کیا ڈیڈ لاک ٹوٹ سکے گا
سوال یہ نہیں کہ ہم حکومت ، سیاست ، جمہوریت اور طاقت ورافراد پر تنقید کریں
پاکستان کا طاقت ور حکمران طبقہ ہمیشہ سے کہتا چلا آرہا ہے کہ ملک کا سرکاری ڈھانچہ اورنظام بالکل ٹھیک ہے اور جو لوگ نظام پر تنقید کرتے ہیں تو انھیں حقائق کا علم نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے اپنی مخصوص سوچ کی بنیاد پر معاشرے میں مایوسی پھیلاتے ہیں حالانکہ مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب کہ مجھ سمیت ایک بڑا طبقہ جو مختلف شعبہ جات میں سرگرم ہے یا حکومتی معاملات پر اپنی گہری نظر رکھتا ہے اس کے بقول ملک کا نظام حکومت بے ترتیب اور بے ہنگم ہوگیا ہے ۔جو ایک سنجیدہ سوال ہے جو بہت کچھ سوچنے پرمجبور کرتا ہے۔
جدید ریاست کا نظام اپنے آئین و قانون کی حکمرانی ،حکومتی اداروں کاآئینی و قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے سے جڑا ہوتا ہے جب کہ ہماری جیسی ریاستیں جو نیم جمہوری ہیں وہاں آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوتا ہے۔پاکستانی معاشرے میں معاشی تقسیم کا بیلنس امیر کے حق میں ہے جب کہ سیاست میں نفرت اورتعصب کی خلیج گہری ہورہی ہے۔ سول سوسائٹی و صحافت بھی اسی تقسیم کا شکار ہے ۔ یوں پورے ملک میں ٹکراؤ اور انتشار کا ماحول ہے ۔
کچھ لوگ سب اچھا کی کہانی پیش کرتے ہیں تو کچھ بربادی اور تباہی کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ لیکن ریشنل ازم کہیں نظر نہیں آتا۔ سوسائٹی کا یہ حصہ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقایق ہیں جو ریاستی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کیونکہ جن کے ہاتھ میں فیصلوں کی طاقت ہے ، اور جو اپوزیشن کے دعویدار ہیں، ان کی ترجیحات میں جمہوریت اور عوامی مفادات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کا مجموعی نظام افراد اور خاندانوں کی خواہشات اور مفادات کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے جس سے عوام میں لاتعلقی کا احساس بڑھ رہا ہے ۔
سوال یہ نہیں کہ ہم حکومت ، سیاست ، جمہوریت اور طاقت ورافراد پر تنقید کریں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کیا ہمیںاس بات کا دیانت داری سے احساس ہے کہ ہماری اپنی ذمے داری کیا، کیا ہم نے خود احتسابی کی ہے ۔ جو سوالات ہمارے حکومتی نظام پر اٹھائے جارہے ہیں وہ ہماری جمہوری ساکھ کو قبول کرتے ہیں ، جواب نفی میں ہوگا۔آئین و قانون کی حکمرانی ہو یا سیاست و جمہوریت سے جڑے سنہری اصول ہوں اگر یہ محض کتابوں یا لفاظی تک محدود ہوںگے تو اس کا مطلب ہے کہ معاشرے کے اہل علم عملی جدوجہد نہیں کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے روایتی طاقتور طبقات فسطائیت کا شکار ہو تے ہیں۔اس وقت بھی ہمیں جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ان میں سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر ریاستی نظام کو آگے بڑھانا ، حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤکا ماحول ، معیشت کی خراب صورتحال، عام آدمی کی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بالخصوص عام اور کمزور طبقات کے حالات بھی برے ہیں اور جو نئی مڈل کلاس ابھری ہے اس سطح پر بھی آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن نے ان کے نظام کو بگاڑ دیا ہے ۔
ان مسائل کی بنیاد پر ہمیں اپنے داخلی، علاقائی اور عالمی مقدمہ کو درست سمت دینی ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہر قسم کی مہم جوئی اور ایڈونچرز سے بچا جائے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ دنیا کی جدید ریاستوں کا نظام کیاہے اور کیسے وہ اپنی ریاستوں میں اپنے نظام کی ساکھ کو قائم کرتے ہیں ۔ آج ہم گلوبل دنیا کا حصہ ہیں ، دنیا کے بڑے ممالک ، میڈیا اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی کڑی نگرانی کے عمل سے بھی ہم گزر رہے ہیں جو ہمیں عالمی درجہ بندیوں میں پیچھے کھڑا کردیتا ہے ۔قومی سطح پر جو ہمیں مفاہمت حقیقی بنیادوں پر درکار ہے وہ نظر نہیں آرہی۔ سیاسی اختلافات نے عوام کو ترجیحات میں نکال دیا ہے۔ اس سے قطع نظر کون غلطی پر ہے لیکن ان غلطیوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیں ۔
