اسلامی قوانین کو سمجھے بغیر تنقید کرنا تکبر کی نشانی ہے ترجمان طالبان
حالیہ نافذ کردہ قانون اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے، ذبیح اللہ مجاہد
طالبان نے ملک میں نافذ کردہ آدابِ زاندگی سے متعلق حالیہ قوانین پر تنقید کو تکبر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی قوانین کو مسترد کرنے سے پہلے سے اس کی روح کو سمجھنا ضروری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ نافذ کردہ قانون اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے جس کا احترام اور کچھ کہنے سے پہلے اسے سمجھنا چاہیے۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس طرح سمجھے بغیر ان قوانین کو مسترد کرنا ہمارے خیال میں تکبر کا اظہار ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے ان قوانین پر تنقید کرنے والے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ ایک مسلمان کا اس قانون پر تنقید کرنا اس کے عقیدے کی کمزوری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ترجمان طالبان نے قانون کے نفاذ کے لیے سخت سزاؤں کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی اور نہ کسی کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔
یہ خبر بھی پڑھیں : نماز، پردے، داڑھی اور محرم سے متعلق قوانین کے نفاذ میں نرمی برتی جائے گی، طالبان
ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مختلف جماعتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے خدشات امارت اسلامیہ افغانستان کو شرعی قوانین کے نفاذ سے روک نہیں کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان وزارت انصاف کی جانب سے بدھ کو آرٹیکل 35 کے اعلان کیا گیا تھا جس میں خواتین کو عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے اور اپنی آواز کو پست رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ نامحرم خواتین کا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور نہ آواز سن سکیں۔
اسی طرح نامحرم کے بغیر خواتین کے نقل و حمل پر بھی مکمل پابندی ہوگی جب کہ مردوں کے لیے داڑھی، باجماعت نماز اور مذہبی و قومی لباس پہننا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ جانداروں کی تصاویر، جانوروں کی لڑائی، ہم جنس پرستی اور غیر مسلم تعطیلات میں موسیقی بجانے پر پابندی ہوگی۔
یہ خبر بھی پڑھیں : طالبان کے نماز اور پردے سے متعلق قوانین پر اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
اس قانون کے نفاذ کے بعد سے عالمی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ قوانین کی خلاف ورزی پر سزائیں دی جائیں گی اور سب سے زیادہ خواتین اس کا شکار بنیں گی۔
کئی ممالک اور تنظیموں نے اس قانون کے نفاذ پر سخت سزاؤں کے تناظر میں طالبا حکومت اور حکام پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
جس پر گزشتہ روز نائب ترجمان طالبان نے یہ وضاحت بھی دی تھی کہ قانون کے نفاذ میں نرمی سے کام لیا جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ نافذ کردہ قانون اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے جس کا احترام اور کچھ کہنے سے پہلے اسے سمجھنا چاہیے۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس طرح سمجھے بغیر ان قوانین کو مسترد کرنا ہمارے خیال میں تکبر کا اظہار ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے ان قوانین پر تنقید کرنے والے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ ایک مسلمان کا اس قانون پر تنقید کرنا اس کے عقیدے کی کمزوری کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ترجمان طالبان نے قانون کے نفاذ کے لیے سخت سزاؤں کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی اور نہ کسی کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔
یہ خبر بھی پڑھیں : نماز، پردے، داڑھی اور محرم سے متعلق قوانین کے نفاذ میں نرمی برتی جائے گی، طالبان
ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مختلف جماعتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے خدشات امارت اسلامیہ افغانستان کو شرعی قوانین کے نفاذ سے روک نہیں کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان وزارت انصاف کی جانب سے بدھ کو آرٹیکل 35 کے اعلان کیا گیا تھا جس میں خواتین کو عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے اور اپنی آواز کو پست رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ نامحرم خواتین کا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور نہ آواز سن سکیں۔
اسی طرح نامحرم کے بغیر خواتین کے نقل و حمل پر بھی مکمل پابندی ہوگی جب کہ مردوں کے لیے داڑھی، باجماعت نماز اور مذہبی و قومی لباس پہننا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ جانداروں کی تصاویر، جانوروں کی لڑائی، ہم جنس پرستی اور غیر مسلم تعطیلات میں موسیقی بجانے پر پابندی ہوگی۔
یہ خبر بھی پڑھیں : طالبان کے نماز اور پردے سے متعلق قوانین پر اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
اس قانون کے نفاذ کے بعد سے عالمی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ قوانین کی خلاف ورزی پر سزائیں دی جائیں گی اور سب سے زیادہ خواتین اس کا شکار بنیں گی۔
کئی ممالک اور تنظیموں نے اس قانون کے نفاذ پر سخت سزاؤں کے تناظر میں طالبا حکومت اور حکام پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
جس پر گزشتہ روز نائب ترجمان طالبان نے یہ وضاحت بھی دی تھی کہ قانون کے نفاذ میں نرمی سے کام لیا جائے گا۔