کچے کے ڈاکو ریاست کے لیے بڑا چیلنج

پچھلے 30 برس سے کچے کے ڈاکو بلا تعطل اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں

رحیم یار خان میں کچے کے ڈاکوؤں نے پولیس پر شدید حملہ کیا جس کے نتیجے میں 12 اہلکار شہید جب کہ پانچ زخمی ہوئے۔ ڈاکوؤں نے نفری تبدیل کرنے والی پولیس موبائلوں کو راکٹ لانچروں سے نشانہ بنایا۔ پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا۔ چار پولیس اہلکار تاحال لاپتہ ہے جن کی بازیابی کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے۔


سلام ہے ان پولیس اہلکاروں پر جنھوں نے فرض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کیا۔ سندھ اور پنجاب کی سرحد کے درمیان واقع کچے کا علاقہ، جہاں ڈاکو راج، آج سے نہیں،گزشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، جس انداز سے سندھ و پنجاب کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے، مقامی سے صوبائی اور اب ملکی سطح پر لارہے ہیں، بہت جلد یہ ریاست کے لیے نیا سر درد بن کر ابھریں گے۔


کھلا سچ تو یہ ہے کہ ڈاکو مبینہ طور پر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جن میں مارٹر، راکٹ سے چلنے والے دستی بم (آر پی جی) اور طیارہ شکن بندوقیں شامل ہیں۔ ان کے ہتھیاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مقامی پولیس سے بہتر ہیں، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک اہم چیلنج ہیں۔ ڈاکوؤں کے زیر اثرکچے کے علاقے تمام تر حشر سامانیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں ڈاکو ہیں، اسلحہ ہے، جرم کی داستان ہے، اغوا کار ہیں، مغوی ہیں، پولیس کے کمانڈو ہیں، پولیس افسران ہیں، سب کچھ ہے لیکن گرکچھ نہیں ہے تو وہ ہے ایکشن۔ خلوص نیت سے مسئلے کے حل کے لیے کیا جانے والا ایکشن۔


سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جوڑتے سرحدی راستوں، قومی شاہراہوں اور ذیلی سڑکوں کو یہ کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور نئی سڑکوں کا جب تک جال نہ تھا تب تک کچے کے ڈاکو ان ہی راستوں پہ گھات لگا کر رات کے اندھیرے میں مسافروں کو لوٹا کرتے تھے۔ خال خال یہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے تھے، پھر نیٹ ورک بڑھا تو انھوں نے سائیڈ بزنس کے طور پر ملک بھر کے چھوٹے بڑے جرائم پیشہ افراد کو اپنے یہاں پناہ دینے اور پناہ کے عوض پیسے لینے کا بھی کام کیا۔


کچے کے ڈاکو سرعام شہریوں، سیکیورٹی و ریسکیو اہلکاروں کو اغوا کر کے جسمانی تشدد کی وڈیوز بناتے اور اہل خانہ سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے، وصول کرتے ہیں۔ تاوان نہ ملنے کی صورت میں اغوا کنندہ کو بے دردی سے قتل کر کے لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے جب کہ پنجاب، سندھ کی پولیس ابھی تک ان پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ بھارتی سرحدی علاقے سے منسلک کچے کے علاقے میں ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ، راکٹ لانچر پولیس سے چھینی گئی بکتر بند گاڑیاں، وائرلیس سسٹم تک موجود ہیں۔ وہ ایک حکمت عملی کے تحت لوٹ مار کا باقاعدہ نظام چلا رہے ہیں۔


حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جب پورے ملک میں سیکیورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ سروس معطل کردی جاتی ہے،کچے کے ڈاکو بلا تعطل اس سہولت سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں کو کوئی وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے نہ دو صوبوں کی پولیس ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہے،کچھ اہلکار ان کے سہولت کار بھی ہو سکتے ہیں۔ خدشہ یہی نظر آتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈاکو، طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند کالعدم مسلح تنظیموں کی طرح ریاست کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔



ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ خوف اور دہشت کی بنیاد پر ایسی مسلح تحریک بھی شروع کر دیں جس کے پیچھے ہم بھارت کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں اور ریاست ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے اور خدانخواستہ ایسا وقت نہ آجائے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے ان کی شرائط پر مذاکرات کر کے انھیں قومی دھارے میں لانے کے نعرے، دعوے سننا پڑجائیں۔ کچے کے ڈاکو سرعام شہریوں پر تشدد کی وڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں ریاست کو للکارتے اور مذاق اڑاتے ہیں لیکن ریاست پھر بھی خاموش ہے۔


کہنے کو تو ریاست سے زیادہ طاقتورکوئی نہیں ہوسکتا۔ کچے کے ڈاکو کس کھیت کی مولی ہیں کہ انھیں کچلا نہیں جاسکتا۔ نام نہاد پولیس آپریشنزکے نام پرکروڑوں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ مورچوں کا دورہ کرکے اہلکاروں کو شاباش دیتے ہیں، کروڑوں کے بجٹ، اسلحہ گولہ بارود، خصوصی الاؤنسز کے نام پر خرچ کر دیے جاتے ہیں نتیجہ صفر جمع صفر، جواب صفر۔ ہماری تو عقل یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جاتی ہے کہ جنھیں ہم کچے کے ڈاکو کہتے ہیں دراصل یہ مستقبل کے دہشت گرد ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ افغان و پاکستانی طالبان گٹھ جوڑ دن رات تباہی کر رہا ہے، بلوچستان میں کالعدم بی ایل اے سمیت علیحدگی پسندی کے نام پر دہشت گرد دندناتے پھر رہے اور کچے کے ڈاکو اپنی ''ریاست'' مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔


ایسے میں ہماری حکمت عملی کیا ہے؟ خیال تو یہ آتا ہے کہ اگر یہ سب دہشت گرد عناصر اورکچے کے ڈاکو مستقبل میں ایک دوسرے کے سہولت کار بن گئے یا ان سب نے ریاست کے خلاف ایکا کر کے چاروں طرف سے بیک وقت محاذ کھول دیا تو انجام کیا ہوگا؟ اگر ریاست چاہے تو آج کچے کے ڈاکوؤں کو نیست و نابود کرسکتی ہے۔ ریاست کے پاس اختیار بھی ہے طاقت اور ہتھیار بھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کچے کے ڈاکو معصوم شہریوں، سیکیورٹی، ریسکیو اہلکاروں کو یرغمال بناکر تاوان وصول کریں اور ریاست تماشا دیکھتی رہے۔ ہرگزرتے دن کچے کے اردگرد علاقوں میں خوف کی فضاء پھیلتی جا رہی ہے۔ قومی شاہراہوں، موٹر ویز پر انتظامیہ کی طرف سے واضح اعلانات لکھے نظر آتے ہیں کہ ان شاہراہوں پر دن کے اوقات میں قافلوں کی صورت اور شام کے بعد سفر سے گریزکریں۔


واضح شواہد موجود ہیں کہ کچے کے ڈاکو جب چاہیں، جیسے چاہیں، جس سے چاہیں، مسافر گاڑیاں روک کر بھتہ وصول کرتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسافروں کی طرف سے مزاحمت پر انھیں فائرنگ کرکے قتل تک کردیا جاتا ہے اور قانون یہاں بالکل بے بس نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ڈاکو کچے سے نکل کر پکے (شہر) کے علاقے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک انتباہ ہے کہ مستقبل میں ریاست کے لیے وہ ایک بڑا چیلنج بننے والے ہیں۔ کچے کے علاقے میں ہنی ٹریپ کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنا اور رقم لوٹنے کا کاروبار بھی یہاں شروع ہوا جب کہ سستی گاڑیاں بیچنے کے نام پر دھوکا دہی کی وارداتوں میں کچے کے ڈاکوؤں کا نام آیا ہے۔


