’’سیاست برائے خدمت‘‘ پیپلز پارٹی کا نیا سیاسی فلسفہ

سندھ میں صاف پانی کی فراہمی کا معاملہ دیگرصوبوں کے معاملے میں زیادہ خوفناک ہے۔

سندھ میں صاف پانی کی فراہمی کا معاملہ دیگرصوبوں کے معاملے میں زیادہ خوفناک ہے۔ فوٹو : فائل

ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی پرتوجہ دیتی ہیں جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک میں لوگوں کو سیاسی تضادات اور نعرے بازی میں الجھا کر رکھا جاتا ہے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر حکومتوں کی توجہ کم ہوتی ہے حتیٰ کہ دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار بھی سیاسی مباحث میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں اور وہ بھی عوام کوبنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ایشو پربات نہیں کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیربھٹو اپنی شہادت سے بہت پہلے مسلسل یہی کہہ رہی تھیں کہ سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو تضادات اور تنازعات میں الجھنے کی بجائے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تمام تر ممکنہ کوششیں کرنی چاہئیں اور بہتر انداز حکمرانی پر توجہ دینی چاہیے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کے بچے تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور دیگربنیادی سہولتوں کی عوام کوفراہمی کے لیے رات دن کام کررہے ہیں اور انہوں نے سیاست کاروایتی اندازتبدیل کرکے ''سیاست برائے خدمت'' کے فلسفے پر عمل شروع کردیا ہے۔

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی۔ تعلیم اور صحت کی طرح پینے کا صاف پانی بھی لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 28 جولائی 2010 کو اپنے اجلاس میں ایک قرارداد نمبر64/292 منظور کی، جس میں پانی اور سینی ٹیشن کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ تمام انسانی حقوق کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہو سکتی، جب تک لوگوں کو پینے کا صاف پانی اورسینی ٹیشن کی سہولتیں میسرنہ ہوں۔

اقوام متحدہ کی اقتصادی ،سماجی اور ثقافتی حقوق پر قائم کردہ کمیٹی نے نومبر 2002 میں جنرل کمنٹ نمبر 15 کو اختیار کیا جو پانی کے حق سے متعلق تھا۔ اس کمنٹ کے آرٹیکل 1 میں کہا گیا ہے کہ باوقار انسانی زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ دیگرانسانی حقوق کوتسلیم کرنے سے پہلے پانی کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ پانی کی فراہمی کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت اور دیگر اداروں نے اسٹڈیز کی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص کے لیے روزانہ 50 سے 100 لیٹر صاف پانی درکار ہے جو اس کی بنیادی ضرورت کوپورا کرسکتا ہے اور صحت سے متعلق کچھ خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

محفوظ اور صحت مند پانی کے لیے بھی گائیڈ لائن مقرر کی گئی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانی اور سینی ٹیشن کی سہولتیں ہر گھرکے قریب ہونی چاہئیں، پانی زیادہ سے زیادہ ایک ہزار میٹرکے اندردستیاب ہونا چاہیے اوراس کے حصول کے لیے 30 منٹ سے زیادہ وقت صرف نہیں ہونا چاہیے۔ پانی پر ہونے والا خرچہ کسی گھرانے کی آمدنی سے 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ رپورٹ کے مطابق افریقہ اور ایشیا میں خواتین پانی حاصل کرنے کے لیے اوسطاً 6 کلومیٹرکا سفرکرتی ہیں۔ پاکستان میں صاف پانی کی عدم فراہمی کے حوالے سے اعدادوشمار انتہائی خوفناک ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اور دیگرعالمی ادارے پانی کی ایک بنیادی حق کے طور پر فراہمی کے لیئے بڑے پیمانے پر مہم چلارہے ہیں اوردنیا بھرکی تمام حکومتوں اور ریاستوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے مالیاتی وسائل پانی اور سینی ٹیشن کی فراہمی پر خرچ کریں جس ملک میں پانی کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا ، اس ملک کو مہذب ملکوں میں شمار نہیں کیا جاتاہے۔


