فلسطینیوں کی لاشوں پر اقتدارکے محل تعمیر
اسرائیل اگر یہ سب کچھ کر رہا ہے تو امریکا اور مغربی ممالک کی شہ پرکر رہا ہے
غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید 52 فلسطینی شہید ہوگئے۔ ایک اسکول پر حملے میں بارہ افراد شہید ہوگئے، جہاں سیکڑوں بے گھر افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔ اب تک چالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب امریکا، قطر اور مصرکی کوششیں ناکام ہوگئیں، غزہ جنگ بندی معاہدہ نہ ہو سکا۔
یہ حقیقت اب واضح ہوچکی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے، جب کہ نیتن یاہوکا غزہ جارحیت ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ دوسری جانب حماس نے امریکا اور اسرائیل پر تاخیر اور نئی شرائط شامل کرنے کا الزام لگایا اورکہا ہے کہ امریکا، اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کے لیے وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی جنگ کو طول دے گی، جس میں اسرائیل کی جارحیت پہلے ہی 40,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کرچکی ہے، غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، غزہ کے 2.3 ملین باشندوں کی اکثریت کو بے گھر کر دیا گیا ہے اور زیادہ تر علاقہ تباہ کردیا گیا ہے۔ فلسطینی عسکریت پسند اب بھی 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے تقریباً 110 یرغمالیوں کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے فوجی آپریشن کے ذریعے صرف سات مغویوں کو بازیاب کرایا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، 110 میں سے تقریباً ایک تہائی پہلے ہی مر چکے ہیں اور باقی جنگ کے بڑھنے سے خطرے میں ہیں۔
گزشتہ ماہ بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکور اور تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ پر اسرائیل پر حزب اللہ کے حملے کی صورت میں اسرائیل نے کسی بھی حملے کا جواب دینے کے عزم کا اظہارکیا ہے جب کہ امریکا نے خطے میں فوجی اثاثے بھی بھیجے ہیں، جس سے ایک اور بھی وسیع اور تباہ کن جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت اسرائیلی فوج کی جانب سے اسپتالوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، غزہ کی کل آبادی اس وقت بھوک کا شکار ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس وقت بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، بظاہر عالمی طاقتیں اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کوکامیاب بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، مگرکسی بھی قسم کے امن معاہدے کا امکان کم ہی دکھائی دے رہا ہے۔
اسرائیل اگر یہ سب کچھ کر رہا ہے تو امریکا اور مغربی ممالک کی شہ پرکر رہا ہے، اگر امریکا اور مغربی ممالک اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی آج بند کر دیں تو اسرائیل کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا لیکن مغربی ممالک جان بوجھ کر نہیں چاہتے کہ اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ختم ہو وہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ یوں ہی جاری رہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد ہو یا انسانی حقوق کونسل کی قرارداد عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
اقوام متحدہ ایک عالمی ادارہ ہے، اسے اگر اپنی ساکھ کو بحال کرنا ہے تو اس جنگ کو روکنے کے لیے امریکا اور یورپ پر دباؤ ڈالنا ہوگا کیونکہ اگر امریکا اور یورپ چاہے گا تو یہ جنگ رکے گی، وگرنہ غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی یوں ہی جاری رہے گی۔ دوسری طرف اب اس جنگ کو بند کرنے کے لیے اسرائیل کے اندر بھی احتجاج ہو رہا ہے اور نیتن یاہو کے خلاف ہزاروں یہودی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور وہ بھی اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، کیونکہ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے باوجود اسرائیل حماس کا وجود مٹانے میں ناکام رہا ہے اور یہی چیز یہودیوں کو پریشان کر رہی ہے کہ اگر ہزاروں فلسطینی شہید کرنے کے باوجود بھی حماس کا وجود برقرار ہے اور فلسطینیوں کا جذبہ شہادت بھی قائم ہے تو اس سے بہتر ہے کہ امن سے رہا جائے اور اسی مقصد کے لیے اب اسرائیلی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
