ایک اور ریکوڈک اسکینڈل
یہ شمال مغربی بلوچستان کےبہت کم آبادی والےضلع چاغی کاعلاقہ ریکوڈک ہےجہاں کوئٹہ زاہدان ہائی وےکےذریعے پہنچا جا سکتا ہے
یہ شمال مغربی بلوچستان کے بہت کم آبادی والے ضلع چاغی کا علاقہ ریکوڈک ہے جہاں کوئٹہ زاہدان ہائی وے کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں کا درجہ حرارت 40....50 درجہ سنٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے جب کہ سرما میں منفی 10 درجہ سیلسیئس تک گر جاتا ہے۔ سردیوں میں بارش کے علاوہ برف بھی پڑتی ہے مگر اس کی مقدار بمشکل 44 ملی میٹر یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ تیز ہوائیں اور ریت کے طوفان سماجی اور کاروباری سرگرمیاں معطل کر دیتے ہیں۔ یہاں ایک بہت بڑا تانبے کا ذخیرہ ہے۔
ریکوڈک میں معدنی وسائل 5.9 ارب ٹن کے ہیں جن میں تانبا اوسطاً 0.41 فی صد اور سونا 0.22 گرام فی ٹن موجود ہے۔ اقتصادی طور پر کانکنی کے قابل 0.53 فیصد درجے کا تانبا اور سونا 0.30 گرام فی ٹن اوسطاً موجود ہونے کا تخمینہ ہے۔ تانبے کی سالانہ پیداوار 2 لاکھ ٹن ممکن ہے جب کہ سونے کی مقدار 6 لاکھ ٹن میں سے دو لاکھ پچاس ہزار اونس متوقع ہے۔ آج کی بین الاقوامی مارکیٹ میں تانبے کی قیمت 7200 ڈالر فی ٹن ہے جس کی پیداواری لاگت 500 ڈالر فی ٹن ہو گی۔ سونے کی قیمت 1320 ڈالر فی اونس جب کہ پیداواری لاگت 350 ڈالر فی اونس ہو گی۔ ٹیتھان کاپر کمپنی (TCC) کا منافع تقریباً 1.14 ارب ڈالر تانبے کے لیے اور 2.5 ارب ڈالر سونے کے لیے سالانہ بنیادوں پر متوقع ہے۔
TCC نے تخمینہ لگایا تھا کہ اسے 55 سال میں، جو کہ اس کان کی زندگی کا ممکنہ مجموعی دورانیہ ہے، 200 ارب ڈالر کا منافع ہو سکتا ہے تاہم یہ معاملہ قدرے اختلافی ہے جس کا زیادہ سے زیادہ تخمینہ 450 ارب ڈالر سے لے کر 500 ارب ڈالر تک ہونا چاہیے۔ بی ایچ پی بلی ٹن نے ابتدائی طور پر اس ذخیرے کی کھدائی کے لیے 1993ء میں بلوچستان حکومت سے لائسنس حاصل کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے لیے TCC قائم کی گئی۔ بعد میں آسٹریلیا نے اس پر علی الترتیب %75 اور %25 اخراجات کا تخمینہ لگایا۔ یہاں سونا اور تانبا خاصی مقدار میں موجود ہونے کا اندازہ لگایا گیا۔ لہٰذا BHP نے اپنے حصے میں سے %37.5 کی شرح سے چلی اور کینیڈا کی دو کمپنیوں
(1) Chilean Conglomerate Antofagasta
اور Minerats Canadian Company Barrick Gold کو فروخت کر دیا۔BHP بلی ٹن خام لوہا اور جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والا سخت کوئلہ فراہم کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ علاوہ ازیں یہ تھرمل کول' سکہ اور زنک پیدا کرنے اور برآمد کرنے والی بھی سب سے بڑی کمپنی ہے جب کہ یہ تانبا پیدا کرنے والی دنیا کی تیسری سب سے بڑی کمپنی ہے جو تیل اور گیس کے کاروبار میں بھی شریک ہے۔ یہی کمپنی دنیا کی چھٹی سب سے بڑی المونیم پیدا کرنے والی کمپنی ہے جو دنیا میں %3 ہیرے بھی سپلائی کرتی ہے۔
