زباں فہمی نمبر219 بَخُدا اور باخُدا کا فرق
دن بہ دن۔ یا۔ دن بدن غلط ہے کیونکہ ’دِن‘ ہندی ہے اور ’بہ‘ فارسی۔ صحیح ترکیب روز بروز (بہ روز) ہے
جب آپ کسی بزرگ کو کسی علمی وادبی مسئلے میں سمجھانہ سکیں اور قائل کرنے میں ناکام ہوجائیں تو کیا کرنا چاہیے؟ یقینا اہل علم خصوصاً اہل ِ زبان اس بابت کچھ نہ کچھ ارشاد فرمائیں گے۔ بندہ ایسی صورت حال سے آئے دن دوچار ہوتا رہتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک ہندوستانی بزرگ نے کسی فیس بُک حلقے میں اپنی غزل پیش کی۔ ہر طرف سے داد تحسین کے ڈونگرے برس رہے تھے، خاکسار نے بھی اخلاقاً تعریف کرنا ضروری سمجھا، مگر تقصیر یہ ہوئی کہ اُن کے کلام میں ترکیب 'باخُدا' کے غلط استعمال(یعنی بجائے 'بَخُدا') کی نشان دہی کردی۔
اب جو موصوف نے بحث برائے بحث شروع کی تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ اور تجربہ کار تو ہیں، مگر فارسی اُنھیں چھُو کر بھی نہیں گزری۔ تان اِس پر ٹوٹی کہ آں جناب نے اپنے کسی 'نامعلوم' استاد کاحوالہ دے کر فرمایا کہ ترکیب 'باخدا' بجائے 'بخدا' بالکل صحیح ہے، دونوں صحیح ہیں اورکسی نامعلوم لغت کا عکس بھی پیش فرما دیا۔ ایک انہی بزرگ پر موقوف نہیں، ہمارے یہاں ایسے بہت سے شاعر ملیں گے جنھیں یہ فرق معلوم نہیں، مگر بہرحال کج بحثی بھی ہر ایک نہیں کرتا، بعض ہمیں کچھ اہم شخصیت سمجھ کر فوراً صاد کرتے ہیں کہ 'صاحب! مستند ہے آپ کا فرمایاہوا' تو بعض مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
خاکسار نے ماضی میں بھی ایک سے زائد بار اس باریک سے فرق کی نشان دہی اپنے کالم اور مضمون میں کی تھی، مگر موقع کی مناسبت سے ایک مرتبہ پھر اِن دونوں تراکیب کا فر ق واضح کرنا چاہتا ہوں:
ا)۔ فارسی میں لفظ 'بہ' کا مطلب ہے: سے، کو، میں
لفظ 'بہ' کے دیگر سے ملاپ کے بعد متعدد مرکب الفاظ معرض ِ وجود میں آئے جن میں سب سے مشہور 'بہ' سے بہ خدا (یعنی خدا کی قسم۔یا۔خدا کے لیے: حسن اللغات فارسی) ہے جو اہل ِ زبان کی تقلید میں ملا کر بخدا لکھا جاتا ہے۔ فارسی میں کہا گیا:
ع بخدا کہ واجب آمد زِتو احتراز کردن
دیگرمقامات پر 'بہ' کا استعمال ملاحظہ فرمائیں:
راہی بہ خدا دارد خلوت گہ تنہائی
آنجا کہ روی از خود آنجا کہ بہ خود آئی
(شاعر نامعلوم)
بخدا غیر خدا در دو جہاں چیزے نیست
بے نشانست کزو نام و نشاں چیزے نیست
(جامیؔ)
دیگر مرکب الفاظ کی مثالیں: بہ آسانی (باآسانی غلط)،بہ اِستِثناء،بہ اِفراط، بہ اِیں، بہ اِیں ہمہ،بجا،بحُسن وخوبی،بحُکم،بخاطر (فارسی میں: بخاطر آوُردَن یعنی خیال میں لانا،سوچنا اور توجہ دینا)، بخاک (فارسی میں: بخاک اُفتادَن یعنی خاک میں ملنا، ذلیل وخوار ہونا اور دیگر متعدد تراکیب)۔