مہنگی بجلی وجہ نوازشات یا معاشی حالات
آصف زرداری کی دور اندیشی تھی جس سے وہ دوبارہ صدر مملکت بن گئے
وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ '' ملک میں بجلی مہنگی آئی پی پیز کی وجہ سے نہیں بلکہ ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے ہے۔ روپے کی گرتی قدر اور بجلی گھروں کا مہنگا کرایہ بجلی کو مہنگا بنا رہا ہے اور ہم آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے ختم نہیں کر سکتے۔'' انھوں نے یہ بھی کہا کہ ''حکومت آئی پی پیز کو نئی شرائط پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بجلی سستی ہو سکے۔'' نگراں حکومت کے نگراں وزیر اعظم اتنے اہم عہدے پر مصلحت کے باعث ہی لائے گئے تھے وہ تو بلوچستان حکومت کی ترجمانی کرتے تھے اور بلوچ روایت کے مطابق سادہ زندگی گزارتے تھے مگر وزیر اعظم بن کر ان کی حکومت نے بھی بجلی و گیس کی قیمتیں اور مہنگائی بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھی تھی اور غیر ملکی دوروں کے علاوہ انھوں نے کچھ نہیں کیا تھا کیونکہ وہ عوام کو جواب دہ تھے نہ انھوں نے الیکشن لڑنے عوام میں جانا تھا۔
اس لیے ان کی حکومت نے اپنے غلط فیصلوں سے عوام کو شدید مہنگائی سے خوب رلایا اور اسیر بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھانے پر ہی توجہ دی تھی جس کی سزا پی ڈی ایم حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے زیادہ بھگتی مگر پیپلز پارٹی8 فروری کو فائدے میں رہی جس نے آصف زرداری کی کامیاب منصوبہ بندی سے پہلے بھی زیادہ کامیابی سمیٹی اور نہ صرف چوتھی بار سندھ کی حکومت حاصل کی تھی بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں زیادہ نشستیں جیت لی تھیں۔ آصف زرداری کی مبینہ خاموشی اور بلاول بھٹو کے انتخابی جلسوں میں مسلم لیگ(ن) پرگرجنے برسنے کی پالیسی کامیاب رہی تھی جس کے بعد بلاول کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہ ہو سکا تھا مگر پیپلز پارٹی نے سندھ کے بعد (ن) لیگ کو آسرا دے کر بلوچستان میں بھی حکومت بنا لی تھی اور بلاول بھٹو اپنا وزیر اعلیٰ دوبارہ منتخب کرانے میں کامیاب رہے تھے اور آصف زرداری اپنی وزیر اعلیٰ نہ لاسکے تھے۔
آصف زرداری کی دور اندیشی تھی جس سے وہ دوبارہ صدر مملکت بن گئے اور پیپلز پارٹی کو سینیٹ کی چیئرمین شپ، قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکرکا عہدہ ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع کی عملی حکمرانی بھی انھوں نے دلوائی تھی مگر (ن) لیگ کی حکومت میں پی پی رہنماؤں کو وزارتوں سے دور رکھ کر انھوں نے (ن) لیگ کو عوام کے طعنے کھانے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی ملک کے مضبوط اور آئینی عہدے لے کر اب بھی مطمئن نہیں اور مسلم لیگ (ن) جس کے پاس وفاق اور پنجاب کی حکومت ہے اسے بلاول بھٹو نے پانچ ماہ بعد پھر پاور شیئرنگ کے لیے اجلاس بلانے پر مجبور کر دیا ہے۔
وزیراعظم نے 14 اگست کو بجلی بلوں میں کمی کی خوشخبری دی تھی جس کے دس روز بعد وزیر توانائی کہہ رہے ہیں کہ بجلی کے سلسلے میں دو ماہ میں اچھی خبر آئے گی۔ وزیر توانائی نے بجلی مہنگی ہونے کی ذمے داری ملک کے معاشی حالات پر ذمے داری ڈال دی ہے جس کے مکمل ذمے دار بھی تقریباً 36 ماہ سے اقتدار میں موجود مسلم لیگ ن ہی ہیں جس نے آئی ایم ایف کے ڈر سے بجلی کی کوئی خوشخبری نہیں دی مگر پنجاب میں مکمل اختیارات پر کنٹرول کے حامل مسلم لیگ ن کی حکومت نے صرف دو ماہ کے لیے پنجاب میں ریلیف دے دیا ہے کیونکہ وہ دوبارہ پنجاب میں (ن) لیگ کو مقبول کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ سندھ دس ارب اور کے پی آٹھ ارب بچا کر بجلی سستی کیوں نہیں کرسکتے؟
