ٹریفک حادثات کا گراف بڑھ رہا ہے
لوگ شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں کیونکہ قریب یوٹرن نہ ہونے کی وجہ سے بہت آگے سے گھوم کر آنا پڑتا ہے
پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ افراد ٹریفک حادثات میں اپنی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں جب کہ ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موٹرسائیکل سواروں کے حادثات کی شرح بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ نوجوان موٹر سائیکل چلاتے وقت موبائل فون کا استعمال بھی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی المناک واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ایک طرف تو موٹر سائیکل بلاشبہ سستی سواری ہے، لیکن تصویرکا دوسرا رخ دیکھا جائے تو عصر حاضر میں یہ ایک نہایت خطرناک ترین سواری بھی بن چکی ہے، اس وقت موٹر سائیکل حادثات کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے، بلکہ اس طرح کے حادثات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں، اخبارات موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس سے بھرے پڑے ہیں، اگر اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں جانے کا اتفاق ہو تو زیادہ تعداد موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ حضرات کی دیکھنے کو ملے گی، موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو کئی عوامل ہیں۔
ان میں سب سے بڑی وجہ تیز رفتاری ہے۔موٹر سائیکل حادثات کی بنیادی وجوہات میں انسانی غلطیوں کا احتمال سب سے زیادہ ہے، جس کی شرح 95 فی صد بنتی ہے۔ سڑکوں میں پائے جانے والے انجینئرنگ فالٹس، ماحولیاتی اثرات، بہتر روڈ انفرا اسٹرکچرکی عدم موجودگی جب کہ دیگر عوامل میں اوور اسپیڈنگ، رانگ وے سفرکرنا، قانون پر عدم عمل درآمد، موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا اور کم عمری میں ڈرائیونگ جیسے عوامل کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے۔کراچی میں ٹریفک حادثات کی شرح زیادہ ہونے کی بھی سب سے بڑی وجہ انسانی غلطیاں ہی ہیں۔
سب سے بڑی وجہ آبادی کے بڑے حصے کو روڈ سینس نہ ہونا ہے جب کہ پشاور،کوئٹہ، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور ملک کے دیگر شہروں کی نسبت کراچی میں رانگ وے سے سفرکرنے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بے حد زیادہ ہے۔ جہاں رانگ وے سے آنا جانا جرم کے بجائے حق سمجھا جاتا ہے۔ان حادثات کا زیادہ تر شکار نوجوان ہوتے ہیں، موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے والے زیادہ تر نوجوان بارہ سے17 سال کے ہوتے ہیں، اس عمرکے نوجوانوں میں خوف نہیں ہوتا۔ دوسری جانب پاکستان میں ٹریفک سے متعلقہ آرڈیننس بہت پرانے ہیں، جنھیں روزمرہ کے بڑھتے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپ ڈیٹ کرنے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے یہاں اکثریت اتنی تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلا رہی ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ ایسے افراد نے دراصل اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا رکھی ہوتی ہیں۔ صرف دو پہیوں پر مشتمل ایسی سواری جس کا توازن تھوڑی سی رکاوٹ پر بھی بگڑ جائے، اسے 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے چلانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اتنے تیز رفتار موٹر سائیکل سوار کے سامنے یا سائیڈ سے اگر کوئی دوسری گاڑی آجائے تو وہ کسی طرح بھی اپنی موٹر سائیکل کو کنٹرول نہیں کرسکتا اور نتیجہ حادثے کی صورت میں نکلتا ہے، اگر مناسب اسپیڈ رکھی جائے تو اس قسم کے حادثات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ چھوٹی عمر کے بچے بھی تیز رفتاری سے موٹر سائیکل بھگا رہے ہوتے ہیں، جن کو نہ تو موٹر سائیکل ٹھیک طرح سے چلانا آتا ہے اور نہ ہی ٹریفک کے اصولوں کا پتہ ہوتا ہے اور وہ حادثے کا باعث بنتے ہیں یا خود حادثے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اِس ضمن میں والدین سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط برتیں، اِس سے پہلے کہ خدانخواستہ عمر بھر کا پچھتاوا بن جائے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بعض بڑی عمر کے افراد بھی موٹر سائیکل چلاتے دکھائی دیتے ہیں، جن کو ٹھیک طرح سے ڈرائیونگ نہیں آتی اور حادثے کا سبب بنتے ہیں۔
