’’کاغذی ‘‘شیر کچا چبا گئے

واضح طور پر ٹیم میں اختلافات موجود ہیں، کپتانی کی دوڑ نے دوستوں کو دشمن بنا دیا

(فوٹو: کرک انفو)

ہاں بھئی کاغذی شیر کچا چبا گئے، جب ایک دوست نے مجھ سے یہ جملہ کہا تو میں اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا، بہت کم ایسا ہوتا ہے جب ٹیم کی ہار مجھے جذباتی کر دے آج ایسا ہی ایک دن تھا،غصے سے زیادہ افسوس ہوا کہ یہ ہماری کرکٹ کس سمت میں جارہی ہے جب کوئی بھی آ کر ہمیں چت کر دیتا ہے۔

پہلے شازونادر ہی کسی چھوٹی ٹیم سے شکست ہوتی تھی اب کچھ عرصے کے دوران ہی زمبابوے،آئرلینڈ،افغانستان،امریکا اور بنگلہ دیش سے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، بنگال ٹائیگرز کا ہم مذاق اڑاتے تھے وہ ہمیں ہی مذاق بنا گئے،24سال میں پہلی بار ٹیسٹ میں شکست ہو گئی، یہ صرف ایک ہار نہیں ہے۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ محسن نقوی کے آنے سے ایسا ہوا،درحقیقت تین برس سے پاکستان ٹیم ہوم گراؤنڈ پر کوئی میچ نہیں جیت سکی حالانکہ گھر پر تو سب ہی شیر ہوتے ہیں،9میں سے 5ٹیسٹ میں ناکامی کا سامنا کرنا جبکہ چار ڈرا ہوئے، ایک زمانے میں ہمیں اپنے پیسرزپر ناز تھااب دو سال کے اعدادوشمار دیکھیں تو ہوم گراؤنڈ پر دنیا کی تمام ٹیموں کے مقابلے میں ہمارے فاسٹ بولرز کی ایوریج اور اسٹرائیک ریٹ سب سے زیادہ ہے، ہمارے پاس کوئی جینوئن آل راؤنڈر موجود نہیں،اسپنرز کا بھی فقدان ہے،آپ ایک ہزار رنز بھی بنا لیں ٹیسٹ جیتنے کیلیے حریف کی 20وکٹیں اڑانا پڑتی ہیں،بدقسمتی سے موجودہ بولنگ اٹیک اس قابل ہی نہیں ہے۔

میچ سے ایک روز قبل ہی پلئینگ الیون کا اعلان کر دیا گیا جس میں چار پیسرز کو رکھا گیا اور کوئی اسپنر شامل نہیں تھا،اس پر سب حیران ہوئے کہ کیا پرتھ کی پچ راولپنڈی لے آئے ہیں،ماضی میں رمیز راجہ جب چیئرمین پی سی بی تھے تو کروڑوں روپے خرچ کر کے آسٹریلیا سے مٹی منگوائی تھی لگتا ہے یہ رقم واقعی مٹی میں مل گئی۔

پی سی بی بھاری معاوضے پر آسٹریلوی کیوریٹر ٹونی ہیمنگ کو لایا ہے، ان کی بنائی گئی پہلی پچ نے ہی طوفان برپا کر دیا،جوش میں آ کر چار پیسرز کھلا دیے اور فیصلہ بیک فائر کر گیا،اگر آپ اپنے ہوم گراؤنڈ کی ہی کنڈیشنز کا اندازہ نہ لگا سکیں تو اس سے زیادہ افسوسناک بات کیا ہوگی۔

پاکستانی ٹیم مینجمنٹ نے جب 448رنز پر اننگز ڈکلیئرڈ کی تو ذہن میں یہی ہوگا کہ بنگلہ دیش کو دو اننگز میں بھی اتنے رنز نہ بنانے دیں گے لیکن 565 کا اسکور بنوانے پر اب سب بغلیں جھانک رہے ہوں گے، پانچویں دن بنگلہ دیشی اسپنرز نے وکٹیں اڑائیں ، بہت عجیب پچ تھی،شاہین اور نسیم آف کلر دکھائی دے رہے ہیں،خرم شہزاد اور محمد علی بھی بیٹرز کے لیے دہشت کی علامت نہیں ہیں، ایسے میں مسائل تو ہونے ہیں۔


