نوسوننانوے عشاریہ نوسو ننانوے اگین
دنیا میں اس وقت مروج رواں دواں چلتے ہوئے آن پراگریس ننانوے عشاریہ ننانوے فی صد جھوٹ کاکچھ ذکر ہم نے کیا ہے لیکن بہت سا یعنی ننانوے عشاریہ ننانوے حصہ باقی بھی رہ گیا تھا خاص طور پر وہ حصہ جس پر ''علاج'' کی تہمت لگائی جاتی ہے اور پھر اسی علاج نامی ننانوے عشاریہ ننانوے فی صد جھوٹ کے اس گینگ کا بھی کچھ نہ کچھ تذکرہ کرتے رہے ہیں جس میں ''اجرتی'' مسیحاؤں سے لے کر بڑے بڑے اسپتالوں ، کلینکس، لیبارٹریوں اوردواساز کمپنیوں تک سارے ''شارپ شوٹر'' شامل ہیں۔
آپ یقین کریں جب ہم اس گینگ کے مظاہروں کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی آدم خورجنگلی قبیلے کی کوئی فلم دیکھ رہے ہوں جس میں آدم خوروں نے کسی آدم کو پکڑ کر باندھا ہوا ہو اورجنگلی اس کے گرد ہوہو ہاہا کر کے ناچ رہے ہوں اورایسے مناظر آج کل ہرشہر قصبے گاؤں اورآبادی میں تسلسل سے چل رہے ہیں یا ایسا لگتا ہے جیسے حکومت نے کسی دیوانے سانڈ یا ہاتھی کوعوام پر کھلا چھوڑ دیا ہوا اورعوام کو ایک احاطے میں بند کردیا ہو ، یہاں ہم مست ہاتھی یاسانڈ کی جگہ ''شیریا بھیڑیا'' بھی لکھ سکتے تھے لیکن پھر سوچا کہ شیر یا بھیڑیا تو شکار کو ''مار'' کر غموں سے مکت کردیتے جب کہ سانڈ اور ہاتھی رگید رگید اورکچل کچل کر اپنا شغل جاری رکھتے ہیں ،اسی بنیاد پر ان مسیحاؤں کو ''قاتل'' نہیں کہا جاسکتا ہے کہ قاتل بھی مقتول کو ایک دم ''خلاص'' کردیتا ہے جب کہ یہ ''مسیحا ''مریض کو گائے بنا کر دوہتے ہیں لیکن ہم اس ننانوے عشاریہ ننانوے جھوٹ کا ذکر بھی نہیں کررہے ہیں بلکہ اس نوسو ننانوے عشاریہ نوسو ننانوے جھوٹ کا ذکر کرناچاہتے ہیں جس سے یہ ساری دنیا اس وقت چل رہی ہے یا اس ''جنگ عظیم'' کا جس کے ہتھیار وہ تمام گھریلو اشیاء ہیں جو بیرونی یا لوکل طور پر استعمال ہوتی ہیں اور جس کی مشہوری کے لیے اجرت دی جاتی ہے ۔
کسی بھی فلسفے یا سائنس وٹیکنالوجی کا ذکر کیے بغیر سیدھی سی ایک بات درختوں پودوں اورفصلوں کی مثال لیتے ہیں، دنیا میں ایسا کوئی درخت یا پودا یا فصل نہیں جس کی نشوونما پتوں یا شاخوں کوکھاد دے کر ہوسکے کہ درخت یا پودے کا ہرہرحصہ ''جڑوں'' سے نشوونما پاتا ہے بلکہ امراض بھی اسے تب لگتے ہیں جب جڑوں سے خوراک کم ہوجاتی ہے، البتہ چند فلائی یا سنڈی قسم کے عوارض کی بات اورہے بلکہ کاشتکاروں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پودے اور فصلیں اگر جڑوں کی طرف سے مضبوط ہوں، کھاد پانی مناسب مل رہا ہو تو مضبوط اور اچھی فصل کو یہ عوارض لاحق نہیں ہوتے۔ جس طرح مضبوط انسان میں قوت مدافعت بھی مضبوط ہوتی ہے۔
اسی طرح درختوں، پودوں اور فصلوں میں بھی ہوتا ہے ، ایسے میں انسان ہوں، حیوانات ہوں، کھاد پانی اورمٹی وہ اجزا فراہم نہ کررہے ہوں جو ان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کمزور ہوکر طرح طرح کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان امراض کا علاج بیرونی یا لوکل دواؤں سے ہرگز ممکن نہیں ہوتا، چنانچہ یہ بالوں، دانتوں اورجلد کے لیے جو ہزاروں لاکھوں چیزیں ایجاد ہورہی ہیں ، پبلسٹی کے زور پر بیچی جارہی ہیں سب کی سب فضول ہیں، دھوکا ہیں اور نوسوننانوے عشاریہ نوسو ننانوے فی صد جھوٹ ہے ،یہ بالوں دانتوں اور جلد کے سارے امراض کی اندرونی کمی سے لاحق ہوتی ہے اور اندرونی کمی کو بیرونی یا لوکل دواؤں سے ٹھیک کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بال گرتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، دومونہے ہوتے ہیں، یا بے وقت سفید ہوتے ہیں تو اس کی وجہ کوئی نہ کوئی اندرونی کمی یا سسٹم کی خرابی ہوتی ہے ، آپ کسی ''بھوکے '' کے پیٹ پر قیمتی سے قیمتی کھانا باندھیں یا ملیں ، کسی پیاسے کو پانی میں غوطے دیں، اس کی بھوک یا پیاس تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک کھانا اور پانی اس کے پیٹ میں نہیں پہنچے گا ۔