بنیادی طور پر یہ کمپنی 1888ء میں چلی میں قائم ہوئی جس کا کام تانبے کی کانوں تک ریلوے لائن پہنچانا تھا اس کا نام Antofagasta Holdings Plc رکھا گیا جسے بعد میں یعنی 1999ء میں Antofagasta Plc کا نام دے دیا گیا۔ یہ کمپنی 1982ء میں قائم ہوئی جس نے کان کنی کے علاوہ دیگر متعدد شعبوں میں بھی کام شروع کر دیا۔ آج Antofagasta دنیا بھر میں تانبا پیدا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ سونے کی صنعت کی سب سے بڑی کمپنی Barrick Goldدنیا میں سونے کی پچیس کانیں چلاتی ہے جب کہ دنیا کے پانچوں براعظموں میں اس کے بے شمار دیگر منصوبے بھی کام کر رہے ہیں۔ اس کے پاس دنیا کے سونے کا سب سے بڑا محفوظ ذخیرہ ہے۔
اس کے وسائل کا تخمینہ 31 دسمبر 2009ء کو 6.1 ارب پائونڈ تانبا اور 1.06 ارب اونس چاندی لگایا گیا۔ Barrick نے 2009ء میں 7.42 ملین اونس سونا اور 393 ملین پائونڈ تانبا پیدا کیا۔ آخر کس نے BHP بلی ٹن کو اپنا %75 حصہ TCC کو دینے کی اجازت دی اور اس میں سے اس نے کتنا منافع کمایا حالانکہ ایک ٹن خام لوہا بھی نہیں نکالا گیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ چلی اور کینیڈا کی کمپنیاں اتنے خطرناک علاقے میں اپنی جان اور سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال رہی تھیں؟اور انھوں نے پاکستان میں دھاتوں کو صاف کرنے والا کوئی پلانٹ (Smelting Plant) نہیں لگایا بلکہ اس کے بجائے کان کنی سے جو بھی خام مال حاصل ہوا اس کو بحری جہازوں میں ڈال کر بیرون ملک لے گئے۔
ملک ریاض حسین جو ایک مشہور تعمیراتی کمپنی کے مالک ہیں اور جن کے پاکستان میں تمام اہم شعبوں میں اعلیٰ ترین سطحوں تک گہرے تعلقات ہیں انھوں نے جون 2012ء میں دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ افتخار چوہدری کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان افتخار نے تین سال کے دوران انھیں بلیک میل کر کے 3.63 ملین ڈالر کی رقم وصول کی۔
تعمیراتی معاہدوں کی رسیدیں حتیٰ کہ پاسپورٹ اور فضائی پروازوں کی تفصیلات بھی ملک ریاض کے ایک ساتھی نے جو کہ ڈاکٹر ارسلان کا دوست تھا اور ارسلان کے غیر ملکی دوروں اور ہوٹلوں میں قیام کے، جن میں لندن کا ہلٹن پارک لین اور مونٹی کارلو کا ہوٹل ڈی پیرس شامل ہیں، ثبوت فراہم کیے جب کہ ارسلان نے ان الزامات کو مخالفانہ پراپیگنڈا قرار دیا۔ ان کے والد نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے اپنے بیٹے کے خلاف تحقیقات شروع کروائی جس کی پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
شعیب سڈل نے بہت سے ناقابل تردید شواہد اکٹھے کیے تاہم افہام و تفہیم کے ذریعے معاملہ ختم کرا دیا گیا۔ بیورو کریسی جسٹس چوہدری کے سوموٹو اقدامات سے بہت دہشت زدہ تھی اور ان دونوں پر عدالتی کمروں میں برسر عام الزامات عائد کیے جاتے تھے لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ارسلان کی طرف سے اپنے باپ کے خلاف منفی تنازعہ شروع کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ سابقہ چیف جسٹس پر یہ الزام بھی تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو کم گریڈ کے باوجود میڈیکل اسکول میں داخلہ دلوایا اور پھر سرکاری ملازمت میں اس کو بڑی تیزی سے ترقی دلوائی۔ ارسلان نے بالآخر میڈیکل کے پیشے کو خیرباد کہہ دیا اور ٹیلی کمیونیکیشن بزنس شروع کر کے ٹیلی کام مینجمنٹ اور مینٹینس کے شعبے میں کام شروع کر دیا۔
