ففتھ جنریشن جے۔31 طیارہ پاکستان کی دسترس میں

بھارتی چنگل سے آزادی کے بعد بنگلہ دیش بھی آبی دہشت گردی کا شکار

میڈیا میں یہ خبر گرم ہے کہ چین میں پاک فضائیہ کے پائلٹ جے۔31 طیارہ اڑانے کی مشق کر رہے ہیں۔یہ ایک ملٹی رول سٹیلتھ طیارہ ہے جسے ''گائر فالکن'' (Gyrfalcon) کا لقب دیا جا چکا۔اس کا اصل نام ایف سی۔31 ہے۔

اسے چین کی قدیم ترین طیارہ ساز کمپنی، شینیانگ ائرکرافٹ کارپوریشن تیار کر رہی ہے۔ اس کا ایک نمونہ یا ورژن چین کے طیارہ بردار بحری جہاز کے لیے بھی بنایا جا رہا ہے جو ''جے ۔35 ''کہلاتا ہے۔ جنوری 2024ء میں سربراہ پاک فضائیہ نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان جے۔ 31 خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ خبر ہے کہ چالیس جے۔31 مستقبل میں پاک فضائیہ کا حصہ بن سکتے ہیں۔

طاقت کا توازن

پاک ٖفضائیہ کا جنگی بیڑا ساڑھے تین سو لڑاکا طیاروں پہ مشتمل ہے جن میں جے ایف۔17، جے ۔10، ایف سولہ ، میراج اور ایف۔7 پی جی ایس شامل ہیں۔بھارت کی فضائیہ اپنے بیڑے میں چھ سو جنگی طیارے رکھتی ہے۔

ان طیاروں میں ایس یو۔30 ایم کے آئی ایس، میراج۔2000، جیگوار، رافیل، مگ 29 اور مگ ۔21 شامل ہیں۔ اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ بھارتی فضائیہ کا پلڑا بھاری ہے۔اسی لیے پاکستان مجبور ہو چکا کہ وہ پاک فضائیہ کے بیڑے میں مزید جدید ترین جنگی جہاز شامل کرے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن متوازن رکھا جا سکے۔پاک فضائیہ میں جے ۔31 کی شمولیت سے وہ اپنی معاصر کے تقریباً ہم پلّہ ہو جائے گی۔

سوچ اور عمل میں فرق

یہ خیال بہترین ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی ختم ہونی چاہیے تاکہ ہر سال اسلحے کی خریداری اور افواج رکھنے پر جو کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ، وہ عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے پر لگ سکیں۔ آج بھی دونوں ممالک میں کروڑوں غریب ضروریات زندگی سے محروم ہیں اور بہ مشکل دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتے ہیں۔ان کی زندگیاں جانوروں سے مماثلت رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بہترین سوال کو عملی جامہ کون پہنائے گا؟ اور کم ازکم بھارتی حکمران طبقہ تو یہ دشمنی ختم کرنے کے بالکل موڈ میں نہیں...اس کے اعمال یہی ظاہر کرتے ہیں۔

ماضی پر نظر دوڑائیے، گاندھی اور نہرو نے بڑی مشکل سے پاکستان بننے دیا۔ اس کے قیام میں بھی کئی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ان لیڈروں سے سازباز کر کے انگریز جج، جسٹس ریڈکلف نے بھارتی پنجاب میں مسلم اکثریتی اضلاع بھارت کو دے کر انصاف کا خون کر ڈالا۔ جموں وکشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی، مگر گاندھی ونہرو بھرپور کوشش کرتے رہے کہ اس کا ہندو راجا ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دے۔انھوں نے مراعات کا لالچ دے کر کشمیری رہنما، شیخ عبداللہ کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ان کی سازشیں رنگ لائیں اور کشمیری مسلمان بھارتی حکمران طبقے کے غلام بنا لیے گئے۔ اس طبقے نے پاکستان کے حصے کی رقم روک کر بھی نوزائید وطن کو نقصان پہنچانا چاہا۔

غرض سچ یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقے نے دل سے پاکستان کا قیام تسلیم نہیں کیا۔ یہ طبقہ بظاہر بیان دیتا ہے کہ وہ پاکستان کا مخالف نہیں ، مگر حقیقی طور پہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرتا ہے۔