جنگوں میں تو اسپتالوں اور تاریخی عمارات کو جنیوا معاہدے کے تحت تحفظ حاصل ہوتا ہے، لیکن اسرائیل کو اس وقت کوئی بھی پوچھنے والا موجود نہیں۔ دوسری جانب غزہ جنگ اسرائیل کی معیشت کے لیے بڑا خطرہ بن گئی۔ گزشتہ برس 7 اکتوبر 2023 سے غزہ اسرائیل جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک اسرائیل میں 46 ہزارکاروبار بند ہوچکے ہیں۔ 2023 کے آخر تک اسرائیل کی جی ڈی پی میں تقریباً 20 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسرائیلی اخبار ماریو کے مطابق غزہ جنگ کی شروعات میں ہی 35 ہزار اسرائیلی کاروبار بند ہوگئے تھے جوکہ مجموعی سطح پر اسرائیل کے کاروباری سیکٹر کا 70 فیصد ہے۔غزہ جنگ کے معاشی اثرات سے اسرائیل کی تعمیراتی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی، سیرامکس، ایئرکنڈیشنگ، ایلومینیم کی صنعت کو بھی نمایاں طور پر نقصان پہنچا ہے۔ تجارت اور زراعت کے شعبے بھی شدید متاثر ہوئے، غیرملکی سیاحت بھی ختم ہوگئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال 2024 کے آخر تک اسرائیل میں 60 ہزار کاروبار بند ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اتفاق سے یہ صورت حال رواں سال کے ان لمحوں میں زیادہ محسوس کی گئی جب صدر جوبائیڈن کو اپنی دوسری صدارتی مدت کے لیے انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے مختلف طبقوں کی طرف سے سخت مزاحمت اور مخالفت کی صورت حال ملنے لگی۔ ان طبقات میں امریکی سیاہ فام، عرب امریکن، امریکی مسلمان، خواتین، نوجوان، طلبہ ہی شامل نہیں تھے بلکہ وہ ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹ ووٹرز بھی شامل تھے جن کے ہراول دستے کے طور پر کئی سفارت کار تک اسرائیل کے لیے اندھی حمایت کی پالیسی پر مستعفی ہو کر گھروں کو چلے گئے تھے، جوبائیڈن انتظامیہ کو سفارت کاروں اور بعض دیگر حکام کے ان استعفوں کا سامنا چونکہ ایک درجن سے کم تعداد میں تھا۔
اس لیے اس سے معاملے کی شدت کا احساس کرنے میں جو بائیڈن اور ان کی نائب کملا ہیرس کوکافی دیر لگ گئی لیکن جب شدت محسوس ہوئی تو گویا ہوش آیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جوبائیڈن کا بطور صدارتی امیدوار میدان میں رہنا ممکن نہ رہا۔ یہ بہت کم لوگ جان اور سمجھ سکے ہیں کہ جوبائیڈن کی جگہ کملا ہیرس کو آگے لانے کی حقیقی وجہ جوبائیڈن کا 'بڑھاپا' اور 'بھلکڑ پن' نہ تھا بلکہ اسرائیل نواز پالیسی اور غزہ میں انسانوں کا اندھا قتل عام ہی تھا، جس کے بعد امریکا کے عام ووٹرز ہی نہیں ڈیموکریٹس بھی پھٹ پڑے تھے۔ امریکی صدر جوبائیڈن غزہ میں اسرائیلی جنگ کی اپنی صدارتی مہم اور صدارتی انتخاب پر حملے کی شدت کو محسوس کر چکے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے ماہ جون سے بھی پہلے 31 مئی کو تین مراحل پر مشتمل اپنا مشہور زمانہ جنگ بندی فارمولا پیش کیا تھا۔
یہ ایک غیر معمولی 'یو ٹرن' تھا۔ اس سے قبل جوبائیڈن انتظامیہ تین بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر چکی تھی، مگر اب خود صدر جو بائیڈن جنگ بندی فارمولا بنا کر پیش کر رہے تھے۔ صرف یہی نہیں 10 جون کو امریکی کوششوں سے سلامتی کونسل نے اس جنگ بندی فارمولے کی بنیاد پر جنگ بندی کی حمایت کردی۔ بلا شبہ یہ امریکی سفارتی کوشش کے بغیر ممکن نہ تھا۔ دوسری جانب حماس بھی تو حالیہ دنوں ہونے والے مذاکرات سے پہلے، مذاکرات کے دوران اور بعد ازاں یہی کہہ رہی ہے کہ جنگ بندی ہونی چاہیے مگر تین کلیدی نکات کی بنیاد پر ہونی چاہیے، جب کہ اسرائیل کی حکمت عملی مذاکرات شروع ہوتے ہی زیادہ شدید بمباری اور زیادہ اموات کا اہتمام کرنا رہی ہے۔