پھر اسے بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ (BIB) کے وائس چیئرمین کے متنازعہ عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ ارسلان کا پہلا اعلان یہ تھا کہ اربوں کھربوں ڈالر ملکیت کی ریکوڈک کی سونے کی کانوں کا ٹھیکہ بین الاقوامی ٹینڈر کے ذریعے جاری کیا جائے گا جو سب سے زیادہ بولی دینے والی پارٹی کو دے دیا جائے گا۔ بلوچستان حکومت کے سرکاری ترجمان جان بلیدی نے تسلیم کیا کہ بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے TCC کے ساتھ ماورائے عدالت سودا کاری کے لیے یہ اقدام کیا۔ جان بلیدی کا مزید کہنا ہے کہ اس کے خیال میں TCC کو ٹینڈر کی بولی میں حصہ لینے سے روکنا ناجائز اقدام تھا۔
باوثوق ذرایع نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ سابقہ چیف جسٹس نے ایک مشاورتی آفس قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ یہ قانونی کارروائی سب سے پہلے 7 جنوری 2013ء کو کی گئی جب سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جس کی سربراہی ارسلان کے والد کر رہے تھے 20 جولائی 1993ء کے اس معاہدے کو کالعدم قرار دیدیا جو بلوچستان حکومت اور TCC کے درمیان طے پایا تھا جب کہ یہ عمل پاکستان کے قوانین کے منافی تھا۔جب چاروں طرف سے اس پر تنقید ہونے لگی تو ارسلان پر زور دیا گیا کہ وہ بارہ دن کے اندر مستعفی ہو جائے تا کہ وہ اس تنازع سے باہر نکل سکے۔
بلوچستان کے دیانتدار وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے بڑی جرات مندی سے تسلیم کر لیا کہ ارسلان کی تعیناتی ایک بڑی غلطی تھی۔ نیشنل پارٹی کے حاصل خاں بزنجو نے، جو پاکستان کے سب سے زیادہ ایماندار سیاستدان غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے ہیں جنھیں کہ1973 میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے گورنر بلوچستان کے عہدے سے غیر قانونی طور پر برطرف کر دیا تھا، ارسلان کے اس جھوٹ کی بڑی سختی سے تردید کی ہے کہ اس کے والدکو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔
حالانکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈر مشاہد اللہ نے ارسلان کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تعیناتی ان کے والد افتخار چوہدری کی قومی خدمات کا انعام تھا۔ لیکن قومی خدمات کا یا ن لیگ کے لیے خدمات کا؟اب ارسلان افتخار اپنے اسکینڈل سے توجہ ہٹانے کے لیے عمران خان کی کردار کشی کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ارسلان کے والد اب پہلے والے بھاری اختیارات کے منصب پر فائز نہیں ہیں۔