اب تو بھارت پر قوم پرست ہندو حکومت کر رہے ہیں جو ''اکھنڈ بھارت''نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔اس نظریے کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا بھارت کا حصہ ہیں، لہذا ایک نہ دن انھیں بھارت میں ضم ہونا ہو گا۔اس قسم کے معاندانہ ماحول میں پاکستان کے لیے لازم ہو گیا کہ وہ بھی اپنا دفاع مضبوط سے مضبوط تر بنائے رکھے تاکہ اپنی آزادی ، خودمختاری اور سالمیت برقرار رکھ سکے۔ جے۔31 دفاع ِ پاکستان کو مستحکم کرنے میں ایک اہم اضافہ ثابت ہو گا۔

ففتھ جنریشن طیارہ

جے ۔31 کی پہلی تجرباتی پرواز اکتوبر2012ء میں ہوئی تھی۔تب سے یہ تحقیق و تجربات کے مراحل سے گذر رہا ہے۔ شینیانگ ائرکرافٹ کارپوریشن یہ طیارہ ایکسپورٹ کرنے کی غرض سے تیار کر رہی ہے۔

یہ طیاروں کی پانچویں نسل یعنی ففتھ جنریشن سے تعلق رکھتا ہے ۔یہ ایک نایاب نسل ہے کیونکہ اس میں صرف چار طیارے ...امریکی ایف۔22 ریپٹر، امریکی ایف۔35، چینی جے۔20 اور روسی سخوئی ایس یو۔57 شامل ہیں۔ تاہم عنقریب جے ۔31 بھی اس منفرد کلب کا حصہ بن جائے گا۔ اور پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ بھی اگلے تین چار سال میں یہ جدید ترین ملٹی رول سٹیلتھ طیارہ حاصل کر لے گا۔یہ طیارہ مختلف جدید ٹکنالوجیوں، الیکٹرونکس آلات، سافٹ وئیرز، ریڈاروں اور اسلحے سے لیس ہے۔یہ خصوصیات جے ۔31 کو عمدہ ہتھیار بناتی ہیں۔

پاکستان نے اسے کیوں چُنا؟

دس سال قبل پاکستان نے اپنے ذرائع سے ففتھ جنریشن طیارہ بنانے کے لیے ایک منصوبہ (پروجیکٹ عزم)شروع کیا تھا مگر وہ رقم کی کمی کے باعث پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔اب پاکستان ایسے جدید طیارے کی تلاش میں تھا جو کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین جنگی طیارہ بھی ہو۔ ان شرائط پر جے ۔31 پورا اترتا ہے۔

یہ طیارہ پھر امریکا اور یورپی ممالک کی رنگ برنگی پابندیوں کے جال سے بھی آزاد ہو گا۔ نیز اسے بہ آسانی پرزہ جات ملتے رہیں گے۔ایک اور اہم بات یہ کہ پاکستان جے ایف۔17 اور جے۔10 رکھنے کے باعث پہلے ہی چینی طیارے استعمال کر رہا ہے۔ یوں پاک فضائیہ کو جے ۔31 استعمال اور دیکھ بھال کرتے ہوئے زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔

جے ۔31 بہرحال دیگر چینی طیاروں کی نسبت ایک مہنگا طیارہ ہے۔لہذا اسے خریدنے کے لیے خصوصی انتظام کرنا ہو گا۔ مگر قومی دفاعی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے یہ طیارہ پانا اشد ضروری ہے۔مزید بھارت کی پروپیگنڈہ مشینری مسلسل یہ جھوٹی خبریں شائع کرتی رہتی ہے کہ پاکستان کے زیراستعمال چینی جنگی طیارے ناقص ہیں اور ان میں آئے دن خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔۔ سچ یہ ہے کہ امریکی ایف سولہ طیارے بھی خرابیوں سے مبرا نہیں کیونکہ جو چیز استعمال ہو گی، اس میں قدرتاً خرابیاں بھی جنم لیں گی۔ کوئی بھی شے سدا نئی اور نقائص سے پاک نہیں رہ سکتی۔

جے ۔31 کی بنیادی خصوصیات

یہ تقریباً 57 فٹ لمبا اور 16 فٹ اونچا طیارہ ہے جسے ایک پائلٹ چلاتا ہے۔یہ زیادہ سے زیادہ 28 ہزار کلوگرام وزن لے کر اڑ سکتا ہے۔ اس وزن میں 8 ہزار کلو وزنی اسلحہ بھی شامل ہے۔اسے دو انجن چلاتے ہیں۔پہلے خیال تھا کہ ان میں روس ساختہ انجن لگیں گے، مگر اب خبر ہے کہ جے ۔31 میں چین کے تیار کردہ انجن لگ رہے ہیں۔ یہ 2,200 کلومیٹر فی گھنٹہ یعنی 1.8 ماخ کی رفتار سے اڑتا ہے۔ اپنے ایندھن پہ انحصار کر کے 1200 کلومیٹر دور تک جا اور واپس آ سکتا ہے۔درمیان میں ایندھن مل جائے تو طیارے کی حدمار بڑھ جاتی ہے۔ یہ 52 ہزار فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔

جے ۔31 میں فضا سے فضا میں مار کرنے والے بارہ یا فضا سے زمین پر مار کرنے والے آٹھ میزائیل لگ سکتے ہیں۔ اس پر پانچ سو کلو وزنی آٹھ بم لادنا بھی ممکن ہے۔ وزنی بم نہ ہوں تو چھوٹے تیس بم لادے جا سکتے ہیں۔طیارے کے اہم آلات میں یہ شامل ہیں:

٭KLJ-7A جو جدید ریڈار (An active electronically scanned array ) ہے۔ ٭ڈی ایس سسٹم (Distributed aperture system ) جو پائلٹ کو دشمن طیاروں کی آمد سے قبل ازوقت آگاہ کرتا ہے۔ ٭ الیکٹرو۔آپٹیکل ٹارگٹنگ سسٹم (Electro-optical targeting system) جس کی مدد سے درست نشانہ لگایا جاتا ہے۔ ٭ہیلمٹ پہ مشتمل سائٹ سسٹم (helmet-mounted display and sight system) ٭دشمن کے الیکٹرونکس حملوں کو روکنے والا نظام (integrated electronic counter-measures (ECM) suite) ٭دشمن کے اسلحے کی کھوج لگانے والا نظام (infrared search and track)ریڈاروں اور سینسروں سے بچنے کی صلاحیت جے ۔31 کی خاص خصوصیت ہے۔ اس کی تیاری میں ایسے مادے استعمال ہوئے ہیں جو اسے ریڈاروں سے شناخت کرنے میں مشکل مرحلہ بنا دیتے ہیں۔مذید طیارے میں ایسے آلات بھی نصب ہیں جو اس کو ریڈاروں کی نگاہ میں آنے سے محفوظ رکھتے ہیں۔

پوری طرح تیار

جے ۔31 ابھی تیاری سے بہت دور ہے۔ مگر بیجنگ میں مقیم وسیع تجربہ رکھنے والے دفاعی تجزیہ کار، فو کیان شاو (Fu Qianshao)کہتے ہیں کہ یہ لڑاکا طیارہ تعیناتی کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ چین کے اخبار، ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا'' FC-31 کی J-31 میں تبدیلی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس طیارے نے فوجی خدمات کے لیے رسمی تقاضے پورے کر لیے ہیں اور اسے سرکاری عہدہ مل گیا ہے۔"

یہ یاد رہے، چین نے ایک اور ففتھ جنریشن کا سٹیلتھ طیارہ ، جے ۔20بھی بنا رکھا ہے۔ تاہم چین نے J-20 طیاروں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے، جیسا کہ امریکہ نے F-22 کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس طرح J-31 کا زمینی ورژن بنانے کی کوشش کو چین کی منافع بخش ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر اس وقت امریکہ کا غلبہ ہے۔


بھارت میں پھیلتی پریشانی

حقیقت یہ ہے کہ اس خبر نے بھارتی حکمران طبقے میں ہلچل مچا دی ہے کہ پاکستان چین سے جدید ترین طیارہ، جے ۔31 حاصل کر سکتا ہے۔چونکہ دونوں ممالک کا اشتراک ہر شعبے میں بڑھ رہا ہے، لہذا بھارتی حکومت کو یقین ہے کہ چین جلد یا بدیر پاکستان کو ففتھ جنریشن طیارہ فراہم کر دے گا۔ یوں یہ ہتھیار پا کر پاک فضائیہ کو ایک لحاظ سے بھارتی فضائیہ پہ فوقیت حاصل ہو جائے گی۔

