کیا جنگوں میں بس انسان مرتے ہیں

مسلح تصادم مجموعی طور پر ہر طرح کی زندگی کے امکانات پر حملے ہیں

کسی علاقے پر جبری قبضے یا جنگوں کا ماحولیات سے کوئی براہِ راست تعلق بنتا ہے ؟ آج کل ماحولیات دوست حلقوں میں ایک اور نعرہ مقبول ہو رہا ہے۔ ''مقبوضہ علاقوں میں ماحولیاتی انصاف ممکن نہیں''۔


کسی بھی علاقے پر بمباری یا گولہ باری کا نشانہ صرف املاک یا انسان نہیں ہوتے بلکہ زمین، حیاتیات و نباتات و فضا بھی تیزی سے یا سسک سسک کے مرنے لگتے ہیں۔ یعنی مسلح تصادم مجموعی طور پر ہر طرح کی زندگی کے امکانات پر حملے ہیں۔


مثلاً مغربی پاپوا جو اب انڈونیشیا کا حصہ ہے۔ اس کا شمار گھنے ترین عالمی جنگلاتی علاقوں میں ہوتا ہے۔وہاں گزشتہ سات دہائیوں سے مقامی باشندوں کو معاشی ، ثقافتی اور ماحولیاتی نسل کشی کا سامنا ہے اور جس طرح مرکزی حکومت کی آشیرواد سے سنگینوں کے سائے تلے بین الاقوامی ٹمبر و معدنیاتی مافیا کو اندھا دھند چھوٹ ملی ہے۔اس سے صرف مغربی پاپوا کا حیاتیاتی دائرہ ٹوٹ رہا ہے بلکہ عالمی ماحولیات کی ابتری میں بھی یہ تباہ کن حکمتِ عملی بھرپور منفی حصہ ڈال رہی ہے۔


اس علاقے میں تانبے اور سونے کے بڑے عالمی ذخائر ہیں۔ان کی کانکنی بے لگام طریقے سے جاری ہے کیونکہ یہ علاقہ باقی دنیا کی نگاہوں سے دور بہت حد تک اوجھل ہے۔یہاں پچھلی دو دہائیوں میں بائیو فیول اور پام آئل پیدا کرنے والے درختوں کی کاشتکاری کے لیے لاکھوں برس سے موجود جنگلات کو بیدردی سے اجاڑا گیا۔اسی علاقے میں قدرتی گیس کو مایع میں تبدیل کرنے کے لیے برٹش پٹرولیم کمپنی نے بھی کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔


مگر ان سرگرمیوں سے جنم لینے والے سنگین ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرنا مغربی ممالک کے لیے سیاسی و اسٹرٹیجک طور پر سودمند نہیں۔کیونکہ انھی ممالک کی کمپنیاں ان ماحول دشمن کارستانیوں میں انڈونیشیائی حکومت کی مسلح ساجھے داری میں حصہ دار ہیں۔جو بھی مقامی کارکن اس بلاد کار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اگر وہ دھمکیوں سے نہ ڈرے تو اکثر کسی پراسرار گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔


اندازہ ہے کہ اس وقت انسانی ترقی کے نام پر جو جو شعبے مضر گیسوں کے اخراج سے کرہِ ارض کادرجہ حرارت بڑھانے کے ذمے دار ہیں ان میں جنگی مہم جوئی کا حصہ ساڑھے پانچ فیصد سالانہ ہے۔یہ مقدار جہاز رانی اور فضائی کمپنیوں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کے مجموعی سالانہ اخراج سے بھی زیادہ ہے۔


اس پس منظر میں غزہ میں جاری اسرائیلی فوج کشی کے ماحولیات پر مضر اثرات پر دھیان دیا جائے تو دکھ دو چند ہو جاتا ہے۔لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ماہرین کی تازہ تحقیق کے مطابق جنگ کے پہلے چار ماہ میں غزہ کی فضا میں پھیلنے والے مضر ماحولیاتی عناصر اور آلودگی کا اخراج چھبیس ممالک کے مجموعی سالانہ گیسی اخراج سے بھی زیادہ ہے۔اور اب تو یہ جنگ دسویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔



اب تک جو کچھ بھی ہوا اس کے نتیجے میں غزہ کی ساٹھ فیصد قابلِ زراعت زمین بانجھ ہو چکی ہے اور آبی زرایع کو جتنا نقصان پہنچا ہے اس کی بھرپائی کے لیے کم ازکم نصف صدی درکار ہے بشرطیکہ اس علاقے میں اس سطح کی کوئی اور جنگ نہ ہو۔


