موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی 37 فیصد آبادی فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کا شکار

2022میں جو سیلاب آیا ہے اس کے بعد ہم 44فیصد فوڈ ان سیکیورٹی کی طرف چلے گئے ہیں، وزارت موسمیاتی تبدیلی کی بریفنگ

فوٹو فائل

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی میں وزارت کے حکام نے انکشاف کیاہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کی 37فیصد آبادی فوڈ سیکورٹی کے مسئلے سے دوچار ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس رکن قومی اسمبلی شائشتہ پرویزکی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، وزارت موسمیاتی تبدیلی حکام کی طرف سے کمیٹی ارکان کو مختلف منصوبوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی بنا لی گئی ہے، نیشنل آڈپٹایشن پلان بنا دیا ہے۔

حکام نے بتایا کہ کلائنٹ اسمارٹ ایگریکلچر پر کام کررہے ہیں،سب سے بڑا چیلنج ہے کہ موجودہ انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے طریقے تلاش کرنا ہے۔

چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ وزارت نے پالیسی بنا دی ہے، اس پر عملدرآمد تو صوبوں نے کروانا ہے۔ رکن کمیٹی صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا کہ صوبوں سے بھی نمائندے بلائے جائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ صوبوں میں کیا ہورہا ہے۔

اس مطالبے پر چیئرپرسن کمیٹی شائشتہ پرویزنے کہا کہ جتنی مرضی پالیسی بن جائیں، ان پر عملدرآمد تو صوبوں نے کرنا ہے، آئندہ اجلاس میں چاروں صوبوں سے بریفنگ کے لیے آفیشلز کو بلائیں۔

رکن کمیٹی شگفتہ جمانی نے کہا کہ بارش اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ڈپٹی کمشنر اپنی من مرضی سے ریلیف کا سامان فراہم کرتے ہیں، ہمیں، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔

کمیٹی ممبر عقیل ملک نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، پی ڈی ایم ایز کو بلا کر بریفنگ لیں، عالمی ڈونر فنڈز لے کر کھڑے ہیں، ہماری نااہلی یہ ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔


کمیٹی کے ایک اوررکن ایم این اے احمد عتیق نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں سے پوچھیں کہ منصوبوں پر کیا پیش رفت ہورہی ہے؟ کسی صوبے میں کوئی نئی لیکس بنی ہیں، جہاں سیلاب کا پانی جمع ہوسکے۔ رکن کمیٹی عقیل ملک نے کہا کہ الیکٹرک وہیکلز پالیسی 2019 میں بنی تھی اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ پانچ سالوں میں الیکٹرک وہیکلز پالیسی کی آوٴٹ پٹ کیا رہی ہے؟ الیکٹرک وہیکلز پر وزارت کا کام صفر ہے،وزارت صرف فائلوں کا پیٹ بھر رہی ہے، عملی طور پر کوئی کام نہیں ہورہا ہے، اگر وزارت کے آفیشلز نے بریف پیپرز ہی پڑھ کر بریف دینی ہے تو ہم خود سے پڑھ لیتے ہیں۔

چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی موسمیاتی تبدیلی کے معاملہ کو اٹھایا ہے، وزارت کو کام تیز کرنا پڑے گا۔ رکن کمیٹی اویس جکھڑ کی طرف سے نجی ہاوٴسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ زیر بحث لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پر سوسائٹیاں بن رہی ہیں، ملک میں جنگلات ناپید ہوتے جارہے ہیں اس پر ایک واضح پالیسی کی ضرورت ہے، ضلع لیہ کے گردونواح کے علاقوں میں سیلاب آیا ہوا ہے،جنوبی پنجاب کے ساتھ ہمیشہ زیادتی ہوتی ہے، فنڈز نہیں دیے جاتے۔

وزیراعظم کی مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید کا کہنا تھا کہ آئندہ اجلاس میں ضلع لیہ کو فراہم کردہ فنڈز کی تفصیل فراہم کر دیں گے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی حکام نے بتایا2022میں جو سیلاب آیا ہے اس کے بعد ہم 44فیصد فوڈ ان سیکیورٹی کی طرف چلے گئے ہیں، سوائے لاہور میں باقی شہروں میں مون سون کا سیزن ایک ہفتہ پیچھے چلا گیا ہے، پرسوں جھل مگسی میں دو سو ملی میٹر بارش ہوگئی، اتنی بارش پہلے ایک سال میں ہوتی تھی، ڈیڑھ سو کلومیٹر شمالی علاقہ جات میں مون سون کی بارشیں جاری ہیں، پاکستان کی 37 فیصد آبادی کو فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔

حکام نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ فصلوں کے پیٹرن بھی تبدیل ہورہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے گلیشیرز پگھلنے کے اوقات میں تبدیلی آئی ہے، کاربن کا اخراج روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے۔

رکن کمیٹی عقیل ملک نے کہا امریکی حکام کہتے ہیں کہ پاکستان کی گرین الائنس صفر دلچسپی ہے، دنیاکے مختلف ادارے ہمیں فنڈز دینا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی، گرین الائنس پر جو کام ہوا ہے، اس پر آئندہ اجلاس میں وزارت بریفنگ دی جائے۔

وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں،جس جس نے مجھ سے رابطہ کیا میں نے ان کے ساتھ ملاقات کی، اگر کوئی کہہ رہا ہے کہ ہماری زیرو دلچسپی ہے تو وہ غلط بات کر رہے ہیں، کمروں میں بیٹھ کر باتیں کرنا اورعملی کام کرنے میں بڑافرق ہوتا ہے،ہم تو کلائمٹ ڈپلومیسی کی بات کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف ہر فورم پرماحولیاتی تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی حکام نے بتایا کہ ہیٹ ویوز کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ بن رہا ہے،ملک میں 2017کے سروے کے مطابق 37 فیصد آبادی خوراک کی کمی کاشکار ہے جبکہ بچوں میں سٹنٹڈ گروتھ بڑھ رہی۔

حکام نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے گلیشیرز پگھلنے کے اوقات میں تبدیلی آئی ہے، کاربن کا اخراج زیادہ ہونے سے زمین کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، موسمیاتی تبدیلی سے آئے روز پر سیلاب کے واقعات ہورہے ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے کوپ 29 پر وزارت کی تیاریوں پر مفصل بریفنگ طلب کر لی ہے۔
Load Next Story