مولانا فضل الرحمن کو صدارتی بندوق کا تحفہ
اب کئی ماہ بعد صدرِ مملکت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مبینہ خوشگوار ملاقات ہُوئی ہے
وفاقی دارالحکومت میں تین اہم ترین ملاقاتوں نے ہر جانب ہلچل سی مچا رکھی ہے۔ شہرِ اقتدار میں یہ ملاقاتیں کسی انقلاب کا پیش خیمہ تو نہیں بن سکتیں ، لیکن بڑی تبدیلیوں کا عنوان ضرور بن سکتی ہیں ۔ صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری اور جے یو آئی ایف کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن کے درمیان ملاقات تازہ ترین واقعہ ہے۔صدر صاحب خود چل کر حضرت مولانا مذکور کے دولت خانے پر پہنچے ؛ چنانچہ ہم اِسے واقعی معنوں میں اہم پیشرفت کہہ سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن صاحب اور اُن کی پارٹی کا بھی حال پیپلز پارٹی اور صدرِ مملکت کی طرح کا ہے۔ جس طرح پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی اور ساجھی ہونے کے باوجود حکومت میں حصہ داری سے انکاری ہے، اِسی طرح جے یو آئی ایف کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ حکومت کا ساتھ نبھا رہی ہے یا اپوزیشن کا ساتھ ؟چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدرِ مملکت، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف درحقیقت ایک ہی کشتی کے مسافر اور ایک ہی رویئے کے حاملین ہیں ۔ دونوں اقتدار کا حظ بھی اُٹھانا چاہتے ہیں مگر دونوں ذمے داریوں کا بوجھ اُٹھانے سے انکاری بھی ہیں۔ دونوں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں ۔
23اگست2024کی شام تمام نجی چینلز کی سب سے بڑی خبر یہی تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور صدرِ مملکت کے درمیان ملاقات ہو گئی ہے ۔ شنید ہے کہ یہ ملاقات کروانے میں وزیر داخلہ ، جناب محسن نقوی، نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ یہ خبر اس لیے بھی قابلِ اعتبار ہے کہ محسن نقوی صاحب، صدر صاحب کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں ۔
8فروری کے انتخابات کے بعد حضرت مولانا فضل الرحمن اپنے قول و فعل سے مسلسل ثابت کررہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ ، شہباز حکومت اور پیپلز پارٹی سے ناراض اور نالاں ہیں ۔ مبینہ اور بین السطور ناراضی کی وجہ یہ ہے کہ مولانا صاحب ، اُن کی جماعت اور اُن کے خاندان کو توقعات کے عین مطابق صوبائی اور قومی اسمبلی کی سیٹیں نہیں مل سکیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قبلہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے پی کے میں پی ٹی آئی سے ناراض ہوتے کہ خیبر پختونخوا ہی میں اُن کی پارٹی کا زور رہا ہے اور وہیں جے یو آئی ایف ، پی ٹی آئی کے مقابل ناکام رہی ۔ مولانا صاحب مگر پی ٹی آئی سے ناراض ہونے کے بجائے پی ٹی آئی کے قرب و جوار میں بیٹھ گئے اور اسٹیبلشمنٹ ، نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے شدید ناراض ہو گئے ۔
اب کئی ماہ بعد صدرِ مملکت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مبینہ خوشگوار ملاقات ہُوئی ہے ۔ شنید ہے کہ مولانا صاحب نے صدرِ مملکت سے خاصے شکوے اور شکائتیں بھی کی ہیں۔ جواب میں مکالمے اور صلح جوئی کے ''بادشاہ'' جناب آصف علی زرداری نے پچھلی باتوں کو رفت گزشت قرار دیتے ہُوئے ایوانِ صدر میں حضرت مولانا کو کھانے کی دعوت بھی دی ہے اور انھیں نئی حکائتیں بھی سنا دی ہیں ۔ ابھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ قبلہ مولانا صاحب نے صدارتی کھانے کو شرفِ قبولیت بخشا ہے یا نہیں ۔ مگر صدر صاحب نے مولانا صاحب کی دلجوئی کرنے میں کوئی کسر اورکمی نہیں چھوڑی ہے۔مثال کے طور پر صدرِ مملکت نے اپنی مشہور مسکراہٹوں کے جلَو میں مولانا فضل الرحمن صاحب کی خدمت میں قیمتی بندوق بطورِ تحفہ پیش کی ہے ۔ تحفہ دینا اور لینا ایک مستحسن عمل ہے ۔ دینی کتابوں اور تبلیغ میں زندگی گزارنے والے مولانا فضل الرحمن صاحب کو مگر بندوق کا تحفہ دینے کی بات سمجھ سے بالا ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صدر صاحب اور مولانا صاحب کی مذکورہ ملاقات کے اچھے اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ توقع ہے کہ یہ ملاقات مولانا فضل الرحمن اور شہباز حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں اور خلیجوں کو بھی کم کرے گی ۔ فضل الرحمن صاحب ''سڑکوں کو گرم کرنے'' اور حکومت کے خلاف سولو فلائیٹ کرتے ہُوئے جو تحریک برپا کرنے کا عندیہ دیتے رہتے ہیں، تازہ ملاقات سے شاید حکومت کو درپیش یہ خطرہ بھی ٹَل جائے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی خوشنودی اور خوشی حاصل کرنے کے لیے نون لیگ اور پی ٹی آئی بھی متمنی ہیں ۔
یہ دراصل مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاسی و مذہبی طاقت و قوت کا اظہار بھی ہے۔ یہ بات مگر سب کرنے والے کر رہے ہیں کہ صدرِ مملکت کو مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں قیمتی بندوق کا تحفہ پیش کرنے کے بجائے کچھ اصلی اور جدید بندوقیں پنجاب پولیس کو پیش کرنی چاہئیں تھیں تاکہ وہ جنوبی پنجاب کے خطرناک اور قاتل ڈاکوؤں کا خاطر خواہ مقابلہ کر سکتی ۔ پچھلے چند دنوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب اور پنجاب کے آئی جی سخت تنقیدوں کی زَد میں ہیں ۔ رحیم یار خان میں کچے کے علاقے ( ماچھکہ) میں ڈاکوؤں نے پنجاب پولیس (یا پنجاب کانسٹیبلری) کے درجن بھر جوانوں کو دن دیہاڑے شہید کر دیا ۔ تب سے پورے پنجاب سمیت پورے پاکستان میں کہرام مچا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ رحیم یار خان میں کچے کے منہ زور اور سرکش ڈاکوؤں نے براہِ راست وزیر اعلیٰ پنجاب ، آئی جی پنجاب ، مقامی آرپی او اور ڈی پی او کو للکارا ہے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب، محترمہ مریم نواز شریف، نے تسلیم کیا ہے کہ پنجاب کے 12پولیس جوانوں کی المناک شہادتیں اس لیے ہُوئی ہیں کہ کہیں نہ کہیں غلطی ہُوئی ہے اور یہ کہ ہم اِس غلطی کا مداوا کریں گے ۔ وزیر اعلیٰ صاحبہ خود شہدا کے خاندانوں اور زخمی پولیس والوں سے ملنے رحیم یار خان پہنچی ہیں ۔ متاثرہ خاندانوں کی ہمدردی اور غمگساری کے لیے یہ ایک اچھا اقدام ہے ۔ مگر اِس سانحہ نے آئی جی پنجاب کی اہلیت و قابلیت اور کمٹمنٹ بھی عیاں کر دی ہے ۔ پنجاب پولیس کے چند بڑوں کی نااہلیوں اور شدید غفلتوں نے پنجاب پولیس سے وابستہ ایک درجن خاندانوں کو جس طرح اُجاڑ ڈالا ہے، کوئی حکمران اور کوئی ادارہ اِس کا مداوا کر ہی نہیں سکتا۔ حکمران بس بیانات کے پردے میں گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں ۔
جنوبی پنجاب اور سندھ کی سرحد پر موجود کچے کے ڈاکوؤں نے پہلی بار حکومت اور حکمرانوں کو چیلنج نہیں کیا ہے ۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی طرح سابقہ حکومتیں اور حکمرانوں نے ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنے کے بجائے اِس عفریت کے سامنے تقریباً سرنڈر ہی کیا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب یہ ڈاکو راکٹ لانچروں، جدید ترین بندوقوں اور ایسے اسلحے سے لَیس ہو کر شہریوں پر حملہ آور ہیں کہ ایسا جدید اسلحہ پولیس کو بھی میسر نہیں ۔ کیا حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ڈُوب مرنے کا مقام نہیں ہے ؟
اور حال یہاں یہ ہے کہ ہمارے صدر صاحب ایک مولانا صاحب کو تحفے میں قیمتی بندوق پیش کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ صاحب کو اسلام آباد میں ملاقاتیں کروانے کے بجائے رحیم یار خان میں ہونا چاہیے تھا ۔ اور وزیر اعظم صاحب ہیں کہ اپنی حکومت اور اقتدار بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین سے ملاقاتیں کرکے انھیں منانے کی تگ و دَو کررہے ہیں۔ تیسری جانب حکومت کچھ لوگ مبینہ طور پر جیل میں قید بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں کرکے انھیں ترنول میں پی ٹی آئی کا جلسہ ملتوی اور منسوخ کرنے پر راضی کرتے نظر آتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کا جلسہ بھی ملتوی و موخر ہو چکا ہے، وزیر اعظم اور بلاول بھٹو میں کامیاب ملاقات بھی ہو گئی ہے ، مگر کسی کو جنوبی پنجاب اور سندھ کے کچے میں پھیلی وحشت و دہشت کو ختم کرنے کی توفیق نہیں مل رہی۔