اِن ایکسیڈنٹس کی ایک اور بڑی وجہ موٹر سائیکل پر ایک سے زائد افراد کا سفرکرنا بھی ہے، لیکن بعض اوقات تو چار چار افراد بھی سوار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مومینٹم بہت بڑھ جاتا ہے اور موٹر سائیکل پرکنٹرول نہیں رہتا۔ موٹر سائیکل استعمال کرنے والے حضرات اشاروں کا استعمال نہیں کرتے اور زیادہ تعداد میں تو ایسے موٹر سائیکل ہیں، جن کے اشارے سرے سے ہیں ہی نہیں، اگر مڑتے وقت دائیں بائیں دیکھ لیا جائے تو کئی ناخوشگوار واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔ غلط اوور ٹیکنگ بھی موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کئی موٹر سائیکل سوار روزانہ غلط اوور ٹیکنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، اب خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہو جائے تو سرکے زخموں کی سب سے بڑی وجہ ہیلمٹ کا استعمال نہ ہونا ہے۔
ہیلمٹ زندگی بچانے کے لیے ہے، لیکن ہم بدقسمتی سے اسے صرف جرمانے سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہیلمٹ کے استعمال سے ستر فیصد تک مہلک قسم کی انجری کے چانس کم ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں بمشکل دس فیصد افراد ہی ہیلمٹ استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل نہیں چلایا جاسکتا، لیکن ہمارے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق موٹر سائیکل حادثات کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات دماغی چوٹ کی وجہ سے ہوتی ہیں، اگر کسی بھی موٹرسائیکل سوار نے ہیلمٹ پہن رکھا ہو تو سیریس قسم کی انجری سے بچ سکتا ہے۔ خیر اب تو لاہور ہائیکورٹ کے ایک حکم کے مطابق ہیلمٹ لازمی قرار دے دیا گیا ہے اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں جرمانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
کراچی میں کُل ٹریفک کا 60 سے 70 فی صد موٹر سائیکل سواروں پر مشتمل ہے جن میں سے بہت کم لوگ ہی ہیلمٹ استعمال کرتے ہیں۔ شہر میں کئی سگنل فری کوریڈورز بنائے گئے ہیں لیکن یہ سگنل فری کوریڈورز ایسے علاقوں سے گزر رہے ہیں جو گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے۔ جہاں آبادی زیادہ ہے اور سڑک کراس کرنے والوں کے لیے پیڈسٹرین برجز، فٹ پاتھ اور دیگر سہولیات کا سوچا ہی نہیں گیا۔ یہی نہیں بلکہ راستے میں بچت بازار بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ ٹھیلے کھڑے ہوتے ہیں اور تجاوزات کی بھر مار بھی ہے، جب کہ کار پارکنگ بھی مین سڑکوں پر ہی رکھی جاتی ہے جس سے ٹریفک حادثات کی شرح بڑھتی ہے۔شہر کی سڑکوں پر یو ٹرن کا ہونا بہت ضروری ہے، بڑے شہروں میں رہنے والے عوام کا بہت رش ہوتا ہے، ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے جس کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔
جس کو جہاں سے جگہ ملتی ہے وہ بس چاہتا ہے کہ گزر جائے،جب سے پٹرول کی قیمتوں میں اور مجموعی طور پر بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے لوگ شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں کیونکہ قریب یوٹرن نہ ہونے کی وجہ سے بہت آگے سے گھوم کر آنا پڑتا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالے حادثات کی وجوہات میں 60فیصد بغیر ہیلمٹ،95فیصد وہ موٹر سائیکل سوار تھے جن کی گاڑی میں پیچھے دیکھنے کا آئینہ نہیں تھا۔ بائیک خریدتے ہیں تو ہمیں تھیلی میں دو شیشے دیے جاتے ہیںکہ ان کو گاڑی میں لگا لیں، لیکن ہم واپس کردیتے ہیں کہ ضرورت نہیں، یہ فیشن ہے۔
ہمیں آئینے والی بائیک اچھی نہیں لگتی۔ اس پر عمل کرنے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ زندگی سے بڑھ کے کچھ بھی زیادہ قیمتی نہیں ہے اور باقی جو آدمی کم از کم چالیس پچاس ہزارکا موٹر سائیکل خرید سکتا ہے، دو ہزارکا ہیلمٹ بھی خرید سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے کسی بھی طرح کی رعایت نہ دی جائے اور ساتھ ساتھ موٹر سائیکل کمپنیوں کو بھی پابند کرے کہ وہ ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل فروخت نہ کریں۔