ریکوڈک میں معدنی وسائل 5.9 ارب ٹن کے ہیں جن میں تانبا اوسطاً 0.41 فی صد اور سونا 0.22 گرام فی ٹن موجود ہے۔ اقتصادی طور پر کانکنی کے قابل 0.53 فیصد درجے کا تانبا اور سونا 0.30 گرام فی ٹن اوسطاً موجود ہونے کا تخمینہ ہے۔ تانبے کی سالانہ پیداوار 2 لاکھ ٹن ممکن ہے جب کہ سونے کی مقدار 6 لاکھ ٹن میں سے دو لاکھ پچاس ہزار اونس متوقع ہے۔ آج کی بین الاقوامی مارکیٹ میں تانبے کی قیمت 7200 ڈالر فی ٹن ہے جس کی پیداواری لاگت 500 ڈالر فی ٹن ہو گی۔ سونے کی قیمت 1320 ڈالر فی اونس جب کہ پیداواری لاگت 350 ڈالر فی اونس ہو گی۔ ٹیتھان کاپر کمپنی (TCC) کا منافع تقریباً 1.14 ارب ڈالر تانبے کے لیے اور 2.5 ارب ڈالر سونے کے لیے سالانہ بنیادوں پر متوقع ہے۔
TCC نے تخمینہ لگایا تھا کہ اسے 55 سال میں، جو کہ اس کان کی زندگی کا ممکنہ مجموعی دورانیہ ہے، 200 ارب ڈالر کا منافع ہو سکتا ہے تاہم یہ معاملہ قدرے اختلافی ہے جس کا زیادہ سے زیادہ تخمینہ 450 ارب ڈالر سے لے کر 500 ارب ڈالر تک ہونا چاہیے۔ بی ایچ پی بلی ٹن نے ابتدائی طور پر اس ذخیرے کی کھدائی کے لیے 1993ء میں بلوچستان حکومت سے لائسنس حاصل کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے لیے TCC قائم کی گئی۔ بعد میں آسٹریلیا نے اس پر علی الترتیب %75 اور %25 اخراجات کا تخمینہ لگایا۔ یہاں سونا اور تانبا خاصی مقدار میں موجود ہونے کا اندازہ لگایا گیا۔ لہٰذا BHP نے اپنے حصے میں سے %37.5 کی شرح سے چلی اور کینیڈا کی دو کمپنیوں
(1) Chilean Conglomerate Antofagasta
اور Minerats Canadian Company Barrick Gold کو فروخت کر دیا۔BHP بلی ٹن خام لوہا اور جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والا سخت کوئلہ فراہم کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ علاوہ ازیں یہ تھرمل کول' سکہ اور زنک پیدا کرنے اور برآمد کرنے والی بھی سب سے بڑی کمپنی ہے جب کہ یہ تانبا پیدا کرنے والی دنیا کی تیسری سب سے بڑی کمپنی ہے جو تیل اور گیس کے کاروبار میں بھی شریک ہے۔ یہی کمپنی دنیا کی چھٹی سب سے بڑی المونیم پیدا کرنے والی کمپنی ہے جو دنیا میں %3 ہیرے بھی سپلائی کرتی ہے۔
بنیادی طور پر یہ کمپنی 1888ء میں چلی میں قائم ہوئی جس کا کام تانبے کی کانوں تک ریلوے لائن پہنچانا تھا اس کا نام Antofagasta Holdings Plc رکھا گیا جسے بعد میں یعنی 1999ء میں Antofagasta Plc کا نام دے دیا گیا۔ یہ کمپنی 1982ء میں قائم ہوئی جس نے کان کنی کے علاوہ دیگر متعدد شعبوں میں بھی کام شروع کر دیا۔ آج Antofagasta دنیا بھر میں تانبا پیدا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ سونے کی صنعت کی سب سے بڑی کمپنی Barrick Goldدنیا میں سونے کی پچیس کانیں چلاتی ہے جب کہ دنیا کے پانچوں براعظموں میں اس کے بے شمار دیگر منصوبے بھی کام کر رہے ہیں۔ اس کے پاس دنیا کے سونے کا سب سے بڑا محفوظ ذخیرہ ہے۔
اس کے وسائل کا تخمینہ 31 دسمبر 2009ء کو 6.1 ارب پائونڈ تانبا اور 1.06 ارب اونس چاندی لگایا گیا۔ Barrick نے 2009ء میں 7.42 ملین اونس سونا اور 393 ملین پائونