صحبت
اسکول کے زمانے میں اردو کی درسی کتب میں بے شمار اصلاحی اسباق پڑھنے میں آتے تھے
FAISALABAD:
اسکول کے زمانے میں اردو کی درسی کتب میں بے شمار اصلاحی اسباق پڑھنے میں آتے تھے ان ہی میں ایک سبق اچھی صحبت سے متعلق بھی تھا۔ میرے دوست اور نہ جانے کتنے اور لوگ ہوں گے جو بچوں کی تربیت کے لیے اچھی صحبت کا خیال رکھتے ہوں گے۔ آج کے دور میں اچھی صحبت فراہم کرنے پر بھرپور توجہ دینے کے باوجود اکثر والدین کو اپنے بچوں سے شکایت رہتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کا کردار جیسا بنانا چاہتے تھے اس میں بہت کم کامیابی ہوئی ہے، ہمارے ایک دوست اس سلسلے میں بے حد فکر مند تھے۔ چنانچہ ہم دونوں نے ایک روز اپنے ایک بزرگ کی خدمت میں یہ سوال اٹھایا۔
بزرگ نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ برخوردار انسان جس کو دیکھتا ہے، سنتا ہے اور جس سے باتیں کرتا ہے ان سب سے اس کی صحبت بنتی ہے اور اس کے اثرات بھی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
میرے دوست کا پھر وہی سوال تھا، اس نے عرض کیا کہ بزرگوار مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں داخل کیا، اچھی ٹیوشن دلوائی اور اچھے تفریحی مواقعے بھی دیے مگر پھر بھی جیسا کردار اور شخصیت بچوں کے حوالے سے ہمارے ذہن میں تھی وہ صد فی صد تو کیا پچاس فیصد بھی بمشکل پوری ہوتی نظر نہیں آئی۔
بزرگ نے پھر کہا، مسئلہ تو یہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو ماحول کچھ اور دے رہے ہیں اور ان سے توقع ماحول کے برعکس چاہ رہے ہیں۔ کیا آپ کے بچے ٹی وی نہیں دیکھتے؟ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال نہیں کرتے؟ کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کے بچے ان تمام چیزوں کو کتنا وقت دے رہے ہیں؟ کیا بچوں کے سنتے دیکھنے اور استعمال کرنے کے وقت اس کی صحبت میں شامل نہ ہوں گے؟ اگر کوئی بچہ ان تمام پر روزانہ صرف دو گھنٹے گزارتا ہے تو ہفتہ بھر کے یہ 14 گھنٹے اور مہینہ بھر کے 56 گھنٹے اس کی شخصیت پر اثر انداز نہ ہوں گے؟
کیا یہ 56 گھنٹے کی ماہانہ صحبت اس کی کردار کی تعمیر میں اہم ثابت نہ ہو گی؟ ان بزرگ نے مزید کہا کہ ان کے والد روحانی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی اولاد بھی اس صحبت میں وقت گزارے تا کہ اولاد میں دنیا داری کی ہوس کے بجائے روحانی عظمت اور کردار کی پختگی بھی شامل ہو چنانچہ والد محترم ہر ہفتے دینی محفل میں دو گھنٹے کے لیے لے جاتے تھے، یہ ہفتہ وار دو گھنٹے اچھی صحبت میں گزارنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج آپ جیسے نوجوان بھی ہم سے رائے، مشورہ کرنے چلے آتے ہیں، ہم بزرگ کی دانائی کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ صحبت دانا ترا دانا کند مشہور مثل ہے۔