مولانا فضل الرحمن صاحب اور اُن کی پارٹی کا بھی حال پیپلز پارٹی اور صدرِ مملکت کی طرح کا ہے۔ جس طرح پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی اور ساجھی ہونے کے باوجود حکومت میں حصہ داری سے انکاری ہے، اِسی طرح جے یو آئی ایف کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ حکومت کا ساتھ نبھا رہی ہے یا اپوزیشن کا ساتھ ؟چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدرِ مملکت، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف درحقیقت ایک ہی کشتی کے مسافر اور ایک ہی رویئے کے حاملین ہیں ۔ دونوں اقتدار کا حظ بھی اُٹھانا چاہتے ہیں مگر دونوں ذمے داریوں کا بوجھ اُٹھانے سے انکاری بھی ہیں۔ دونوں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں ۔
23اگست2024کی شام تمام نجی چینلز کی سب سے بڑی خبر یہی تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور صدرِ مملکت کے درمیان ملاقات ہو گئی ہے ۔ شنید ہے کہ یہ ملاقات کروانے میں وزیر داخلہ ، جناب محسن نقوی، نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ یہ خبر اس لیے بھی قابلِ اعتبار ہے کہ محسن نقوی صاحب، صدر صاحب کے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں ۔
8فروری کے انتخابات کے بعد حضرت مولانا فضل الرحمن اپنے قول و فعل سے مسلسل ثابت کررہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ ، شہباز حکومت اور پیپلز پارٹی سے ناراض اور نالاں ہیں ۔ مبینہ اور بین السطور ناراضی کی وجہ یہ ہے کہ مولانا صاحب ، اُن کی جماعت اور اُن کے خاندان کو توقعات کے عین مطابق صوبائی اور قومی اسمبلی کی سیٹیں نہیں مل سکیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قبلہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے پی کے میں پی ٹی آئی سے ناراض ہوتے کہ خیبر پختونخوا ہی میں اُن کی پارٹی کا زور رہا ہے اور وہیں جے یو آئی ایف ، پی ٹی آئی کے مقابل ناکام رہی ۔ مولانا صاحب مگر پی ٹی آئی سے ناراض ہونے کے بجائے پی ٹی آئی کے قرب و جوار میں بیٹھ گئے اور اسٹیبلشمنٹ ، نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے شدید ناراض ہو گئے ۔
اب کئی ماہ بعد صدرِ مملکت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مبینہ خوشگوار ملاقات ہُوئی ہے ۔ شنید ہے کہ مولانا صاحب نے صدرِ مملکت سے خاصے شکوے اور شکائتیں بھی کی ہیں۔ جواب میں مکالمے اور صلح جوئی کے ''بادشاہ'' جناب آصف علی زرداری نے پچھلی باتوں کو رفت گزشت قرار دیتے ہُوئے ایوانِ صدر میں حضرت مولانا کو کھانے کی دعوت بھی دی ہے اور انھیں نئی حکائتیں بھی سنا دی ہیں ۔ ابھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ قبلہ مولانا صاحب نے صدارتی کھانے کو شرفِ قبولیت بخشا ہے یا نہیں ۔ مگر صدر صاحب نے مولانا صاحب کی دلجوئی کرنے میں کوئی کسر اورکمی نہیں چھوڑی ہے۔مثال کے طور پر صدرِ مملکت نے اپنی مشہور مسکراہٹوں کے جلَو میں مولانا فضل الرحمن صاحب کی خدمت میں قیمتی بندوق بطورِ تحفہ پیش کی ہے ۔ تحفہ دینا اور لینا ایک مستحسن عمل ہے ۔ دینی کتابوں اور تبلیغ میں زندگی گزارنے والے مولانا فضل الرحمن صاحب کو مگر بندوق کا تحفہ دینے کی بات سمجھ سے بالا ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صدر صاحب اور مولانا صاحب کی مذکورہ ملاقات کے اچھے اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ توقع ہے کہ یہ ملاقات مولانا فضل الرحمن اور شہباز حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں اور خلیجوں کو بھی کم کرے گی ۔ فضل الرحمن صاحب ''سڑکوں کو گرم کرنے'' اور حکومت کے خلاف سولو فلائیٹ کرتے ہُوئے جو تحریک برپا کرنے کا عندیہ دیتے رہتے ہیں، تازہ ملاقات سے شاید حکومت کو درپیش یہ خطرہ بھی ٹَل جائے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی خوشنودی اور خوشی حاصل کرنے کے لیے نون لیگ اور پی ٹی آئی بھی متمنی ہیں ۔
