ہمارا بلوچستان

ہمیشہ ان کو مجھ سے ایک شکوہ رہا کہ میں ان کو ملنے کے لیے پہاڑوں تک کیوں نہیں آیا

Jvqazi@gmail.com

ایسا ہی موسم تھا، اکیس سال پہلے جب میں ڈیرہ بگٹی گیا تھا،اکبر بگٹی سے ایک ٹی وی چینل کے انٹرویوکے سلسلے میں۔ اس وقت یہ سیٹلائٹ چینلز بہت ٹرینڈ میں تھے، جس طرح سے آج کل سوشل میڈیا ہے۔ نواب اکبر بگٹی کچھ عرصے تک عوامی لیگ کے رکن رہے۔ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن، پہلے نواب شاہ آئے، پھر وہ جیکب آباد پہنچے اور آخر میں کوئٹہ گئے، میرے والد قاضی فیض محمد اس سفر میں ان کے ہمراہ تھے۔ ان دنوں نواب اکبر بگٹی، دوسرے بلوچ رہنماؤں خیر بخش مری، مینگل اور بزنجو صاحب اور نیشنل عوامی پارٹی سے نالاں تھے۔

دشمنی اس حد تک گئی کہ جب NAP حکومت برخاست کی گئی تو ذوالفقارعلی بھٹو نے نواب اکبر بگٹی کوگورنرشپ کی پیش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا، یوں اکبر بگٹی گورنر بلوچستان بن گئے۔ جس وقت بلوچستان میں جو فوجی آپریشن کیا گیا، نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے گورنرتھے۔ باقی سارے بلوچ رہنما حیدرآباد سازش کیس بھگت رہے تھے اور جیل میں بند تھے۔

جب میں نواب اکبر بگٹی کے ڈیرے پر پہنچا تو انھوں نے میرا استقبال کسی ٹی وی اینکرکی حیثیت سے نہیں کیا بلکہ قاضی فیض محمد کے بیٹے کی حیثیت سے کیا، میں نے وہاں ایک رات گزاری۔ ایک بلوچ روایتی''چربیلی'' کا اہتمام کیا گیا تاکہ میں ان کے جرگہ قوانین کے طریقہ کار کو دیکھ سکوں۔

انھوں نے دو انٹرویوز بھی دیے۔ ایک انٹرویو میں ان کی ڈبل کیبن میں لیا، یہ انٹرویو سندھ میں اتنا دیکھا گیا کہ شاید ہی کوئی ایسا انٹرویو ہوگا جو سندھ کے لوگوں نے اتنی دلچسپی کے ساتھ دیکھا۔ مجھے اس ٹی وی چینل کے مالکان نے بتایا کہ اس انٹرویوکی کاپی مل گئی ہے اور جلد ہی اسے یو ٹیوب پر اپ لوڈ کردیا جائے گا۔ مہمان نوازی اس قدرکہ جب میں واپس آنے لگا تو وہ نہ صرف گاڑی تک چھوڑنے آئے بلکہ جب تک ان کی نظر سے ہماری گاڑی اوجھل نہ ہوئی وہ خدا حافظ کرنے کے لیے ہاتھ ہلاتے رہے۔

یہ تھا ایک محبتوں کا رشتہ جو ان کی وفات تک قائم رہا۔ ہمیشہ ان کو مجھ سے ایک شکوہ رہا کہ میں ان کو ملنے کے لیے پہاڑوں تک کیوں نہیں آیا۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کی یہ خواہش تھی کہ اگر وہ ڈیرہ بگٹی جائیں تو نواب اکبر بگٹی، سوئی ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کریں۔ یہ جنرل مشرف نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ '' وہ سوئی کے ایئر پورٹ پرآئیں، میرا استقبال کرنے کے لیے، مگر بگٹی کہتے ہیں کہ وہ نہیں آئیں گے، بہت مغرور ہے۔'' مگر یہ روش نواز شریف کی نہ تھی۔ بہ حیثیت وزیرِاعظم جب وہ ڈیرہ بگٹی گئے، ایک ناراض بلوچ لیڈرکو ملنے، تو انھوں نے ایسی کوئی شرط نہ رکھی کہ ایک وزیرِاعظم کا استقبال سوئی کے ایئر پورٹ پرکیا جائے۔ یہی فرق ہے بلوچ کرائسس کو ایک جمہوری زاویے اور فوجی زاویے سے دیکھنے کا۔