بزرگ نے اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب آپ خود سوچیے ہمارے والد کی جانب سے ہفتہ وار دو گھنٹے کی فراہم کی گئی صحبت کیا رنگ لائی اور آج ہم کس مقام پر ہیں اور آپ لوگ اپنے بچوں کو روزانہ دو تین گھنٹوں کی صحبت فراہم کر رہے ہیں۔ وہ کیسی ہے اور کیا رنگ لائے گی؟
میرے دوست نے بزرگ سے عرض کیا کہ ان کے بچوں تو ٹی وی پر فلمیں نہیں دیکھتے محض ڈرامے اور کارٹون پروگرام دیکھتے ہیں۔
بزرگ نے اس بات پر جو سوال کیا اس نے دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بزرگ نے پوچھا ''بیٹا یہ بتائو کہ ڈراموں میں کیا سبق دیا جا رہا ہے؟ کیا ماحول پیش کیا جا رہا ہے؟ اور کارٹون پروگرام میں کون سا کلچر پیش کیا جا رہا ہے اور کس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟''
بزرگ نے پھر کہا کہ اگر آپ کو ڈراموں میں پیش کیا جانے والا ماحول پسند ہے تو ٹھیک ہے کہ بچے بھی اسی ماحول سے صحبت اختیار کریں گے اور اگر آپ کو کارٹون پروگراموں میں بھارت، چین وغیرہ کے کلچر اور مذہبی نظریات سے اختلاف نہیں تو بھی ٹھیک ہے کیوں کہ ان ملکوں کے تیار کردہ کارٹون میں انھی کے کلچر کے تحت کردار تخلیق کیے جاتے ہیں اور ہیرو بنا کر پیش کیے جاتے ہیں، آپ کا بچہ بھی ایسے پروگراموں کی صحبت سے ایسے ہی نظریات و کردار کو اپنانے کی کوشش کرے گا اور اگر کوشش نہ بھی کرے تو صحبت تو بہر حال اثر دکھائے گی۔ بزرگ نے کہا کہ ایک بات بتایئے ان تمام کلچر اور صحبت سے آشنا بچے جب اسکول میں آپس میں رابطے کریں گے، دوستیاں کریں گے اور انٹرنیٹ و موبائل استعمال کریں گے تو کیا ان تمام میں یہی صحبت اثر نہ دکھائے گی؟''
بزرگ نے پھر ایک اور سوال کیا اور کہا کہ ''بتایئے جب آپ لوگ رمضان المبارک میں روزے رکھتے تھے تو کیا ماحول ہوتا تھا؟ یہی کہ رات کو نماز تراویح، شام کو عصر تا مغرب گھر میں قرآن کی تلاوت اور ساتھ افطار کی تیاری، اس دوران گانا، میوزک سننا یا ٹی وی فلم دیکھنا نہیں ہوتا تھا۔ ذہن صرف اور صرف رمضان اور اس کی رحمتوں کی طرف ہوتا تھا، لیکن آج کیا ماحول ہے؟
خواتین پکوان میں مصروف تو باقی گھر کے افراد ٹی وی چینلز سے ''ثواب کے حصول'' میں مصروف، ایک ایسا ماحول جس میں اسلامی باتوں کے ساتھ انعامات، اعلیٰ اسٹیٹس کے مناظر، درمیان میں بار بار میوزک کے ساتھ کمرشل جن میں محرم نا محرم کے مناظر کے ساتھ چٹخارے دار پکوان کے مناظر میں سوچ رہا تھا کہ بزرگ کی بات کڑوی تو ضرور ہے لیکن ہے تو سچ، میں بچپن میں ہمارے گھر کا ماحول رمضان المبارک میں قطعی مختلف ہوتا تھا جس میں تقویٰ اور پرہیزگاری اور ثواب کے حصول میں آگے بڑھنے کی فکر ہوتی تھی، آج ہمارے بچوں کو ان ٹی وی پروگراموں کی فکر ہوتی ہے اور وہ سوال کرتے ہیں پاپا فلاں ٹی وی پروگرام میں جانے کے پاس کب لائیں گے؟
واقعی صحبت کا بڑا اثر ہوتا ہے آج ہم اپنے بچوں کو صحبت کچھ اور فراہم کر رہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ ہم جیسے بنیں جب کہ ہم انھیں وہ صحبت فراہم نہیں کر رہے جو ہمارے اسلاف نے ہمیں فراہم کی تھی۔
