معیشت بہتر ٹیکس کلچر اپنایا جائے
پاکستان کی ریٹیل انڈسٹری گزشتہ چند برسوں سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے،
بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ڈیٹ ریٹنگ سی اے اے تھری سے سی اے اے ٹو کردی گئی ہے، رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غیرملکی ادائیگیوں کے لیے پاکستان کی صلاحیتیں بہتر ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے موڈیز کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اپ گریڈ کرنے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاشی ٹیم کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں، اب معیشت استحکام کے بعد ترقی کی جانب گامزن ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو آبادی میں بے تحاشا اضافے، مہنگائی، بے روزگاری جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمیں امپورٹ اور ایکسپورٹ میں توازن کے لیے ایکسپورٹ بڑھانے اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ حاصل کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی اور بہتر قواعد و ضوابط، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرناآسان بنانا لازم ہے، یہ حکمت عملی سرمایہ کاروں کے مزیدکشش کا باعث ہوگی۔ پاکستان کو اپنے بنیادی معاشی ڈھانچے اور انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس سے اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان کو اپنی برآمدی صنعتوں ، ٹیکسٹائل، زراعت اور فارماسیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔
حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔
معیشت میں بہتری کے آثار خوش آیند سہی، لیکن ملک کا غریب اور مڈل کلاس طبقہ مہنگائی اور ان ڈائریکٹ ٹیکسزکے بوجھ تلے کراہ رہا ہے،تمام ٹیکسز یوٹیلٹی بلز میں وصول کرنے کی وجہ سے عام آدمی پر مالی بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔ مہنگی توانائی صنعت و حرفت کی بڑھوتری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، لٰہذا معاشی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کا تاجر طبقہ حکومت کی تاجر دوست اسکیم کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔ بلاشبہ تاجر طبقے کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا حق حاصل ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے تمام متمول طبقات کو اپنے اپنے حصے کاٹیکس ادا کر کے ملکی معیشت میں اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ آخر تاجر کیوں ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے، اس سوال جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔چھوٹے دکانداروں کی آڑ لے کر کروڑوں روپے کمانے والے تاجر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان کی ریٹیل انڈسٹری گزشتہ چند برسوں سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، ایک کے بعد دوسرا سنگ میل طے کر رہی ہے۔ ایف بی آر کو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجودہ کاروباری طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کے بجائے نئے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔ ملک میں کاروبار کی بڑھتی ہوئی لاگت پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ سبسڈی بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ صرف ٹارگٹڈ ہونی چاہیے۔ ہمیں سبسڈی دینے کے عمل کو روکنا ہو گا کیونکہ سبسڈی مڈل مین کی جیبوں میں جاتی ہے۔ ٹیکس در ٹیکس لگانے سے معیشت کا مزید نقصان ہوگا اور کاروبار تباہ ہوں گے۔
حکومت کو اس فیکٹر پر توجہ دینی چاہیے کہ تمام لین دین بینکنگ چینل کے ذریعے کیا جائے۔ بینکنگ لین دین کے ذریعے حکومت براہ راست ٹیکس کا آسانی سے جائزہ لے سکتی ہے، بالواسطہ ٹیکس غریب طبقے کو زیادہ متاثر کرتے ہیں، اگر ٹیکس گزاروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا، ان کے لیے راہیں آسان کی جائیں گی، تو وہ بڑی سے بڑی منزل کے حصول میں ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن مشکل راستے سفرکرنے والوں کو ترک سفر کی طرف لے جاتے ہیں۔
ایران اور روس سمیت وسط ایشیاء کی ریاستیں ہمارے دروازے پر ہیں، اگر ہم اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ممالک کی درآمدات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے اور خاص طور پر ان کا کہ جو دور کے ممالک سے آتی ہیں تو اگر ان میں سے جو ہم بنا سکتے ہیں وہ بنا لیں اور وہ بین الاقوامی معیار پر پورا بھی اترتی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ سستی لیبر اور کرائے کی بچت کے ساتھ اچھے معیار کی سستی اشیاء ہم سے نہ خریدی جائیں۔پاکستان میں اس وقت ٹیکسٹائل کی چار سو سے زائد انڈسٹریز کام کررہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مسابقتی رکھنے اور اس شعبے کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کل برآمدات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومت کو بین الاقوامی سطح پر پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لیے مارکیٹس کو تلاش کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو کپاس کی کاشت کے لیے بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی معیشت کو اپ گریڈ کرنے اور کسانوں کو سہولیات دینے کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں تیار ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی صنعتی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مقابلاتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی، جدید صنعتی انفرا اسٹرکچر اور مواصلاتی نیٹ ورک، ہنر مند، تجربہ کار ورکرز، جدید بینکنگ، دوستانہ ٹیکس نظام نہ پایا جاتا ہو۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ کیا ہی اچھا ہو اگر صنعتی و معاشی ترقی کے لیے ماضی میں قائم کیے گئے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن جیسے اداروں کو دوبارہ سے فعال کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے کی طرف بھی کوئی دھیان دیا جائے۔
