایات جائز ہوںگی مگر اس کا علاج علمی ، فکری اور قانونی بنیادوں پر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کل '' فائر وال '' کا بھی بہت شور ہے ۔ میں اور میرے خیال کے حامی یہ سمجھتے ہیں فائروال کی وجہ سے انٹرنیٹ میں مشکلات آرہی ہیں۔ آئی ٹی کی صنعت اس سے متاثر ہورہی ہے یا وی پی این سے کئی اکاؤنٹس معطل ہورہے ہیں۔ سینیٹ کی کمیٹی میں بتایاگیا ہے کہ اس حکومتی عمل سے تقریباً 500 ملین ڈالر کا نقصان پاکستان کو ہورہا ہے ۔ ملک کی سطح پر فری لانسرز کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کو ڈیجیٹل اکانومی کا مرکز بنانے کے بجائے اسے دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا جارہا ہے ۔
یہ بات سمجھنے کی ہے جو لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں یا انٹرنیٹ کی بنیاد پر اپنے لیے پاکستان اور پاکستان سے باہر نئے معاشی عمل کی بنیاد پر کچھ کمانے کی کوشش کررہے ہیں، انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر سیاسی ایجنڈا نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کا فرقہ واریت اور انتہاپسندوں سے کوئی تعلق ہے، ان کی بنیاد معاشی عمل میں ترقی کرنا ہے ، اس پہلو پر غور ہونا چاہیے۔ جو لوگ تعلیمی نظام میں انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہیں یا جو ملک میں بیٹھ کر چھوٹا کاروبار یا آن لائن کی بنیاد پر کچھ پیسہ کمانا چاہتے ہیں،ان کو بھی مسائل کا سامنا ہے ۔
پاکستان کے ایک معروف ڈیجیٹل ماہر محمد عابد ایوب جو ڈیجیٹل دنیاکے شعبہ سے منسلک ہیں ان کے بقول کئی کلائنٹس دوسرے ممالک منتقل ہورہے ہیں یا بیشتر لوگوں نے اپنے کام کو دوبئی سمیت دیگرممالک میں منتقل کردیا ہے ۔ان کے بقول یہ مسئلہ بنیادی طور پر درست معلومات یا غلط معلومات کا ہے ۔کیونکہ بہت سے لوگوں کی جانب سے ڈیجیٹل میڈیا کو استعمال کرکے ریاست مخالف اور شرانگیز مہم چلائی جارہی ہے جس میں حقایق کے بجائے جھوٹ ہوتا ہے ۔
یہ مسئلہ صرف ہمیں نہیں بلکہ دنیا میں موجود ہے اور اس میں فیک اکاؤنٹس زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ہمیں دیکھناہوگا کہ دنیا میں ان مسائل کا علاج کیسے کیا جا رہا ہے ۔ان میں ڈیجیٹل میڈیا پر موجود مختلف ٹولز کی مدد سے فیک اکاؤنٹس کا خاتمہ اور دوسرا ڈیجیٹل لٹریسی کا فروغ جس میں مختلف پہلوؤں کو بنیاد بناکر ہمیں نئی نسل کو تعلیم اور تربیت دینی ہوگی۔
محمدعابد ایوب نے جن امور کی نشاندہی کی ہے وہ کافی بہتر ہے ۔ لہٰذا ڈیجٹل لٹریسی پر زیادہ توجہ دینی ہوگی اور فیک اکاؤنٹس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
یہ دنیا امکانات اور مواقع کی دنیا ہے اور آپ ایک ملک میں بیٹھ کر دیگر ملکوں سمیت دنیا سے نہ صرف اپنے رابطوں کو موثر بناسکتے ہیں بلکہ اپنے لیے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر دنیا میں موجود نئے معاشی امکانات سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ اس کے لیے جہاں آپ کو علم اور مہارتوں کی ضرورت ہے وہیں خود کو ڈیجیٹل لائز کرنے پر بھی فوقیت یا اسے ترجیحی بنیادوں پر اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔کیونکہ ہم گلوبل دنیا میں ہیں اور گلوبل تعلقات یا گلوبل کمیونٹی کی بنیاد پر معیشت کی ترقی میں خود کو جوڑ سکتے ہیں ۔ پاکستان ان ملکوں میں ہے جہاں 18سے 35برس کے نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ اسی بنیاد پر ہم نئی نسل پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور ان کو بنیاد بنا کر ترقی کے نقشوں کو کھینچتے ہیں ۔
پاکستان میں اس وقت 2024 کے آغاز میں 111 ملین افراد ڈیجیٹل یا انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہیں اور یہ تقریبا 45.07 فیصد تعداد ہے جو کہ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتی ہے ۔اسی طرح 2024 کے اوائل میں پاکستان میں کل 188.09 ملین سیلولرموبائل کنکشن فعال تھے۔