پاکستان کی تاریخ ایسی ہی سوچ کا بٹوارہ ہے۔ ایک ہی چیز ہوتی ہے جس کی تشریح سول جمہوری قیادت کچھ اورکرتی ہے اور فوجی قیادت کچھ اور۔ اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے ذرا ان سفاک اور بیمار لوگوں کی بات کرتے چلیں جنھوں نے حال ہی میں نہتے شہریوں کو چن چن کر بسوں سے نکالا اور ان کے شناختی کارڈز دیکھے اور ان کو بے دردی سے قتل کیا۔

یہ قاتل جو اپنے آپ کو بلوچ قوم پرست کہتے ہیں، شاید یہ خود بلوچ نہیں ہیں بلکہ بلوچوں کے دشمن ہیں۔ بلوچوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں، غیربلوچوں کو قتل کرنے والے گینگز اس کیس کی تاثیرکو زائل کر رہے ہیں، ان حرکات سے بلوچ اپنا قومی مقدمہ ہارے رہے ہیں، جیتے نہیں رہے۔ ان نہتے شہریوں کے ناحق قتل پر دنیا کی تمام امن پسند تنظیمیں بول پڑیں۔ اقوامِ متحدہ سے لے کر یورپی یونین نے اس سانحہ کی مذمت کی۔ یہ وہ ادارے ہیں جو پاکستان میں بلوچ قوم پرستوں کے لاپتہ ہونے پر مذمت کرتے تھے۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں اور اس بات کی شورش بلوچستان کے پہاڑوں پر بھی ہے کہ ان فسادات کو برپا کرنے میں بہت سی بیرونی طاقتوں اور اندرونی طاقتوںکی سرمایہ کاری ہے اور یہ قاتل گینگز اب طالبان کے ساتھ مل کر آپریٹ کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بھی پتا ہے کہ پاکستان کو کمزورکرنے کی بات کن کو اچھی لگتی ہے۔


حاصل بزنجو ایک بلوچ قوم پرست لیڈر تھے اور ان کے پاس بلوچستان کے مسائل کا حل پاکستان میں جمہوری جدوجہد کے ساتھ تھا۔ ہم دونوں ڈی ایس ایف میں ہوتے تھے، ان کے والد اور میرے والد نے 24 مارچ،1971کو ڈھاکا سے اڑنے والے آخری ہوائی جہاز میں ایک ساتھ سفرکیا تھا اور دوسرے دن جب ہم نے اس مسئلے کا حل صرف فوجی آپریشن سمجھا تھا اور انھوں نے ایک آزاد ملک کا اعلان کیا تھا۔

میں نے بلوچ سرداروں کے انٹرویوزکیے تھے۔ کمال کے لوگ تھے پھر چاہے وہ خیر بخش مری ہوں، عطا اللہ مینگل ہوں یا پھر نواب اکبر بگٹی۔ یہ تھے تو سردار مگر اپنے عزم پرچٹانوں کی طرح کھڑے تھے۔ ان کی بدنصیبی یہ تھی کہ یہ کبھی آپس میں مل کر نہیں بیٹھے اور نہ ہی تیار تھے خاص کر بگٹی اور مری۔ بلوچوں کی تاریخ میں اکبر بگٹی متنازعہ کردار ہے، مگر یہ پرویز مشرف کی رعونت تھی جس نے اکبر بگٹی قتل کراکے اس کو ہیرو بنا دیا۔

نواب اکبر بگٹی جب قتل کیے گئے، اس وقت وہ پچاسی سال کے ضعیف اور بیمار انسان تھے۔ بات یہ ہے کہ آخر پرویز مشرف کس کا کام کر رہے تھے؟ جنرل مشرف ہی تھے جنھوں نے پاکستان کو بنیادوں تک کمزور بنایا اور ان سے پہلے اس کام کی پہلی اینٹ اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے مل کر رکھی تھی جس کا پہلا مرحلہ جنرل یحیٰ خان اور اس کی کچن کیبنٹ نے پاکستان کو دولخت کرکے مکمل کیا۔