کہا جاتا ہے کہ جس طرح نباتات کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں اور وہ زمین یا مٹی سے عناصر لے کر نباتات کو فراہم کرتی ہیں، اسی طرح حیوانات یا انسان کی جڑیں اس کے پیٹ (آنتیں اوراعضائے رئیسہ) میں ہوتی ہیں جو خوراک سے ضروری اجزا لے کر جسم کو فراہم کرتی ہیں، لوکل بیرونی استعمال سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسکول کے زمانے میں ایک نصابی کہانی تھی کہ ایک مرتبہ ''بدن'' کے سارے اعضاء ، آنکھوں، کانوں ،منہ، ہاتھوں اور پیروں نے آپس میں ایکا کرلیا کہ ہم سب کام کرکے خوراک فراہم کرتے ہیں اور یہ ''پیٹ'' کچھ بھی نہ کرکے مفت میں ہڑپتا ہے، چنانچہ سب نے کام چھوڑ ہڑتال کردی اورپیٹ کو خوراک دینا بند کردیا لیکن کچھ دنوں بعد ان سارے اعضاء نے اپنے اندرکمزوری محسوس کرنا شروع کی تو سب کو پتہ چلا کہ صرف ہم ہی پیٹ کو نہیں دیتے بلکہ پیٹ بھی ہم سب کو دیتا ہے بلکہ یہ پیٹ اورآنتیں وغیرہ ہیں جو فضول فضول سی اشیاء سے طاقت کشید کرکے ہمیں دیتے ہیں ۔
اس بیناد پر دیکھا جائے تو بازار میں یہ جو بالوں دانتوں جلد کی اوردوسری لوکل ٹریٹمنٹ کے پراڈکٹس ہیں ،سراسر ایک دھوکا، فریب اور عیاری ہے ، آپ بادام، اخروٹ، کشمش ، گھی ،مکھن یا پھلوں سبزیوں کو سر پر ڈھیر کردیں ، گرتے بال بند نہیں ہوں گے ، ٹوتھ پیسٹوں میں ہیرے موتی استعمال کریں ،کریم اور پاوڈروں میں سونا چاندی استعمال کریں، بال اوردانت گرکر ہی رہیں گے کہ نقص ان کی جڑوں میں ہوتا ہے، یہ ایسا ہے جیسے آپ کسی نلکے اور پائپ کو باہرسے بند کرنے کی کوشش کریں ۔
آپ یقین کریں جب ہم اس گینگ کے مظاہروں کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی آدم خورجنگلی قبیلے کی کوئی فلم دیکھ رہے ہوں جس میں آدم خوروں نے کسی آدم کو پکڑ کر باندھا ہوا ہو اورجنگلی اس کے گرد ہوہو ہاہا کر کے ناچ رہے ہوں اورایسے مناظر آج کل ہرشہر قصبے گاؤں اورآبادی میں تسلسل سے چل رہے ہیں یا ایسا لگتا ہے جیسے حکومت نے کسی دیوانے سانڈ یا ہاتھی کوعوام پر کھلا چھوڑ دیا ہوا اورعوام کو ایک احاطے میں بند کردیا ہو ، یہاں ہم مست ہاتھی یاسانڈ کی جگہ ''شیریا بھیڑیا'' بھی لکھ سکتے تھے لیکن پھر سوچا کہ شیر یا بھیڑیا تو شکار کو ''مار'' کر غموں سے مکت کردیتے جب کہ سانڈ اور ہاتھی رگید رگید اورکچل کچل کر اپنا شغل جاری رکھتے ہیں ،اسی بنیاد پر ان مسیحاؤں کو ''قاتل'' نہیں کہا جاسکتا ہے کہ قاتل بھی مقتول کو ایک دم ''خلاص'' کردیتا ہے جب کہ یہ ''مسیحا ''مریض کو گائے بنا کر دوہتے ہیں لیکن ہم اس ننانوے عشاریہ ننانوے جھوٹ کا ذکر بھی نہیں کررہے ہیں بلکہ اس نوسو ننانوے عشاریہ نوسو ننانوے جھوٹ کا ذکر کرناچاہتے ہیں جس سے یہ ساری دنیا اس وقت چل رہی ہے یا اس ''جنگ عظیم'' کا جس کے ہتھیار وہ تمام گھریلو اشیاء ہیں جو بیرونی یا لوکل طور پر استعمال ہوتی ہیں اور جس کی مشہوری کے لیے اجرت دی جاتی ہے ۔