ایک ملک کا مجموعی تاثر اچھا ہونا چاہیے کیونکہ یہی انڈسٹریل گروتھ کی بنیاد ہے، تبھی لوگ صنعت اور سرمایہ کاری میں آگے آئیں گے۔ پاکستان میں بہت سے صنعتی ادارے ہیں جن کو اگر سہولیات دی جائیں اور سپورٹ دی جائے تو وہ مقامی سطح پر وہ مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنھیں ہم درآمد کر رہے ہیں، اگر ہم اس پہلو پر سوچنا شروع کر دیں تو پاکستان کی معیشت درست راستے پر گامزن ہوجائے گی۔
معاشرے کا تنخواہ دار طبقہ معیشت اور مارکیٹ کو پروان چڑھانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے جب کہ پے درپے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے تنخواہ دار طبقہ کے لیے اب اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا محال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ صنعت کاروں پر سپر ٹیکس یا ایکسٹرا ٹیکس لگانے کی بجائے انھیں آزادی سے سی ایس آر ماڈل کے ذریعے فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ دوسری طرف ٹیکس ریفارمز کی بھی بہت ضرورت ہے۔
پاکستان میں بہت سے صنعتی ادارے ہیں جن کو اگر سہولیات دی جائیں اور سپورٹ دی جائے تو وہ مقامی سطح پر وہ مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنھیں ہم درآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ ضایع کر رہے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور شفاف طریقہ کار کے تحت پرائیویٹائزیشن کے عمل سے ہم صنعتی ترقی کے اہداف پورا کرنے کی طرف درست سمت میں بڑھ سکتے ہیں۔اس وقت سارک ممالک میں پاکستان کی ٹیکس کلیکشن سب سے کم ہیں۔ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یا نجکاری کے ذریعے صنعتی اداروں کی بحالی کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔
پاکستان میں ٹیکس کلچر کو قابل قبول اور عام فہم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس گزار کی عزت و تکریم کی جائے، اس کو ترجیح دی جائے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، اسے سرکاری و پبلک مقامات پر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ جب ایک ٹیکس گزار کو غیر معمولی عزت و احترام نہیں دیا جائے گا، اس کے برعکس ذلیل و خوار کیا جائے گا، تو پھر کوئی نیا فرد ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے خوف زدہ رہے گا۔ ہمیں اقتصادی ترقیاتی ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
سرکاری اداروں کو بزنس فرینڈلی ماحول پیدا کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے ان کی باقاعدہ ضروری تربیت ہونی چاہیے تاکہ وہ بزنس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی بجائے اس کو فروغ دینے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ ہماری بیوروکریسی کا رول مشاورتی نہیں حاکمانہ ہے، اس لیے روایتی افسر شاہی کو اکیسویں صدی کے مطابق ڈھالنے کی بہت ضرورت ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو آبادی میں بے تحاشا اضافے، مہنگائی، بے روزگاری جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمیں امپورٹ اور ایکسپورٹ میں توازن کے لیے ایکسپورٹ بڑھانے اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ حاصل کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی اور بہتر قواعد و ضوابط، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرناآسان بنانا لازم ہے، یہ حکمت عملی سرمایہ کاروں کے مزیدکشش کا باعث ہوگی۔ پاکستان کو اپنے بنیادی معاشی ڈھانچے اور انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس سے اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان کو اپنی برآمدی صنعتوں ، ٹیکسٹائل، زراعت اور فارماسیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔
حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔
معیشت میں بہتری کے آثار خوش آیند سہی، لیکن ملک کا غریب اور مڈل کلاس طبقہ مہنگائی اور ان ڈائریکٹ ٹیکسزکے بوجھ تلے کراہ رہا ہے،تمام ٹیکسز یوٹیلٹی بلز میں وصول کرنے کی وجہ سے عام آدمی پر مالی بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔ مہنگی توانائی صنعت و حرفت کی بڑھوتری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، لٰہذا معاشی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کا تاجر طبقہ حکومت کی تاجر دوست اسکیم کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔ بلاشبہ تاجر طبقے کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا حق حاصل ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے تمام متمول طبقات کو اپنے اپنے حصے کاٹیکس ادا کر کے ملکی معیشت میں اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ آخر تاجر کیوں ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے، اس سوال جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔چھوٹے دکانداروں کی آڑ لے کر کروڑوں روپے کمانے والے تاجر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان کی ریٹیل انڈسٹری گزشتہ چند برسوں سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، ایک کے بعد دوسرا سنگ میل طے کر رہی ہے۔ ایف بی آر کو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجودہ کاروباری طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کے بجائے نئے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔ ملک میں کاروبار کی بڑھتی ہوئی لاگت پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ سبسڈی بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ صرف ٹارگٹڈ ہونی چاہیے۔ ہمیں سبسڈی دینے کے عمل کو روکنا ہو گا کیونکہ سبسڈی مڈل مین کی جیبوں میں جاتی ہے۔ ٹیکس در ٹیکس لگانے سے معیشت کا مزید نقصان ہوگا اور کاروبار تباہ ہوں گے۔
