بنگلادیش میں کیا ہوا کیوں ہوا مختلف سوالوں کا جواب
’’طلبہ نے صاف کہہ دیا تھا۔۔۔۔سیاسی جماعتیں دور رہیں‘‘
بنگلادیش میں طلباء کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ بنگلادیش میں پندرہ سال سے قائم عوامی لیگ کی مضبوط حکومت جوشیلے نوجوانوں کے سیل رواں کے سامنے ٹھہر نہ سکی وزیراعظم ملک سے فرار ہوگئیں اور ان کے جابرانہ دورِحکومت کی تمام نشانیاں بنگلادیش کے عوام مٹا دینے کے درپے ہے۔
پاکستان بنگلادیش میں انقلاب کے اُتارچڑھاؤ کو بغور دیکھ رہا ہے۔ عوام سے لے کر مقتدر حلقوں تک سب ہی بنگلادیش میں انقلاب کو اپنے اپنے تناظر میں ایک سبق قرار دے رہے ہیں جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے حسبِ معمول پاکستان سے مخاصمت کا اظہار کرتے ہوئے بنگلادیش میں شیخ حسینہ مخالف تحریک میں پاکستان پر امداد کا الزام دھر دیا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس کا موثر جواب دیا جاچکا ہے۔ تاہم بھارت کا سرکاری اور سوشل میڈیا متواتر دنیا کو بنگلادیش میں ''اسلامی شدت پسند عناصر کے غلبے'' کا تاثر دیتے ہوئے متوجہ کر رہے ہیں اور بنگلادیش میں ہنگامہ آرائی کے دوران ہندو آبادی کو نشانہ بنانے کا شور مچا رہے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ، سیاسی راہ نما اور اراکین پارلیمنٹ، بنگلادیش میں مقیم ہندو آبادی کی نسل کشی، اس کی املاک کی تباہی اور خواتین کی عصمت دری کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ تصاویر اور وڈیوز کے ذریعے بنگلادیش کے انقلاب کا ڈراؤنا نقشہ کھینچا جارہا ہے۔
حقائق کیا ہیں؟ اس بارے میں بنگلادیش کے ''فیکٹ چیکر'' اور انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ قدرالدین شہشیر نے ہم سے گفتگو کی، جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
ڈھاکا میں مقیم قدرالدین ایک انٹرنیشنل نیوزایجنسی سے وابستہ ہیں۔ وہ بنگلادیش میں جولائی سے شروع ہونے والے طلباء احتجاج، جو کہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف تھا، سے لے کر اب تک کی صورت حال کی ''فیکٹ چیک'' پر مبنی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ قدرالدین نے بتایا کہ بنگلادیش میں طاقت کا ہر وہ مرکز جو شیخ حسینہ کے اقدامات کا حامی تھا، اسے نوجوان اسے کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلادیش کے چیف جسٹس عبیداللّہ حسن نے عبوری حکومت کی مرضی کے بغیر فل کورٹ اجلاس بلا لیا تھا، اسے ''جیوڈیشل کو'' سمجھا گیا۔ طلباء مشتعل تھے کیوںکہ ان کے خیال میں حسینہ واجد اپنے تمام جمہور مخالف اقدامات پر اپنے حامی ججوں بشمول چیف جسٹس کے فیصلوں کے ذریعے عمل درآمد کرواتی تھیں۔ طلباء نے سپریم کورٹ کے باہر بھرپور احتجاج کیا۔ وہ نہ صرف چیف جسٹس بلکہ سابقہ حکومت کے حامی دیگر ججوں کے استعفے لینے میں بھی کام یاب ہوئے۔
''لوٹ مار کے ڈر سے اے، ٹی، ایم بند''
