یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار کا اسرائیلی وزرا پر پابندی کا مطالبہ
فلسطینیوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے والے اسرائیلی وزرا پر پابندی کے لیے مہم شروع کردی ہے، جوزف بوریل
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے 27 ممبر ریاستوں پر زور دیا ہے کہ فلسطینیوں کو نفرت انگیز پیغامات دینے والے اسرائیل کے متعدد وزرا پر پابندی عائد کردیا جائے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور دفاع کے اجلاس میں جوزف بوریل نے کہا کہ اسرائیلی وزرا نے جو بیانات دیے ہیں وہ واضح طور پر بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور جنگی جرم کے ارتکاب کے لیے اشتعال دلانے کا باعث ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جوزف بوریل نے اسرائیلی وزرا کے نام نہیں لیے تاہم حالیہ ہفتوں میں انہوں نے اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر اور وزیرخزانہ بیزالیل اسموٹریچ کو ان کے بیانات پر کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں 'مجرم' سے تعبیر کیا تھا۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جوزف بوریل نے کہا کہ میں نے رکن ممالک کو آگاہ کرنے کے لیے عمل شروع کردیا ہے، اگر انہوں نے مناسب سمجھا تو ہم نے اسرائیلی وزرا پر پابندیوں کی فہرست دی ہے، جنہوں نے فلسطینیوں کے خلاف ناقابل قبول نفرت انگیز پیغامات دیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یورپی یونین کو انسانی قانون کے احترام کے لیے ہماری فہرست کا استعمال کرنے کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ایران کا اسرائیل پر پابندی کا مطالبہ
سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ جوزف بوریل کی جانب سے اسرائیلی وزرا پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے پر 27 اراکین کا متفق ہونے کا امکان نہیں ہے تاہم اس سے غم و غصے کا اظہار ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے کئی عہدیداروں کو اسرائیلی وزرا پر تحفظات ہیں۔
واضح ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ جنگ پر یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، حالانکہ اسرائیل نے وحشیانہ کارروائیوں میں 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔
یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں سے ہنگری، آسٹریا اور جمہوریہ چیک نے اسرائیل کے مؤقف کی حمایت کی ہے جبکہ آئرلینڈ بلاک میں فلسطین کے حق میں کھل کر بولنے والا پہلا ملک تھا، اس کے بعد اسپین اور ناروے بھی شامل ہوگئے ہیں۔
اعلیٰ عہدیدار کے مطالبے پر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا اور اس کی کامیابی کے حوالے سے حتمی بات نہیں کی، چند وزرائے نے اس سے خطرناک راستہ بھی قرار دیا۔
مزید پڑھیں: امریکا کا اسرائیلی سخت گیر وزرا پر پابندیاں عائد کرنے پر غور
آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کا کہنا تھا کہ وہ جوزف بوریل کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ اسرائیلی وزرا اور تنظیموں پر پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ وہ فلسطینی سرزمین پر آبادکاروں کی توسیع کے لیے سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
بیلجیم کے نائب وزیراعظم پیٹرا ڈی سٹر نے کہا کہ انہوں نے رواں ہفتے اسرائیلی وزرا بین گویر اور اسموٹریچ پر پابندی کی مکمل حمایت کی ہے۔
دوسری جانب ہنگری کے وزیرخارجہ پیٹر سزیجارٹو نے صحافیوں کو بتایا کہ جوزف بوریل کی تجویز خطرناک ہے، اطالوی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل کو میز پر لانے کی خاطر پابندیاں عائد کرنا درست راستہ نہیں ہے۔
جرمن وزیرخارجہ نے مذکورہ تجویز پر ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین نے پہلے انتہاپسند یہودی آباد کاروں پر پابندیاں عائد کرچکی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے اسرائیلی وزرا پر پابندی کے نتیجے میں ان افراد کو رکن ریاستوں میں سفر پر پابندی ہوگی اور یورپی یونین کی حدود میں ان کی جائیدادیں ضبط کردی جائیں گی۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور دفاع کے اجلاس میں جوزف بوریل نے کہا کہ اسرائیلی وزرا نے جو بیانات دیے ہیں وہ واضح طور پر بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اور جنگی جرم کے ارتکاب کے لیے اشتعال دلانے کا باعث ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جوزف بوریل نے اسرائیلی وزرا کے نام نہیں لیے تاہم حالیہ ہفتوں میں انہوں نے اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر اور وزیرخزانہ بیزالیل اسموٹریچ کو ان کے بیانات پر کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں 'مجرم' سے تعبیر کیا تھا۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جوزف بوریل نے کہا کہ میں نے رکن ممالک کو آگاہ کرنے کے لیے عمل شروع کردیا ہے، اگر انہوں نے مناسب سمجھا تو ہم نے اسرائیلی وزرا پر پابندیوں کی فہرست دی ہے، جنہوں نے فلسطینیوں کے خلاف ناقابل قبول نفرت انگیز پیغامات دیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یورپی یونین کو انسانی قانون کے احترام کے لیے ہماری فہرست کا استعمال کرنے کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ایران کا اسرائیل پر پابندی کا مطالبہ
سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ جوزف بوریل کی جانب سے اسرائیلی وزرا پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے پر 27 اراکین کا متفق ہونے کا امکان نہیں ہے تاہم اس سے غم و غصے کا اظہار ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے کئی عہدیداروں کو اسرائیلی وزرا پر تحفظات ہیں۔
واضح ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ جنگ پر یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، حالانکہ اسرائیل نے وحشیانہ کارروائیوں میں 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔
یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں سے ہنگری، آسٹریا اور جمہوریہ چیک نے اسرائیل کے مؤقف کی حمایت کی ہے جبکہ آئرلینڈ بلاک میں فلسطین کے حق میں کھل کر بولنے والا پہلا ملک تھا، اس کے بعد اسپین اور ناروے بھی شامل ہوگئے ہیں۔
اعلیٰ عہدیدار کے مطالبے پر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا اور اس کی کامیابی کے حوالے سے حتمی بات نہیں کی، چند وزرائے نے اس سے خطرناک راستہ بھی قرار دیا۔
مزید پڑھیں: امریکا کا اسرائیلی سخت گیر وزرا پر پابندیاں عائد کرنے پر غور
آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کا کہنا تھا کہ وہ جوزف بوریل کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ اسرائیلی وزرا اور تنظیموں پر پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ وہ فلسطینی سرزمین پر آبادکاروں کی توسیع کے لیے سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
بیلجیم کے نائب وزیراعظم پیٹرا ڈی سٹر نے کہا کہ انہوں نے رواں ہفتے اسرائیلی وزرا بین گویر اور اسموٹریچ پر پابندی کی مکمل حمایت کی ہے۔
دوسری جانب ہنگری کے وزیرخارجہ پیٹر سزیجارٹو نے صحافیوں کو بتایا کہ جوزف بوریل کی تجویز خطرناک ہے، اطالوی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل کو میز پر لانے کی خاطر پابندیاں عائد کرنا درست راستہ نہیں ہے۔
جرمن وزیرخارجہ نے مذکورہ تجویز پر ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین نے پہلے انتہاپسند یہودی آباد کاروں پر پابندیاں عائد کرچکی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے اسرائیلی وزرا پر پابندی کے نتیجے میں ان افراد کو رکن ریاستوں میں سفر پر پابندی ہوگی اور یورپی یونین کی حدود میں ان کی جائیدادیں ضبط کردی جائیں گی۔