حکومت کو اس فیکٹر پر توجہ دینی چاہیے کہ تمام لین دین بینکنگ چینل کے ذریعے کیا جائے۔ بینکنگ لین دین کے ذریعے حکومت براہ راست ٹیکس کا آسانی سے جائزہ لے سکتی ہے، بالواسطہ ٹیکس غریب طبقے کو زیادہ متاثر کرتے ہیں، اگر ٹیکس گزاروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا، ان کے لیے راہیں آسان کی جائیں گی، تو وہ بڑی سے بڑی منزل کے حصول میں ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن مشکل راستے سفرکرنے والوں کو ترک سفر کی طرف لے جاتے ہیں۔
ایران اور روس سمیت وسط ایشیاء کی ریاستیں ہمارے دروازے پر ہیں، اگر ہم اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ممالک کی درآمدات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے اور خاص طور پر ان کا کہ جو دور کے ممالک سے آتی ہیں تو اگر ان میں سے جو ہم بنا سکتے ہیں وہ بنا لیں اور وہ بین الاقوامی معیار پر پورا بھی اترتی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ سستی لیبر اور کرائے کی بچت کے ساتھ اچھے معیار کی سستی اشیاء ہم سے نہ خریدی جائیں۔پاکستان میں اس وقت ٹیکسٹائل کی چار سو سے زائد انڈسٹریز کام کررہی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو مسابقتی رکھنے اور اس شعبے کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کل برآمدات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومت کو بین الاقوامی سطح پر پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات کے لیے مارکیٹس کو تلاش کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو کپاس کی کاشت کے لیے بہتر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی معیشت کو اپ گریڈ کرنے اور کسانوں کو سہولیات دینے کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں تیار ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی صنعتی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مقابلاتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی، جدید صنعتی انفرا اسٹرکچر اور مواصلاتی نیٹ ورک، ہنر مند، تجربہ کار ورکرز، جدید بینکنگ، دوستانہ ٹیکس نظام نہ پایا جاتا ہو۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ کیا ہی اچھا ہو اگر صنعتی و معاشی ترقی کے لیے ماضی میں قائم کیے گئے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن جیسے اداروں کو دوبارہ سے فعال کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے کی طرف بھی کوئی دھیان دیا جائے۔
ایک ملک کا مجموعی تاثر اچھا ہونا چاہیے کیونکہ یہی انڈسٹریل گروتھ کی بنیاد ہے، تبھی لوگ صنعت اور سرمایہ کاری میں آگے آئیں گے۔ پاکستان میں بہت سے صنعتی ادارے ہیں جن کو اگر سہولیات دی جائیں اور سپورٹ دی جائے تو وہ مقامی سطح پر وہ مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنھیں ہم درآمد کر رہے ہیں، اگر ہم اس پہلو پر سوچنا شروع کر دیں تو پاکستان کی معیشت درست راستے پر گامزن ہوجائے گی۔
معاشرے کا تنخواہ دار طبقہ معیشت اور مارکیٹ کو پروان چڑھانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے جب کہ پے درپے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے تنخواہ دار طبقہ کے لیے اب اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا محال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ صنعت کاروں پر سپر ٹیکس یا ایکسٹرا ٹیکس لگانے کی بجائے انھیں آزادی سے سی ایس آر ماڈل کے ذریعے فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ دوسری طرف ٹیکس ریفارمز کی بھی بہت ضرورت ہے۔
پاکستان میں بہت سے صنعتی ادارے ہیں جن کو اگر سہولیات دی جائیں اور سپورٹ دی جائے تو وہ مقامی سطح پر وہ مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنھیں ہم درآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ ضایع کر رہے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور شفاف طریقہ کار کے تحت پرائیویٹائزیشن کے عمل سے ہم صنعتی ترقی کے اہداف پورا کرنے کی طرف درست سمت میں بڑھ سکتے ہیں۔اس وقت سارک ممالک میں پاکستان کی ٹیکس کلیکشن سب سے کم ہیں۔ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ یا نجکاری کے ذریعے صنعتی اداروں کی بحالی کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔
پاکستان میں ٹیکس کلچر کو قابل قبول اور عام فہم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس گزار کی عزت و تکریم کی جائے، اس کو ترجیح دی جائے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، اسے سرکاری و پبلک مقامات پر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ جب ایک ٹیکس گزار کو غیر معمولی عزت و احترام نہیں دیا جائے گا، اس کے برعکس ذلیل و خوار کیا جائے گا، تو پھر کوئی نیا فرد ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے خوف زدہ رہے گا۔ ہمیں اقتصادی ترقیاتی ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
سرکاری اداروں کو بزنس فرینڈلی ماحول پیدا کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے ان کی باقاعدہ ضروری تربیت ہونی چاہیے تاکہ وہ بزنس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی بجائے اس کو فروغ دینے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ ہماری بیوروکریسی کا رول مشاورتی نہیں حاکمانہ ہے، اس لیے روایتی افسر شاہی کو اکیسویں صدی کے مطابق ڈھالنے کی بہت ضرورت ہے۔