وہیں اس کی حکمت عملی کا یہ پہلو بھی ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کی ایک نشست کے لیے ایک وفد بھیجا تو اگلی نشست کے لیے نئے وفد کی تشکیل کر دی، تاکہ بات پھر سے صفر سے شروع کرنے کا موقع بنتا رہے۔ یہ سب امریکا کو قبول اور پسند رہا ہے، مگر اب معاملہ یہ ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخاب میں جب صرف اڑھائی ماہ باقی ہیں تو جوبائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کے لیے مزید 'رسک' لینے کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے، لہٰذا اینٹنی بلنکن پوری شرح صدر اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جنگ بندی کے اس موقعے کو آخری موقع قرار دے رہے ہیں۔ بلاشبہ جنگ بندی کی ایسی کسی کامیابی کے بغیر 40 ہزار فلسطینیوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے ساتھ کملا ہیرس بھی الیکشن جیتنے میں بڑی مشکلات محسوس کریں گی کہ ان 40 ہزار لاشوں میں بچوں اور عورتوں کی لاشوں کے ٹکڑے اور چھیتڑے زیادہ ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ امن معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں امریکا میں بہت سے یہودی ووٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں میں آ سکتے ہیں اورکملا ہیرس کی ایک ماہ کی مہم کے دوران جو بہتری کی علامات ہیں یہ اگلے اڑھائی ماہ میں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اسرائیلی فوج جو بلاشبہ سب سے زیادہ امریکی اسلحے سے ہی لیس ہے کیا غزہ کے اسکولوں، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں پر حملے کر کے بچوں اور عورتوں کی لاشوں کے چیتھڑوں کے ساتھ امریکا کے صدارتی الیکشن اور بطور خاص ڈیموکریٹس کے صدارتی انتخاب پر حملہ آور نہیں ہو گی؟
آخر نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند ساتھیوں ایتمار بین گویر اور بذالیل سموٹریچ کو بھی اسی غزہ کی جنگ سے اپنا اگلا الیکشن جیتنے کا سامان کرنا ہے۔ اسی مقصد کے لیے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو انھوں نے اب تک پس پشت ڈال رکھا ہے تو وہ کیوں مغربی کنارے اور اقصیٰ پر یہودی آبادکاروں کی قیادت کرتے ہوئے غزہ کے ملبے اور بھوکے، ننگے، قحط زدہ فلسطینیوں کو تاراج کرنے کے سلسلے میں کمی لائیں گے،گویا غزہ کے فلسطینی بچوں اور عورتوں کی لاشوں پر اقتدار کے محل تعمیرکرنے میں ہر کوئی لگا ہوا ہے۔
یہ حقیقت اب واضح ہوچکی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے، جب کہ نیتن یاہوکا غزہ جارحیت ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ دوسری جانب حماس نے امریکا اور اسرائیل پر تاخیر اور نئی شرائط شامل کرنے کا الزام لگایا اورکہا ہے کہ امریکا، اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کے لیے وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی جنگ کو طول دے گی، جس میں اسرائیل کی جارحیت پہلے ہی 40,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کرچکی ہے، غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، غزہ کے 2.3 ملین باشندوں کی اکثریت کو بے گھر کر دیا گیا ہے اور زیادہ تر علاقہ تباہ کردیا گیا ہے۔ فلسطینی عسکریت پسند اب بھی 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے تقریباً 110 یرغمالیوں کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے فوجی آپریشن کے ذریعے صرف سات مغویوں کو بازیاب کرایا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، 110 میں سے تقریباً ایک تہائی پہلے ہی مر چکے ہیں اور باقی جنگ کے بڑھنے سے خطرے میں ہیں۔
گزشتہ ماہ بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکور اور تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ پر اسرائیل پر حزب اللہ کے حملے کی صورت میں اسرائیل نے کسی بھی حملے کا جواب دینے کے عزم کا اظہارکیا ہے جب کہ امریکا نے خطے میں فوجی اثاثے بھی بھیجے ہیں، جس سے ایک اور بھی وسیع اور تباہ کن جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت اسرائیلی فوج کی جانب سے اسپتالوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، غزہ کی کل آبادی اس وقت بھوک کا شکار ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس وقت بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، بظاہر عالمی طاقتیں اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کوکامیاب بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، مگرکسی بھی قسم کے امن معاہدے کا امکان کم ہی دکھائی دے رہا ہے۔
