محترمہ فاطمہ جناح…
’’وہ اپنے عظیم بھائی کی ہوبہو تصویر تھیں بلندوبالا قد، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قامت
''وہ اپنے عظیم بھائی کی ہوبہو تصویر تھیں بلندوبالا قد، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قامت۔ گلابی چہرہ، ستواں ناک، آنکھوں میں بلا کی چمک، ہر چیز کی ٹٹولتی ہوئی نظر، سفید بال، ماتھے پر جھریوں کی چنٹ، آواز میں جلال وجمال، چال میں کمال، مزاج میںبڑے آدمیو ں کا سا جلال، سر تا پا استقلال، رفتار میں سطوت، کردار میں عظمت، قائداعظم کی شخصیت کا آئینہ، صبا اور سنبل کی طرح نرم، رعد کی طرح گرم، بانی پاکستان کی نشانی، ایک حصار جس کے قرب سے حشمت کا احساس ہوتا ہے جس کی دوری سے عقیدت نشوونما پاتی ہے، بھائی شہنشاہ بہن بے پناہ۔''
آغا شورش کاشمیری نے ان خوبصورت الفاظ میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام صفات محترمہ فاطمہ جناح میں بدرجہ اتم موجود تھیں وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیںایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا جو قوم کی ماں کا لقب (مادر ملت) حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔
31 جولائی 1893ء کو مٹھی بائی کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا جب یہ بچی دوسال کی عمر کو پہنچی تو ماں کی شفقت ومحبت سے محروم ہو گئی بڑی بہن نے ان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائی، جب ذرا ہوش سنبھالا تو انگلستان میں زیرتعلیم بھائی کا ذکر سن کر ان سے ملنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ محمد علی جناح جب واپس آئے تو فاطمہ جناح چار سال کی تھیں وہ قائداعظم سے سترہ سال چھوٹی تھیں۔
محمد علی چھوٹی بہن فاطمہ کی معصوم باتوں کو سن کر وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اس دوران جب والد کے کاروبار کو شدید نقصان کا سامنا تھا محمد علی جناح نے بمبئی جاکر وکالت کا کام شروع کیا اور کچھ دن بعد انھوں نے پورے خاندان کو بمبئی بلا لیا جب پورا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو بھائی نے آٹھ سالہ فاطمہ کی تعلیم کا بندوبست بھی گھر پر کر دیا بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔ فاطمہ کو بچپن سے گڑیو ں کے بجائے مطالعے کا شوق بھائی سے ملا۔
محمد علی جناح نے بہن کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی اور تمام خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بہن کا داخلہ 1902ء میں باندرہ کانونٹ اسکول میں کرا دیا جہاں شروع میں جاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتی تھیں تو بھائی ساتھ گھنٹوں اسکول کی کلاسوں میں جایا کرتے تھے جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوا اور بخوبی اسکول کے تمام مدارج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتی گئی۔ 1906ء میں ان کو قائد نے سینٹ پیٹرک اسکول میں داخل کرایا جہاںمیٹرک کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے 1913ء میں سنیئر کیمرج کا امتحان پاس کیا اب وہ صاف بامحاورہ انگریزی میں ماہر ہو گئی تھیں اسی دوران قائداعظم نے رتن بائی سے شادی کر لی تو بہن بھائی میں تھوڑی سی عارضی دوری پیدا ہوگئی اس خلاء کو پر کرنے کے لیے انھوں نے بھائی کے مشورے سے احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا۔
1922ء میں ڈینٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1923ء میں باقاعدہ کلینک کھول کر پریکٹس کا آغاز کیا لیکن جب 20 فروری 1929ء کو رتن بائی کا انتقال ہو گیا ان کی موت نے قائداعظم پر گہرا اثر ڈالا تو بھلا ایک محبت کرنے والی بہن کیسے گورا کرتی کہ بھائی کو اس حال میں اکیلے چھوڑا جائے انھوں نے تمام کام چھوڑ کر بھائی کے گھر کی ذمے داریاں سنبھال لیں اور قائداعظم تمام فکروں سے آزاد ہو کر تحریک آزادی وطن میں حصہ لینے لگے۔
قائداعظم خود بھی بہن کی صلاحیتوں کے متعارف تھے اس لیے ان کی توجہ اور شفقت نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی بھائی کے شانہ بشانہ تمام اجلاسوں میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا وہ بھائی سے تمام سیاسی نکات پر بحث مباحثہ کرتیں۔ انھیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتی قائداعظم ان کی صلاحیتوں کے متعارف تھے وہ بہن کے مشوروں پر عمل بھی کرتے ان کی تائید اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ 1934ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تھے تو فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں وہ کئی سال وہاں قیام پذیر رہیں لیکن وہاں کی رنگین فضائیں انھیں متاثر نہ کر سکیں۔
مادر ملت ہمیشہ سوچتیں کہ آخر ان ممالک نے کیسے ترقی کی یہاں کہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا، غربت وافلاس نام کی کوئی چیز موجود نہیں آخر ہمارے ملک کے عوام ان سہولتوں سے کیوں محروم ہیں اس سوچ کے ساتھ بس ایک جواب تھا کہ آزادی یہی ایسی نعمت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد ایک ملک اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ عوام کو تمام سہولتیں دے سکتا ہے اسی لیے انھوں نے آزادی کی تحریکوں میں دن رات محنت کو اپنا شعار بنا لیا۔