کسی بھی ریاستی نظام میں حالات کی خرابی یا جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔ لیکن حکومت سمیت معاشروں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام شعبوں میں قیادت کی موجودگی کی بنیاد پر ان مسائل کا حل تلاش کرتی ہے ۔ حل بھی ایسا جو لوگوں میں میں اعتماد بھی پیدا کرے اور حکومت کی ساکھ کو بھی یقینی بنائے۔ لیکن اگر طاقتور طبقات کے درمیان باہمی مفادات کی جنگ چھڑ جائے تو ایسی صورت میں نظام میں بگاڑ کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے ۔آج پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو معاشرے میں موجود کمزور لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے ۔
حکومت کا مقصد عام آدمی اور اس سے جڑے مسائل کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے ۔کیونکہ ایک مضبوط ریاستی نظام کی کنجی ہی عوامی مفادات سے جڑی ہوتی ہے ۔ عوام کو طاقت ور اشرافیہ کے منفی ایجنڈے کا سامنا ہے۔
اس میں موجود ڈیڈ لاک کو توڑنا ہوگا۔لیکن کیا سیاسی جماعتیں ، میڈیا، وکلا تنظیمیں ،اہل دانش، علمی و فکری افراد یا سول سوسائٹی خود بھی یہ جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے فرد کی سطح پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو قائم کرنا تھا وہ خود نظام میں بڑے حصہ دار بن گئے ہیں یا ان پر بھی ان حالات میں سمجھوتوں کی سیاست غالب آچکی ہے۔ جب حکومت کا نظام سنہری اصولوں کومحض ایک بڑ ے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا، اس کا ایک بڑا نتیجہ کمزور سیاسی و جمہوری نظام کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ہم اپنے سیاسی و جمہوری فیصلے سیاسی حکمت عملیوں کی مدد سے طے کرنے کی بجائے سیاسی مسائل کو طاقت کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے ہمیں داخلی محاذ پر بھی کمزور کردیا ہے اور عالمی سطح پر بھی ہماری ساکھ کو بڑی تنقید کا سامنا ہے ۔
جدید ریاست کا نظام اپنے آئین و قانون کی حکمرانی ،حکومتی اداروں کاآئینی و قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے سے جڑا ہوتا ہے جب کہ ہماری جیسی ریاستیں جو نیم جمہوری ہیں وہاں آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوتا ہے۔پاکستانی معاشرے میں معاشی تقسیم کا بیلنس امیر کے حق میں ہے جب کہ سیاست میں نفرت اورتعصب کی خلیج گہری ہورہی ہے۔ سول سوسائٹی و صحافت بھی اسی تقسیم کا شکار ہے ۔ یوں پورے ملک میں ٹکراؤ اور انتشار کا ماحول ہے ۔
کچھ لوگ سب اچھا کی کہانی پیش کرتے ہیں تو کچھ بربادی اور تباہی کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ لیکن ریشنل ازم کہیں نظر نہیں آتا۔ سوسائٹی کا یہ حصہ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقایق ہیں جو ریاستی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کیونکہ جن کے ہاتھ میں فیصلوں کی طاقت ہے ، اور جو اپوزیشن کے دعویدار ہیں، ان کی ترجیحات میں جمہوریت اور عوامی مفادات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کا مجموعی نظام افراد اور خاندانوں کی خواہشات اور مفادات کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے جس سے عوام میں لاتعلقی کا احساس بڑھ رہا ہے ۔