بھارتی فضائیہ میں جے ۔31 کی ٹکر کا کوئی طیارہ موجود نہیں، اس لیے وہ مودی جنتا پہ زور دے رہی ہے کہ امریکا سے ففتھ جنریشن طیارہ، ایف۔35 خریدنے کے لیے بات چیت شروع کی جائے۔ چونکہ مودی سرکار جنگجویانہ نظریات رکھتی ہے لہذا امکان یہی ہے کہ وہ امریکا سے ایف۔35 خریدنے میں دلچسپی دکھائے گی۔بھارتی ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی فوجی روابط اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاک فضائیہ بھارتی معاصر کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتاری سے جدید ففتھ جنریشن طیارے پا سکتی ہے ۔ ایک ماہر نے کہا کہ آئی اے ایف کو اسکواڈرنوں کی طاقت میں کمی اور نئے طیاروں کے حصول میں بار بار تاخیر کے اپنے دیرینہ چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

ہوابازی کے بھارتی ماہر نتن جے ٹکو کا کہناہے کہ اگر بھارت پانچویں نسل کے لڑاکا طیارے کے حصول میں سنجیدہ ہے تو اس کے پاس واحد آپشن امریکی ساختہ F-35 خریدنا ہے۔ یاد رہے، بھارت بھی ففتھ جنریشن طیارہ مقامی طور پہ بنا رہا ہے لیکن وہ دس سال تک کام نہیں کرے گا۔جبکہ بھارتی فضائیہ نے روسی فضائیہ کے ساتھ اپنے منصوبے ختم کر دئیے ہیں۔اس لیے بھارت روس سے ففتھ جنریشن طیارہ خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

بھارت کا شش وپنج

بھارتی فضائیہ کے حکام نے بارہا فرانس ساختہ رافیل لڑاکا طیاروں کی تعریف کی ہے۔ مگر بھارت چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک اعلیٰ طیارے کی ضرورت ہے۔ فرانس بھی ایک اگلی نسل کا لڑاکا تیار کر رہا ہے۔بھارتی ماہرین کا کہنا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کو بھی ایک ففتھ جنریشن کا ایک جدید طیارہ مل جائے۔

امریکہ بھارت کی لڑاکا جیٹ مارکیٹ میں داخل ہونے کا خواہشمند ہے ۔ اس نے بھارت کو اپنے F-15EX اور F-21 لڑاکا طیار خریدنے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ F-35 سرکاری طور پہ میز پر نہیں لیکن پیش کیا جا سکتا ہے۔بھارتی ماہرین عسکریات کی نظر میں F-35 اسٹیلتھ فائٹر ایک بہترین آپشن ہے۔ امریکی ففتھ جنریشن کے جنگی طیارے خریدنے کے ساتھ یہ واحد مسئلہ وابستہ ہے کہ وہ بھارت کی سٹریٹجک خود مختاری اور غیر جانبدارانہ موقف کو سنجیدگی سے چیلنج کریں گے۔ انھیں خرید کر بھارت پہلے سے بھی زیادہ امریکا کے قریب ہو جائے گا۔اور اس کی روس ، برازیل ، جنوبی افریقا اور چین کے ساتھ زیادہ قربت نہیں رہے گی۔یہ چاروں ممالک امریکا کو اپنے معاشی و عسکری معاصر کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ چناں چہ یہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بھارت امریکی ساختہ F-35 خرید کر اپنا عالمی اثرورسوخ داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہے؟

دریں اثنا اس امر کا قوی امکان ہے کہ چین پاکستان کو جے ۔31 طیارے فراہم کر دے گا۔ گو پاکستان معاشی مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔حکومت کے پاس ڈالروں کی شدید کمی ہے۔ مگر ظاہر ہے، کوئی بھی ریاست اپنے دفاع کو کمزور کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔اس لیے یقینی ہے کہ دونوں ممالک کوئی نہ کوئی ایسا حل نکال لیں گے جس کی بدولت پاکستان چین سے ففتھ جنریشن جدید طیارہ حاصل کرلے۔ یوں وطن عزیز کا دفاع مستحکم وتوانا کرنے میں مدد ملے گی۔

شاہین دوم کا تجربہ

19 اگست کو شاہین دوم بلاسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ یہ میزائیل 2014ء سے افواج پاکستان استعمال کر رہی ہیں۔ یہ دو ہزار کلومیڑ دور تک ایٹمی یا غیر ایٹمی بم لے جا سکتا ہے۔ وطن عزیز کے سائنس داں اور انجینر مسلسل اسے بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔ لہذا میزائیل میں ایسے جدید ترین آلات لگائے گئے ہیں جو میزائیل کو فضا میں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھیں اور اس کو سیدھا نشانے پر گرا دیں۔ ان آلات کی جانچ پرکھ کے لیے ہی یہ تجربہ کیا گیا۔واضح رہے، پاکستان نے پچھلے چالیس سال سے شاہین بلاسٹک میزائل بنانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔اس ضمن میں تین میزائیل تیار ہو چکے، چہارم نمونے پر کام جاری ہے۔