اسرائیل اس وقت غزہ کے انسانوں اور زمین کے ساتھ جو کچھ بھی کر رہا ہے۔وہ اس نے اپنے سرپرست امریکا سے ہی سیکھا ہے کہ جس کی بنیاد ہی مقامی انسانوں اور وسائل کی نسل کشی پر اٹھائی گئی۔


بہت دور کیوں جائیں۔ویتنام کی جنگ پچاس برس پہلے ہی ختم ہوئی ہے۔دس برس تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران پچاس ہزار امریکی فوجیوں کی جانیں ایک لاحاصل جنگی ہدف کی نذر ہو گئیں۔جب کہ تیس لاکھ کے لگ بھگ ویتنامی رزقِ خاک بن گئے۔حریت پسند ویت کانگ گوریلوں کو پناہ گاہوں سے محروم کرنے کے لیے جنوبی اور وسطی ویتنام کے لاکھوں لوگوں کو دیہاتوں سے کھدیڑ کر اسٹرٹیجک ہیلمٹس اسکیم کے تحت قائم کیمپوں میں سنگینوں کے سائے تلے رکھا گیا۔جن گھنے جنگلات میں ویت کانگ گوریلوں کے ٹھکانے تھے انھیں بے دردی سے کاٹا گیا۔ان جنگلات کے حیات بخش پانیوں میں زہر ملایا گیا۔


ویت کانگ دوست آبادی کو خوراک نہ مل سکے اسے یقینی بنانے کے لیے چاول کے کھیتوں پر سے ٹینک گزار دیے گئے اور بلڈوزروں کی مدد سے ہر طرح کی نباتاتی زندگی کھدیڑنے کی کوشش کی گئی۔مگر گوریلے پھر بھی قابو میں نہ آئے۔چنانچہ طیاروں کے زریعے زرعی و جنگلاتی علاقوں پر بلاامتیاز سیکڑوں ٹن ایجنٹ اورنج نامی زہر کا اسپرے کر کے ماحولیات و حیاتیات کا سانس کھینچ لیا گیا۔ایجنٹ اورنج کے اثرات جنگ بند ہونے کے بعد بھی کئی عشرے تک محسوس ہوتے رہے۔


چنانچہ اس جنگی جرم کے پس منظر میں بین الاقوامی قانون کے ایک سرکردہ ماہر رچرڈ فاک نے جینو سائیڈ (نسل کشی ) کے وزن پر ایکو سائیڈ (ماحولیات کشی) کی اصطلاح اپنائی۔یہ اصطلاح اب قانون کی ہر کتاب کا حصہ ہے۔


اسی ایکو سائیڈ کو اسرائیل نے اگلے لیول تک پہنچا دیا۔غزہ پر دو ہزار چودہ کے بعد سے اسرائیل نے جتنی بار فوج کشی کی اس دوران انسان اور املاک تو خیر ختم ہوئے۔مگر بھوک اور پیاس کو اس طرح ہتھیار بنایا گیا کہ کھڑی فصلوں پر طیاروں کے ذریعے کھیتوں کو جھلسا دینے والے کیمیکلز برسائے گئے۔اس بار تو تمام حدیں ہی پار ہو گئیں۔غزہ کی زمین اور آبی ذرایع انسانی استعمال یا زراعت کے لیے اگلے کئی عشروں کے لیے ناکارہ کر دیے گئے ہیں۔ہدف یہ ہے کہ جتنے لوگ قتلِ عام سے بچ گئے ان میں سے اکثر بھوک ، پیاس ، آلودگی اور بیماریوں سے مر جائیں۔


اگر ایک چھوٹے سے خطے غزہ کا یہ حال ہو سکتا ہے تو سوچئے یوکرین اور روس کے مابین ڈھائی برس سے جاری جنگ میں جو بارود انسانوں کے ساتھ ساتھ دھرتی کی صلاحیتوں کو بانجھ کرنے کے لیے جھونکا جا رہا ہے۔وہ بارود اس وسیع و عریض زرخیز زمین پر کیا گل کھلا رہا ہوگا جہاں دنیا کا ایک چوتھائی غلہ پیدا ہوتا ہے۔


انسان یہ سب اس زمین کے ساتھ کر رہا ہے جو اسے محد سے لحد تک پالتی ہے اور پھر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔بے شک انسان نہائیت نادان ، ناشکرا اور ظالم ہے۔


(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

Load Next Story