ایک بات یہاں دیکھنے کو ملی ہے کہ ہیلمٹ کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کردیا گیا ہے تو اس صورت حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ کوالٹی کے لحاظ سے ان کی قیمت مقررکردے۔جو لوگ ہیلمٹ غریب ہونے کی وجہ سے نہیں خرید سکتے وہ ایک لاکھ 50 ہزار کا موٹر سائیکل کیسے خرید کرتے ہیں اور کیونکر اس کی مرمت بھی کرواتے ہیں؟ پاکستانی قوم 2000 جرمانہ ادا نہیں دے سکتی ہاں مگر حادثے پر اٹھنے والی بھاری اخراجات آسانی سے برداشت کر سکتی ہے، موٹرسائیکل رائیڈرز کو چاہیے کہ وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نہ صرف ہیلمٹ کا استعمال کریں بلکہ ٹریفک کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں جس سے حادثات کی شرح میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
عوام الناس، بالخصوص نوجوانوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ نہ صرف ہیلمٹ کا استعمال کریں، بلکہ ہیلمٹ بھی اچھی قسم کا خریدیں،کیونکہ گھٹیا میٹریل سے بنا ہیلمٹ بجائے فائدے کے اور زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس کی شرح کم کیسے کی جاسکتی ہے؟ اس کے لیے چند احتیاطی تدابیر ضروری ہیں، مثلاً ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمدکیا جائے۔ اشاروں کا بالکل صحیح استعمال کیا جائے، صرف یہی نہیں سڑک پرکسی بھی وقت مڑتے ہوئے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں ضرور دیکھنا چاہیے، جب تک موٹر سائیکل چلانے کا طریقہ ٹھیک طرح سے نہ سیکھ لیا جائے، موٹر سائیکل ہرگز نہ چلائیں اور سب سے اہم بات کہ اسپیڈ پر قابو پایا جائے، کیونکہ دیر سے پہنچنا کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے۔
لوگ ٹریفک کانسٹیبل کو اہمیت نہیں دیتے جب کہ وہ سخت گرمی اور سردی میں ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔حکومت بہتر ٹرانسپورٹ کا نظام دے تو موٹر سائیکل کی سواری کم ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت سنجیدہ نہیں ہوتی۔ حکومتی اداروں کا تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر شہری مسائل حل کرنے کا کام وقت کی ضرورت ہے، اس سے مسائل حل ہوں گے اور عوام میں ٹریفک قوانین کے حوالے سے آگہی پیدا ہوگی۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موٹرسائیکل سواروں کے حادثات کی شرح بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ نوجوان موٹر سائیکل چلاتے وقت موبائل فون کا استعمال بھی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی المناک واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ایک طرف تو موٹر سائیکل بلاشبہ سستی سواری ہے، لیکن تصویرکا دوسرا رخ دیکھا جائے تو عصر حاضر میں یہ ایک نہایت خطرناک ترین سواری بھی بن چکی ہے، اس وقت موٹر سائیکل حادثات کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے، بلکہ اس طرح کے حادثات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں، اخبارات موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس سے بھرے پڑے ہیں، اگر اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں جانے کا اتفاق ہو تو زیادہ تعداد موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ حضرات کی دیکھنے کو ملے گی، موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو کئی عوامل ہیں۔
ان میں سب سے بڑی وجہ تیز رفتاری ہے۔موٹر سائیکل حادثات کی بنیادی وجوہات میں انسانی غلطیوں کا احتمال سب سے زیادہ ہے، جس کی شرح 95 فی صد بنتی ہے۔ سڑکوں میں پائے جانے والے انجینئرنگ فالٹس، ماحولیاتی اثرات، بہتر روڈ انفرا اسٹرکچرکی عدم موجودگی جب کہ دیگر عوامل میں اوور اسپیڈنگ، رانگ وے سفرکرنا، قانون پر عدم عمل درآمد، موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا اور کم عمری میں ڈرائیونگ جیسے عوامل کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے۔کراچی میں ٹریفک حادثات کی شرح زیادہ ہونے کی بھی سب سے بڑی وجہ انسانی غلطیاں ہی ہیں۔