اسکول کے زمانے میں اردو کی درسی کتب میں بے شمار اصلاحی اسباق پڑھنے میں آتے تھے ان ہی میں ایک سبق اچھی صحبت سے متعلق بھی تھا۔ میرے دوست اور نہ جانے کتنے اور لوگ ہوں گے جو بچوں کی تربیت کے لیے اچھی صحبت کا خیال رکھتے ہوں گے۔ آج کے دور میں اچھی صحبت فراہم کرنے پر بھرپور توجہ دینے کے باوجود اکثر والدین کو اپنے بچوں سے شکایت رہتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کا کردار جیسا بنانا چاہتے تھے اس میں بہت کم کامیابی ہوئی ہے، ہمارے ایک دوست اس سلسلے میں بے حد فکر مند تھے۔ چنانچہ ہم دونوں نے ایک روز اپنے ایک بزرگ کی خدمت میں یہ سوال اٹھایا۔
بزرگ نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ برخوردار انسان جس کو دیکھتا ہے، سنتا ہے اور جس سے باتیں کرتا ہے ان سب سے اس کی صحبت بنتی ہے اور اس کے اثرات بھی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
میرے دوست کا پھر وہی سوال تھا، اس نے عرض کیا کہ بزرگوار مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو اچھے اسکول میں داخل کیا، اچھی ٹیوشن دلوائی اور اچھے تفریحی مواقعے بھی دیے مگر پھر بھی جیسا کردار اور شخصیت بچوں کے حوالے سے ہمارے ذہن میں تھی وہ صد فی صد تو کیا پچاس فیصد بھی بمشکل پوری ہوتی نظر نہیں آئی۔
بزرگ نے پھر کہا، مسئلہ تو یہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو ماحول کچھ اور دے رہے ہیں اور ان سے توقع ماحول کے برعکس چاہ رہے ہیں۔ کیا آپ کے بچے ٹی وی نہیں دیکھتے؟ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال نہیں کرتے؟ کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کے بچے ان تمام چیزوں کو کتنا وقت دے رہے ہیں؟ کیا بچوں کے سنتے دیکھنے اور استعمال کرنے کے وقت اس کی صحبت میں شامل نہ ہوں گے؟ اگر کوئی بچہ ان تمام پر روزانہ صرف دو گھنٹے گزارتا ہے تو ہفتہ بھر کے یہ 14 گھنٹے اور مہینہ بھر کے 56 گھنٹے اس کی شخصیت پر اثر انداز نہ ہوں گے؟
کیا یہ 56 گھنٹے کی ماہانہ صحبت اس کی کردار کی تعمیر میں اہم ثابت نہ ہو گی؟ ان بزرگ نے مزید کہا کہ ان کے والد روحانی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی اولاد بھی اس صحبت میں وقت گزارے تا کہ اولاد میں دنیا داری کی ہوس کے بجائے روحانی عظمت اور کردار کی پختگی بھی شامل ہو چنانچہ والد محترم ہر ہفتے دینی محفل میں دو گھنٹے کے لیے لے جاتے تھے، یہ ہفتہ وار دو گھنٹے اچھی صحبت میں گزارنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج آپ جیسے نوجوان بھی ہم سے رائے، مشورہ کرنے چلے آتے ہیں، ہم بزرگ کی دانائی کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ صحبت دانا ترا دانا کند مشہور مثل ہے۔