جب 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آگیا تو مسائل کا ایک انبار بھی ساتھ تھا۔ خاص طور پر مہاجرین کی آمد اور ان کی بحالی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیارکیے ہوئے تھا۔ لوگوں نے جھوٹے کلیم داخل کر کے حقداروں سے ان کا حق غضب کرنے کی روایت روز اول سے شروع کر دی تھی۔ مادر ملت دن رات ان مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن مشغول رہیں اس دوران بھائی کی صحت خراب ہونے پر انھوں نے بھائی کی تیمارداری پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا جس ملک کو بنانے میں قائد نے اتنی محنت کی وہ اس میںایک سال بھی گزار سکتے۔
قائداعظم بیماری کے دوران انتقال فرما گئے۔ مادرملت نے بھائی کی موت کا صدمہ کس طرح سہا ہوگا وہ ہی جانتی ہوں گی بھائی کے سکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مادر ملت جو خود جمہوریت کی قائل تھیں اور جن کی تربیت قائداعظم نے کی تھی وہ بھلا کیسے گورا کر لیتیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انگریز نواز نوکر شاہی اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کے خلاف سازش کرے۔
انھوں نے جنرل ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی قوم کو آمریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ تو کونسل مسلم لیگ نے انھیں اپنا صدراتی امیدوار نامزد کر دیا۔ مادر ملت کے میدان میں آنے پر سیاستداں چوکنا ہوگئے۔ انھوں نے وسیع تر اتحاد قائم کرنے کی کوششیں تیزکر دیں انتخابی جلسوں میں ملک کے دوردراز کے دوروں میں قوم کی ماں کے استقبال کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہوتے۔
مغربی پاکستا ن اور خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام مادر ملت سے گہری عقیدت رکھتے تھے وہ مادر ملت کو ''مکتی نیتا'' کے نام سے پکارنے لگے ادھر ایوب خان نے مادر ملت کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جس کی بناء پر جب انتخابات ہوئے تو مادر ملت ہار گئیں عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام سخت غم وغصے سے دوچار تھے۔ مادر ملت کی صورت میں انھیں ایک نجات دہندہ ملا تھا سول اور بیورو کریسی نے وہ بھی چھین لیا۔
مادر ملت زندگی کے اس آخری دور میں اپنوں کے لگائے گئے جھوٹ وفریب اور مکاری کے زخم کبھی نہ بھول سکیں۔ زندگی کے آخری ایام میں آخر وقت سیاست سے خود کو دور رکھا لیکن بناء کسی ذاتی غرض کے عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ قوم کی اس ماں نے 8 جولائی 1967ء کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام اپنی اس ماں کو بطورمحسن وملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔
آغا شورش کاشمیری نے ان خوبصورت الفاظ میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام صفات محترمہ فاطمہ جناح میں بدرجہ اتم موجود تھیں وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیںایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا جو قوم کی ماں کا لقب (مادر ملت) حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔
31 جولائی 1893ء کو مٹھی بائی کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا جب یہ بچی دوسال کی عمر کو پہنچی تو ماں کی شفقت ومحبت سے محروم ہو گئی بڑی بہن نے ان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائی، جب ذرا ہوش سنبھالا تو انگلستان میں زیرتعلیم بھائی کا ذکر سن کر ان سے ملنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ محمد علی جناح جب واپس آئے تو فاطمہ جناح چار سال کی تھیں وہ قائداعظم سے سترہ سال چھوٹی تھیں۔
محمد علی چھوٹی بہن فاطمہ کی معصوم باتوں کو سن کر وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اس دوران جب والد کے کاروبار کو شدید نقصان کا سامنا تھا محمد علی جناح نے بمبئی جاکر وکالت کا کام شروع کیا اور کچھ دن بعد انھوں نے پورے خاندان کو بمبئی بلا لیا جب پورا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو بھائی نے آٹھ سالہ فاطمہ کی تعلیم کا بندوبست بھی گھر پر کر دیا بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔ فاطمہ کو بچپن سے گڑیو ں کے بجائے مطالعے کا شوق بھائی سے ملا۔
محمد علی جناح نے بہن کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی اور تمام خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بہن کا داخلہ 1902ء میں باندرہ کانونٹ اسکول میں کرا دیا جہاں شروع میں جاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتی تھیں تو بھائی ساتھ گھنٹوں اسکول کی کلاسوں میں جایا کرتے تھے جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوا اور بخوبی اسکول کے تمام مدارج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتی گئی۔ 1906ء میں ان کو قائد نے سینٹ پیٹرک اسکول میں داخل کرایا جہاںمیٹرک کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے 1913ء میں سنیئر کیمرج کا امتحان پاس کیا اب وہ صاف بامحاورہ انگریزی میں ماہر ہو گئی تھیں اسی دوران قائداعظم نے رتن بائی سے شادی کر لی تو بہن بھائی میں تھوڑی سی عارضی دوری پیدا ہوگئی اس خلاء کو پر کرنے کے لیے انھوں نے بھائی کے مشورے سے احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا۔
