وہ تیمور تھا اور آپ …
وہ شہروں میں عذاب بن کر آتا ،لوگوں کو قتل کر تا ، فصلوں کو تباہ کر دیتا ،
وہ شہروں میں عذاب بن کر آتا ،لوگوں کو قتل کر تا ، فصلوں کو تباہ کر دیتا ، کٹے ہوئے انسانی سروں کے مینار کھڑے کرتا ،لوگوں کو زندہ جلا دیتا ،شہروں کو برباد کر کے پھر اپنی مرضی سے نئے شہر آبا د کرتا ۔ سیکڑوں سال گزرنے کے باوجود بھی تیمور کے متعلق یورپ کے ایسے ہی خیالات ہیں ۔ لیکن تیمور سکندر نہیں تھا جو بادشاہ کا بیٹا ہو اور اُسے طاقت وراثت میں ملی ہو ۔جس کی پرورش جاہ و جلال کے ساتھ کی گئی ہو جسے بچپن سے ہی حکمرانی کا سبق پڑھایا گیا ہو ۔ اور نہ ہی تیمور چنگیز خان تھا جو ایک سردار قبیلے کا رکن ہو ۔ تیمور نے اپنی عقل ، ہمت اور بہادری کے بل پر عظیم الشان سلطنت حاصل کی ۔ جنگی حکمت عملی ، سیاسی چال بازیوںسے اُسنے اپنے سے کئی گنا طاقت ور دشمن کو زیر کیا ۔
اُس کی بہادری اور عقل کے قصے اُس زمانے میں بھی مشہور تھے ۔ تاریخ کے ورقوں پر زندگی تحریر کرنے والے کئی لکھاریوں نے اُس وقت کے قصے بیان کیے ہیں ۔ اگر سیکڑوں سال پیچھے تیمور کے دور میں جایا جائے تو لگتا یوں تھا کہ دن کے وقت میلوں کا سفر طے کر کے رات کو کہیں روک جانے والے قافلے جب بیٹھتے تھے تو صرف تیمور کا ہی ذکر کرتے تھے ۔ شہروں کے چوراہے ہوں یا خاندانوں کی تقریب ذکر تیمور کے کارناموں کا ہی ہوتا تھا ۔ یہ تیمور ہی تھا جو اپنی چالیں اور اپنا کھیل خود ہی بناتا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اُسی نے شطرنج کے کھیل کو جدت دی ۔اپنی بساط پر مُہروں کی تعداد بڑھائی اور پھر وہ اس بساط پر جس کسی کے ساتھ شطرنج کی بازی لگاتا ہمیشہ جیتتا ۔کیونکہ کھیل کے خانے بھی اُس کے تھے اور مہرے بھی اُسی کے تھے ۔
اسی وجہ سے جنگی اور سیاسی میدان میں بھی وہ اپنا کھیل بنا کر خود کھیلتا تھا اور مخالف بادشاہ کو اپنے مہروں سے شکست دے دیتا تھا ۔ کس طرح سے مخالف اُس کی چالوں میں پھنس جاتے اور کس طرح سے بظاہر خالی میدان کچھ دیر میں جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا یہ تیمور کا دماغ تھا ۔ تیمور کے زمانے میں دریائے آمو کے قریب قرشی کا مضبوط قلعہ تھا ۔جہاں کا حاکم موسیٰ 3 ہزار فوج کے ساتھ موجود تھا ۔ اُس علاقے میں قرشی کے قلعہ کو محفوظ اور مضبوط ترین مانا جاتا تھا ۔ قرشی کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں کسی زمانے میں ایک شعبدے باز جادوگر خود کو پیغمبر کہتا تھا وہ لوگوں کو کنویں سے چاند نکال کر دکھاتا اور کہتا کہ اُس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ۔ لیکن قرشی کے لوگ اُسے صرف جادوگر ہی سمجھتے ۔
تیمور اور امیر حسین میں خراب تعلقات کی وجہ سے تیمور کے پاس صرف 240 لوگ تھے ۔
ایک دن تیمور نے اپنے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ کیوں نہ میں تمھارے گھر والوں کو ایک محفوظ ٹھکانہ دے دوں ۔ ؟ اس سوال پر تیمور کے ایک ساتھی نے کہا کہ ہم قرشی میں تھوڑی ہے جو اپنے اہل وعیال کو محفوظ سمجھیں ۔ تیمور نے اُن سے کہا تو چلو کیوں نہ تمھیں قرشی دے دوں ۔ تیمور کے افسر جس میں امیر جاکو اور امیر داود بھی تھے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگ گئے ۔ جب سب خاموش رہے تو جاکو نے کہا کہ وہ لوگ قلعے کے اندر ہیں اور اُن کے پاس 3 ہزار سپاہی ہیں جب کہ ہم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کُل 240 ہیں ۔ پہلے کچھ لوگوںکو جمع کر لیتے ہیں اور پھر سوچ بچار کر قرشی پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔
تیمور اپنے ارادے کا پکا تھا ۔ اُس کے ارادوں میں ہچکچاہٹ نہیں تھی ۔ نہ وہ اُس وقت کی کسی امریکا جیسی سپر پاور سے ڈرتا تھا ۔وہ گھوڑے پر بیٹھا ۔اور کہنے لگا میں جارہا ہوں قرشی کی طرف جسے آنا ہے آ جائے ورنہ میں اکیلا ہی قرشی کا قلعہ فتح کرونگا ۔ جاکو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر تیمور کے سامنے آگیا اور کہنے لگا کہ میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ آپ کا ساتھ دونگا ۔ وہ ناراض ہو کر کونے میں نہیں بیٹھا۔ جاکو نے وضاحت کی اور کہا کہ اگر میں آپ کا ساتھ نہ دو ںتو اسی تلوار سے میرا سر قلم کر دیجیے گا۔جاکو کی یہ بات سُن کر تمام لوگ تیمور کے ساتھ چل پڑے ۔ اور اُس نے چاہ اسحاق کے مقام پر پڑائو ڈال دیا۔
جنگی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اپنے سارے افسروں کو بلایا ۔ابتدائی طور پر سب لوگ اس نقطے پر پہنچے کہ قرشی کے حاکم موسی کے پاس تین ہزار سپاہی ہے اور ہم سب کُل ملا کر 240 ۔ اندر جانا بہت مشکل ہے ۔اور قلعہ فتح کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ موسیٰ کی فوج تقسیم ہو اور موسیٰ قلعہ سے باہر آئے ۔ مگر کیسے ۔۔؟دائود نے کہا کہ ہم راتوں کو چھپ کر قلعہ میں داخل ہوتے ہیں اور موسیٰ کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ اچھا ہوا وہاں کوئی مذاکراتی ٹیم نہیں تھی ورنہ تیمور سر پکڑ کر بیٹھا ہوتا۔دائود کی بات سن کر تیمور نے غصے سے کہا ۔۔بہت خوب ۔۔ کیا منصوبہ ہے ۔ موسیٰ کو پکڑ لوگے اور تین ہزار سپاہی کیا منہ دیکھتے رہیں گے۔؟
کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا ۔ قرشی کا قلعہ سردیوں کے مطابق بنایا گیا تھا ۔ جہاں گرمیوں میں حالت برداشت سے باہر ہو جاتی تھی ۔ لوگ اپنی عبائیں ا تار دیتے لیکن پھر بھی پسینے سے شرابور ہوتے ۔ موسیٰ بہادر ضرور تھا لیکن محافل سجانے کا شوقین تھا ۔ تیمور نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ اس وقت موسیٰ کو معلوم ہے کہ ہم نے اُس کا محاصرہ کیا ہوا ہے اس لیے وہ باہر نہیں آئیگا ۔ اور نہ ہی گرمی سے بچنے اور محفل سجانے دریا کے پاس سرسبز علاقوں کا رخ کریگا ۔ ایسے میں کیا کیا جائے ۔؟تیمور نے ایک منصوبہ بنایا ۔
تیمور نے ہرات کے حاکم کو بہت سارے تحفے بھیجے اور اُس سے ملنے کو خواہش ظاہر کی ۔ دوسری طرف اُس نے قرشی جانے والے تمام تاجروں کے قافلوں کو روک لیا ۔ تیمور نے ایک مہینے تک ہرات سے آنے والے پیغام کا انتظار کیا ۔اور جیسے ہی ہرات کے حاکم کا یہ پیغام ملا کہ وہ تیمور سے ملنے کے لیے تیار ہے تو فورا ہی اُس نے اپنے لوگوں کو وہاں سے چلنے کا حکم دیا اور قافلوں کو یہ بتا دیا کہ وہ کیونکہ ہرات کے حاکم سے ملنے جارہا ہے اس لیے وہ اب قرشی نہیں آئے گا ۔