قدرالدین نے بتایا کہ پُرتشدد ہنگاموں کے بعد اب بنگلادیش میں صورت حال معمول پر آرہی ہے مگر ان علاقوں میں ابھی تک ہنگامہ آرائی جاری ہے جہاں عوامی لیگ کے نمائندے موجود ہیں۔ بازاروں میں کھانے پینے کی اشیاء دست یاب ہیں لیکن دو ہفتوں تک حالات بہت خراب رہے۔ بینک، کاروباری مراکز، گروسری اسٹورز اور اے، ٹی، ایم مراکز لوٹ مار کے ڈر سے بند رہے۔ قدرالدین نے کہا،''مجھے خود پیسوں کی ضرورت تھی لیکن 10 جگہوں پر واقع اے ٹی ایم پر کوشش کرلی، سب بند ملے، اب طلباء نے سڑکیں کھول دی ہیں، تاہم پیٹرول پمپ کئی جگہ بند ہیں۔''
''پولیس کے خلاف ''کریک ڈاؤن''
قدرالدین نے بتایا کہ طلباء کے احتجاجی مظاہرے پر گولیاں چلا دینے کے بعد عوام کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ مظاہروں کے دوران 10/12 سال کے بچوں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ ان واقعات نے عوام کو مشتعل کردیا۔ انہوں نے پولیس کو اپنے غیظ وغضب کا نشانہ بنایا۔ خصوصاً شیخ حسینہ کے ملک سے فرار کے بعد عوام نے پولیس کے خلاف ''کریک ڈاؤن'' کردیا، جہاں کوئی پولیس والا نظر آیا اسے مارا گیا، موجودہ کُل 700 پولیس اسٹیشنز میں سے 450 اسٹیشنز پر حملے کیے گئے، نتیجتاً پورا سسٹم بیٹھ گیا۔ پولیس اسٹیشن خالی ہوگئے اور ہر جگہ سے پولیس غائب ہوگئی۔ چار دن تک یہی صورت حال رہی۔ طالب علموں نے خود ٹریفک کنٹرول کیا۔ تاہم اب حالات بہتر ہیں، عبوری حکومت بننے کے بعد پولیس آہستہ آہستہ منظرعام پر آرہی ہے۔
شیخ مجیب کے مجسمے توڑنے کی تین وجوہ
حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد بنگلادیش میں ہنگامہ آرائی کے واقعات میں پاکستانیوں کے لیے سب سے ''عبرت انگیز'' منظر شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسموں کی توڑ پھوڑ تھی۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بنگلادیش کے ''بانی'' شیخ مجیب الرحمٰن جنہیں 1971 میں پاکستان دولخت کرنے کا ذمے دار قرار دیا گیا، انھیں بنگلادیش نے اپنی آزادی کا ہیرو مانا اور ''بنگلا بندھو'' (بنگال کا دوست) کا خطاب دیا، لیکن چشم فلک کے ساتھ سقوط ڈھاکا کے مناظر دیکھنے والی نسل نے بھی محض 42 سال بعد ہی دیکھ لیا کہ ''بانیٔ بنگلادیش شیخ مجیب'' کے مجسمے توڑے اور رگیدے جارہے ہیں۔
صحافی قدرالدین نے ہمیں بتایا کہ شیخ مجیب کے مجسموں پر لوگوں کے غیظ وغضب کی وجوہ یہ تھیں کہ شیخ حسینہ کے دور میں اپنے والد کے مجسموں پر کثیر قومی سرمایہ خرچ کیا گیا۔ قدرالدین کے مطابق بنگلادیش میں کوئی اہم سرکاری عمارت، سڑک یہاں تک کہ اسپتال بھی ایسا نہ تھا جہاں مجیب کے مجسمے ''بنگلابندھو'' کے ٹائٹل کے ساتھ نصب نہ کیے گئے ہوں۔ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے سوا باقی لوگ اسے پیسے کا زیاں سمجھتے تھے جب کہ ملک پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار تھا۔ قدرالدین نے مزید بتایا کہ ''آزادی کے ہیرو''صرف مجیب الرحمٰن نہیں تھے، لوگ انھیں اب ''پوسٹر بوائے'' کہتے تھے جب کہ دیگر راہ نما جیسے مولانا عبد الحمید بھاشانی، تاج الدین احمد، امیر السلام، ضیاء الرحمٰن، آزادی کے بڑے راہ نما ہیں، مولانا بھاشانی تو شیخ مجیب کے بھی لیڈر تھے۔ ان شخصیات کو چاہنے والوں کو اعتراض تھا کہ ان کے مجسمے کہیں نظر نہیں آتے۔ قدرالدین کے مطابق بنگلادیش میں حسینہ واجد کے جابرانہ اقتدار سے منسوب ہر وہ شے جو ان کی ''آمریت'' کی عکاس ہے اب عوام کے غضب کا شکار ہے۔
''معاشی حقائق کی غلط بیانی لے ڈوبی''