اردومیں مستعمل بے شمار الفاظ میں یہی 'بہ' مختصر ہوکر شامل ہوا اور آج بعض 'جدیدیے' یہ تحریک چلاتے ہیں کہ انھیں دوبارہ سے الگ الگ لکھا جائے، مثلاً بتدریج، بجا،بجاآوری، بچشم، بحال، بحق، بحیثیت، بخوبی،بخوشی،بخیر، بخیروخوبی، بخیروعافیت،بدرجہا، بدرجہ اتم، بدست، بدولت، بذریعہ،براہ، براہِ راست، برضا ورغبت، بسروچشم، بشرط، بشرطیکہ (یہ بشرطے+ کہ ہے،نہ کہ بشرطِ کہ یا بشرط یہ کہ)،بطرز، بطور، بطریق(جیسے بطریق ِ احسن)،بظاہر، بغور، بغیر، بقلم خود، بقول، بقیدِ حیات (باحیات یا فقط 'حیات' بمعنی زندہ کہنا غلط ہے)، بکثرت، بَلَب (جیسے جاں بَلَب)، بمشکل، بوجوہ، بوجہ۔البتہ یہاں یادر کھنے کی بات ہے کہ بہ الفاظ ِ دیگرالگ الگ ہی لکھنا چاہیے، جبکہ بہ بانگِ دُہل کو ببانگِ دُہل لکھاجانا صحیح ہے۔
یہاں دو اَہم نِکات بیا ن کرتاچلوں:
ا)۔ دن بہ دن۔ یا۔ دن بدن غلط ہے کیونکہ 'دِن' ہندی ہے اور 'بہ' فارسی۔ صحیح ترکیب روز بروز (بہ روز) ہے۔ اسی طرح موضوع سے ہٹ کر عرض کردوں کہ "آئے دن" صحیح ہے، "آئے روز" نہیں!
ب)۔عوامی بول چال یا چالو بولی ٹھولی [Slang]میں گھر بگھر اور ہاتھ بہ ہاتھ بھی رائج رہے، مگر غلط (بحوالہ فرہنگ آصفیہ)
آنلائن لغات میں سب سے مقبول،ریختہ ڈکشنری نے مرکب لفظ 'بَخُدا' کی یہ تعریف نقل کی ہے:
بَخُدا: اصل: فارسی
بَخُدا کے اردو معانی: فعل متعلق; خدا کی قسم، بہ سوگند خدا، واللہ
یہاں عجیب ترکیب نقل کی گئی "بہ سوگندِ خُدا"۔سوگند قدیم فارسی لفظ ہے، مگر نمعلوم کیوں ہمیں ہندی جیسا لگتا ہے۔ویسے اس کا استعمال پنجاب کی مختلف زبانو ں اور اُردو میں ہوتا رہا ہے، غالباً اس کا مترادف پنجابی کا 'سونہہ' ہے۔
اردومیں 'بخدا' کے استعمال کاسب سے مشہور اور عمدہ نمونہ اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی (رحمۃاللہ علیہ) کے اس شعر میں ملتا ہے:
بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مَفَرّ مَقَرّ
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو، جو یہاں نہیں، وہ وہاں نہیں
(اعلیٰ حضرت احمدرضاخان بریلوی)
حُسنِ اتفاق دیکھیں کہ اعلیٰ حضرت کے خلیفہ مُجازعلامہ مفتی احمدیارخان نعیمی (رحمۃ اللہ علیہ) کے 'دیوانِ سالکؔ' میں بھی ایک اچھی مثال موجود ہے:
بخدا،خدا سے ہے وہ جدا،جو حبیبِ حق (ﷺ)پہ فدا نہیں
وہ بشر ہے دین سے بے خبر جو رَہِ نبی (ﷺ) میں گُما نہیں
یہاں علّامہ نعیمی نے 'گُما' (یعنی گُم ہونا) باندھا ہے جو عوامی بو ل چال ہے، گویا Slangکی مثال ہے۔
ہمارے بچپن میں نعت کا یہ شعر بہت زیادہ مقبول ہوا:
وہ خدا نہیں، بخدا نہیں، وہ مگر خدا سے جدا نہیں
وہ ہیں کیا مگر، وہ ہیں کیا نہیں، یہ محب، حبیب کی بات ہے
(منورؔ بدایونی)
نعت ہی میں 'بخدا' کا استعمال ہمارے ایک بزرگ معاصر پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی مرحوم نے یوں کیا:
رب کا محبوب بشر ہے بخدا کون؟ کہ آپ (ﷺ)
نور ہی نور مگر ہے بخدا کون؟ کہ آپ (ﷺ)