پچھلے 30 برس سے کچے کا علاقہ اور کچے کے ڈاکو بلا تعطل اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان کا مرکزی میڈیا کچے کے علاقے کی خبروں کو یوں بھی جگہ نہیں دے پاتا کہ ایک تو یہ علاقے کچے ہیں، دوسرا ان کا نشانہ کمزور افراد، کمزور برادری بنتی ہے جیسے کشمور، کندھ کوٹ کی ہندو برادری یا عام شہری۔ اسی حوالے سے کشمور تا کراچی سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاج بھی ہوتا رہا ہے۔ مظاہرین میں زیادہ تر سندھی ہندو برادری کے لوگ شامل ہیں جو مطالبہ کر رہے ہیں کہ سندھ میں ڈاکو گردی اور بالخصوص ہندو برادری کے افراد کا پے در پے اغوا بند کرایا جائے۔کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کی وارداتیں آج سے نہیں عرصہ چار عشروں سے جاری و ساری ہیں۔ لوگوں کو یرغمال بنانا، بھتہ خوری کے لیے اغوا کرنا اور قتل جیسی وارداتیں کچے کے علاقے کے ان ڈاکوؤں کا وتیرہ ہے۔


اتنا کچھ ہونے کے باوجود پنجاب یا سندھ حکومت ان ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ کیوں نہیں کر سکی؟ گھناؤنی وارداتیں کرنے والے قابو میں کیوں نہیں آ رہے؟ کچے کے علاقے کی زمین محکمہ جنگلات اور محکمہ ریونیو کی ملکیت ہے جو کسی کو باضابطہ طور پر الاٹ نہیں کی گئی ہے، جس میں سے محکمے کے مطابق وسیع رقبے پر قبضہ ہے۔ کئی بڑے بڑے زمینداروں کی کچے میں ہزاروں ایکڑ اراضی ہے۔ ان میں سے کئی بڑے زمیندار سیاست میں بھی متحرک ہیں۔ یہ علاقہ گنجان ہے۔ یہاں 10 لاکھ سے زائد آبادی مقیم ہے، جو مویشی بانی اور زراعت سے وابستہ ہے۔ جنگلات، جھاڑیوں اورکچی زمین کی وجہ سے یہاں ڈاکوؤں کے لیے چھپ کر اپنی کارروائیاں کرنا اور پناہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔ یہاں مختلف قوموں اور برادریوں کی آپس میں لڑائیاں اور رنجشیں تادیر چلتی رہتی ہیں۔


کچے میں رہنے والی ہر برادری کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے۔ رپورٹس کے مطابق شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کا نیا رجحان سامنے آ یا ہے، جس میں اب ڈاکو اغوا کی وارداتیں نہیں کرتے بلکہ مغوی خود ڈاکوؤں کے پاس اغوا ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ ڈاکو شاید ملک کے شمالی علاقوں میں موجود شدت پسند عناصرکی طرح ریاست کی کوئی دکھتی رگ پکڑنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بھی کچے سے نکل کر پکے علاقوں میں آئیں، مذاکرات کی میز پہ بیٹھیں اور میڈیا کوریج کو انجوائے کریں۔گویا کہ ڈاکو تو پھر ڈاکو ہوتا ہے، اس کا شدت پسند تنظیم کی آپریشنل صلاحیتوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن جس انداز سے سندھ و پنجاب میں کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے، مقامی سے صوبائی اور اب انٹرنیشنل سطح پر لا رہے ہیں ۔


ریاست کو ہوش میں آنا ہوگا۔ ابھی تو سندھ پولیس پر کچے کے ڈاکوؤں سے ملی بھگت کا الزام لگا کر ہاتھ کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ مقامی سرداروں پر ڈاکوؤں کی سرپرستی کی بات ادھر اُدھر کہہ سن لی جاتی ہے لیکن سندھ کی ہندو اقلیت کو اپنا بنیادی ہدف بنانے کی یہی روش جاری رہی تو یہ محض کچے کے ڈاکو نہیں رہیں گے، انھیں شدت پسندی کا ہمیشہ سے آزمودہ پلیٹ فارم بھی مل جائے گا۔

Load Next Story