سب سے بڑی وجہ آبادی کے بڑے حصے کو روڈ سینس نہ ہونا ہے جب کہ پشاور،کوئٹہ، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور ملک کے دیگر شہروں کی نسبت کراچی میں رانگ وے سے سفرکرنے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بے حد زیادہ ہے۔ جہاں رانگ وے سے آنا جانا جرم کے بجائے حق سمجھا جاتا ہے۔ان حادثات کا زیادہ تر شکار نوجوان ہوتے ہیں، موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے والے زیادہ تر نوجوان بارہ سے17 سال کے ہوتے ہیں، اس عمرکے نوجوانوں میں خوف نہیں ہوتا۔ دوسری جانب پاکستان میں ٹریفک سے متعلقہ آرڈیننس بہت پرانے ہیں، جنھیں روزمرہ کے بڑھتے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپ ڈیٹ کرنے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے یہاں اکثریت اتنی تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلا رہی ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ ایسے افراد نے دراصل اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا رکھی ہوتی ہیں۔ صرف دو پہیوں پر مشتمل ایسی سواری جس کا توازن تھوڑی سی رکاوٹ پر بھی بگڑ جائے، اسے 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے چلانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اتنے تیز رفتار موٹر سائیکل سوار کے سامنے یا سائیڈ سے اگر کوئی دوسری گاڑی آجائے تو وہ کسی طرح بھی اپنی موٹر سائیکل کو کنٹرول نہیں کرسکتا اور نتیجہ حادثے کی صورت میں نکلتا ہے، اگر مناسب اسپیڈ رکھی جائے تو اس قسم کے حادثات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ چھوٹی عمر کے بچے بھی تیز رفتاری سے موٹر سائیکل بھگا رہے ہوتے ہیں، جن کو نہ تو موٹر سائیکل ٹھیک طرح سے چلانا آتا ہے اور نہ ہی ٹریفک کے اصولوں کا پتہ ہوتا ہے اور وہ حادثے کا باعث بنتے ہیں یا خود حادثے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اِس ضمن میں والدین سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط برتیں، اِس سے پہلے کہ خدانخواستہ عمر بھر کا پچھتاوا بن جائے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بعض بڑی عمر کے افراد بھی موٹر سائیکل چلاتے دکھائی دیتے ہیں، جن کو ٹھیک طرح سے ڈرائیونگ نہیں آتی اور حادثے کا سبب بنتے ہیں۔
اِن ایکسیڈنٹس کی ایک اور بڑی وجہ موٹر سائیکل پر ایک سے زائد افراد کا سفرکرنا بھی ہے، لیکن بعض اوقات تو چار چار افراد بھی سوار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مومینٹم بہت بڑھ جاتا ہے اور موٹر سائیکل پرکنٹرول نہیں رہتا۔ موٹر سائیکل استعمال کرنے والے حضرات اشاروں کا استعمال نہیں کرتے اور زیادہ تعداد میں تو ایسے موٹر سائیکل ہیں، جن کے اشارے سرے سے ہیں ہی نہیں، اگر مڑتے وقت دائیں بائیں دیکھ لیا جائے تو کئی ناخوشگوار واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔ غلط اوور ٹیکنگ بھی موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کئی موٹر سائیکل سوار روزانہ غلط اوور ٹیکنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، اب خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہو جائے تو سرکے زخموں کی سب سے بڑی وجہ ہیلمٹ کا استعمال نہ ہونا ہے۔
ہیلمٹ زندگی بچانے کے لیے ہے، لیکن ہم بدقسمتی سے اسے صرف جرمانے سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہیلمٹ کے استعمال سے ستر فیصد تک مہلک قسم کی انجری کے چانس کم ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں بمشکل دس فیصد افراد ہی ہیلمٹ استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل نہیں چلایا جاسکتا، لیکن ہمارے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق موٹر سائیکل حادثات کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات دماغی چوٹ کی وجہ سے ہوتی ہیں، اگر کسی بھی موٹرسائیکل سوار نے ہیلمٹ پہن رکھا ہو تو سیریس قسم کی انجری سے بچ سکتا ہے۔ خیر اب تو لاہور ہائیکورٹ کے ایک حکم کے مطابق ہیلمٹ لازمی قرار دے دیا گیا ہے اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں جرمانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
