اظہر مشوانی کے دونوں لاپتا بھائی کسی ایجنسی کے پاس نہیں اٹارنی جنرل
دونوں لاپتا مغوی کسی ایجنسی کے پاس نہیں، اٹارنی جنرل کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان
اظہر مشوانی کے بھائیوں کی بازیابی سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل کو لاپتا افراد سے متعلق تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل بابر اعوان اور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ معاملہ اعلی حکام کے سامنے رکھا گیا ہے، دونوں لاپتا مغوی کسی ایجنسی کے پاس نہیں، ڈاکٹر بابر اعوان مجھے معلومات شئیر کر دیں ہم مزید دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کہاں سے لاپتا ہوئے؟ وکیل بابر اعوان نے بتایا کہ لاہور سے لاپتا ہوئے پھر ایجنسیز کی جانب سے ہم سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا وہ ہمارے پاس ہیں، اظہر مشوانی کی اہلیہ کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا، اظہر مشوانی کو کہا گیا کچھ میٹریل ہے وہ آپ ڈیلیٹ کر دیں، کہا گیا آئندہ آپ ٹویٹ نہیں کریں گے۔
بابر اعوان نے عدالت کو دستاویزات پڑھ کر سنائیں اور بتایا کہ ہم نے پہلے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اس کے بعد وہاں سے واپس لے کر درخواست یہاں دائر کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میں نے اس لیے پوچھا کہاں سے لاپتا ہوئے کیونکہ میں نے دیکھنا ہے کہ میرا دائرہ اختیار ہے بھی کہ نہیں، اٹارنی جنرل نے واضح بیان دے دیا ہے کہ مغوی ایجنسیز کے پاس نہیں۔
اٹارنی جرنل نی بتایا کہ میں ڈاکٹر صاحب کو بتا دوں میں ذاتی طور پر معاملے کو دیکھ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اعلی ترین لاء افسر ہیں انکا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام ادارے اس پر کام کر رہے ہیں، تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کیا کام کر رہی ہے اس پر وہ رپورٹ دے دیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم رپورٹ دے دیں گے تمام ادارے اس کیس پر کام کر رہے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اظہر مشوانی کے گھر ایک فون آیا کہ میں فلاں ادارے سے ہوں تین مطالبات رکھے گئے، ٹویٹ ڈیلیٹ کریں اور آئندہ کوئی ٹویٹ نہیں کریں گے، اس کے بعد ہم نے لاہورہائیکورٹ سے درخواست واپس لی اور اسلام آباد آئے، اسے پروسیڈ کرنے کے دو طریقے ہیں، اگر آپ کہیں کہ یہاں سے بھی ریلیف نہیں ملنا تو پھر، آپ کی دو ججمنٹس آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے حدود سے متعلق نہیں بلکہ یہ پوچھا کہ کہاں سے لاپتہ ہوئے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کہ کسی بھی ایجنسی کے پاس نہیں لیکن کوشش کر رہے ہیں، ایک اعلیٰ اور ذمہ دار عہدیدار ہیں، اٹارنی جنرل صاحب مناسب یہ ہے جلد کچھ کریں۔
بابر اعوان نے دلائل میں کہا کہ کچے کے ڈاکوؤں نے یوٹیوب چینل بنا کر کہا سبسکرائب کریں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جنوبی پنجاب و دیگر علاقوں کی صورتحال تو بڑی خراب ہے، کچے کے ڈاکوؤں کو ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ وزارت داخلہ ایک اہم وزارت ہے، اسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں ذاتی طور پر اس کے لیے کوشش کر رہا، ڈاکٹر صاحب کے لیے بھی احترام ہے، ہم تمام تر وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی اٹارنی جنرل لاپتا افراد سے متعلق تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ آج 85 دن ہوگئے، کیسے ہم کہہ سکتے کہ ہمیں پتا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کوشش جاری رکھیں کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو عدالت کو آگاہ کر دیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتہ تک کے لیے ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل بابر اعوان اور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا کہ معاملہ اعلی حکام کے سامنے رکھا گیا ہے، دونوں لاپتا مغوی کسی ایجنسی کے پاس نہیں، ڈاکٹر بابر اعوان مجھے معلومات شئیر کر دیں ہم مزید دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کہاں سے لاپتا ہوئے؟ وکیل بابر اعوان نے بتایا کہ لاہور سے لاپتا ہوئے پھر ایجنسیز کی جانب سے ہم سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا وہ ہمارے پاس ہیں، اظہر مشوانی کی اہلیہ کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا، اظہر مشوانی کو کہا گیا کچھ میٹریل ہے وہ آپ ڈیلیٹ کر دیں، کہا گیا آئندہ آپ ٹویٹ نہیں کریں گے۔
بابر اعوان نے عدالت کو دستاویزات پڑھ کر سنائیں اور بتایا کہ ہم نے پہلے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اس کے بعد وہاں سے واپس لے کر درخواست یہاں دائر کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میں نے اس لیے پوچھا کہاں سے لاپتا ہوئے کیونکہ میں نے دیکھنا ہے کہ میرا دائرہ اختیار ہے بھی کہ نہیں، اٹارنی جنرل نے واضح بیان دے دیا ہے کہ مغوی ایجنسیز کے پاس نہیں۔
اٹارنی جرنل نی بتایا کہ میں ڈاکٹر صاحب کو بتا دوں میں ذاتی طور پر معاملے کو دیکھ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اعلی ترین لاء افسر ہیں انکا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام ادارے اس پر کام کر رہے ہیں، تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کیا کام کر رہی ہے اس پر وہ رپورٹ دے دیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم رپورٹ دے دیں گے تمام ادارے اس کیس پر کام کر رہے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اظہر مشوانی کے گھر ایک فون آیا کہ میں فلاں ادارے سے ہوں تین مطالبات رکھے گئے، ٹویٹ ڈیلیٹ کریں اور آئندہ کوئی ٹویٹ نہیں کریں گے، اس کے بعد ہم نے لاہورہائیکورٹ سے درخواست واپس لی اور اسلام آباد آئے، اسے پروسیڈ کرنے کے دو طریقے ہیں، اگر آپ کہیں کہ یہاں سے بھی ریلیف نہیں ملنا تو پھر، آپ کی دو ججمنٹس آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے حدود سے متعلق نہیں بلکہ یہ پوچھا کہ کہاں سے لاپتہ ہوئے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کہ کسی بھی ایجنسی کے پاس نہیں لیکن کوشش کر رہے ہیں، ایک اعلیٰ اور ذمہ دار عہدیدار ہیں، اٹارنی جنرل صاحب مناسب یہ ہے جلد کچھ کریں۔
بابر اعوان نے دلائل میں کہا کہ کچے کے ڈاکوؤں نے یوٹیوب چینل بنا کر کہا سبسکرائب کریں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جنوبی پنجاب و دیگر علاقوں کی صورتحال تو بڑی خراب ہے، کچے کے ڈاکوؤں کو ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ وزارت داخلہ ایک اہم وزارت ہے، اسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں ذاتی طور پر اس کے لیے کوشش کر رہا، ڈاکٹر صاحب کے لیے بھی احترام ہے، ہم تمام تر وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی اٹارنی جنرل لاپتا افراد سے متعلق تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ آج 85 دن ہوگئے، کیسے ہم کہہ سکتے کہ ہمیں پتا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کوشش جاری رکھیں کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو عدالت کو آگاہ کر دیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتہ تک کے لیے ملتوی کر دی۔