ڈیجیٹل میڈیا…منفی اور مثبت پہلو

ڈیجیٹل تعلیم و تربیت اور بالخصوص لڑیسی کی تعلیم کو بنیادی اہمیت دینی ہوگی

salmanabidpk@gmail.com

ڈیجیٹل میڈیا پوری دنیا میں استعمال ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا ٹولز استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ڈیجیٹل میڈیا نے مین اسٹریم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بہت سے معاملات میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ مختلف قسم کے نظریات ، غیر نظریاتی، مذہبی ، غیرمذہبی، فرقہ پرست، انتہاپسند، نسلی و لسانی تشدد پسند، جرائم پیشہ گینگز ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں اپنی مرضی کے خیالات انڈلینے میں مصروف ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس پہلو یا رخ کو دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔

بالخصوص نوجوان طبقہ جن کی عمریں 15 سے 35 برس ہیں ، یہ طبقہ ڈیجیٹل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کا خصوصی ہدف ہے ۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا نے روایتی سیاست ، حکومتی نظام سمیت بہت سے فکری مغالطوں کو بھی چیلنج کیا ہے، روایتی سوچ اور سیاست میں ایک خطرہ کی علامت کے طور پر بھی سامنے آیا ہے ۔

ڈیجیٹل میڈیا میں سب کچھ اچھا نہیں اس کو مثبت اور منفی دونوں بنیادوں پر مختلف افراد انفرادی یا اجتماعی طور پر استعمال کررہے ہیں ۔ بالخصوص اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر بھی ریاست یا سیاست مخالف بنیادوں پر بھی چلایا جارہا ہے۔ پراپیگنڈا ہو یا جعلی خبر ہو یا ہم اس میں تضحیک کے پہلوؤں کو بھی دیکھیں یا اس کی مدد سے ہیجانی کیفیت کو پیدا کرنے کا عمل ہو اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا ہم ڈیجیٹل میڈیا کے منفی استعمال کو بنیاد بنا کر اس کے مثبت پہلو کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔

اس نئے میڈیا یا معلومات کے ذرایع کے مثبت استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایسی انتظامی پالیسیوں یا قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے اس کا منفی استعمال روکا جائے جب کہ مثبت استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جو لوگ بھی ڈیجیٹل میڈیا کو مکمل بند کرنا چاہتے ہیں یا اس حکمت عملی کو موثر سمجھ کر اسے ہی درست سمجھتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔کیونکہ جب بھی ہم کسی بھی عمل کے سخت ردعمل یا سخت گیر پالیسی جس کی بنیاد طاقت پر ہو استعمال کرتے ہیں تو وہ کارگر ثابت نہیں ہوتی ۔بلکہ اس طرز کی پالیسی سے منفی رجحانات جنم دینے کا سبب بنتی ہے ۔

ڈیجیٹل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ہیجانی میڈیا ہے یا ہم اسے فتنہ و فساد یا شر سے تعبیر کریں، کسی حد تک درست ہوسکتا ہے لیکن اس حوالے سے یکطرفہ پالیسی مناسب حکمت عملی نہیں۔ یہ سوچ اس عمل کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم مشکلات یا چیلنجز یا خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید انداز میں سوچنے کے لیے تیار نہیں ۔ہم ڈیجیٹل میڈیا کو بہت ہی محدود سوچ یعنی محض مخالفانہ ریاستی اورسیاسی بیانیہ کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں جو منفی نتائج کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔


حالانکہ ڈیجیٹل میڈیا تعلیم اور معیشت کے باہمی تعلق کو بھی نمایاں کرتا ہے ۔ گلوبل دنیا سے ہمارے ملک ، افراد اور بالخصوص نوجوانوں کو جوڑنے اور ان کے لیے نئے علمی و معاشی امکانات و مواقعوں کو بھی پیدا کرتا ہے ۔ ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ آج کی گلوبل ورلڈ کی ترقی کے لیے منفی پہلو رکھتا تو مثبت پہلو بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے منفی پہلوؤں سے نمٹنے کے لیے ایسی قانون سازی کو سامنے لایا جانا چاہیے جو ہمیں ڈیجیٹل دنیا سے دور نہ کرے ۔جو مسائل ریاست یا حکومت کی سطح پر آرہے ہیں اس کا علاج اس انداز میں تلاش کیا جانا چاہیے کہ ہم لوگوں کی ڈیجیٹل میڈیا تک رسائی سمیت ان کے لیے نئے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرسکیں۔کیونکہ جو اس وقت حکومت کی حکمت عملی ہے، وہ بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے ۔