صحافی قدرالدین کہتے ہیں کہ حسینہ کے پندرہ سالہ دورِاقتدار میں بنگلادیش نے واضح معاشی ترقی کی، تاہم اس کے نتائج عوام تک نہیں پہنچے بلکہ کرپشن کی نذر ہوئے اور اس ضمن میں اعدادوشمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ بھارتی میڈیا نے بھی حکومت کا امیج بڑھانے میں ان کا ساتھ دیا اور معاشی کام یابی کی ایسی کہانیاں شائع کیں جن میں حقیقت نہیں تھی۔
قدرالدین نے کہا کہ ''دی اکنامسٹ'' سمیت دیگر عالمی اور بنگلادیشی اخبارات و جرائد میں کچھ عرصے سے اعدادوشمار کی غلط بیانی کے متعلق لکھا جارہا ہے۔ دراصل 2023 میں مالی مشکلات کے سبب بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے دوران اعدادوشمار میں ہیرپھیر کا معاملہ کھلا۔ حکومت کی جانب سے بتایا جاتا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر31 بلین ڈالر ہیں جب کہ آئی ایم ایف نے دستاویزات کی جانچ پڑتال کی تو انھوں کئی بے قاعدگیوں کے ساتھ یہ نشان دہی بھی کی کہ زرمبادلہ کے ذخائر 24 بلین ڈالر سے کم ہیں۔
بھارت کا واویلا اور حقائق
شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلادیش میں ہوئی ہنگامہ آرائی کے متعلق بھارت کا سرکاری اور سوشل میڈیا زورشور سے بنگلادیش میں مندروں پر حملے، ہندوؤں کے قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کے الزامات عائد کررہا ہے اور اس ضمن میں وڈیو اور تصاویر جاری کی جارہی ہیں۔
قدرالدین فیکٹ چیکنگ کے حوالے سے اس پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں،''ملک میں چار دن تک پولیس موجود نہیں تھی، شدت پسند عناصر ہر جگہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بنگلادیش میں بعض جگہ مندروں کے سامنے آگ لگائی گئی، لیکن بھارتی میڈیا اس معاملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ ہنگامہ آرائی میں زیادہ تر پولیس اور عوامی لیگ سے منسوب افراد کو مارا پیٹا اور ہلاک کیا گیا ہے۔ بنگلادیش کی ہندو، بدھسٹ، کرسچیئین یونٹی کونسل کے مطابق گیارہ گست تک فسادات میں چار ہندو مارے گئے۔ میں نے تحقیق کی تو ان میں سے دو کا تعلق پولیس اور عوامی لیگ سے تھا۔ اسی طرح ملک کے کل 27 اضلاع میں جہاں ہزاروں گھروں میں لوٹ مار اور آتش زنی کے واقعات ہوئے، یونٹی کونسل کے مطابق ان میں 200کے قریب گھرانے اقلیتوں کے ہوسکتے ہیں۔ خواتین کی عصمت دری کے واقعات کی بھی مصدقہ اطلاعات نہیں مل سکیں، جب کہ کئی مقامات پر عوام نے غیرمسلم کمیونٹی کی جان ومال کی خود حفاظت کی۔ انھوں نے کہا کہ الجزیرہ سمیت عالمی میڈیا بھارت کے جھوٹ کا پول کھول رہا ہے۔
حسینہ کا حامی میڈیا بھی نشانہ
قدرالدین نے بتایا کہ شیخ حسینہ کی حمایت کرنے والے صحافی اور میڈیا ہاؤس بھی مشتعل عوام کے ہاتھوں محفوظ نہ رہے۔ ڈھاکا میں زیادہ تر ٹی وی چینلز اور اخبارات کے دفاتر پر حملے کیے گئے ہیں۔ شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی جہاں لوگ صحافیوں میں جانب داری کے رحجان کے متعلق جانتے تھے، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی صحافی منظرعام سے غائب ہیں اور میڈیا کو خبررسانی میں مشکل پیش آرہی ہے۔ قدرالدین نے بتایا کہ انٹرنیشنل میڈیا سے وابستہ صحافی محفوظ رہے، لوگ ان کی غیرجانب داری پر بھروسا رکھتے ہیں۔