سونے پر سہاگہ کہ بابر اعظم اور رضوان جیسے سینئرز بھی کیچ ڈراپ کرنے لگے،صائم ایوب ٹی ٹوئنٹی میں بھی تسلسل سے پرفارم نہیں کر پاتے لیکن مینجمنٹ کو ان کے ٹیلنٹ پر مکمل بھروسہ ہے،ٹیسٹ کیلیے حریرہ آئیڈیل چوائس ہیں لیکن انھیں موقع نہیں دیا گیا،صائم نے پہلی اننگز میں تو ففٹی بنائی لیکن دوسری باری میں جلد وکٹ گنوا بیٹھے، عبداللہ شفیق ،شان مسعود اور بابر اعظم دونوں اننگز میں ناکام رہے۔

بابر مسلسل آف کلر دکھائی دے رہے ہیں، ایک زمانے میں ان کا ویراٹ کوہلی سے موازنہ ہوتا تھا، اب وہ ٹاپ 5 میں بھی شامل نہیں، خصوصا ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی روبہ زوال ہے،بابر ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں،انھیں جلد مسائل دور کرنا ہوں گے تاکہ دوبارہ سے ٹیم کے کام آ سکیں،شان مسعود کو بھی کپتانی اور بیٹنگ میں بہتری لانا چاہیے۔

آسٹریلیا میں تین ٹیسٹ ہارنا تو سمجھ آتا ہے لیکن بنگلہ دیش سے شکست ناقابل قبول ہے،سعود شکیل نے پہلی اننگز میں زبردست بیٹنگ کی لیکن دوسری میں صفر پر آؤٹ ہو گئے،بڑا بیٹسمین ایسا نہیں کرتا،سلمان علی آغا کو بھی کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا،اگر آپ نے بنگلہ دیش کی دوسری اننگز دیکھی ہو تو شکست قریب دیکھ کر بھی بعض پاکستانی کرکٹرز ہنستے مسکراتے نظر آ رہے تھے۔

واضح طور پر ٹیم میں اختلافات موجود ہیں، کپتانی کی دوڑ نے دوستوں کو دشمن بنا دیا، بورڈ نے ورلڈکپ میں بدترین کارکردگی کے بعد سرجری کا کہا تھا لیکن کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا،اب بھی وقت ہے جو پلیئر مسائل کا باعث بن رہا ہے چاہے کتنا بھی بڑا ہو اسے باہر کریں،کھیل بڑا ہے کھلاڑی نہیں، کسی ایک کو باہر کیا تو دیگر سبق سیکھیں گے،ٹیم کا ماحول بہتر بنانا ضروری ہے،ہار تو ویسے ہی رہے ہیں نئے پلیئرز کو آزمایا تو وہ سیکھ کر ٹیم کے ہی کام آئیں گے۔

محسن نقوی کی نیت پر کوئی شک نہیں، وہ یقینی طور پر ملکی کرکٹ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اپنے طور پر کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن ٹیم اچھی نہیں بن رہی،پرانے پی سی بی آفیشلز اتنے کام کے نہیں لیکن چیئرمین کی مصروفیات کے سبب بادشاہ بنے ہوئے ہیں،وقار یونس نے اسی وجہ سے مشیر کی پوسٹ چند دن میں چھوڑ دی اور کان پکڑ کر توبہ کر لی،تلاش تو کریں اچھے لوگ مل جائیں گے،ٹی وی رائٹس کے معاملے میں توقعات پوری نہ ہو سکیں۔

اس حوالے سے بعض پارٹیز کے پہلے سے گٹھ جوڑ کی تحقیقات ہونی چاہیے، ٹیم کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے،بورڈ کے بعض آفیشلز سیاست میں لگے ہوئے ہیں،پی ایس ایل کو ایک سائیڈ پر ڈال دیا گیا ہے، سب کچھ چیئرمین نہیں کر سکتے لیکن دوسرے لوگ کچھ نہیں کر رہے، قومی ٹیم سے پہلے محسن نقوی کو بورڈ میں سرجری کرنا چاہیے،اربوں روپے خرچ کر کے اسٹیڈیمز کی تعمیرنو ہورہی ہے،یہ اچھی بات ہے لیکن اگر ٹیم نہ جیتے تو آپ جتنا خوبصورت اسٹیڈیم بنا دیں میچ دیکھنے کون آئے گا،ملکی حالات واقعی اچھے نہیں ، بطور وزیر داخلہ محسن نقوی کی مصروفیات زیادہ ہیں،البتہ کرکٹ سے بھی کروڑوں پاکستانیوں کے دل جڑے ہیں،اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،پلیز کرکٹ کو ہاکی بننے سے بچا لیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story