صوبوں کے اختیارات

سندھ جی ڈی پی کا 27 فیصد ہے لیکن اب بھی 37 فیصد دیہی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے

tauceeph@gmail.com

مریم نواز اور ان کے والد میاں نواز شریف پنجاب میں رائے عامہ کو مسلم لیگ ن کے حق میں ہموار کرنے کے لیے ہر مہینے نئی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں۔ اس وقت عوام کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا ہے۔ ان بجلی کے بلوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چھوٹے صارفین کے لیے فی یونٹ 14 روپے کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کا فائدہ 201 سے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ہوگا۔


پنجاب کی حکومت اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے بجٹ میں سے 45 بلین روپے خرچ کرے گی، یہ اسکیم صرف دو مہینوں کے لیے ہے۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے اس پیکیج کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بھی اس اسکیم سے فائدہ ہوگا۔ بجلی کے امور کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے بلوں میں 25 فیصد کمی ہوگی۔


اس ماہرکا کہنا ہے کہ اگر کسی صارف کا کل بل 5 ہزار روپے آتا ہے تو اب یہ بل 3 ہزار 500 روپے ہوجائے گا، یوں حکومت پنجاب کو ہر بل پر 1500 روپے ادا کرنے ہونگے۔ انگریزی میں اقتصادی امورکے رپورٹرکا اندازہ ہے کہ 12ملین صارفین کو اس اسکیم سے فائدہ ہوگا۔ ایک ماہرکا یہ بھی اندازہ ہے کہ پنجاب حکومت نے یہ اسکیم اس طرح تیارکی ہے کہ آئی ایم ایف کے ماہر بھی اس پر اعتراض نہیں کریں گے۔ کراچی والوں کے لیے خوش خبری ہے کہ بجلی 5 روپے 75 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کردی گئی ہے۔


اگلے دو مہینوں میں مون سون بارشوں کی بناء پر موسم کی گرمی میں فرق آئے گا، یوں کم بجلی استعمال ہونے کے امکانات ہونگے۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وفاقی حکومت کے بجائے ایک صوبے نے وفاق کے دائرہ میں آنے والے شعبے میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے پنجاب کے صارفین تو دو مہینے فائدہ اٹھائیں گے مگر باقی صوبوں کا بھی امتحان شروع ہوگیا ہے۔ خیبر پختون خوا اور سندھ نے فوری طور پر بجلی سستی کرنے سے انکار کردیا ہے۔


بلوچستان کی حکومت نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے کا نوٹس ہی نہیں لیا ۔ کے پی میں مسلسل تیسری بار پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ جب سے وفاق میں عمران خان کی حکومت تبدیل ہوئی ہے کے پی کی حکومت کی ساری توجہ وفاق سے جنگ و جدل پر ہے۔ صوبہ کے بیشتر حصے پر تحریک طالبان پاکستان کی اجارہ داری ہے، یوں سوائے کے پی کی حکومت صحت کارڈ کے اجراء کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکی ہے۔ کے پی کی آبادی ملک کی آبادی کا 11.9 فیصد ہے مگر جی ڈی پی میں حصہ 10.5 فیصد سے زیادہ بڑھ نہیں سکا ہے۔



عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 40 ملین افراد خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جوکل آبادی کا 33.3 فیصد بنتا ہے۔ کے پی حکومت کے اقتصادی امور کے مشیر مزمل اسلم نے پنجاب حکومت کی اس پیشکش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس طرح غربت ختم ہوگی؟ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے وسائل کا 51 فیصد پنجاب کو ملتا ہے، یوں وہ 145 ارب روپے عوام کے پیسہ سے عوام کو دے رہے ہیں، تو یہ بڑی ڈیل نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کے پی میں اس وقت 6 سے 7 روپے فی یونٹ ساڑھے پانچ ہزار میگا واٹ پیدا کرتے ہیں۔ مزمل اسلم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب کو 10 ہزار میگا واٹ بجلی دینے کے لیے ہم سب ادائیگی کر رہے ہیں مگر ان تمام دلائل کے باوجود مزمل اسلم اپنے عوام کو کوئی ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔


گورنر سندھ، کامران ٹیسوری نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو ایک خط کے ذریعے یہ مشورہ دیں گے کہ حکومت سندھ بجلی کے صارفین کے لیے ریلیف کا فیصلہ کرے۔ حکومت سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے صوبے کے عوام کو فوری ریلیف دینے سے انکارکرتے ہوئے واضح کیا کہ وفاقی حکومت 164 ارب روپے اس ریلیف کے لیے مختص کرے تو پھر صوبائی حکومت اپنے حصے کے 164 ارب روپے ادا کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرسکتی ہے۔ مرتضیٰ وہاب کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب کے عوام کو دو مہینوں کا ریلیف مل جائے گا تو پھرکیا ہوگا؟ سندھ کی آبادی 50.4 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ یہ ملک کی کل آبادی کا 23 فیصد ہے۔ سندھ جی ڈی پی کا 27 فیصد حصہ ہے اور اب بھی 37 فیصد دیہی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔


پیپلزپارٹی 2008سے سندھ پر حکومت کررہی ہے مگر غربت کی شرح کم نہیں ہوئی ہے۔ ایک غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں میں سیلاب سے متاثرہ افراد غربت کی بناء پر اپنی کم سن بچیوں کی شادیاں کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کا سالانہ ترقیاتی بجٹ پنجاب سے زیادہ ہے۔ پنجاب کا ترقیاتی بجٹ 842 ارب روپے ہے جب کہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ 959 ارب روپے ہے۔


پنجاب کی حکومت نے اپنے ترقیاتی منصوبوں میں سے 45 ارب روپے اس مقصد کے لیے مختص کیے ہیں۔ سندھ کی حکومت کو یہ ریلیف دینے کے لیے 10 ارب اور خیبر پختون خوا کو 18 ارب روپے اور بلوچستان کی حکومت کو 11 ارب روپے اس مقصد کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ایک ماہر نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ سندھ حکومت کے 959 ارب سے 34 فیصد بیرونی قرضے ہیں جب کہ پنجاب حکومت کے 842 ارب روپے میں 12 فیصد بیرونی قرضہ ہے۔ شعبہ معاشیات کے ماہر اس کے لیے Foreign Project Assistance کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ سندھ میں گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلابوں سے خاصی تباہی ہوئی تھی۔ حکومت سندھ نے عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے ان افراد کے گھروں کی تعمیرکے لیے قرضے کی کوششیں کیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے سیلاب سے متاثرہ افراد کے گھروں کی تعمیرکے لیے 400 بلین ڈالر کے رعایتی قرضہ کی منظوری دی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ سیلاب میں 12.6 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔ سندھ حکومت ان افراد کے لیے 2.1 ملین گھر تعمیرکر رہی ہے۔


مراد علی شاہ نے پنجاب سے آئے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ تھر کی بجلی سیدھی فیصل آباد جاتی ہے مگر اب سندھ کی حکومت اپنی کمپنی قائم کر رہی ہے۔ مستقبل میں سندھ کی حکومت خود ٹیرف مقرر کرے گی۔ سندھ حکومت کا عوام کو براہ راست ریلیف دینے کا ریکارڈ خاصا مایوس کن ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں پنجاب میں آٹے کی قیمت کم رہی مگر سندھ میں یہ قیمت ہمیشہ زیادہ رہی۔ اس سال پنجاب حکومت نے روٹی کی قیمت کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے۔ ایک نشست میں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی اس جانب توجہ مبذول کرائی گئی تو انھوں نے سندھ کی بیوروکریسی کی اہلیت پر مایوسی کا اظہارکیا تھا۔ بہرحال پنجاب کی حکومت کے اس بارے میں روزانہ ٹی وی چینلز پر نظر آنے والے اقدامات کے بعد سندھ کے مختلف ڈویژن کے کمشنر صاحبان نے روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اور پھر روٹی کی قیمت کم ہوئی، مگرکچھ عرصے بعد روٹی پرانی قیمت پر فروخت ہونے لگی۔


پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کا یہ دعویٰ ہے کہ سندھ صحت کے شعبے میں سب سے آگے ہے، وہ اس سلسلے میں سندھ کے تین سرکاری اسپتالوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں کہا کہ '' ان کی حکومت صحت کارڈ کے ذریعے انشورنس کمپنیوں کو رقم دینے کے بجائے اسپتالوں کو جدید بنانے پر توجہ دے رہی ہے، اس سے باقی صوبوں کو بھی سیکھنا چاہیے، مگر سندھ کے تین بڑے اسپتال ایس آئی یو ٹی، جناح اورکارڈیا لوجی اسپتال اورگمبٹ کا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام سے بہت پہلے سے کام کر رہے تھے۔گزشتہ دنوں ایس آئی یو ٹی کی انتظامیہ نے ہوٹل ریجنٹ پلازہ کو خرید کر اسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تو 15 ارب روپے کی رقم کے لیے بینکوں سے قرضہ لیا گیا۔ باقی صوبے میں صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔


رتوڈیرو اور لاڑکانہ کے گاؤں میں ایڈز کے مرض نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ کے ان اسپتالوں سے پورے ملک سے آنے والے مریض مستفید ہوتے ہیں۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ حکومت میں تبدیلی کی افواہیں بڑی شدت سے پھیلی ہوئی ہیں۔ شاید یہ وجہ بھی فیصلہ سازی کو متاثر کررہی ہے، مگر صوبائی خود مختاری کی اہمیت کو محسوس کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ جب میاں نواز شریف 1988 میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تھے تو انھوں نے پنجاب بینک کی بنیاد رکھی تھی اور پنجاب کا ٹی وی چینل شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا فائدہ دیگر صوبوں کو ہوا۔ یوں بجلی کے معاملے میں پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ باقی صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کرسکتا ہے، اگرچہ پنجاب کی حکومت کا یہ اقدام وقتی ہے اور اس سے پنجاب کے عوام کے معاشی مصائب کم نہیں ہونگے مگر دیگر صوبے یہ عارضی ریلیف بھی نہیں دے سکتے، یہ افسوس ناک ہے۔

Load Next Story