سوال یہ نہیں کہ ہم حکومت ، سیاست ، جمہوریت اور طاقت ورافراد پر تنقید کریں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کیا ہمیںاس بات کا دیانت داری سے احساس ہے کہ ہماری اپنی ذمے داری کیا، کیا ہم نے خود احتسابی کی ہے ۔ جو سوالات ہمارے حکومتی نظام پر اٹھائے جارہے ہیں وہ ہماری جمہوری ساکھ کو قبول کرتے ہیں ، جواب نفی میں ہوگا۔آئین و قانون کی حکمرانی ہو یا سیاست و جمہوریت سے جڑے سنہری اصول ہوں اگر یہ محض کتابوں یا لفاظی تک محدود ہوںگے تو اس کا مطلب ہے کہ معاشرے کے اہل علم عملی جدوجہد نہیں کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے روایتی طاقتور طبقات فسطائیت کا شکار ہو تے ہیں۔اس وقت بھی ہمیں جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ان میں سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر ریاستی نظام کو آگے بڑھانا ، حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤکا ماحول ، معیشت کی خراب صورتحال، عام آدمی کی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بالخصوص عام اور کمزور طبقات کے حالات بھی برے ہیں اور جو نئی مڈل کلاس ابھری ہے اس سطح پر بھی آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن نے ان کے نظام کو بگاڑ دیا ہے ۔
ان مسائل کی بنیاد پر ہمیں اپنے داخلی، علاقائی اور عالمی مقدمہ کو درست سمت دینی ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہر قسم کی مہم جوئی اور ایڈونچرز سے بچا جائے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ دنیا کی جدید ریاستوں کا نظام کیاہے اور کیسے وہ اپنی ریاستوں میں اپنے نظام کی ساکھ کو قائم کرتے ہیں ۔ آج ہم گلوبل دنیا کا حصہ ہیں ، دنیا کے بڑے ممالک ، میڈیا اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی کڑی نگرانی کے عمل سے بھی ہم گزر رہے ہیں جو ہمیں عالمی درجہ بندیوں میں پیچھے کھڑا کردیتا ہے ۔قومی سطح پر جو ہمیں مفاہمت حقیقی بنیادوں پر درکار ہے وہ نظر نہیں آرہی۔ سیاسی اختلافات نے عوام کو ترجیحات میں نکال دیا ہے۔ اس سے قطع نظر کون غلطی پر ہے لیکن ان غلطیوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیں ۔
کسی بھی ریاستی نظام میں حالات کی خرابی یا جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔ لیکن حکومت سمیت معاشروں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام شعبوں میں قیادت کی موجودگی کی بنیاد پر ان مسائل کا حل تلاش کرتی ہے ۔ حل بھی ایسا جو لوگوں میں میں اعتماد بھی پیدا کرے اور حکومت کی ساکھ کو بھی یقینی بنائے۔ لیکن اگر طاقتور طبقات کے درمیان باہمی مفادات کی جنگ چھڑ جائے تو ایسی صورت میں نظام میں بگاڑ کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے ۔آج پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو معاشرے میں موجود کمزور لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے ۔
حکومت کا مقصد عام آدمی اور اس سے جڑے مسائل کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے ۔کیونکہ ایک مضبوط ریاستی نظام کی کنجی ہی عوامی مفادات سے جڑی ہوتی ہے ۔ عوام کو طاقت ور اشرافیہ کے منفی ایجنڈے کا سامنا ہے۔
اس میں موجود ڈیڈ لاک کو توڑنا ہوگا۔لیکن کیا سیاسی جماعتیں ، میڈیا، وکلا تنظیمیں ،اہل دانش، علمی و فکری افراد یا سول سوسائٹی خود بھی یہ جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے فرد کی سطح پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو قائم کرنا تھا وہ خود نظام میں بڑے حصہ دار بن گئے ہیں یا ان پر بھی ان حالات میں سمجھوتوں کی سیاست غالب آچکی ہے۔ جب حکومت کا نظام سنہری اصولوں کومحض ایک بڑ ے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا، اس کا ایک بڑا نتیجہ کمزور سیاسی و جمہوری نظام کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ہم اپنے سیاسی و جمہوری فیصلے سیاسی حکمت عملیوں کی مدد سے طے کرنے کی بجائے سیاسی مسائل کو طاقت کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے ہمیں داخلی محاذ پر بھی کمزور کردیا ہے اور عالمی سطح پر بھی ہماری ساکھ کو بڑی تنقید کا سامنا ہے ۔