اسرائیل اگر یہ سب کچھ کر رہا ہے تو امریکا اور مغربی ممالک کی شہ پرکر رہا ہے، اگر امریکا اور مغربی ممالک اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی آج بند کر دیں تو اسرائیل کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا لیکن مغربی ممالک جان بوجھ کر نہیں چاہتے کہ اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ختم ہو وہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ یوں ہی جاری رہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد ہو یا انسانی حقوق کونسل کی قرارداد عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
اقوام متحدہ ایک عالمی ادارہ ہے، اسے اگر اپنی ساکھ کو بحال کرنا ہے تو اس جنگ کو روکنے کے لیے امریکا اور یورپ پر دباؤ ڈالنا ہوگا کیونکہ اگر امریکا اور یورپ چاہے گا تو یہ جنگ رکے گی، وگرنہ غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی یوں ہی جاری رہے گی۔ دوسری طرف اب اس جنگ کو بند کرنے کے لیے اسرائیل کے اندر بھی احتجاج ہو رہا ہے اور نیتن یاہو کے خلاف ہزاروں یہودی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور وہ بھی اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، کیونکہ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے باوجود اسرائیل حماس کا وجود مٹانے میں ناکام رہا ہے اور یہی چیز یہودیوں کو پریشان کر رہی ہے کہ اگر ہزاروں فلسطینی شہید کرنے کے باوجود بھی حماس کا وجود برقرار ہے اور فلسطینیوں کا جذبہ شہادت بھی قائم ہے تو اس سے بہتر ہے کہ امن سے رہا جائے اور اسی مقصد کے لیے اب اسرائیلی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
جنگوں میں تو اسپتالوں اور تاریخی عمارات کو جنیوا معاہدے کے تحت تحفظ حاصل ہوتا ہے، لیکن اسرائیل کو اس وقت کوئی بھی پوچھنے والا موجود نہیں۔ دوسری جانب غزہ جنگ اسرائیل کی معیشت کے لیے بڑا خطرہ بن گئی۔ گزشتہ برس 7 اکتوبر 2023 سے غزہ اسرائیل جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک اسرائیل میں 46 ہزارکاروبار بند ہوچکے ہیں۔ 2023 کے آخر تک اسرائیل کی جی ڈی پی میں تقریباً 20 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسرائیلی اخبار ماریو کے مطابق غزہ جنگ کی شروعات میں ہی 35 ہزار اسرائیلی کاروبار بند ہوگئے تھے جوکہ مجموعی سطح پر اسرائیل کے کاروباری سیکٹر کا 70 فیصد ہے۔غزہ جنگ کے معاشی اثرات سے اسرائیل کی تعمیراتی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی، سیرامکس، ایئرکنڈیشنگ، ایلومینیم کی صنعت کو بھی نمایاں طور پر نقصان پہنچا ہے۔ تجارت اور زراعت کے شعبے بھی شدید متاثر ہوئے، غیرملکی سیاحت بھی ختم ہوگئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال 2024 کے آخر تک اسرائیل میں 60 ہزار کاروبار بند ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اتفاق سے یہ صورت حال رواں سال کے ان لمحوں میں زیادہ محسوس کی گئی جب صدر جوبائیڈن کو اپنی دوسری صدارتی مدت کے لیے انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے مختلف طبقوں کی طرف سے سخت مزاحمت اور مخالفت کی صورت حال ملنے لگی۔ ان طبقات میں امریکی سیاہ فام، عرب امریکن، امریکی مسلمان، خواتین، نوجوان، طلبہ ہی شامل نہیں تھے بلکہ وہ ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹ ووٹرز بھی شامل تھے جن کے ہراول دستے کے طور پر کئی سفارت کار تک اسرائیل کے لیے اندھی حمایت کی پالیسی پر مستعفی ہو کر گھروں کو چلے گئے تھے، جوبائیڈن انتظامیہ کو سفارت کاروں اور بعض دیگر حکام کے ان استعفوں کا سامنا چونکہ ایک درجن سے کم تعداد میں تھا۔