افواج پاک کے زیراہتمام وطن عزیز کے ماہرین وقتاً فوقتاً میزائل تجربات کرتے رہتے ہیں۔ یہ محض فوجی مشق نہیں جس میں ہماری افواج سالانہ بنیادوں پر حصہ لیں بلکہ یہ ایک ایسے خطے میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنے کے عزم کا استعارہ ہے جو نمایاں طور پر زیادہ غیر متوقع ہو گیا ہے۔ شاہین دوم، ایک جدید ترین میزائل سسٹم اب بھی اس پاکستانی ارادے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ خطے میں طاقت کا توازن ہر قیمت پر برقرار رکھے گا۔ شاہین سیریز پاکستانی کے بیلسٹک میزائل سسٹم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ہمارے ماہرین نے قومی اسٹریٹجک صلاحیت مضبوط کرنے کے لیے انھیں کئی برس کی شبانہ روز محنت کے بعد تیار کیا ہے۔



شاہین دوم کا کامیاب تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی سلامتی اگلے درجے پر جا چکی ۔پاکستانی ماہرین عسکری سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں تحقیق و تجربات کی بدولت مسلسل ترقی کر رہے ہیں۔ اس عمل کا ارتقا ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ عالمی طاقتوں نے دنیا کو ایک ایسی جگہ بنا دیا ہے جہاں عسکری طاقت تعلقات کی وضاحت کرتی ہے۔اس دوران ایک طاقتور ایٹمی میزائل سسٹم اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کوئی بھی بیرونی طاقت پاکستان کی سرزمین پر حملہ نہیں کرے گی۔ یہ حقیقت کسی بھی خطرے کو بے اثر کرنے کے قابل ہے۔

شاہین میزائیل خاص طور پر پاکستان کی 'سیکنڈ سٹرائیک' صلاحیت کو بہتر بناتے ہیںجو جوہری ڈیٹرنس کے نظریاتی احاطے میں شامل ہے۔ اس صلاحیت کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خدانخواستہ پاکستان پر ایٹمی حملہ ہوا تو وہ یکساں طاقت سے جواب دینے کے لیے تیار اور قابل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دشمن کو اس حملے کے بارے میں سوچنے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔ اس میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے پاکستان نے نہ صرف اس تکنیکی صلاحیت کو ثابت کیا بلکہ ایک سٹریٹجک ارادے کو بھی عملی شکل دے دی۔

بنگلہ دیش میں بھارت کی ''آبی ''دہشت گردی

بھارتی ریاست ، تری پورہ میں بارشیں ہوئیں تو وہاں کی ندیوں اور دریاؤں میں طغیانی آ گئی۔ بھارتی حکومت نے اپنے شہریوں کی زمینیں سیلاب سے بچانے کے لیے ڈیموں کے منہ کھول دئیے۔ چونکہ مشرقی بنگلہ دیش تری پورہ کے نیچے واقع ہے لہذا بھارت سے آئے سیلابی پانی نے وہاں تباہی مچا دی۔ بنگلہ دیش میں عوام اور کئی وزرا نے اس تباہی کو بھارتی ''آبی''دہشت گردی کا نتیجہ قرار دیا۔ وجہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیشی حکومت کو انتباہ کیے بغیر سیلای پانی چھوڑ دیا۔ یوں اس کی لپیٹ میں آ کر ''پچاس لاکھ ''سے زائد بنگلہ دیشی متاثر ہو گئے۔ لاکھوں خاندان کے گھر بار سیلاب برد ہوئے اور ان کی ہنستی بستی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔

پاکستان تو پہلے ہی بھارتی حکمران طبقے کی آبی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے، اب بنگلہ دیش بھی شکار ہو گیا۔ بھارتی حکمران طاقت کے نشے میں بدمست ہو کر اپنے پڑوسیوں کو اپنا ماتحت سمجھنے لگا ہے۔ امید ہے، جلد یا بدید کوئی قدرتی آفت بھارت پر وسیع حملہ کر کے مغرور ومتکبر بھارتی حکمرانوں کو عرش سے فرش پر لے آئے گی۔