یہ تعداد کل آبادی کے 77.08 فیصد کے برابر ہے۔تقریباً تیس لاکھ افراد پاکستان میں فری لانسر کی بنیادوں پر کام کررہے ہیں اور عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان چوتھے نمبر پر بطور فری لانسر کا درجہ رکھتا ہے اور سالانہ بنیادوں پر اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔صرف2022تک ہم نے تقریباً 500 ملین کمایا ہے ۔ یہ رقم پاکستان میں قانونی ضابطوں کے مطابق آئی ہے اوران میں زیادہ تر نوجوانوں کی تعداد ہے جن کو ہم 30برس کی عمروں تک دیکھ سکتے ہیں ۔فری لانسنگ میں پنجاب 40فیصد، سندھ 29.05فیصد، خیبر پختونخواہ 14.07فیصد، بلوچستان کی سطح پر 10.05 فیصداور آزاد کشمیر میں 05.03فیصد ہے ۔
اصولی طور پر ڈیجیٹل میڈیا یا انٹرنیٹ تک عام لوگوں اور بالخصوص نئی نسل کی رسائی کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنی نئی نسل کی سطح پر زیادہ معاشی امکانات کو شفافیت کے ساتھ اور بہتر رسائی کے ساتھ ممکن بناسکیں ۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہاں بھی ٹیکنالوجی کی رفتار کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے ۔ ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کی دنیا کو دیکھیں تو پاکستان کی حکومت کو نئی نسل سے بہت زیادہ شکایات ہیں ۔
ان کے خیال میں نئی نسل کا نام استعمال کرکے ایک مخصوص عزائم کا حامل گروہ تحریک انصاف اور عمران خان کی محبت میں انتشار، نفرت اور محاذآرائی کو فروغ دے رہا ہے اور طالبانائزیشن کو پرموٹ کر رہا ہے ۔اسی طرح کچھ گروہ پاکستان کے عوام کو فرقہ واریت، صوبائیت کی بنیاد پر تقیسم کرنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔کئی جرائم پیشہ افراد سوشل میڈیا پرسنز کہلاتے ہیں۔ یقینی طور پر حکومت کی شکایات جائز ہوںگی مگر اس کا علاج علمی ، فکری اور قانونی بنیادوں پر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کل '' فائر وال '' کا بھی بہت شور ہے ۔ میں اور میرے خیال کے حامی یہ سمجھتے ہیں فائروال کی وجہ سے انٹرنیٹ میں مشکلات آرہی ہیں۔ آئی ٹی کی صنعت اس سے متاثر ہورہی ہے یا وی پی این سے کئی اکاؤنٹس معطل ہورہے ہیں۔ سینیٹ کی کمیٹی میں بتایاگیا ہے کہ اس حکومتی عمل سے تقریباً 500 ملین ڈالر کا نقصان پاکستان کو ہورہا ہے ۔ ملک کی سطح پر فری لانسرز کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کو ڈیجیٹل اکانومی کا مرکز بنانے کے بجائے اسے دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا جارہا ہے ۔
یہ بات سمجھنے کی ہے جو لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں یا انٹرنیٹ کی بنیاد پر اپنے لیے پاکستان اور پاکستان سے باہر نئے معاشی عمل کی بنیاد پر کچھ کمانے کی کوشش کررہے ہیں، انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر سیاسی ایجنڈا نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کا فرقہ واریت اور انتہاپسندوں سے کوئی تعلق ہے، ان کی بنیاد معاشی عمل میں ترقی کرنا ہے ، اس پہلو پر غور ہونا چاہیے۔ جو لوگ تعلیمی نظام میں انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہیں یا جو ملک میں بیٹھ کر چھوٹا کاروبار یا آن لائن کی بنیاد پر کچھ پیسہ کمانا چاہتے ہیں،ان کو بھی مسائل کا سامنا ہے ۔
پاکستان کے ایک معروف ڈیجیٹل ماہر محمد عابد ایوب جو ڈیجیٹل دنیاکے شعبہ سے منسلک ہیں ان کے بقول کئی کلائنٹس دوسرے ممالک منتقل ہورہے ہیں یا بیشتر لوگوں نے اپنے کام کو دوبئی سمیت دیگرممالک میں منتقل کردیا ہے ۔ان کے بقول یہ مسئلہ بنیادی طور پر درست معلومات یا غلط معلومات کا ہے ۔کیونکہ بہت سے لوگوں کی جانب سے ڈیجیٹل میڈیا کو استعمال کرکے ریاست مخالف اور شرانگیز مہم چلائی جارہی ہے جس میں حقایق کے بجائے جھوٹ ہوتا ہے ۔
یہ مسئلہ صرف ہمیں نہیں بلکہ دنیا میں موجود ہے اور اس میں فیک اکاؤنٹس زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ہمیں دیکھناہوگا کہ دنیا میں ان مسائل کا علاج کیسے کیا جا رہا ہے ۔ان میں ڈیجیٹل میڈیا پر موجود مختلف ٹولز کی مدد سے فیک اکاؤنٹس کا خاتمہ اور دوسرا ڈیجیٹل لٹریسی کا فروغ جس میں مختلف پہلوؤں کو بنیاد بناکر ہمیں نئی نسل کو تعلیم اور تربیت دینی ہوگی۔
محمدعابد ایوب نے جن امور کی نشاندہی کی ہے وہ کافی بہتر ہے ۔ لہٰذا ڈیجٹل لٹریسی پر زیادہ توجہ دینی ہوگی اور فیک اکاؤنٹس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