نگراں حکومت میں رہنے والے سابق وفاقی وزیرگوہر اعجاز نے فیصل آباد میں پھر کہا ہے کہ موجودہ حکومت کو چالیس خاندانوں کو بچانے کے لیے ملک کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ ان آئی پی پیز کی وجہ سے ہر پاکستانی بجلی بلوں سے پریشان ہے ملک میں صنعتیں بند ہونے میں بڑا ہاتھ مہنگی بجلی کا ہے جو 16 سینٹ فی یونٹ پر نہیں چل سکتیں۔ حکومت ایک لاکھ کروڑ روپے آئی پی پیز کو مفت دے رہی ہے۔ آئی پی پیز سے ایسے معاہدے کیے گئے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوئے اور یہ معاہدے معیشت کا خون چوس رہے ہیں۔
حکومتی مصلحت ختم ہونے کے بعد سابق وزیر عوام کا ساتھ دیتے ہوئے حقائق بیان کر رہے ہیں کہ آئی پی پیز ہی ملک کے خراب معاشی حالات کے ذمے دار ہیں اور حکومتی مصلحت کے باعث وزیر عوام کو حقائق بتانے نہیں رہے ہیں کہ معاشی حالات کے ذمے دار آئی پی پیز نہیں ہیں۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن و دیگر سیاسی و سماجی رہنما، صنعت کار اور عوامی حلقے مہنگی بجلی کا ذمے دار آئی پی پیز کو قرار دے رہے ہیں جس کی تائید بعض (ن) لیگی رہنماؤں نے بھی کی ہے جس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ ماضی کی پی پی، (ن) لیگ اور پی ٹی آئی حکومتوں نے آئی پی پیز سے غلط اور عوام دشمن معاہدے کرکے ملک کی معاشی حالت تباہ کی تھی اور پی ڈی ایم کے بعد اب (ن) لیگی حکومت بھی عوام کے بجائے آئی پی پیز کا ساتھ دے رہی ہے اور اس کی نوازشات آئی پی پیز پر جاری ہیں کیونکہ ان چالیس آئی پی پیز میں بعض حکومتی عہدیدار، پی پی رہنما اور (ن) لیگ کے قریبی امیر ترین افراد بھی شامل ہیں اور وزیر بھی حکومتی پالیسی کے باعث آئی پی پیز کو بچا کر عوام کو غلط باتیں بتا رہے ہیں کہ وہ نہیں بلکہ معاشی حالات مہنگی بجلی کے ذمے دار ہیں۔ یہ مسئلہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے جہاں اب حقائق آشکار ہوں گے کہ ذمے دار کون ہے۔ حکومت اس سلسلے میں تنہا کھڑی ہے جس کی آئی پی پیز پر نوازشات کا اب عدالت میں ہی پتا چل سکے گا کہ ان حالات کا حقیقی ذمے دار کون ہے۔
اس لیے ان کی حکومت نے اپنے غلط فیصلوں سے عوام کو شدید مہنگائی سے خوب رلایا اور اسیر بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھانے پر ہی توجہ دی تھی جس کی سزا پی ڈی ایم حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے زیادہ بھگتی مگر پیپلز پارٹی8 فروری کو فائدے میں رہی جس نے آصف زرداری کی کامیاب منصوبہ بندی سے پہلے بھی زیادہ کامیابی سمیٹی اور نہ صرف چوتھی بار سندھ کی حکومت حاصل کی تھی بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں زیادہ نشستیں جیت لی تھیں۔ آصف زرداری کی مبینہ خاموشی اور بلاول بھٹو کے انتخابی جلسوں میں مسلم لیگ(ن) پرگرجنے برسنے کی پالیسی کامیاب رہی تھی جس کے بعد بلاول کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہ ہو سکا تھا مگر پیپلز پارٹی نے سندھ کے بعد (ن) لیگ کو آسرا دے کر بلوچستان میں بھی حکومت بنا لی تھی اور بلاول بھٹو اپنا وزیر اعلیٰ دوبارہ منتخب کرانے میں کامیاب رہے تھے اور آصف زرداری اپنی وزیر اعلیٰ نہ لاسکے تھے۔
