بند مُٹھی سے پھسلتی اقتدار کی ریت

11 مئی 2013 کے انتخابات کی جیت کا ابھی سرور ختم بھی نہ ہو پایا تھا

mnoorani08@gmail.com

11 مئی 2013 کے انتخابات کی جیت کا ابھی سرور ختم بھی نہ ہو پایا تھا کہ میاں نواز شریف کی حکومت کو چاروں طرف سے خطرات نے گھیر لیا ہے۔ ایک طرف تحریکِ انصاف کے عمران خان سونامی مارچ کا ارادہ کیے بیٹھے ہیں تو دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کی تاریخ میں ایک انوکھا انقلاب برپا کرنے کی غرض سے مسلم لیگ (ن) کے اکثریتی شہر لاہور میں مسلسل ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔

اِن دونوں صاحبان کو یکجا کرنے کے لیے ہمارے لال کو ٹھی والے شیخ رشید کبھی طاہر القادری کے چرنوں میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی عمران کی منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اپنے سونامی مارچ کو کنٹینر بابا کے حوالے کر دیں، بصورتِ دیگر دونوں کے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا۔ نہ سونامی کچھ تباہی مچا پائے گی اور نہ اِس ملک میں جمہوریت کُش انقلاب برپا ہو سکے گا۔ موصوف کو یہ خدشہ بہرحال ضرور لاحق ہے کہ عمران خان اپنی کئی سالہ محنت و مشقت کے حوالے سے یوں کوئی سمجھوتہ کرنے پر باآسانی راضی نہ ہونگے۔

جو کامیابی اُنہوں نے اب تک حاصل کی ہے وہ کِس طرح کسی کی جھولی میں ڈال کر اپنے وزیرِ اعظم بننے کی اُمیدوں کو خاکستر ہوتا دیکھ پائیں گے۔ شیخ رشید کی تو بس ایک ہی تمنا ہے کہ کسی طرح وہ میاں نواز شریف کو خود اُنکے ساتھ کی جانے والی بے وفائی کی سزا دے پائیں۔ اُنہیں نہ طاہرالقادری سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ عمران خان سے کوئی محبت یہ تو صرف نواز شریف سے بغض و عناد ہے، جو اُنہیں بے چین کیے جا رہا ہے۔ اور جس کے لیے وہ چوہدری برادران سمیت ہر کسی کے پاؤں پکڑ سکتے ہیں۔

سیاسی جوتشی کے طور پر اُن کی تمام پیشینگوئیاں گرچہ ابھی تک درست ثابت نہیں ہوئی ہیں لیکن وہ ہنوز بدستور اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پہلے وہ زرداری حکومت کو ہر چھ ماہ بعد جاتا دیکھتے رہے اور اب میاں صاحب کی معزولی کے دن گِن رہے ہیں۔ یہ کام اُنہیں پرویز مشرف کے دور میں کبھی سجھائی نہیں دیا۔ اُنہیں تو وہ نو سال تک بڑے صبر و تحمل سے برداشت کرتے رہے بلکہ پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے اُن کے ترجمان بن کر اُن سے خوب دادِ تحسین حاصل کرتے رہے۔

سانحہ لاہور پر اِس قدر برہم اور سیخ پا ہونے والے غریبوں کے یہ بہی خواہ اور ہمدرد لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعے پر اپنی قوتِ سماعت اور گویائی سے مکمل طور پر محروم ہو چکے تھے۔ سانحہ لاہور فسطائیت اور بربریت کا بے شک ایک انتہائی افسوسناک مظاہرہ تھا۔ اِس پر ہر پاکستانی کا دل یقیناً غموں سے نڈھال اور چور ہے۔ لیکن لال مسجد کا واقعہ بھی کسی فرعونیت اور فاشزم سے کم نہ تھا۔ شیخ رشید اُس وقت پرویز مشرف کی کابینہ کے بہت اہم رکن بنے ہوئے تھے۔ اُس وقت تو اُن کا دل سیکڑوں طلبا و طالبات کی ناگہانی ہلاکت پر غمگین اور رنجیدہ بھی نہ ہوا۔ مولانا عبدالرشید غازی کی بوڑھی ماں تک کو نہ چھوڑا گیا اور اُنہیں بھی تشدد کے ذریعے موت کی نیند سلا دیا گیا۔


میاں نواز شریف کا یہ دور اُن کے سابقہ طرزِ حکمرانی سے قدرے مختلف ہے۔ وہ اپوزیشن سے بلاوجہ کی دشمنی اور مخالفت سے یکسر پرہیز کیے ہوئے ہیں۔ کسی سیاسی رہنما کو قید کرنے یا سزا دلوانے کے وہ اب قائل نہیں رہے۔ یہ نیا وصف اُنہوں نے اپنے پیش رو آصف علی زرداری سے سیکھا ہے۔ زرداری نے بھی اپنے مخالفوں کے تند و تیز اور ترش جملوں اور سخت تنقید کو بڑے احسن طریقوں سے برداشت کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے دور کے آئینی پانچ سال پورے کر پائے۔ لیکن میاں صاحب کی پارٹی کے اندر کچھ ایسے نادان لوگ ہیں جن کی معمولی سی غلطی اور کوتاہی اُن کے لیے بڑی مشکلات اور مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

