پاکستان کو درپیش بحران

ملک کے بدقسمت عوام نے تبدیلی سرکارکا مزہ بھی چکھ لیا اور آج تک جس کی تلخی نہیں گئی

S_afarooqi@yahoo.com

وطن عزیز پاکستان کی حالت روز بروز بد سے بدتر ہو رہی ہے اور یہ اندیشہ برقرار ہے کہ خدانخواستہ وہ منحوس گھڑی آجائے کہ ملک دیوالیہ ہو جائے۔ اِس صورتحال کی ذمے دارکوئی ایک حکومت نہیں بلکہ ماضی سے لے کر آج تک کی تمام حکومتیں ہیں۔

ایک بحران ٹلتا ہے تو دوسرا بحران ملک و قوم کو آ کر دبوچ لیتا ہے۔ حکمران ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہی قوم کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور اس کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ قوم کو جھوٹی تسلیاں دے کر عیش و عشرت میں پڑ کر حکمرانی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔عوام سے جو بھی وعدے کیے جاتے ہیں، وہ نقش بر آب کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہوتے۔ قیادت خواہ کسی بھی نام کی ہو وطیرہ اور مقصد اس کا ایک ہی ہوتا ہے کہ قوم کو الو بنا کر اپنا الو سیدھا کیا جائے۔ عوام برسوں سے اس مسیحا کا انتظارکر رہے ہیں جو آ کر اُن کے دکھوں کا مداوا کرے۔ حالت یہ ہے کہ بقول غالب۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

ملک کے بدقسمت عوام نے تبدیلی سرکارکا مزہ بھی چکھ لیا اور آج تک جس کی تلخی نہیں گئی۔اِس وقت سب سے بڑا بحران بجلی کا ہے۔ بجلی ناپید ہے اور بجلی کا بل جب آتا ہے تو صارف بلبلا اٹھتا ہے۔ کرنٹ کا ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ یہ تک ہوا ہے کہ صارف اس بل کے جھٹکے کی تاب نہ لا کر روز روزکی تکلیف برداشت کرنے کے نتیجے میں ملک عدم سدھار گیا۔

پنجاب کی حکومت نے حال ہی میں عوام کی تسلی کی خاطر بجلی کے بِلوں میں دو ماہ کے لیے رعایت دینے کا اعلان کر کے پنجاب کے صارفین کو رعایت دینے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ سندھ سمیت کسی اور صوبائی حکومت کو تو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ بجلی کا سنگین مسئلہ عارضی مسئلہ نہیں ہے اور اِس کا مستقل حل تلاش کرنا قطعی لازم ہے۔ مرے پر سو دُرے کے مترادف بجلی کی قیمتیں سال بھر میں 14 مرتبہ بڑھائی جا چکی ہیں اور ان کا اختتام نظر نہیں آرہا۔ عوام بے بس ہیں اور اُن کی حالت چکی کے دو پاٹوں کے بیچ و بیچ پس جانے والے دانوں جیسی ہے۔ ایک پاٹ مہنگائی کا ہے اور دوسرا پاٹ بجلی کے نرخوں میں بے لگام اور مسلسل اضافے کا ہے۔

اب توگھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے


مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

بجلی کا نظام انتہائی ناقص ہے، جس کا اندازہ اِس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر سال 500 ارب مالیت کی بجلی چوری ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ چوری جنات کرتے ہیں یا کوئی اور۔ اس سوال کا جواب متعلقہ محکمہ کے کرتا دھرتا ہی دے سکتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ کنڈا سسٹم عام ہے۔ چوری کی جانے والی بجلی کا بھگتان بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کرنے والے صارفین کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ بجلی چوروں اور بجلی کے محکمہ کے کارندوں کے درمیان ساز بازکوئی نئی بات نہیں ہے۔

بجلی کے بحران کا ایک اور سبب یہ ہے کہ بجلی کی تاریں فرسودہ ہوچکی ہیں اور انھیں تبدیل کرنے کی کسی کو بھی فکر نہیں ہے۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 سے لے کر بجلی کے نرخوں میں اب تک 155 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے اور معلوم نہیں کہ یہ ظلم و ستم کب ختم ہوگا۔مہنگی بجلی نے معیشت کا کچومر نکال دیا ہے اور افراط زر دوسرے ایشیائی ممالک کے مقابلے میں اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں پر قرضے مانگ مانگ کر حکمرانوں نے عوام پر پہاڑ جیسا بوجھ لاد دیا ہے۔

یہ انکشاف ملک و قوم کے لیے ایک ہلاکت خیز اطلاع ہے کہ انٹرنیشنل پاور سپلائی کمپنیوں (آئی پی پیز) کو 15 ارب مالیت کی مفت بجلی عنایت کی جارہی ہے جوکہ مہنگائی سے پریشان صارفین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔موجودہ حکومت جو اپنی کامیابی کے دعوؤں پر دعوے کر رہی ہے۔ ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تباہی سے بچانے میں ناکام ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ اس جانب فوری اور بھرپور توجہ دی جائے۔ صورتحال اس قدرگمبھیر ہوچکی ہے کہ 580 اسپننگ ملوں میں سے 29 فیصد ٹھپ ہوگئی ہیں اور 440 نٹنگ ملز میں سے 20 فیصد بند ہوچکی ہیں۔ فارسی کی ایک کہاوت ہے جس کا منظوم اردو ترجمہ یہ ہے۔

کوئی مشکل نہیں ایسی کہ جو آساں نہ ہو

مرد کو چاہیے کہ وہ قطعاً ہراساں نہ ہو

اگر موجودہ حکومت اپنی کمر کَس کر باندھ لے اور اِس چیلنج کو قبول کر لے کہ وہ مسئلہ کا حل تلاش کر لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ مسئلے حل نہ ہوں ۔امید واثق ہے کہ موجودہ حکومت تمام مسائل بالخصوص بجلی کے بحران کا مستقل حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
Load Next Story