آصف زرداری کی دور اندیشی تھی جس سے وہ دوبارہ صدر مملکت بن گئے اور پیپلز پارٹی کو سینیٹ کی چیئرمین شپ، قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکرکا عہدہ ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع کی عملی حکمرانی بھی انھوں نے دلوائی تھی مگر (ن) لیگ کی حکومت میں پی پی رہنماؤں کو وزارتوں سے دور رکھ کر انھوں نے (ن) لیگ کو عوام کے طعنے کھانے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی ملک کے مضبوط اور آئینی عہدے لے کر اب بھی مطمئن نہیں اور مسلم لیگ (ن) جس کے پاس وفاق اور پنجاب کی حکومت ہے اسے بلاول بھٹو نے پانچ ماہ بعد پھر پاور شیئرنگ کے لیے اجلاس بلانے پر مجبور کر دیا ہے۔
وزیراعظم نے 14 اگست کو بجلی بلوں میں کمی کی خوشخبری دی تھی جس کے دس روز بعد وزیر توانائی کہہ رہے ہیں کہ بجلی کے سلسلے میں دو ماہ میں اچھی خبر آئے گی۔ وزیر توانائی نے بجلی مہنگی ہونے کی ذمے داری ملک کے معاشی حالات پر ذمے داری ڈال دی ہے جس کے مکمل ذمے دار بھی تقریباً 36 ماہ سے اقتدار میں موجود مسلم لیگ ن ہی ہیں جس نے آئی ایم ایف کے ڈر سے بجلی کی کوئی خوشخبری نہیں دی مگر پنجاب میں مکمل اختیارات پر کنٹرول کے حامل مسلم لیگ ن کی حکومت نے صرف دو ماہ کے لیے پنجاب میں ریلیف دے دیا ہے کیونکہ وہ دوبارہ پنجاب میں (ن) لیگ کو مقبول کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ سندھ دس ارب اور کے پی آٹھ ارب بچا کر بجلی سستی کیوں نہیں کرسکتے؟
نگراں حکومت میں رہنے والے سابق وفاقی وزیرگوہر اعجاز نے فیصل آباد میں پھر کہا ہے کہ موجودہ حکومت کو چالیس خاندانوں کو بچانے کے لیے ملک کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ ان آئی پی پیز کی وجہ سے ہر پاکستانی بجلی بلوں سے پریشان ہے ملک میں صنعتیں بند ہونے میں بڑا ہاتھ مہنگی بجلی کا ہے جو 16 سینٹ فی یونٹ پر نہیں چل سکتیں۔ حکومت ایک لاکھ کروڑ روپے آئی پی پیز کو مفت دے رہی ہے۔ آئی پی پیز سے ایسے معاہدے کیے گئے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوئے اور یہ معاہدے معیشت کا خون چوس رہے ہیں۔
حکومتی مصلحت ختم ہونے کے بعد سابق وزیر عوام کا ساتھ دیتے ہوئے حقائق بیان کر رہے ہیں کہ آئی پی پیز ہی ملک کے خراب معاشی حالات کے ذمے دار ہیں اور حکومتی مصلحت کے باعث وزیر عوام کو حقائق بتانے نہیں رہے ہیں کہ معاشی حالات کے ذمے دار آئی پی پیز نہیں ہیں۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن و دیگر سیاسی و سماجی رہنما، صنعت کار اور عوامی حلقے مہنگی بجلی کا ذمے دار آئی پی پیز کو قرار دے رہے ہیں جس کی تائید بعض (ن) لیگی رہنماؤں نے بھی کی ہے جس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ ماضی کی پی پی، (ن) لیگ اور پی ٹی آئی حکومتوں نے آئی پی پیز سے غلط اور عوام دشمن معاہدے کرکے ملک کی معاشی حالت تباہ کی تھی اور پی ڈی ایم کے بعد اب (ن) لیگی حکومت بھی عوام کے بجائے آئی پی پیز کا ساتھ دے رہی ہے اور اس کی نوازشات آئی پی پیز پر جاری ہیں کیونکہ ان چالیس آئی پی پیز میں بعض حکومتی عہدیدار، پی پی رہنما اور (ن) لیگ کے قریبی امیر ترین افراد بھی شامل ہیں اور وزیر بھی حکومتی پالیسی کے باعث آئی پی پیز کو بچا کر عوام کو غلط باتیں بتا رہے ہیں کہ وہ نہیں بلکہ معاشی حالات مہنگی بجلی کے ذمے دار ہیں۔ یہ مسئلہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے جہاں اب حقائق آشکار ہوں گے کہ ذمے دار کون ہے۔ حکومت اس سلسلے میں تنہا کھڑی ہے جس کی آئی پی پیز پر نوازشات کا اب عدالت میں ہی پتا چل سکے گا کہ ان حالات کا حقیقی ذمے دار کون ہے۔