''ہم سے دور رہیں'' تحریکی طلباء کا انتباہ
قدرالدین نے احتجاجی تحریک چلانے والے طلباء کے سیاسی پس منظر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بنگلادیش میں سرکاری ملازمتوں میں تحریک آزادی میں حصہ لینے والے خاندانوں کے لیے 30 فی صد کوٹے کے خلاف طلباء کی تحریک قطعی غیرسیاسی تھی۔ احتجاج کرنے والے طلباء میں حکومتی جماعت عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ ''چھاتر لیگ'' کا ڈھاکا یونیورسٹی یونین کا اسٹوڈنٹ لیڈر سرجیس عالم بھی شامل تھا۔ طلباء نے ''اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈس کریمینشن'' تشکیل دی جس کی کوئی مدر آرگنائزیشن نہیں ہے۔ کوٹے کے خلاف طلباء احتجاج جب شدت اختیار کر رہا تھا تو اس وقت ''بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی'' (بی این پی) اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے طلباء سے رابطے کیے جن کا مقصد ان کے احتجاج میں شریک ہونا تھا لیکن طلباء نے صاف کہہ دیا کہ ان کی تحریک سیاسی نہیں ہے، سیاسی جماعتیں ان سے دور رہیں۔ طلباء کا احتجاج، حکومت مخالف تحریک میں اس وقت تبدیل ہوا جب پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چھے طالب علم ہلاک کردیے۔ 18 جولائی تک 50سے زائد مظاہرین ہلاک کیے جاچکے تھے۔ اس کے بعد احتجاج قومی تحریک میں تبدیل ہوگیا۔
قدرالدین کہتے ہیں کہ بنگلادیش میں احتجاجی تحریک کو غیرملکی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کے متعلق پروپیگنڈا بے بنیاد ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اپنے ملازمتوں کے حق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے طالب علموں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائی ہیں۔ لوگ حسینہ رجیم کے خاتمے پر حقیقی خوشی کا اظہار کررہے ہیں، کیوںکہ ان کا دورِحکومت آمرانہ طرز اختیار کرچکا تھا۔ بنگلادیش میں حکومت کی تبدیلی پر ہوسکتا ہے امریکا، پاکستان یا دیگر ممالک خوش ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلادیش نے جبر کے دور سے آزادی کسی سازشی نظریے کے تحت حاصل کی ہے۔ اس تحریک کی جڑیں زمینی حقائق سے جڑی ہوئی تھیں کیوںکہ بنگلادیش کے عوام اپنے حق کے لیے لڑنا جانتا ہیں۔
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
صحافی قدرالدین اپنے ملک کے مستقبل کے متعلق پُرامید ہیں۔ انھوں نے کہا،''نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہوچکی ہے۔ یہ حکومت نئے انتخابات کے متعلق فیصلے کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ الیکشن جلد ہوںگے یا نہیں، اگر انتخابات کا جلد انعقاد کیا جاتا ہے تو بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اقتدار میں آسکتی ہے، کیوںکہ اس جماعت کے پاس پورا اسٹرکچر موجود ہے۔ تاہم عبوری حکومت اگر چند سال اقتدار میں رہتی ہے تو انقلابی ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں لا سکتے ہیں۔ قدرالدین نے کہا کہ ان کے ذرائع کے مطابق انتخابات میں تاخیر کا زیادہ امکان ہے، کیوںکہ عوام چاہتے ہیں کہ پولیس، عدلیہ اور دیگر اداروں میں اصلاحات کی جائیں، اس کے ساتھ نئی قیادت سامنے لانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ بنگلادیش کے عوام صبر کے ساتھ اپنے بہتر مستقبل کا انتظار کر رہے ہیں۔