اس لیے اس سے معاملے کی شدت کا احساس کرنے میں جو بائیڈن اور ان کی نائب کملا ہیرس کوکافی دیر لگ گئی لیکن جب شدت محسوس ہوئی تو گویا ہوش آیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جوبائیڈن کا بطور صدارتی امیدوار میدان میں رہنا ممکن نہ رہا۔ یہ بہت کم لوگ جان اور سمجھ سکے ہیں کہ جوبائیڈن کی جگہ کملا ہیرس کو آگے لانے کی حقیقی وجہ جوبائیڈن کا 'بڑھاپا' اور 'بھلکڑ پن' نہ تھا بلکہ اسرائیل نواز پالیسی اور غزہ میں انسانوں کا اندھا قتل عام ہی تھا، جس کے بعد امریکا کے عام ووٹرز ہی نہیں ڈیموکریٹس بھی پھٹ پڑے تھے۔ امریکی صدر جوبائیڈن غزہ میں اسرائیلی جنگ کی اپنی صدارتی مہم اور صدارتی انتخاب پر حملے کی شدت کو محسوس کر چکے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے ماہ جون سے بھی پہلے 31 مئی کو تین مراحل پر مشتمل اپنا مشہور زمانہ جنگ بندی فارمولا پیش کیا تھا۔
یہ ایک غیر معمولی 'یو ٹرن' تھا۔ اس سے قبل جوبائیڈن انتظامیہ تین بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر چکی تھی، مگر اب خود صدر جو بائیڈن جنگ بندی فارمولا بنا کر پیش کر رہے تھے۔ صرف یہی نہیں 10 جون کو امریکی کوششوں سے سلامتی کونسل نے اس جنگ بندی فارمولے کی بنیاد پر جنگ بندی کی حمایت کردی۔ بلا شبہ یہ امریکی سفارتی کوشش کے بغیر ممکن نہ تھا۔ دوسری جانب حماس بھی تو حالیہ دنوں ہونے والے مذاکرات سے پہلے، مذاکرات کے دوران اور بعد ازاں یہی کہہ رہی ہے کہ جنگ بندی ہونی چاہیے مگر تین کلیدی نکات کی بنیاد پر ہونی چاہیے، جب کہ اسرائیل کی حکمت عملی مذاکرات شروع ہوتے ہی زیادہ شدید بمباری اور زیادہ اموات کا اہتمام کرنا رہی ہے۔
وہیں اس کی حکمت عملی کا یہ پہلو بھی ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کی ایک نشست کے لیے ایک وفد بھیجا تو اگلی نشست کے لیے نئے وفد کی تشکیل کر دی، تاکہ بات پھر سے صفر سے شروع کرنے کا موقع بنتا رہے۔ یہ سب امریکا کو قبول اور پسند رہا ہے، مگر اب معاملہ یہ ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخاب میں جب صرف اڑھائی ماہ باقی ہیں تو جوبائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کے لیے مزید 'رسک' لینے کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے، لہٰذا اینٹنی بلنکن پوری شرح صدر اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جنگ بندی کے اس موقعے کو آخری موقع قرار دے رہے ہیں۔ بلاشبہ جنگ بندی کی ایسی کسی کامیابی کے بغیر 40 ہزار فلسطینیوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے ساتھ کملا ہیرس بھی الیکشن جیتنے میں بڑی مشکلات محسوس کریں گی کہ ان 40 ہزار لاشوں میں بچوں اور عورتوں کی لاشوں کے ٹکڑے اور چھیتڑے زیادہ ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ امن معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں امریکا میں بہت سے یہودی ووٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں میں آ سکتے ہیں اورکملا ہیرس کی ایک ماہ کی مہم کے دوران جو بہتری کی علامات ہیں یہ اگلے اڑھائی ماہ میں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اسرائیلی فوج جو بلاشبہ سب سے زیادہ امریکی اسلحے سے ہی لیس ہے کیا غزہ کے اسکولوں، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں پر حملے کر کے بچوں اور عورتوں کی لاشوں کے چیتھڑوں کے ساتھ امریکا کے صدارتی الیکشن اور بطور خاص ڈیموکریٹس کے صدارتی انتخاب پر حملہ آور نہیں ہو گی؟
آخر نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند ساتھیوں ایتمار بین گویر اور بذالیل سموٹریچ کو بھی اسی غزہ کی جنگ سے اپنا اگلا الیکشن جیتنے کا سامان کرنا ہے۔ اسی مقصد کے لیے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو انھوں نے اب تک پس پشت ڈال رکھا ہے تو وہ کیوں مغربی کنارے اور اقصیٰ پر یہودی آبادکاروں کی قیادت کرتے ہوئے غزہ کے ملبے اور بھوکے، ننگے، قحط زدہ فلسطینیوں کو تاراج کرنے کے سلسلے میں کمی لائیں گے،گویا غزہ کے فلسطینی بچوں اور عورتوں کی لاشوں پر اقتدار کے محل تعمیرکرنے میں ہر کوئی لگا ہوا ہے۔