بزرگ نے اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب آپ خود سوچیے ہمارے والد کی جانب سے ہفتہ وار دو گھنٹے کی فراہم کی گئی صحبت کیا رنگ لائی اور آج ہم کس مقام پر ہیں اور آپ لوگ اپنے بچوں کو روزانہ دو تین گھنٹوں کی صحبت فراہم کر رہے ہیں۔ وہ کیسی ہے اور کیا رنگ لائے گی؟
میرے دوست نے بزرگ سے عرض کیا کہ ان کے بچوں تو ٹی وی پر فلمیں نہیں دیکھتے محض ڈرامے اور کارٹون پروگرام دیکھتے ہیں۔
بزرگ نے اس بات پر جو سوال کیا اس نے دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بزرگ نے پوچھا ''بیٹا یہ بتائو کہ ڈراموں میں کیا سبق دیا جا رہا ہے؟ کیا ماحول پیش کیا جا رہا ہے؟ اور کارٹون پروگرام میں کون سا کلچر پیش کیا جا رہا ہے اور کس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟''
بزرگ نے پھر کہا کہ اگر آپ کو ڈراموں میں پیش کیا جانے والا ماحول پسند ہے تو ٹھیک ہے کہ بچے بھی اسی ماحول سے صحبت اختیار کریں گے اور اگر آپ کو کارٹون پروگراموں میں بھارت، چین وغیرہ کے کلچر اور مذہبی نظریات سے اختلاف نہیں تو بھی ٹھیک ہے کیوں کہ ان ملکوں کے تیار کردہ کارٹون میں انھی کے کلچر کے تحت کردار تخلیق کیے جاتے ہیں اور ہیرو بنا کر پیش کیے جاتے ہیں، آپ کا بچہ بھی ایسے پروگراموں کی صحبت سے ایسے ہی نظریات و کردار کو اپنانے کی کوشش کرے گا اور اگر کوشش نہ بھی کرے تو صحبت تو بہر حال اثر دکھائے گی۔ بزرگ نے کہا کہ ایک بات بتایئے ان تمام کلچر اور صحبت سے آشنا بچے جب اسکول میں آپس میں رابطے کریں گے، دوستیاں کریں گے اور انٹرنیٹ و موبائل استعمال کریں گے تو کیا ان تمام میں یہی صحبت اثر نہ دکھائے گی؟''
بزرگ نے پھر ایک اور سوال کیا اور کہا کہ ''بتایئے جب آپ لوگ رمضان المبارک میں روزے رکھتے تھے تو کیا ماحول ہوتا تھا؟ یہی کہ رات کو نماز تراویح، شام کو عصر تا مغرب گھر میں قرآن کی تلاوت اور ساتھ افطار کی تیاری، اس دوران گانا، میوزک سننا یا ٹی وی فلم دیکھنا نہیں ہوتا تھا۔ ذہن صرف اور صرف رمضان اور اس کی رحمتوں کی طرف ہوتا تھا، لیکن آج کیا ماحول ہے؟
خواتین پکوان میں مصروف تو باقی گھر کے افراد ٹی وی چینلز سے ''ثواب کے حصول'' میں مصروف، ایک ایسا ماحول جس میں اسلامی باتوں کے ساتھ انعامات، اعلیٰ اسٹیٹس کے مناظر، درمیان میں بار بار میوزک کے ساتھ کمرشل جن میں محرم نا محرم کے مناظر کے ساتھ چٹخارے دار پکوان کے مناظر میں سوچ رہا تھا کہ بزرگ کی بات کڑوی تو ضرور ہے لیکن ہے تو سچ، میں بچپن میں ہمارے گھر کا ماحول رمضان المبارک میں قطعی مختلف ہوتا تھا جس میں تقویٰ اور پرہیزگاری اور ثواب کے حصول میں آگے بڑھنے کی فکر ہوتی تھی، آج ہمارے بچوں کو ان ٹی وی پروگراموں کی فکر ہوتی ہے اور وہ سوال کرتے ہیں پاپا فلاں ٹی وی پروگرام میں جانے کے پاس کب لائیں گے؟
واقعی صحبت کا بڑا اثر ہوتا ہے آج ہم اپنے بچوں کو صحبت کچھ اور فراہم کر رہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ ہم جیسے بنیں جب کہ ہم انھیں وہ صحبت فراہم نہیں کر رہے جو ہمارے اسلاف نے ہمیں فراہم کی تھی۔