پاکستان بنگلادیش میں انقلاب کے اُتارچڑھاؤ کو بغور دیکھ رہا ہے۔ عوام سے لے کر مقتدر حلقوں تک سب ہی بنگلادیش میں انقلاب کو اپنے اپنے تناظر میں ایک سبق قرار دے رہے ہیں جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے حسبِ معمول پاکستان سے مخاصمت کا اظہار کرتے ہوئے بنگلادیش میں شیخ حسینہ مخالف تحریک میں پاکستان پر امداد کا الزام دھر دیا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس کا موثر جواب دیا جاچکا ہے۔ تاہم بھارت کا سرکاری اور سوشل میڈیا متواتر دنیا کو بنگلادیش میں ''اسلامی شدت پسند عناصر کے غلبے'' کا تاثر دیتے ہوئے متوجہ کر رہے ہیں اور بنگلادیش میں ہنگامہ آرائی کے دوران ہندو آبادی کو نشانہ بنانے کا شور مچا رہے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ، سیاسی راہ نما اور اراکین پارلیمنٹ، بنگلادیش میں مقیم ہندو آبادی کی نسل کشی، اس کی املاک کی تباہی اور خواتین کی عصمت دری کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ تصاویر اور وڈیوز کے ذریعے بنگلادیش کے انقلاب کا ڈراؤنا نقشہ کھینچا جارہا ہے۔
حقائق کیا ہیں؟ اس بارے میں بنگلادیش کے ''فیکٹ چیکر'' اور انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ قدرالدین شہشیر نے ہم سے گفتگو کی، جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
ڈھاکا میں مقیم قدرالدین ایک انٹرنیشنل نیوزایجنسی سے وابستہ ہیں۔ وہ بنگلادیش میں جولائی سے شروع ہونے والے طلباء احتجاج، جو کہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف تھا، سے لے کر اب تک کی صورت حال کی ''فیکٹ چیک'' پر مبنی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ قدرالدین نے بتایا کہ بنگلادیش میں طاقت کا ہر وہ مرکز جو شیخ حسینہ کے اقدامات کا حامی تھا، اسے نوجوان اسے کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلادیش کے چیف جسٹس عبیداللّہ حسن نے عبوری حکومت کی مرضی کے بغیر فل کورٹ اجلاس بلا لیا تھا، اسے ''جیوڈیشل کو'' سمجھا گیا۔ طلباء مشتعل تھے کیوںکہ ان کے خیال میں حسینہ واجد اپنے تمام جمہور مخالف اقدامات پر اپنے حامی ججوں بشمول چیف جسٹس کے فیصلوں کے ذریعے عمل درآمد کرواتی تھیں۔ طلباء نے سپریم کورٹ کے باہر بھرپور احتجاج کیا۔ وہ نہ صرف چیف جسٹس بلکہ سابقہ حکومت کے حامی دیگر ججوں کے استعفے لینے میں بھی کام یاب ہوئے۔
''لوٹ مار کے ڈر سے اے، ٹی، ایم بند''
قدرالدین نے بتایا کہ پُرتشدد ہنگاموں کے بعد اب بنگلادیش میں صورت حال معمول پر آرہی ہے مگر ان علاقوں میں ابھی تک ہنگامہ آرائی جاری ہے جہاں عوامی لیگ کے نمائندے موجود ہیں۔ بازاروں میں کھانے پینے کی اشیاء دست یاب ہیں لیکن دو ہفتوں تک حالات بہت خراب رہے۔ بینک، کاروباری مراکز، گروسری اسٹورز اور اے، ٹی، ایم مراکز لوٹ مار کے ڈر سے بند رہے۔ قدرالدین نے کہا،''مجھے خود پیسوں کی ضرورت تھی لیکن 10 جگہوں پر واقع اے ٹی ایم پر کوشش کرلی، سب بند ملے، اب طلباء نے سڑکیں کھول دی ہیں، تاہم پیٹرول پمپ کئی جگہ بند ہیں۔''