1922ء میں ڈینٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1923ء میں باقاعدہ کلینک کھول کر پریکٹس کا آغاز کیا لیکن جب 20 فروری 1929ء کو رتن بائی کا انتقال ہو گیا ان کی موت نے قائداعظم پر گہرا اثر ڈالا تو بھلا ایک محبت کرنے والی بہن کیسے گورا کرتی کہ بھائی کو اس حال میں اکیلے چھوڑا جائے انھوں نے تمام کام چھوڑ کر بھائی کے گھر کی ذمے داریاں سنبھال لیں اور قائداعظم تمام فکروں سے آزاد ہو کر تحریک آزادی وطن میں حصہ لینے لگے۔
قائداعظم خود بھی بہن کی صلاحیتوں کے متعارف تھے اس لیے ان کی توجہ اور شفقت نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی بھائی کے شانہ بشانہ تمام اجلاسوں میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا وہ بھائی سے تمام سیاسی نکات پر بحث مباحثہ کرتیں۔ انھیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتی قائداعظم ان کی صلاحیتوں کے متعارف تھے وہ بہن کے مشوروں پر عمل بھی کرتے ان کی تائید اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ 1934ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تھے تو فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں وہ کئی سال وہاں قیام پذیر رہیں لیکن وہاں کی رنگین فضائیں انھیں متاثر نہ کر سکیں۔
مادر ملت ہمیشہ سوچتیں کہ آخر ان ممالک نے کیسے ترقی کی یہاں کہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا، غربت وافلاس نام کی کوئی چیز موجود نہیں آخر ہمارے ملک کے عوام ان سہولتوں سے کیوں محروم ہیں اس سوچ کے ساتھ بس ایک جواب تھا کہ آزادی یہی ایسی نعمت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد ایک ملک اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ عوام کو تمام سہولتیں دے سکتا ہے اسی لیے انھوں نے آزادی کی تحریکوں میں دن رات محنت کو اپنا شعار بنا لیا۔
جب 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آگیا تو مسائل کا ایک انبار بھی ساتھ تھا۔ خاص طور پر مہاجرین کی آمد اور ان کی بحالی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیارکیے ہوئے تھا۔ لوگوں نے جھوٹے کلیم داخل کر کے حقداروں سے ان کا حق غضب کرنے کی روایت روز اول سے شروع کر دی تھی۔ مادر ملت دن رات ان مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن مشغول رہیں اس دوران بھائی کی صحت خراب ہونے پر انھوں نے بھائی کی تیمارداری پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا جس ملک کو بنانے میں قائد نے اتنی محنت کی وہ اس میںایک سال بھی گزار سکتے۔
قائداعظم بیماری کے دوران انتقال فرما گئے۔ مادرملت نے بھائی کی موت کا صدمہ کس طرح سہا ہوگا وہ ہی جانتی ہوں گی بھائی کے سکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مادر ملت جو خود جمہوریت کی قائل تھیں اور جن کی تربیت قائداعظم نے کی تھی وہ بھلا کیسے گورا کر لیتیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انگریز نواز نوکر شاہی اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کے خلاف سازش کرے۔
انھوں نے جنرل ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی قوم کو آمریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ تو کونسل مسلم لیگ نے انھیں اپنا صدراتی امیدوار نامزد کر دیا۔ مادر ملت کے میدان میں آنے پر سیاستداں چوکنا ہوگئے۔ انھوں نے وسیع تر اتحاد قائم کرنے کی کوششیں تیزکر دیں انتخابی جلسوں میں ملک کے دوردراز کے دوروں میں قوم کی ماں کے استقبال کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہوتے۔
مغربی پاکستا ن اور خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام مادر ملت سے گہری عقیدت رکھتے تھے وہ مادر ملت کو ''مکتی نیتا'' کے نام سے پکارنے لگے ادھر ایوب خان نے مادر ملت کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جس کی بناء پر جب انتخابات ہوئے تو مادر ملت ہار گئیں عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام سخت غم وغصے سے دوچار تھے۔ مادر ملت کی صورت میں انھیں ایک نجات دہندہ ملا تھا سول اور بیورو کریسی نے وہ بھی چھین لیا۔
مادر ملت زندگی کے اس آخری دور میں اپنوں کے لگائے گئے جھوٹ وفریب اور مکاری کے زخم کبھی نہ بھول سکیں۔ زندگی کے آخری ایام میں آخر وقت سیاست سے خود کو دور رکھا لیکن بناء کسی ذاتی غرض کے عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ قوم کی اس ماں نے 8 جولائی 1967ء کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام اپنی اس ماں کو بطورمحسن وملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