سیاسی داغ

آج 77 سال بعد بھی قوم منزل کی سمت تلاش کر رہی ہے، کیا یہ المیہ نہیں؟

mjgoher@yahoo.com

یہ 1951 کا زمانہ تھا، قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست نواب زادہ لیاقت علی خان وزیر اعظم تھے۔ دنیا کی دو سپر پاور امریکا اور روس ایک دوسرے کے مقابل باقاعدہ بلاکس کی صورت میں سرد جنگ میں مصروف تھیں۔ کچھ ممالک روسی بلاکس میں تھے اورکچھ ممالک نے امریکی بلاکس میں خود کو محفوظ تصور کر کے اپنا ووٹ امریکی بلاکس میں ڈال دیا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس کی بجائے امریکی بلاکس میں جانے کو ترجیح دی۔

وہ دن اور آج کا دن پاکستان امریکی اثر اور دباؤ سے باہر نہیں نکل سکا۔ روس افغانستان جنگ سے لے کر امریکا افغان جنگ تک، جو 9/11 ورلڈ ٹریڈ سینٹر سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا نے شروع کی، پاکستان پر '' ڈو مور'' کا مستقل امریکا کا دباؤ جو آج بھی قائم ہے۔ ملک کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں بالخصوص اور مقتدرہ حلقوں میں بالعموم امریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت، نفرت اور بغاوت کا ایک عامل روز اول ہی سے کارفرما رہا ہے جو آج بھی موجود ہے۔ ایک سابق بیورو کریٹ حسن ظہیر کی کتاب '' دی ٹائمز اینڈ ٹرائل آف دی راولپنڈی کانسپیریسی 1951'' کے مطابق فروری 1951 میں راولپنڈی میں کمیونسٹ پارٹی کے چند دانشور عشایے پر جمع ہوئے۔

مذکورہ اجلاس میں یہ تجویز زیر بحث آئی کہ آیا موجودہ حکومت کا تختہ الٹا جائے جوکہ اس وقت امریکی بلاک میں شامل ہو چکی ہے۔ آٹھ گھنٹوں کے طویل اجلاس کے بعد بظاہرکوئی جوہری نتیجہ نہیں نکلا۔ اگرکوئی سازش کا منصوبہ تھا بھی تو غالباً اس پر اتفاق رائے نہ ہو سکا، بلکہ صوبے کے پی کے کی پولیس کے ایک باخبر انسپکٹر نے اس واقعہ کی مخبری اس وقت کے گورنر آئی آئی چندریگر کو کردی جس کے نتیجے میں یہ ''سازش'' پکڑی گئی اور لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے بچ گیا۔


بعد ازاں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 9 مارچ 1951 کو اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش کا انکشاف کرتے ہوئے کہا '' کچھ ہی دیر پہلے پاکستان کے دشمنوں کی ایک سازش پکڑی ہے، اس سازش کا مقصد یہ تھا کہ تشدد کے ذریعے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلائی جائے۔ حکومت کو ناپاک ارادوں کا بروقت علم ہوگیا۔ سیاسی طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں، نظریات اور ارشادات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔

ان کی رہنمائی حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ اپنے اپنے سیاسی مفادات کے زیر اثر امور سلطنت چلانے کی کوشش کی گئی جس میں وہ اول دن سے بری طرح ناکام ہوئے۔ نو سال تک تو آئین ہی تشکیل نہ دیا جاسکا۔ سیاسی قائدین کی کمزوریوں، نااہلیوں اور غیر جمہوری رویوں کے باعث ملک میں آج تک جمہوریت مستحکم نہ ہو سکی۔ ایوان عدل سے نظریہ ضرورت کی کمک بھی ملتی رہی یوں یہ ملک چار مرتبہ آمریت کے پنجہ استبداد میں آیا اور دولخت ہوگیا۔

آج 77 سال بعد بھی قوم منزل کی سمت تلاش کر رہی ہے، کیا یہ المیہ نہیں؟ ارباب اختیارکی نااہلیوں کی سزا قوم کو بھگتنا پڑرہی ہے۔ معیشت ڈوب رہی ہے، دہشت گرد امن تباہ اور ہماری پاک سپاہ کا خون بہا رہے ہیں، سیاست دان آپس میں دست وگریباں ہیں، ایوان عدل کے فیصلوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، دستورکی حرمت پامال ہو رہی ہے، ریاستی ادارے ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی جنگ میں مصروف ہیں، رہ گئے عوام وہ بجلی کے بھاری بلوں، غربت کے تھپیڑوں اور مہنگائی کے عذاب سے آہ و فغاں کر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔سپہ سالار اعظم جنرل عاصم منیر نے 77 ویں یوم آزادی پر دشمن کو بالکل واضح پیغام دیا کہ چاہے روایتی یا غیر روایتی جنگ ہو، ڈائنامک یا پرو ایکٹیو جنگی حکمت عملی، ہمارا جواب تیز،گہرا اور دردناک ہوگا۔ بالکل ہونا بھی چاہیے اور ہوگا بھی انشا اللہ کہ وقت کی ضرورت ہے ملک میں امن ہوگا تو ترقی ہوگی، خوش حالی آئے گی اور لوگ چین کی نیند سو سکیں گے۔ دہشت گردوں نے دو دہائیوں کے دوران ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں، معیشت تباہ ہوئی اور ملک کا انفرا اسٹرکچر برباد ہوگیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عزم استحکام کے پرچم تلے جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج جو پیشہ وارانہ مہارت میں دنیا بھر میں مقبول ہے، اس ''فتنہ الخوارج'' کا مکمل قلع و قمع کردے۔ قوم کو یقین ہے کہ بلند آہنگ حوصلوں کے طفیل پاک فوج کا جواب واقعی اتنا تیز،گہرا اور دردناک ہوگا کہ ''فتنہ الخوارج'' دوبارہ دھرتی پر سر نہیں اٹھا سکیں گے اور یہ وطن امن کا گہوارا بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ 77 سالوں سے اس ملک کے کروڑوں عوام کو ترقی و خوشحالی دینے، غربت و بے روزگاری کے خاتمے اور گرانی کے عذاب سے نجات دلانے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے حکمرانوں اور عاقبت نااندیش آمروں و سیاستدانوں نے جو تیز،گہرے اور درد ناک زخم لگائے ہیں، قومی خزانہ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھری ہیں، ملک کو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا ہے، ملک کا آئین توڑا ہے، اس ملک کو دولخت کرنے کی سازش کا کردار رہے ہیں ان سب سے حساب کون لے گا، ان کا تیز،گہرا اور درد ناک احتساب کون کرے گا؟
Load Next Story