''پولیس کے خلاف ''کریک ڈاؤن''
قدرالدین نے بتایا کہ طلباء کے احتجاجی مظاہرے پر گولیاں چلا دینے کے بعد عوام کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ مظاہروں کے دوران 10/12 سال کے بچوں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ ان واقعات نے عوام کو مشتعل کردیا۔ انہوں نے پولیس کو اپنے غیظ وغضب کا نشانہ بنایا۔ خصوصاً شیخ حسینہ کے ملک سے فرار کے بعد عوام نے پولیس کے خلاف ''کریک ڈاؤن'' کردیا، جہاں کوئی پولیس والا نظر آیا اسے مارا گیا، موجودہ کُل 700 پولیس اسٹیشنز میں سے 450 اسٹیشنز پر حملے کیے گئے، نتیجتاً پورا سسٹم بیٹھ گیا۔ پولیس اسٹیشن خالی ہوگئے اور ہر جگہ سے پولیس غائب ہوگئی۔ چار دن تک یہی صورت حال رہی۔ طالب علموں نے خود ٹریفک کنٹرول کیا۔ تاہم اب حالات بہتر ہیں، عبوری حکومت بننے کے بعد پولیس آہستہ آہستہ منظرعام پر آرہی ہے۔
شیخ مجیب کے مجسمے توڑنے کی تین وجوہ
حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد بنگلادیش میں ہنگامہ آرائی کے واقعات میں پاکستانیوں کے لیے سب سے ''عبرت انگیز'' منظر شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسموں کی توڑ پھوڑ تھی۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ بنگلادیش کے ''بانی'' شیخ مجیب الرحمٰن جنہیں 1971 میں پاکستان دولخت کرنے کا ذمے دار قرار دیا گیا، انھیں بنگلادیش نے اپنی آزادی کا ہیرو مانا اور ''بنگلا بندھو'' (بنگال کا دوست) کا خطاب دیا، لیکن چشم فلک کے ساتھ سقوط ڈھاکا کے مناظر دیکھنے والی نسل نے بھی محض 42 سال بعد ہی دیکھ لیا کہ ''بانیٔ بنگلادیش شیخ مجیب'' کے مجسمے توڑے اور رگیدے جارہے ہیں۔
صحافی قدرالدین نے ہمیں بتایا کہ شیخ مجیب کے مجسموں پر لوگوں کے غیظ وغضب کی وجوہ یہ تھیں کہ شیخ حسینہ کے دور میں اپنے والد کے مجسموں پر کثیر قومی سرمایہ خرچ کیا گیا۔ قدرالدین کے مطابق بنگلادیش میں کوئی اہم سرکاری عمارت، سڑک یہاں تک کہ اسپتال بھی ایسا نہ تھا جہاں مجیب کے مجسمے ''بنگلابندھو'' کے ٹائٹل کے ساتھ نصب نہ کیے گئے ہوں۔ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے سوا باقی لوگ اسے پیسے کا زیاں سمجھتے تھے جب کہ ملک پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار تھا۔ قدرالدین نے مزید بتایا کہ ''آزادی کے ہیرو''صرف مجیب الرحمٰن نہیں تھے، لوگ انھیں اب ''پوسٹر بوائے'' کہتے تھے جب کہ دیگر راہ نما جیسے مولانا عبد الحمید بھاشانی، تاج الدین احمد، امیر السلام، ضیاء الرحمٰن، آزادی کے بڑے راہ نما ہیں، مولانا بھاشانی تو شیخ مجیب کے بھی لیڈر تھے۔ ان شخصیات کو چاہنے والوں کو اعتراض تھا کہ ان کے مجسمے کہیں نظر نہیں آتے۔ قدرالدین کے مطابق بنگلادیش میں حسینہ واجد کے جابرانہ اقتدار سے منسوب ہر وہ شے جو ان کی ''آمریت'' کی عکاس ہے اب عوام کے غضب کا شکار ہے۔
''معاشی حقائق کی غلط بیانی لے ڈوبی''
صحافی قدرالدین کہتے ہیں کہ حسینہ کے پندرہ سالہ دورِاقتدار میں بنگلادیش نے واضح معاشی ترقی کی، تاہم اس کے نتائج عوام تک نہیں پہنچے بلکہ کرپشن کی نذر ہوئے اور اس ضمن میں اعدادوشمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ بھارتی میڈیا نے بھی حکومت کا امیج بڑھانے میں ان کا ساتھ دیا اور معاشی کام یابی کی ایسی کہانیاں شائع کیں جن میں حقیقت نہیں تھی۔