کسی بھی فلسفے یا سائنس وٹیکنالوجی کا ذکر کیے بغیر سیدھی سی ایک بات درختوں پودوں اورفصلوں کی مثال لیتے ہیں، دنیا میں ایسا کوئی درخت یا پودا یا فصل نہیں جس کی نشوونما پتوں یا شاخوں کوکھاد دے کر ہوسکے کہ درخت یا پودے کا ہرہرحصہ ''جڑوں'' سے نشوونما پاتا ہے بلکہ امراض بھی اسے تب لگتے ہیں جب جڑوں سے خوراک کم ہوجاتی ہے، البتہ چند فلائی یا سنڈی قسم کے عوارض کی بات اورہے بلکہ کاشتکاروں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پودے اور فصلیں اگر جڑوں کی طرف سے مضبوط ہوں، کھاد پانی مناسب مل رہا ہو تو مضبوط اور اچھی فصل کو یہ عوارض لاحق نہیں ہوتے۔ جس طرح مضبوط انسان میں قوت مدافعت بھی مضبوط ہوتی ہے۔
اسی طرح درختوں، پودوں اور فصلوں میں بھی ہوتا ہے ، ایسے میں انسان ہوں، حیوانات ہوں، کھاد پانی اورمٹی وہ اجزا فراہم نہ کررہے ہوں جو ان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کمزور ہوکر طرح طرح کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان امراض کا علاج بیرونی یا لوکل دواؤں سے ہرگز ممکن نہیں ہوتا، چنانچہ یہ بالوں، دانتوں اورجلد کے لیے جو ہزاروں لاکھوں چیزیں ایجاد ہورہی ہیں ، پبلسٹی کے زور پر بیچی جارہی ہیں سب کی سب فضول ہیں، دھوکا ہیں اور نوسوننانوے عشاریہ نوسو ننانوے فی صد جھوٹ ہے ،یہ بالوں دانتوں اور جلد کے سارے امراض کی اندرونی کمی سے لاحق ہوتی ہے اور اندرونی کمی کو بیرونی یا لوکل دواؤں سے ٹھیک کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بال گرتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، دومونہے ہوتے ہیں، یا بے وقت سفید ہوتے ہیں تو اس کی وجہ کوئی نہ کوئی اندرونی کمی یا سسٹم کی خرابی ہوتی ہے ، آپ کسی ''بھوکے '' کے پیٹ پر قیمتی سے قیمتی کھانا باندھیں یا ملیں ، کسی پیاسے کو پانی میں غوطے دیں، اس کی بھوک یا پیاس تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک کھانا اور پانی اس کے پیٹ میں نہیں پہنچے گا ۔
کہا جاتا ہے کہ جس طرح نباتات کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں اور وہ زمین یا مٹی سے عناصر لے کر نباتات کو فراہم کرتی ہیں، اسی طرح حیوانات یا انسان کی جڑیں اس کے پیٹ (آنتیں اوراعضائے رئیسہ) میں ہوتی ہیں جو خوراک سے ضروری اجزا لے کر جسم کو فراہم کرتی ہیں، لوکل بیرونی استعمال سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسکول کے زمانے میں ایک نصابی کہانی تھی کہ ایک مرتبہ ''بدن'' کے سارے اعضاء ، آنکھوں، کانوں ،منہ، ہاتھوں اور پیروں نے آپس میں ایکا کرلیا کہ ہم سب کام کرکے خوراک فراہم کرتے ہیں اور یہ ''پیٹ'' کچھ بھی نہ کرکے مفت میں ہڑپتا ہے، چنانچہ سب نے کام چھوڑ ہڑتال کردی اورپیٹ کو خوراک دینا بند کردیا لیکن کچھ دنوں بعد ان سارے اعضاء نے اپنے اندرکمزوری محسوس کرنا شروع کی تو سب کو پتہ چلا کہ صرف ہم ہی پیٹ کو نہیں دیتے بلکہ پیٹ بھی ہم سب کو دیتا ہے بلکہ یہ پیٹ اورآنتیں وغیرہ ہیں جو فضول فضول سی اشیاء سے طاقت کشید کرکے ہمیں دیتے ہیں ۔
اس بیناد پر دیکھا جائے تو بازار میں یہ جو بالوں دانتوں جلد کی اوردوسری لوکل ٹریٹمنٹ کے پراڈکٹس ہیں ،سراسر ایک دھوکا، فریب اور عیاری ہے ، آپ بادام، اخروٹ، کشمش ، گھی ،مکھن یا پھلوں سبزیوں کو سر پر ڈھیر کردیں ، گرتے بال بند نہیں ہوں گے ، ٹوتھ پیسٹوں میں ہیرے موتی استعمال کریں ،کریم اور پاوڈروں میں سونا چاندی استعمال کریں، بال اوردانت گرکر ہی رہیں گے کہ نقص ان کی جڑوں میں ہوتا ہے، یہ ایسا ہے جیسے آپ کسی نلکے اور پائپ کو باہرسے بند کرنے کی کوشش کریں ۔