کراچی میں کُل ٹریفک کا 60 سے 70 فی صد موٹر سائیکل سواروں پر مشتمل ہے جن میں سے بہت کم لوگ ہی ہیلمٹ استعمال کرتے ہیں۔ شہر میں کئی سگنل فری کوریڈورز بنائے گئے ہیں لیکن یہ سگنل فری کوریڈورز ایسے علاقوں سے گزر رہے ہیں جو گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے۔ جہاں آبادی زیادہ ہے اور سڑک کراس کرنے والوں کے لیے پیڈسٹرین برجز، فٹ پاتھ اور دیگر سہولیات کا سوچا ہی نہیں گیا۔ یہی نہیں بلکہ راستے میں بچت بازار بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ ٹھیلے کھڑے ہوتے ہیں اور تجاوزات کی بھر مار بھی ہے، جب کہ کار پارکنگ بھی مین سڑکوں پر ہی رکھی جاتی ہے جس سے ٹریفک حادثات کی شرح بڑھتی ہے۔شہر کی سڑکوں پر یو ٹرن کا ہونا بہت ضروری ہے، بڑے شہروں میں رہنے والے عوام کا بہت رش ہوتا ہے، ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے جس کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔
جس کو جہاں سے جگہ ملتی ہے وہ بس چاہتا ہے کہ گزر جائے،جب سے پٹرول کی قیمتوں میں اور مجموعی طور پر بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے لوگ شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں کیونکہ قریب یوٹرن نہ ہونے کی وجہ سے بہت آگے سے گھوم کر آنا پڑتا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالے حادثات کی وجوہات میں 60فیصد بغیر ہیلمٹ،95فیصد وہ موٹر سائیکل سوار تھے جن کی گاڑی میں پیچھے دیکھنے کا آئینہ نہیں تھا۔ بائیک خریدتے ہیں تو ہمیں تھیلی میں دو شیشے دیے جاتے ہیںکہ ان کو گاڑی میں لگا لیں، لیکن ہم واپس کردیتے ہیں کہ ضرورت نہیں، یہ فیشن ہے۔
ہمیں آئینے والی بائیک اچھی نہیں لگتی۔ اس پر عمل کرنے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ زندگی سے بڑھ کے کچھ بھی زیادہ قیمتی نہیں ہے اور باقی جو آدمی کم از کم چالیس پچاس ہزارکا موٹر سائیکل خرید سکتا ہے، دو ہزارکا ہیلمٹ بھی خرید سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے کسی بھی طرح کی رعایت نہ دی جائے اور ساتھ ساتھ موٹر سائیکل کمپنیوں کو بھی پابند کرے کہ وہ ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل فروخت نہ کریں۔
ایک بات یہاں دیکھنے کو ملی ہے کہ ہیلمٹ کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کردیا گیا ہے تو اس صورت حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ کوالٹی کے لحاظ سے ان کی قیمت مقررکردے۔جو لوگ ہیلمٹ غریب ہونے کی وجہ سے نہیں خرید سکتے وہ ایک لاکھ 50 ہزار کا موٹر سائیکل کیسے خرید کرتے ہیں اور کیونکر اس کی مرمت بھی کرواتے ہیں؟ پاکستانی قوم 2000 جرمانہ ادا نہیں دے سکتی ہاں مگر حادثے پر اٹھنے والی بھاری اخراجات آسانی سے برداشت کر سکتی ہے، موٹرسائیکل رائیڈرز کو چاہیے کہ وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نہ صرف ہیلمٹ کا استعمال کریں بلکہ ٹریفک کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں جس سے حادثات کی شرح میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔
عوام الناس، بالخصوص نوجوانوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ نہ صرف ہیلمٹ کا استعمال کریں، بلکہ ہیلمٹ بھی اچھی قسم کا خریدیں،کیونکہ گھٹیا میٹریل سے بنا ہیلمٹ بجائے فائدے کے اور زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل ایکسیڈنٹس کی شرح کم کیسے کی جاسکتی ہے؟ اس کے لیے چند احتیاطی تدابیر ضروری ہیں، مثلاً ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمدکیا جائے۔ اشاروں کا بالکل صحیح استعمال کیا جائے، صرف یہی نہیں سڑک پرکسی بھی وقت مڑتے ہوئے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں ضرور دیکھنا چاہیے، جب تک موٹر سائیکل چلانے کا طریقہ ٹھیک طرح سے نہ سیکھ لیا جائے، موٹر سائیکل ہرگز نہ چلائیں اور سب سے اہم بات کہ اسپیڈ پر قابو پایا جائے، کیونکہ دیر سے پہنچنا کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے۔
لوگ ٹریفک کانسٹیبل کو اہمیت نہیں دیتے جب کہ وہ سخت گرمی اور سردی میں ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔حکومت بہتر ٹرانسپورٹ کا نظام دے تو موٹر سائیکل کی سواری کم ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت سنجیدہ نہیں ہوتی۔ حکومتی اداروں کا تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر شہری مسائل حل کرنے کا کام وقت کی ضرورت ہے، اس سے مسائل حل ہوں گے اور عوام میں ٹریفک قوانین کے حوالے سے آگہی پیدا ہوگی۔