قدرالدین نے کہا کہ ''دی اکنامسٹ'' سمیت دیگر عالمی اور بنگلادیشی اخبارات و جرائد میں کچھ عرصے سے اعدادوشمار کی غلط بیانی کے متعلق لکھا جارہا ہے۔ دراصل 2023 میں مالی مشکلات کے سبب بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے دوران اعدادوشمار میں ہیرپھیر کا معاملہ کھلا۔ حکومت کی جانب سے بتایا جاتا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر31 بلین ڈالر ہیں جب کہ آئی ایم ایف نے دستاویزات کی جانچ پڑتال کی تو انھوں کئی بے قاعدگیوں کے ساتھ یہ نشان دہی بھی کی کہ زرمبادلہ کے ذخائر 24 بلین ڈالر سے کم ہیں۔
بھارت کا واویلا اور حقائق
شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلادیش میں ہوئی ہنگامہ آرائی کے متعلق بھارت کا سرکاری اور سوشل میڈیا زورشور سے بنگلادیش میں مندروں پر حملے، ہندوؤں کے قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کے الزامات عائد کررہا ہے اور اس ضمن میں وڈیو اور تصاویر جاری کی جارہی ہیں۔
قدرالدین فیکٹ چیکنگ کے حوالے سے اس پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں،''ملک میں چار دن تک پولیس موجود نہیں تھی، شدت پسند عناصر ہر جگہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بنگلادیش میں بعض جگہ مندروں کے سامنے آگ لگائی گئی، لیکن بھارتی میڈیا اس معاملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ ہنگامہ آرائی میں زیادہ تر پولیس اور عوامی لیگ سے منسوب افراد کو مارا پیٹا اور ہلاک کیا گیا ہے۔ بنگلادیش کی ہندو، بدھسٹ، کرسچیئین یونٹی کونسل کے مطابق گیارہ گست تک فسادات میں چار ہندو مارے گئے۔ میں نے تحقیق کی تو ان میں سے دو کا تعلق پولیس اور عوامی لیگ سے تھا۔ اسی طرح ملک کے کل 27 اضلاع میں جہاں ہزاروں گھروں میں لوٹ مار اور آتش زنی کے واقعات ہوئے، یونٹی کونسل کے مطابق ان میں 200کے قریب گھرانے اقلیتوں کے ہوسکتے ہیں۔ خواتین کی عصمت دری کے واقعات کی بھی مصدقہ اطلاعات نہیں مل سکیں، جب کہ کئی مقامات پر عوام نے غیرمسلم کمیونٹی کی جان ومال کی خود حفاظت کی۔ انھوں نے کہا کہ الجزیرہ سمیت عالمی میڈیا بھارت کے جھوٹ کا پول کھول رہا ہے۔
حسینہ کا حامی میڈیا بھی نشانہ
قدرالدین نے بتایا کہ شیخ حسینہ کی حمایت کرنے والے صحافی اور میڈیا ہاؤس بھی مشتعل عوام کے ہاتھوں محفوظ نہ رہے۔ ڈھاکا میں زیادہ تر ٹی وی چینلز اور اخبارات کے دفاتر پر حملے کیے گئے ہیں۔ شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی جہاں لوگ صحافیوں میں جانب داری کے رحجان کے متعلق جانتے تھے، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی صحافی منظرعام سے غائب ہیں اور میڈیا کو خبررسانی میں مشکل پیش آرہی ہے۔ قدرالدین نے بتایا کہ انٹرنیشنل میڈیا سے وابستہ صحافی محفوظ رہے، لوگ ان کی غیرجانب داری پر بھروسا رکھتے ہیں۔
''ہم سے دور رہیں'' تحریکی طلباء کا انتباہ