جیسے کہ 16 جون کو لاہور میں دیکھا گیا۔ پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القران کے مرکزی دفتر پر پولیس کو ہلّہ بولنے کا حکم نجانے کس ذمے دار شخص نے دیا۔ اُس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری جمہوری تاریخ کا ایک بدنما داغ بنکر میاں صاحب کے لیے ایسی مشکل کھڑی کر گیا کہ جس سے ابھی تک جان نہیں چھڑائی جا سکی ہے۔ یہ ایک معمولی سی غلطی ہرگز نہ تھی ایک زبردست بلنڈر تھا۔ جس کا خمیازہ بہر حال اُنہیں ہی بھگتنا پڑے گا۔ میاں شہباز شریف کے تمام تعمیری اور ترقیاتی کاموں پر پل بھر میں پانی پھر گیا۔ اِس واقعے نے جناب ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلابی ارادوں اور عزائم کو مزید تقویت بخش دی۔

اب وہ میاں صاحب کو ہر طرح سے زیر کرنے پر مصر اور بضد ہیں۔ دوسری جانب عمران خان بھی اپنے سونامی مارچ کی نوید سنا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ اِن دونوں میاں مخالف دھڑوں کو ایک پیج پر لے آیا جائے تا کہ انقلابی کارواں اور سونامی مارچ دونوں ملکر ایک ساتھ اپنی مہم شروع کر پائیں۔ ایسے میں تھوڑی بہت کُمک مسلم لیگ (ق) اور جناب شیخ رشید صاحب پوری کر دینگے۔ اِدھر پارٹی کے اندر بھی میاں مخالف فیکٹر فعال اور سرگرم ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو اُس کے بعد میاں صاحب کو اپنا تخت و تاج بچانا یقیناً مشکل ہو جائے گا۔

میاں صاحب اگرچہ پارٹی میں اختلافی دراڑ کی تردید کر چکے ہیں مگر اقتدار کی ریت بند مُٹھی سے پھسلتی دیکھ کر وہ اپنے ناراض لوگوں کو منانے نکل پڑے ہیں۔ اِس کے علاوہ وہ دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی اپنے تعلق پر نظرِ ثانی کرنے کے مشن پر چل پڑے ہیں۔ اُن کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ کسی طرح اس آنے والی مشکل اور عذاب کو ٹالا جائے۔ وہ اپنے اِن ارادوں میں کِس قدر کامیاب ہوتے ہیں یہ تو اُن کی ذہانت اور کارکردگی پر منحصر ہے۔ سنا ہے وہ عمران خان کے اُس مطالبے پر بھی چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ پرتال پر رضامند ہو گئے ہیں۔ کاش یہ رضامندی کا خیال اُنہیں پہلے آ جاتا تو آج سونامی مارچ کی وارننگ سے بچ جاتے۔ ان دیکھنا یہ ہے وہ اِس ساری صورتحال سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔

سانحہ لاہور جیسی غلطی کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ عوام الناس کو سونامی مارچ یا طاہری انقلاب سے توقعات اور وابستگی صرف اِس حد تک ہے کہ کوئی اُن کو اُن مسائل و مصائب سے باہر نکالے جس میں وہ ایک عرصے سے گھرے ہوئے ہیں۔ یہ میٹرو بس اور میٹرو ٹرین بے شک اچھی چیزیں ہیں۔ کاشغر سے گوادر تک ریلوے ٹریک اور سڑک کی تعمیر یقینا قابل ستائش اقدام ہیں لیکن اِس ملک کے غریبوں کے مسائل اِس کے علاوہ بھی ہیں۔ اُنہیں اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے ذریعہ معاش اور باعزت روزگار بھی چاہیے۔ اشیائے صرف اور روز مرہ کی چیزوں کے دام اُنکی مالی استطاعت کے مطابق ہونے چاہئیں۔

یہ روز افزوں اور بے لگام مہنگائی نے اُن کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ سخت گرمی میں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے مزید صورتحال سنگین کر دی ہے۔ عوام کو اِن تمام مشکلات سے فوری ریلیف چاہیے۔ الیکشن سے پہلے میاں صاحب نے جو انتہائی سحر انگیز جذباتی تقاریر کی تھیں، کم از کم اُنہی کا پاس رکھتے ہوئے عام لوگوں کو اُن کے دیرینہ مسائل سے نجات دلائی جائے۔ یہی ایک صورت ہے جس پر مکمل عملدرامد کر کے آنے والی مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عوام الناس کے مسائل اگر حل ہو جائیں تو کسی سونامی یا انقلابی کال کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہو گی جس کی توقع اور اُمید کے بل بوتے پر کچھ لوگ یہاں دمادم مست قلندر کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
Load Next Story