پاکستان میں پہلے ہی مسائل کا انبار ہے، متبادل آوازوں کی تعداد کم ہے ، کوئی بھی تنقید کو قبول کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ طرز عمل ہمارے سیاسی وجمہوری عمل کو کمزور کرنے کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اپنی بات کا اظہار کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کرتے ہوں یا وہ اپنے خیال میں تنقید اور تضحیک کے پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر ہوں یا وہ ایک پہلے سے طے شدہ مخصوص سیاسی عزائم کی بنیاد پر مخالفانہ مہم کا حصہ ہوں تب بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا علاج تعلیم وتربیت سے ہی جڑا ہے۔ حکومت کو لوگوں کا یہ حق تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اگر حکومت کی کسی پالیسی کو بنیاد بنا کر تنقید کرتے ہیں تو یہ ان کا سیاسی و جمہوری حق ہے اوراسی طرح جمہوری حق کو اگر لوگ بھی ذمے داری کے ساتھ استعمال کریں تو بہتر جمہوری معاشرے کی طرف بڑھا جاسکتا ہے ۔

یہ پہلو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ صرف حکومت کو فیک نیوز یا مخالفانہ مہم کا سامنا نہیں بلکہ معاشرے کے مختلف کمزور اور محروم طبقوں کو بھی فیک نیوز اور مخالفانہ مہم کا سامنا ہے ۔ اس وجہ سے معاشرے میں ردعمل ، غصہ ، تعصب اور نفرت کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ مسائل کثیر جہتی ہیں اور ان مسائل کا حل بھی کثیرجہتی ہی ہے ۔ ملک کی سیاسی قیادت کو بھی آگے بڑھنا ہوگا، دو طرفہ بات چیت ، مکالمہ اور مل بیٹھنے سے باہمی تعاون اور مشترکہ حکمت عملی سے سیاسی ہم آہنگی پیدا ہوگی۔

ہمیں اگر ڈیجیٹل میڈیا سے جڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے جمہوریت پسند پاپولر قیادت کو مثبت سیاست کرنا ہوگی۔ روایتی فریم ورک سے باہر نکل کر نئی سوچ اور مختلف عملی و فکری ماہرین سے مکالمہ اور باہر کی دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ انھوں نے داخلی محاذپر ان مشکلات کا کیا حل نکالا اور کیسے مقابلہ کیا کہ ان کی مشکلات کم ہوئی ہیں ۔ہمیں اگر ڈیجیٹل میڈیا کا مقابلہ کرنا ہے اور خاص طور پر جعلی خبروں، پروپیگنڈا، جھوٹ اور ریاست مخالف عناصر سے متعلق ڈیجیٹل چیلنجز سے نمٹنا ہے توہمیں درج ذیل اقدامات کو اپنی ریاستی و حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔

ان میں ڈیجیٹل تعلیم و تربیت اور بالخصوص لڑیسی کی تعلیم کو بنیادی اہمیت دینی ہوگی اور پرائمری سے ہائر ایجوکیشن سمیت غیر رسمی تعلیم جن میں مدارس اور میڈیا سمیت خاندان کی تعلیم کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔تعلیمی نصاب میں اس عمل کو بطور مضمون پڑھانا ہوگا،ان میں شہریوں کو آن لائن معلومات کا علم ، تنقیدی جائزہ لینے ، تعصبات کی نشاندہی کرنے اور جعلی خبروں کو پہنچانے یا اس کے ادراک کی تعلیم عام کرنی ہوگی ۔اسی طرح جو بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

اس میں تمام متعلقہ فریقین کو شامل کرنا اور ان کی رائے کو اہمیت دے کر پالیسی یا قانون سازی کو یقینی بنانا ،آن لائن مواد کی درستگی کی تصدیق کے لیے میکنزم بنانا،ایسے قوانین ،قواعد وضوابط کو وضع کرنا جو جعلی خبروں کے خاتمہ میں مدد فراہم کرسکیں، اگر کوئی حکومت مخالف بیانیہ موجود ہے تو اس کے لیے متبادل بیانیہ کی تشکیل کو ممکن بنانا یعنی بیانیہ کا مقابلہ بیانیہ سے ہی کیا جائے جس میں عملی دلائل و منطق کو بنیاد بنا کرٹھوس شواہد ہونے چاہیے،ڈیجیٹل خطرات سے نمٹنے کے حکومت، ڈیجیٹل کمپنیوں اور سول سوسائٹی سمیت میڈیا کے ساتھ باہمی اشتراک و تعاون کو پیدا کرنا ، ڈیجیٹل میڈیا کی نگرانی کے نظام کو ہر سطح پر منصفانہ اور شفاف بنانااور شہریوں تک اس کی آگاہی کو یقینی بنانا ،ڈیجیٹل فرانزک کے عمل میں مجرمو ں کی تفتیش اور قانونی کارروائی کرنے کی صلاحیتوں کو اپنے نظام میں پیدا کرنا،بین الاقوامی تعاون اور ان کی جدید پالیسیوں سے استفادہ کرنا اور بالخصوص قومی اتفاق رائے پر مبنی حکمت عملی سے ہی ڈیجیٹل خطرات سے مقابلہ ممکن ہوگا۔
Load Next Story