قدرالدین نے احتجاجی تحریک چلانے والے طلباء کے سیاسی پس منظر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بنگلادیش میں سرکاری ملازمتوں میں تحریک آزادی میں حصہ لینے والے خاندانوں کے لیے 30 فی صد کوٹے کے خلاف طلباء کی تحریک قطعی غیرسیاسی تھی۔ احتجاج کرنے والے طلباء میں حکومتی جماعت عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ ''چھاتر لیگ'' کا ڈھاکا یونیورسٹی یونین کا اسٹوڈنٹ لیڈر سرجیس عالم بھی شامل تھا۔ طلباء نے ''اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈس کریمینشن'' تشکیل دی جس کی کوئی مدر آرگنائزیشن نہیں ہے۔ کوٹے کے خلاف طلباء احتجاج جب شدت اختیار کر رہا تھا تو اس وقت ''بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی'' (بی این پی) اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے طلباء سے رابطے کیے جن کا مقصد ان کے احتجاج میں شریک ہونا تھا لیکن طلباء نے صاف کہہ دیا کہ ان کی تحریک سیاسی نہیں ہے، سیاسی جماعتیں ان سے دور رہیں۔ طلباء کا احتجاج، حکومت مخالف تحریک میں اس وقت تبدیل ہوا جب پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چھے طالب علم ہلاک کردیے۔ 18 جولائی تک 50سے زائد مظاہرین ہلاک کیے جاچکے تھے۔ اس کے بعد احتجاج قومی تحریک میں تبدیل ہوگیا۔
قدرالدین کہتے ہیں کہ بنگلادیش میں احتجاجی تحریک کو غیرملکی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کے متعلق پروپیگنڈا بے بنیاد ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اپنے ملازمتوں کے حق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے طالب علموں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائی ہیں۔ لوگ حسینہ رجیم کے خاتمے پر حقیقی خوشی کا اظہار کررہے ہیں، کیوںکہ ان کا دورِحکومت آمرانہ طرز اختیار کرچکا تھا۔ بنگلادیش میں حکومت کی تبدیلی پر ہوسکتا ہے امریکا، پاکستان یا دیگر ممالک خوش ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلادیش نے جبر کے دور سے آزادی کسی سازشی نظریے کے تحت حاصل کی ہے۔ اس تحریک کی جڑیں زمینی حقائق سے جڑی ہوئی تھیں کیوںکہ بنگلادیش کے عوام اپنے حق کے لیے لڑنا جانتا ہیں۔
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
صحافی قدرالدین اپنے ملک کے مستقبل کے متعلق پُرامید ہیں۔ انھوں نے کہا،''نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہوچکی ہے۔ یہ حکومت نئے انتخابات کے متعلق فیصلے کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ الیکشن جلد ہوںگے یا نہیں، اگر انتخابات کا جلد انعقاد کیا جاتا ہے تو بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اقتدار میں آسکتی ہے، کیوںکہ اس جماعت کے پاس پورا اسٹرکچر موجود ہے۔ تاہم عبوری حکومت اگر چند سال اقتدار میں رہتی ہے تو انقلابی ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں لا سکتے ہیں۔ قدرالدین نے کہا کہ ان کے ذرائع کے مطابق انتخابات میں تاخیر کا زیادہ امکان ہے، کیوںکہ عوام چاہتے ہیں کہ پولیس، عدلیہ اور دیگر اداروں میں اصلاحات کی جائیں، اس کے ساتھ نئی قیادت سامنے لانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ بنگلادیش کے عوام صبر کے ساتھ اپنے بہتر مستقبل کا انتظار کر رہے ہیں۔