گھنٹوں میں ہی اُس کا قافلہ روانہ ہو گیا لیکن وہ ہرات نہیں گیا ۔بلکہ کچھ دور ہی جا کر رک گیا ۔ تیمور نے ایک ہفتے کا انتظار کیا ۔ قافلوں نے جاکر موسیٰ کو بتا دیا کہ تیمور چلا گیا ۔ موسیٰ خوش ہوا اور فورا اپنے سپاہیوں کو لے کر سرسبز علاقے میں چلا گیا ۔ قلعے میں بس چند سو سپاہیوں کو رکھا ۔تیمور کا فارمولا کام کر گیا وہ قریب ہی تھا ۔ اُس نے رات کے وقت دریا آمو پار کیا ۔ سارے سپاہوں کو پیچھے رکھا اور خود بس دو جوانوں کے ساتھ جا کر یہ دیکھ آیا کہ کہا سے داخل ہوا جائے ۔ بس چالیس لوگ اندر داخل ہوئے اور قرشی کا مضبوط ترین قلعہ فتح ہو گیا ۔تیمور نے موسیٰ کے گھر والوں کو جانے کی اجازت دے دی ۔ اس فتح پر امیر جاکو نے کہا تھا کہ قرشی کا قلعہ ہم نے صرف اپنی امیر کی ذہانت سے حاصل کیا ورنہ یہ ہمارے لیے کبھی بھی ممکن نہ ہوتا ۔
یہ ذہانت اورحکمت عملی ہی ہوتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روپوش اور چھپی ہوئی قوتوں کے قلعہ کو کس طرح سے زیر کرنا ہے ۔ حکمرانوں کو سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ حالت جنگ میں لوگوں کو ناراض ہو کر کونوں میں نہیں بیٹھنا ہوتا بلکہ امیر جاکو کی طرح اپنے قائد کے فیصلے کے ساتھ جانا ہوتا ہے ۔ وزیرستان بھی مخالف قوتوں کا قرشی کی طرح کا قلعہ ہے جہاں سے دہشت کی آگ کو نکالنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہو گی ۔ آپریشن اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے ۔ لیکن نا جانے لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ کیوں ڈالے جارہے ہیں کہ یہاں کوئی امیر جاکو نہیں یہاں کوئی امیر دائود نہیں ہے۔
موسیٰ کو قرشی کا قلعہ امیر حسین نے دیا تھا۔ لیکن تیمور نے اُسے اپنی حکمت سے قبضہ کر لیا ۔ جنوبی وزیرستان کے بعد شمالی وزیرستان ایک مضبوط قلعہ بن چکا تھا ۔ فیصلہ اُسی وقت ہونا چاہیے تھا کہ جب خبریںآگئی تھی کہ وہاں ایک قلعہ بننے جارہا ہے ۔لیکن ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ دیر آئید پر درست آئید ۔ ایسے میں ناراضگیوں کی صندوق کو ایک طرف رکھیے اور بہانوں کی دکان کو بند کر دیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے ۔ اور موسیٰ کوئی مدد لے کر واپس نہ آجائے ۔ کیونکہ قلعہ تو سب کو چاہیے۔
اُس کی بہادری اور عقل کے قصے اُس زمانے میں بھی مشہور تھے ۔ تاریخ کے ورقوں پر زندگی تحریر کرنے والے کئی لکھاریوں نے اُس وقت کے قصے بیان کیے ہیں ۔ اگر سیکڑوں سال پیچھے تیمور کے دور میں جایا جائے تو لگتا یوں تھا کہ دن کے وقت میلوں کا سفر طے کر کے رات کو کہیں روک جانے والے قافلے جب بیٹھتے تھے تو صرف تیمور کا ہی ذکر کرتے تھے ۔ شہروں کے چوراہے ہوں یا خاندانوں کی تقریب ذکر تیمور کے کارناموں کا ہی ہوتا تھا ۔ یہ تیمور ہی تھا جو اپنی چالیں اور اپنا کھیل خود ہی بناتا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اُسی نے شطرنج کے کھیل کو جدت دی ۔اپنی بساط پر مُہروں کی تعداد بڑھائی اور پھر وہ اس بساط پر جس کسی کے ساتھ شطرنج کی بازی لگاتا ہمیشہ جیتتا ۔کیونکہ کھیل کے خانے بھی اُس کے تھے اور مہرے بھی اُسی کے تھے ۔
اسی وجہ سے جنگی اور سیاسی میدان میں بھی وہ اپنا کھیل بنا کر خود کھیلتا تھا اور مخالف بادشاہ کو اپنے مہروں سے شکست دے دیتا تھا ۔ کس طرح سے مخالف اُس کی چالوں میں پھنس جاتے اور کس طرح سے بظاہر خالی میدان کچھ دیر میں جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا یہ تیمور کا دماغ تھا ۔ تیمور کے زمانے میں دریائے آمو کے قریب قرشی کا مضبوط قلعہ تھا ۔جہاں کا حاکم موسیٰ 3 ہزار فوج کے ساتھ موجود تھا ۔ اُس علاقے میں قرشی کے قلعہ کو محفوظ اور مضبوط ترین مانا جاتا تھا ۔ قرشی کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں کسی زمانے میں ایک شعبدے باز جادوگر خود کو پیغمبر کہتا تھا وہ لوگوں کو کنویں سے چاند نکال کر دکھاتا اور کہتا کہ اُس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ۔ لیکن قرشی کے لوگ اُسے صرف جادوگر ہی سمجھتے ۔
تیمور اور امیر حسین میں خراب تعلقات کی وجہ سے تیمور کے پاس صرف 240 لوگ تھے ۔
ایک دن تیمور نے اپنے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ کیوں نہ میں تمھارے گھر والوں کو ایک محفوظ ٹھکانہ دے دوں ۔ ؟ اس سوال پر تیمور کے ایک ساتھی نے کہا کہ ہم قرشی میں تھوڑی ہے جو اپنے اہل وعیال کو محفوظ سمجھیں ۔ تیمور نے اُن سے کہا تو چلو کیوں نہ تمھیں قرشی دے دوں ۔ تیمور کے افسر جس میں امیر جاکو اور امیر داود بھی تھے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگ گئے ۔ جب سب خاموش رہے تو جاکو نے کہا کہ وہ لوگ قلعے کے اندر ہیں اور اُن کے پاس 3 ہزار سپاہی ہیں جب کہ ہم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کُل 240 ہیں ۔ پہلے کچھ لوگوںکو جمع کر لیتے ہیں اور پھر سوچ بچار کر قرشی پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔
تیمور اپنے ارادے کا پکا تھا ۔ اُس کے ارادوں میں ہچکچاہٹ نہیں تھی ۔ نہ وہ اُس وقت کی کسی امریکا جیسی سپر پاور سے ڈرتا تھا ۔وہ گھوڑے پر بیٹھا ۔اور کہنے لگا میں جارہا ہوں قرشی کی طرف جسے آنا ہے آ جائے ورنہ میں اکیلا ہی قرشی کا قلعہ فتح کرونگا ۔ جاکو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر تیمور کے سامنے آگیا اور کہنے لگا کہ میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ آپ کا ساتھ دونگا ۔ وہ ناراض ہو کر کونے میں نہیں بیٹھا۔ جاکو نے وضاحت کی اور کہا کہ اگر میں آپ کا ساتھ نہ دو ںتو اسی تلوار سے میرا سر قلم کر دیجیے گا۔جاکو کی یہ بات سُن کر تمام لوگ تیمور کے ساتھ چل پڑے ۔ اور اُس نے چاہ اسحاق کے مقام پر پڑائو ڈال دیا۔
جنگی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اپنے سارے افسروں کو بلایا ۔ابتدائی طور پر سب لوگ اس نقطے پر پہنچے کہ قرشی کے حاکم موسی کے پاس تین ہزار سپاہی ہے اور ہم سب کُل ملا کر 240 ۔ اندر جانا بہت مشکل ہے ۔اور قلعہ فتح کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ موسیٰ کی فوج تقسیم ہو اور موسیٰ قلعہ سے باہر آئے ۔ مگر کیسے ۔۔؟دائود نے کہا کہ ہم راتوں کو چھپ کر قلعہ میں داخل ہوتے ہیں اور موسیٰ کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ اچھا ہوا وہاں کوئی مذاکراتی ٹیم نہیں تھی ورنہ تیمور سر پکڑ کر بیٹھا ہوتا۔دائود کی بات سن کر تیمور نے غصے سے کہا ۔۔بہت خوب ۔۔ کیا منصوبہ ہے ۔ موسیٰ کو پکڑ لوگے اور تین ہزار سپاہی کیا منہ دیکھتے رہیں گے۔؟
کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا ۔ قرشی کا قلعہ سردیوں کے مطابق بنایا گیا تھا ۔ جہاں گرمیوں میں حالت برداشت سے باہر ہو جاتی تھی ۔ لوگ اپنی عبائیں ا تار دیتے لیکن پھر بھی پسینے سے شرابور ہوتے ۔ موسیٰ بہادر ضرور تھا لیکن محافل سجانے کا شوقین تھا ۔ تیمور نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ اس وقت موسیٰ کو معلوم ہے کہ ہم نے اُس کا محاصرہ کیا ہوا ہے اس لیے وہ باہر نہیں آئیگا ۔ اور نہ ہی گرمی سے بچنے اور محفل سجانے دریا کے پاس سرسبز علاقوں کا رخ کریگا ۔ ایسے میں کیا کیا جائے ۔؟تیمور نے ایک منصوبہ بنایا ۔
تیمور نے ہرات کے حاکم کو بہت سارے تحفے بھیجے اور اُس سے ملنے کو خواہش ظاہر کی ۔ دوسری طرف اُس نے قرشی جانے والے تمام تاجروں کے قافلوں کو روک لیا ۔ تیمور نے ایک مہینے تک ہرات سے آنے والے پیغام کا انتظار کیا ۔اور جیسے ہی ہرات کے حاکم کا یہ پیغام ملا کہ وہ تیمور سے ملنے کے لیے تیار ہے تو فورا ہی اُس نے اپنے لوگوں کو وہاں سے چلنے کا حکم دیا اور قافلوں کو یہ بتا دیا کہ وہ کیونکہ ہرات کے حاکم سے ملنے جارہا ہے اس لیے وہ اب قرشی نہیں آئے گا ۔
گھنٹوں میں ہی اُس کا قافلہ روانہ ہو گیا لیکن وہ ہرات نہیں گیا ۔بلکہ کچھ دور ہی جا کر رک گیا ۔ تیمور نے ایک ہفتے کا انتظار کیا ۔ قافلوں نے جاکر موسیٰ کو بتا دیا کہ تیمور چلا گیا ۔ موسیٰ خوش ہوا اور فورا اپنے سپاہیوں کو لے کر سرسبز علاقے میں چلا گیا ۔ قلعے میں بس چند سو سپاہیوں کو رکھا ۔تیمور کا فارمولا کام کر گیا وہ قریب ہی تھا ۔ اُس نے رات کے وقت دریا آمو پار کیا ۔ سارے سپاہوں کو پیچھے رکھا اور خود بس دو جوانوں کے ساتھ جا کر یہ دیکھ آیا کہ کہا سے داخل ہوا جائے ۔ بس چالیس لوگ اندر داخل ہوئے اور قرشی کا مضبوط ترین قلعہ فتح ہو گیا ۔تیمور نے موسیٰ کے گھر والوں کو جانے کی اجازت دے دی ۔ اس فتح پر امیر جاکو نے کہا تھا کہ قرشی کا قلعہ ہم نے صرف اپنی امیر کی ذہانت سے حاصل کیا ورنہ یہ ہمارے لیے کبھی بھی ممکن نہ ہوتا ۔
یہ ذہانت اورحکمت عملی ہی ہوتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روپوش اور چھپی ہوئی قوتوں کے قلعہ کو کس طرح سے زیر کرنا ہے ۔ حکمرانوں کو سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ حالت جنگ میں لوگوں کو ناراض ہو کر کونوں میں نہیں بیٹھنا ہوتا بلکہ امیر جاکو کی طرح اپنے قائد کے فیصلے کے ساتھ جانا ہوتا ہے ۔ وزیرستان بھی مخالف قوتوں کا قرشی کی طرح کا قلعہ ہے جہاں سے دہشت کی آگ کو نکالنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہو گی ۔ آپریشن اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے ۔ لیکن نا جانے لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ کیوں ڈالے جارہے ہیں کہ یہاں کوئی امیر جاکو نہیں یہاں کوئی امیر دائود نہیں ہے۔
موسیٰ کو قرشی کا قلعہ امیر حسین نے دیا تھا۔ لیکن تیمور نے اُسے اپنی حکمت سے قبضہ کر لیا ۔ جنوبی وزیرستان کے بعد شمالی وزیرستان ایک مضبوط قلعہ بن چکا تھا ۔ فیصلہ اُسی وقت ہونا چاہیے تھا کہ جب خبریںآگئی تھی کہ وہاں ایک قلعہ بننے جارہا ہے ۔لیکن ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ دیر آئید پر درست آئید ۔ ایسے میں ناراضگیوں کی صندوق کو ایک طرف رکھیے اور بہانوں کی دکان کو بند کر دیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے ۔ اور موسیٰ کوئی مدد لے کر واپس نہ آجائے ۔ کیونکہ قلعہ تو سب کو چاہیے۔