دوسرا مرحلہ جنرل ضیاالحق الحق اور اس کے حواریوں نے مذہبی انتہاپسندی اور جہادی تنظیموںکی سرپرستی کرکے اور لاکھوںکی تعداد میں افغانستان کے باشندوں کو پناہ دے کر مکمل کیا۔تیسرا مرحلہ جنرل پرویز مشرف نے مکمل کیا، پہلے بگٹی اور پھر بے نظیر، جو چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں، اسی دور میں قتل ہوئے۔ جنرل (ر) ظہیر ہوں، جنرل(ر) پاشا ہوں، ہو یا پھر جنرل(ر) فیض حمید ان سب کو ویسا پاکستان چاہیے جیساایوب، یحیٰ، ضیاء مشرف کے دور میں تھا۔ ان آمروں کو بلوچستان میں جمہوری اور جدید سوچ والے لیڈر اور سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں تھی اور نہ وہ جدت پسندی کو پسند کرتے تھے، انھیں روایتی سوچ رکھنے والے سرداران اور وڈیرے چاہیے تھے جو ان کے ساتھ مل کرکام کریں، اگر سوچ یہی ہے تو انگریز راج اور آج کی آزادی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

بڑا ہی افسوس ہوا وزیرِداخلہ کا بیان سن کر کہ '' دہشت گرد ایک ایس ایچ اوکی مار ہیں۔'' کیا وہ اس بات کی خبر رکھتے ہیں کہ بلوچستان میں پولیس اور تھانوں اور لیویز کا انفرا اسٹرکچر کیا ہے؟ ایران اور پاکستان کے بارڈر پر جوکچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے؟ جب آئل اسمگلنگ، منشیات اور غیر قانونی اسلحے کو جرم نہیں کاروبار بن چکا ہو، جب سیکڑوں وکلاء ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو جائیں اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی تقریر میں ان کے زخموں پر نمک چھڑکیں، جب ہزارہ منگول کمیونٹی اور پنجابی مزدور، ہنرمند، بزنس مینزاور تعلیم یافتہ لوگ دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں، لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انھیں بے دردی سے قتل کیا جارہا ہو تو پھر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ بلوچ قوم پرستوں کی آواز سنی جانی چاہیے، اگر وہ اپنے گمشدہ لوگوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو کرنے دیجیے۔ کیا برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ اور ائرلینڈ اورکینیڈا میں کیوبک میں ایسی پارٹیاں نہیں ہیں جو آزادی کا مطالبہ کرتی ہیں۔

لیکن وہاں ایسی آوازوں کا مقابلہ جمہوری عمل اور جمہوری ادارے کررہے ہیں۔ ہمیں بھی ایسی آوازوں کو شکست دینے کے لیے جمہوری عمل اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا پڑے گا، آئین اور قانون کی بالا دستی اور رٹ قائم کرنی پڑے گی۔ بلوچستان کا حل بہت ہی سلیس اور آسان ہے، جمہوریت اور آئین کی بالادستی۔

بلوچ شورش کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں نواب نوروز کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی نمایندگی کرتے ہوئے ایوب خان اور اس کے اقتدار پرست حواریوں نے قرآن پر عہد کیا لیکن پھر اسے توڑ دیا۔ نواب نورو کے دو بیٹوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا۔ جنرل ایوب خان تو ایک آمر تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو آمر نہیں تھا، لیکن اقتدار کی خاطر وہ دوسروں کا جرم اپنے کھاتے میں ڈالنے پر تیار ہوگئے، انھوں نے بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط صوبائی حکومت کو تحلیل کیا اور آگے جا کر فوجی آپریشن بھی کرایا۔آج وہ ہی پیپلزپارٹی ہے اور ان کو بلوچستان کے اندرحکومت دی گئی ہے۔ آج بھی بلوچستان کو ہم ایک غیر جمہوری طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔ اسی روایتی آنکھ سے بلوچستان کو دیکھتے ہیں۔

ہم ریاست ہیں، ہم وشال ہیں، اس ریاست میں کئی بھٹکے ہوئے لوگ ہیں اورکئی مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے لوگ بھی۔ ہرطرف مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا غلبہ ہے۔ دہشت گردی، اسمگلنگ، منشیات اور اسلحے کے غیر قانونی کاروبار نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ بلوچستان ہو یا سندھ یا پھرکوئی اور صوبہ، اگر وہ پاکستان نہیں تو پھر وہ علیحدہ حیثیت میں اپنی آزاد سرحدیں بھی برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔
Load Next Story