بنگلہ دیش طلبہ تحریک کے اہم رہنما، ناہید اسلام اب حکومت میں شامل ہیں۔انھوںنے بھارتی حکومت کو آبی دہشت گردی انجام دینے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''بھارت نے بغیر کسی وارننگ کے ڈیم کھول کر غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کیا۔یہ آبی دہشت گردی ہے۔'' فیس بک پوسٹ پر انہوں نے لکھا: "جو نسل بھارت کو دشمن سمجھتی ہے وہ قوم کے بہترین بچوں سے بنی ہے۔" یہ بنگلہ دیش کے لیجنڈری سیاستدانوں میں سے ایک مرحوم مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کا قول ہے۔وہ بنگلہ دیش کے پہلے سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش کو سرحدی دریاؤں کے پانی سے محروم کر رہا ہے۔یاد رہے، بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین 54 دریابہتے ہیں، جن میں گنگا (پدما)، تیستا اور برہم پترا (جمنا) شامل ہیں۔



ایک اور پوسٹ میں اسلام نے لکھا ''اگر ہم تیستا پروجیکٹ چین کو دے دیں تو بھارت ٹھیک ہوسکتا ہے۔''دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم طویل عرصے سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تنازع اور کشیدگی کا مسئلہ رہا ہے۔بھاشانی کا آخری بڑا سیاسی پروگرام مئی 1976 ء میں ''فرکا لانگ مارچ'' تھا۔ 96 سالہ بوڑھے نے تاریخی مارچ کی قیادت کی جس میں فرکا بیراج کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔یہ ڈیم بھارت نے 1975 ء میں دریائے گنگا پر بنایا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ بیراج بنگلہ دیش کو پدما (گنگا) کے دریائی پانی میں بنگلہ دیش کو اس کے منصفانہ حصے سے محروم کر دے گا۔

بھارت نے 1996ء میں بنگلہ دیش کے ساتھ پانی کی تقسیم کا معاہدہ کر تھا مگر بنگلہ دیش ہر سال بھاشانی کے مارچ کو یاد کرتا ہے۔ پچھلے کچھ سال سے فرکا لانگ مارچ کے یادگاری دن کی اہمیت واضح طور پر بڑھ گئی ہے۔حالیہ مئی 2024 ء میں اسے مناتے ہوئے کئی پروگرام منعقد ہوئے۔ تقریبات کے منتظمین نے مطالبہ کیا کہ بنگلہ دیش کو تمام 54 سرحدی دریاؤں میں اپنے منصفانہ حصہ کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔

حالیہ سیلاب کے بعد بنگلہ دیشی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹس کا سیلاب آ گیا۔ان میں بھاشانی کے فرکا بیراج کو بند کرنے کا مطالبہ دہرایا گیا۔ماہر اقتصادیات اور ڈھاکہ میں مقیم عوامی دانشور انو محمد نے بھارت پر دریاؤں میں پانی کا بہاؤ روکنے، مون سون کے موسم میں بار بار اچانک پانی چھوڑنے اور پانی کی تقسیم پر یکطرفہ اقدامات کا الزام لگایا۔ان کا کہنا ہے:''اس صورتحال سے نکلنے کے لیے بنگلہ دیش کو فوراً اقوام متحدہ کے آبی کنونشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ بھارت کی من مانیوں کا بین الاقوامی قانون کے ساتھ مقابلہ کیا جانا چاہیے۔''

تیستا کے پانی کی تقسیم کا بحران حل کرنا آسان نہیں ۔ یہ بھارت کے سامنے بنگلہ دیش کے پیش کردہ سب سے بڑے مطالبات میں سے ایک ہے لیکن مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اس معاہدے کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ اس معاہدے کی بدولت ان کی ریاست کو دریائی پانی سے محروم کر دیا جائے گا۔

مغربی بنگال حکومت کا استدلال ہے کہ وہ تیستا کا پانی بنگلہ دیش کے ساتھ اس وقت تک بانٹنے پر راضی نہیں ہو سکتی جب تک ہمالیائی ریاست سکم اپنے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں کے ذریعے تیستا کے پانی کے بہاؤ کو محدود رکھے۔ اگر تیستا کے پانی کو بنگلہ دیش کے ساتھ بانٹ دیا جاتا ہے تو شمالی مغربی بنگال خشک ہو جائے گا۔چونکہ ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم سکم کی آمدنی کے بڑے ذرائع میں سے ہیں، اس لیے بھارتی وفاقی حکومت کے لیے سکم کو اس امر پر راضی کرنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ تیستا کو آزادانہ طور پر بہنے دے۔
Load Next Story