یہ دراصل مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاسی و مذہبی طاقت و قوت کا اظہار بھی ہے۔ یہ بات مگر سب کرنے والے کر رہے ہیں کہ صدرِ مملکت کو مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں قیمتی بندوق کا تحفہ پیش کرنے کے بجائے کچھ اصلی اور جدید بندوقیں پنجاب پولیس کو پیش کرنی چاہئیں تھیں تاکہ وہ جنوبی پنجاب کے خطرناک اور قاتل ڈاکوؤں کا خاطر خواہ مقابلہ کر سکتی ۔ پچھلے چند دنوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب اور پنجاب کے آئی جی سخت تنقیدوں کی زَد میں ہیں ۔ رحیم یار خان میں کچے کے علاقے ( ماچھکہ) میں ڈاکوؤں نے پنجاب پولیس (یا پنجاب کانسٹیبلری) کے درجن بھر جوانوں کو دن دیہاڑے شہید کر دیا ۔ تب سے پورے پنجاب سمیت پورے پاکستان میں کہرام مچا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ رحیم یار خان میں کچے کے منہ زور اور سرکش ڈاکوؤں نے براہِ راست وزیر اعلیٰ پنجاب ، آئی جی پنجاب ، مقامی آرپی او اور ڈی پی او کو للکارا ہے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب، محترمہ مریم نواز شریف، نے تسلیم کیا ہے کہ پنجاب کے 12پولیس جوانوں کی المناک شہادتیں اس لیے ہُوئی ہیں کہ کہیں نہ کہیں غلطی ہُوئی ہے اور یہ کہ ہم اِس غلطی کا مداوا کریں گے ۔ وزیر اعلیٰ صاحبہ خود شہدا کے خاندانوں اور زخمی پولیس والوں سے ملنے رحیم یار خان پہنچی ہیں ۔ متاثرہ خاندانوں کی ہمدردی اور غمگساری کے لیے یہ ایک اچھا اقدام ہے ۔ مگر اِس سانحہ نے آئی جی پنجاب کی اہلیت و قابلیت اور کمٹمنٹ بھی عیاں کر دی ہے ۔ پنجاب پولیس کے چند بڑوں کی نااہلیوں اور شدید غفلتوں نے پنجاب پولیس سے وابستہ ایک درجن خاندانوں کو جس طرح اُجاڑ ڈالا ہے، کوئی حکمران اور کوئی ادارہ اِس کا مداوا کر ہی نہیں سکتا۔ حکمران بس بیانات کے پردے میں گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں ۔
جنوبی پنجاب اور سندھ کی سرحد پر موجود کچے کے ڈاکوؤں نے پہلی بار حکومت اور حکمرانوں کو چیلنج نہیں کیا ہے ۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی طرح سابقہ حکومتیں اور حکمرانوں نے ڈاکوؤں کا قلع قمع کرنے کے بجائے اِس عفریت کے سامنے تقریباً سرنڈر ہی کیا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب یہ ڈاکو راکٹ لانچروں، جدید ترین بندوقوں اور ایسے اسلحے سے لَیس ہو کر شہریوں پر حملہ آور ہیں کہ ایسا جدید اسلحہ پولیس کو بھی میسر نہیں ۔ کیا حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ڈُوب مرنے کا مقام نہیں ہے ؟
اور حال یہاں یہ ہے کہ ہمارے صدر صاحب ایک مولانا صاحب کو تحفے میں قیمتی بندوق پیش کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ صاحب کو اسلام آباد میں ملاقاتیں کروانے کے بجائے رحیم یار خان میں ہونا چاہیے تھا ۔ اور وزیر اعظم صاحب ہیں کہ اپنی حکومت اور اقتدار بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین سے ملاقاتیں کرکے انھیں منانے کی تگ و دَو کررہے ہیں۔ تیسری جانب حکومت کچھ لوگ مبینہ طور پر جیل میں قید بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں کرکے انھیں ترنول میں پی ٹی آئی کا جلسہ ملتوی اور منسوخ کرنے پر راضی کرتے نظر آتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کا جلسہ بھی ملتوی و موخر ہو چکا ہے، وزیر اعظم اور بلاول بھٹو میں کامیاب ملاقات بھی ہو گئی ہے ، مگر کسی کو جنوبی پنجاب اور سندھ کے کچے میں پھیلی وحشت و دہشت کو ختم کرنے کی توفیق نہیں مل رہی۔