ہم کون ہیں، کیا ہیں بخدا یاد نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں
یہاں کچھ اور ہی رنگ میں 'بخدا' کا استعمال ہوا ہے:
بخدا! بھول گئے اپنی مصیبت بسملؔ
یاد جب آئے محمد (ﷺ)کے گھرانے والے
(بسملؔ عظیم آبادی)
ایک اور مختلف مثال دیکھیے:
بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔ
ایک دو لاکھ سواروں میں بہادر تھا حُرؔ
(میر انیسؔ)
فارِس یہاں عربی الاصل لفظ ہے جس کا مطلب ہے شہسوار یعنی گھُڑ سَوار۔
ہماری سب سے توانا اور سدا بہار صنف ِ سخن غز ل میں 'بخدا' کا استعمال بہت ہوا اور خوب ہوا۔چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
تُو بھی تقریب ِفاتحہ سے چل!
بخدا!واجبُ الزّیارت ہے!
(میر تقی میرؔ)
قیدی ہوں میں ترا بخدا وندی اے خدا
اور اس عزیز مصر کے زندان کی قسم
(انشاء اللہ خاں انشاءؔ)
اسلام سے برگشہ نہ ہوتے، بخدا ہم!
گرعشق بتاں، طبع کے مر غو ب نہ ہوتا
(قلندربخش جرأ ت)
مومنؔ بخدا! سحر بیانی کا جبھی تک
ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
(مومن خاں مومنؔ)
کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
کچھ کرتے ہیں ایسا بخدا کچھ نہیں کرتے
(بہادر شاہ ظفرؔ)
یاد میں ایک صنم کی ناصح
میں تو سب کچھ بخدا بھول گیا
(نظام ؔرامپوری)
بچ بچ کے گزر جاؤ ہو تم پاس سے میرے
تم تو بخدا! غیروں کو بھی مات کرو ہو
(اقبالؔ عظیم)
رنگ رس ہے میری رگوں میں رواں
بخدا!میری زندگی ہے شراب
(جون ایلیا)
باعثِ امن و محبت ہے اگر میرا لہو
قطرہ قطرہ بخدا دے کے چلا جاؤں گا
(مظفر رزمی)
کس بات کا تو قول و قسم لے ہے برہمن
ہر بات بتوں کی بخدا! یاد رہے گی
(کلیم عاجزؔ)
میرے مولا یہ ترے سات ارب لوگوں میں
کوئی بھی میرا نہیں ہے بخدا! کوئی نہیں
(خان جانباز)
ب)۔ فارسی لفظ 'با' کا مطلب ہے: ساتھ، کے ساتھ۔ حسن اللغات فارسی میں مزید اضافے یوں کیے گئے:
سمیت، کو، اور، مقابلہ، طرف،مدد، عوض، سامنے۔ا ب ذرا لغت کی مددسے اسے سمجھ لیں:
با۔فارسی۔حرفِ ربط: ساتھ، ہمراہ، مع۔مثالیں:بااَثر،بااختیار،بااَدب،بااِیمان،باآبرو،باآفریں،باآنکہ (باوجودیکہ)،بااہلیہ (مع اہل وعیال) باتدبیر،باتمیز،باحیا، باخبر، باشوق، باضابطہ، باقاعدہ،بامروّت، باہنر،باہوش،باوجود، باوصف، باوضع، باوَفا (فرہنگ ِ آصفیہ)۔اردو میں بہت مشہور مَثَل ہے: "بااَدب با نصیب، بے ادب بے نصیب"
لفظ 'با' کے متعلق ریختہ ڈکشنری کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
با خُدا۔اصل: فارسی۔با خُدا کے اردو معانی:صفت:خدا کی قسم،خدا رسیدہ، خدا پرست، اللہ والا(جیسے مردِ باخُدا: س اص)
شعر:
ٹٹولو، پرکھ لو، چلو آزمالو
خداکی قسم، باخداآدمی ہوں
(شمیم عباس)
پچھلے دنوں ایک ہندوستانی بزرگ نے کسی فیس بُک حلقے میں اپنی غزل پیش کی۔ ہر طرف سے داد تحسین کے ڈونگرے برس رہے تھے، خاکسار نے بھی اخلاقاً تعریف کرنا ضروری سمجھا، مگر تقصیر یہ ہوئی کہ اُن کے کلام میں ترکیب 'باخُدا' کے غلط استعمال(یعنی بجائے 'بَخُدا') کی نشان دہی کردی۔
اب جو موصوف نے بحث برائے بحث شروع کی تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ اور تجربہ کار تو ہیں، مگر فارسی اُنھیں چھُو کر بھی نہیں گزری۔ تان اِس پر ٹوٹی کہ آں جناب نے اپنے کسی 'نامعلوم' استاد کاحوالہ دے کر فرمایا کہ ترکیب 'باخدا' بجائے 'بخدا' بالکل صحیح ہے، دونوں صحیح ہیں اورکسی نامعلوم لغت کا عکس بھی پیش فرما دیا۔ ایک انہی بزرگ پر موقوف نہیں، ہمارے یہاں ایسے بہت سے شاعر ملیں گے جنھیں یہ فرق معلوم نہیں، مگر بہرحال کج بحثی بھی ہر ایک نہیں کرتا، بعض ہمیں کچھ اہم شخصیت سمجھ کر فوراً صاد کرتے ہیں کہ 'صاحب! مستند ہے آپ کا فرمایاہوا' تو بعض مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
خاکسار نے ماضی میں بھی ایک سے زائد بار اس باریک سے فرق کی نشان دہی اپنے کالم اور مضمون میں کی تھی، مگر موقع کی مناسبت سے ایک مرتبہ پھر اِن دونوں تراکیب کا فر ق واضح کرنا چاہتا ہوں:
ا)۔ فارسی میں لفظ 'بہ' کا مطلب ہے: سے، کو، میں
لفظ 'بہ' کے دیگر سے ملاپ کے بعد متعدد مرکب الفاظ معرض ِ وجود میں آئے جن میں سب سے مشہور 'بہ' سے بہ خدا (یعنی خدا کی قسم۔یا۔خدا کے لیے: حسن اللغات فارسی) ہے جو اہل ِ زبان کی تقلید میں ملا کر بخدا لکھا جاتا ہے۔ فارسی میں کہا گیا:
ع بخدا کہ واجب آمد زِتو احتراز کردن
دیگرمقامات پر 'بہ' کا استعمال ملاحظہ فرمائیں:
راہی بہ خدا دارد خلوت گہ تنہائی
آنجا کہ روی از خود آنجا کہ بہ خود آئی
(شاعر نامعلوم)
بخدا غیر خدا در دو جہاں چیزے نیست
بے نشانست کزو نام و نشاں چیزے نیست
(جامیؔ)
دیگر مرکب الفاظ کی مثالیں: بہ آسانی (باآسانی غلط)،بہ اِستِثناء،بہ اِفراط، بہ اِیں، بہ اِیں ہمہ،بجا،بحُسن وخوبی،بحُکم،بخاطر (فارسی میں: بخاطر آوُردَن یعنی خیال میں لانا،سوچنا اور توجہ دینا)، بخاک (فارسی میں: بخاک اُفتادَن یعنی خاک میں ملنا، ذلیل وخوار ہونا اور دیگر متعدد تراکیب)۔اردومیں مستعمل بے شمار الفاظ میں یہی 'بہ' مختصر ہوکر شامل ہوا اور آج بعض 'جدیدیے' یہ تحریک چلاتے ہیں کہ انھیں دوبارہ سے الگ الگ لکھا جائے، مثلاً بتدریج، بجا،بجاآوری، بچشم، بحال، بحق، بحیثیت، بخوبی،بخوشی،بخیر، بخیروخوبی، بخیروعافیت،بدرجہا، بدرجہ اتم، بدست، بدولت، بذریعہ،براہ، براہِ راست، برضا ورغبت، بسروچشم، بشرط، بشرطیکہ (یہ بشرطے+ کہ ہے،نہ کہ بشرطِ کہ یا بشرط یہ کہ)،بطرز، بطور، بطریق(جیسے بطریق ِ احسن)،بظاہر، بغور، بغیر، بقلم خود، بقول، بقیدِ حیات (باحیات یا فقط 'حیات' بمعنی زندہ کہنا غلط ہے)، بکثرت، بَلَب (جیسے جاں بَلَب)، بمشکل، بوجوہ، بوجہ۔البتہ یہاں یادر کھنے کی بات ہے کہ بہ الفاظ ِ دیگرالگ الگ ہی لکھنا چاہیے، جبکہ بہ بانگِ دُہل کو ببانگِ دُہل لکھاجانا صحیح ہے۔
یہاں دو اَہم نِکات بیا ن کرتاچلوں:
ا)۔ دن بہ دن۔ یا۔ دن بدن غلط ہے کیونکہ 'دِن' ہندی ہے اور 'بہ' فارسی۔ صحیح ترکیب روز بروز (بہ روز) ہے۔ اسی طرح موضوع سے ہٹ کر عرض کردوں کہ "آئے دن" صحیح ہے، "آئے روز" نہیں!
ب)۔عوامی بول چال یا چالو بولی ٹھولی [Slang]میں گھر بگھر اور ہاتھ بہ ہاتھ بھی رائج رہے، مگر غلط (بحوالہ فرہنگ آصفیہ)
آنلائن لغات میں سب سے مقبول،ریختہ ڈکشنری نے مرکب لفظ 'بَخُدا' کی یہ تعریف نقل کی ہے:
بَخُدا: اصل: فارسی
بَخُدا کے اردو معانی: فعل متعلق; خدا کی قسم، بہ سوگند خدا، واللہ
یہاں عجیب ترکیب نقل کی گئی "بہ سوگندِ خُدا"۔سوگند قدیم فارسی لفظ ہے، مگر نمعلوم کیوں ہمیں ہندی جیسا لگتا ہے۔ویسے اس کا استعمال پنجاب کی مختلف زبانو ں اور اُردو میں ہوتا رہا ہے، غالباً اس کا مترادف پنجابی کا 'سونہہ' ہے۔
اردومیں 'بخدا' کے استعمال کاسب سے مشہور اور عمدہ نمونہ اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی (رحمۃاللہ علیہ) کے اس شعر میں ملتا ہے:
بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مَفَرّ مَقَرّ
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو، جو یہاں نہیں، وہ وہاں نہیں
(اعلیٰ حضرت احمدرضاخان بریلوی)
حُسنِ اتفاق دیکھیں کہ اعلیٰ حضرت کے خلیفہ مُجازعلامہ مفتی احمدیارخان نعیمی (رحمۃ اللہ علیہ) کے 'دیوانِ سالکؔ' میں بھی ایک اچھی مثال موجود ہے:
بخدا،خدا سے ہے وہ جدا،جو حبیبِ حق (ﷺ)پہ فدا نہیں
وہ بشر ہے دین سے بے خبر جو رَہِ نبی (ﷺ) میں گُما نہیں
یہاں علّامہ نعیمی نے 'گُما' (یعنی گُم ہونا) باندھا ہے جو عوامی بو ل چال ہے، گویا Slangکی مثال ہے۔
ہمارے بچپن میں نعت کا یہ شعر بہت زیادہ مقبول ہوا:
وہ خدا نہیں، بخدا نہیں، وہ مگر خدا سے جدا نہیں
وہ ہیں کیا مگر، وہ ہیں کیا نہیں، یہ محب، حبیب کی بات ہے
(منورؔ بدایونی)
نعت ہی میں 'بخدا' کا استعمال ہمارے ایک بزرگ معاصر پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی مرحوم نے یوں کیا:
رب کا محبوب بشر ہے بخدا کون؟ کہ آپ (ﷺ)
نور ہی نور مگر ہے بخدا کون؟ کہ آپ (ﷺ)
ہم کون ہیں، کیا ہیں بخدا یاد نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں
یہاں کچھ اور ہی رنگ میں 'بخدا' کا استعمال ہوا ہے:
بخدا! بھول گئے اپنی مصیبت بسملؔ
یاد جب آئے محمد (ﷺ)کے گھرانے والے
(بسملؔ عظیم آبادی)
ایک اور مختلف مثال دیکھیے:
بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔ
ایک دو لاکھ سواروں میں بہادر تھا حُرؔ
(میر انیسؔ)
فارِس یہاں عربی الاصل لفظ ہے جس کا مطلب ہے شہسوار یعنی گھُڑ سَوار۔
ہماری سب سے توانا اور سدا بہار صنف ِ سخن غز ل میں 'بخدا' کا استعمال بہت ہوا اور خوب ہوا۔چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
تُو بھی تقریب ِفاتحہ سے چل!
بخدا!واجبُ الزّیارت ہے!
(میر تقی میرؔ)
قیدی ہوں میں ترا بخدا وندی اے خدا
اور اس عزیز مصر کے زندان کی قسم
(انشاء اللہ خاں انشاءؔ)
اسلام سے برگشہ نہ ہوتے، بخدا ہم!
گرعشق بتاں، طبع کے مر غو ب نہ ہوتا
(قلندربخش جرأ ت)
مومنؔ بخدا! سحر بیانی کا جبھی تک
ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
(مومن خاں مومنؔ)
کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
کچھ کرتے ہیں ایسا بخدا کچھ نہیں کرتے
(بہادر شاہ ظفرؔ)
یاد میں ایک صنم کی ناصح
میں تو سب کچھ بخدا بھول گیا
(نظام ؔرامپوری)
بچ بچ کے گزر جاؤ ہو تم پاس سے میرے
تم تو بخدا! غیروں کو بھی مات کرو ہو
(اقبالؔ عظیم)
رنگ رس ہے میری رگوں میں رواں
بخدا!میری زندگی ہے شراب
(جون ایلیا)
باعثِ امن و محبت ہے اگر میرا لہو
قطرہ قطرہ بخدا دے کے چلا جاؤں گا
(مظفر رزمی)
کس بات کا تو قول و قسم لے ہے برہمن
ہر بات بتوں کی بخدا! یاد رہے گی
(کلیم عاجزؔ)
میرے مولا یہ ترے سات ارب لوگوں میں
کوئی بھی میرا نہیں ہے بخدا! کوئی نہیں
(خان جانباز)
ب)۔ فارسی لفظ 'با' کا مطلب ہے: ساتھ، کے ساتھ۔ حسن اللغات فارسی میں مزید اضافے یوں کیے گئے:
سمیت، کو، اور، مقابلہ، طرف،مدد، عوض، سامنے۔ا ب ذرا لغت کی مددسے اسے سمجھ لیں:
با۔فارسی۔حرفِ ربط: ساتھ، ہمراہ، مع۔مثالیں:بااَثر،بااختیار،بااَدب،بااِیمان،باآبرو،باآفریں،باآنکہ (باوجودیکہ)،بااہلیہ (مع اہل وعیال) باتدبیر،باتمیز،باحیا، باخبر، باشوق، باضابطہ، باقاعدہ،بامروّت، باہنر،باہوش،باوجود، باوصف، باوضع، باوَفا (فرہنگ ِ آصفیہ)۔اردو میں بہت مشہور مَثَل ہے: "بااَدب با نصیب، بے ادب بے نصیب"
لفظ 'با' کے متعلق ریختہ ڈکشنری کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
با خُدا۔اصل: فارسی۔با خُدا کے اردو معانی:صفت:خدا کی قسم،خدا رسیدہ، خدا پرست، اللہ والا(جیسے مردِ باخُدا: س اص)
شعر:
ٹٹولو، پرکھ لو، چلو آزمالو
خداکی قسم، باخداآدمی ہوں
(شمیم عباس)