پاکستان کے عوام آج تک اس توہین آمیز رویے کو نہیں بھول سکے ہیں جوبرطانوی کرکٹرآئن بوتھم نے آج سے تین عشرے قبل اختیار کیا تھا۔ آئن بوتھم نے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں کرکٹ نہیں کھیلیں گے کیونکہ پاکستان میں پینے کا صاف پانی نہیں ہے یہ بات پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ نے اس پر توجہ نہیں دی۔ آج بھی بین الاقوامی وفود پاکستان آتے ہیں تو آنے سے پہلے وہ یہاں پینے کے صاف پانی کی گارنٹی مانگتے ہیں۔ اس سے زیادہ تشویشناک اور شرم ناک بات کیا ہوگی۔

پاکستان میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ گندے پانی سے ہونے والی بیماریاں قومی صحت کے لیے انتہائی سنگین مسئلہ ہیں۔ ان میں گیسٹرو، ہیپاٹائٹس اور گردوں کی خطرناک بیماریوں سمیت دیگر بیماریاں شامل ہیں۔ ڈینگی اور نگلیریا کی جان لیواامراض کا تعلق بھی پانی سے ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ آلودہ پانی پینے سے 630 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 12 لاکھ افرادسالانہ پانی کی بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں۔

سندھ میں صاف پانی کی فراہمی کا معاملہ دیگرصوبوں کے معاملے میں زیادہ خوفناک ہے۔ خیبرپختونخوا میں پہاڑوں سے صاف پانی کے چشمے جاری رہتے ہیں۔ پنجاب میں متعدد دریا بہتے ہیں۔ وہاں زیرزمین میٹھا اور صاف پانی دستیاب ہے۔ سندھ میں میٹھے پانی کے وسائل بہت محدود ہیں۔ دریائے سندھ جب اس صوبے میں داخل ہوتا ہے تو اس کا پانی مسلسل آلودہ ہوتا جاتا ہے۔ ادھر جنوب میں سمندر مسلسل اوپر چڑھ رہا ہے اور سالانہ لاکھوں ایکڑ میٹھے پانی والی اراضی کو ہڑپ کر رہا ہے۔

نہروں اور قدرتی جھیلوںمیں بھی آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ سندھ کی اکثریتی آبادی پانی کی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ اس صورت حال کی سنگینی کو مدنظررکھتے ہوئے آصف علی زرداری ، بلاول بھٹوزرداری، بختاور اور آصفہ بھٹو زرداری، سید اویس مظفر، سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے کاموں میں رات دن مصروف ہوگئے ہیں۔ سندھ کے نئے مالی سال کے بجٹ میں پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اوران علاقوں میں پینے کا صاف پانی پہنچایا جا رہا ہے، جہاں کے لوگ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ انہیں ان کا یہ بنیادی حق کبھی ملے گا۔

صحرائے تھر کے دور دراز علاقوں، بدین، ٹھٹھہ اور سجاول کے ساحلی علاقوں، کراچی کے قدیمی علاقوں لیاری اورکیماڑی ، شہید بے نظیرآباد، سانگھڑاور صوبے کے دیگرعلاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ریورس آسموسز( آراو) پلانٹس نہ صرف نصب کیئے گئے ہیں بلکہ وہ کامیابی سے کام بھی کر رہے ہیں۔ ان آراو پلانٹس سے لوگوں کو بین الاقوامی طور پر مقرر کردہ معیارات کے مطابق صاف پانی ان کے گھروں کے قریب مل رہا ہے۔ حکومت سندھ نے یہ محسوس کیا ہے کہ صوبے بھر میں زیادہ آراوپلانٹس کی ضرورت ہے لہٰذامزیدساڑھے سات سوآراوپلانٹس کی تنصیب کے لیے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

آر او ٹیکنالوجی واٹرفلٹریشن کی جدیدٹیکنالوجی میں اور ایک رپورٹ کے مطابق جن علاقوں میں آراو پلانٹس نصب کیے گئے ہیں، وہاں پانی کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی ہسپتالوں میں سترفیصد آمدکم ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خراب پانی سے لگنے والی بیماریاں بتدریج ختم ہو رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا یہ عزم قابل ستائش ہے کہ سندھ میں ہر شخص کو صاف پانی کابنیادی حق مہیا کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میڈیا میں تشہیر کے بغیر یہ کام مستقل مزاجی سے کر رہی ہے اور یہ کام موٹرویز اور میٹرو بس سروس کے منصوبوں سے بہت بڑا ہے کیونکہ یہ نہ صرف انسانوں کا بنیادی حق ہے بلکہ باوقار زندگی کی بنیادی شرط بھی ہے۔
Load Next Story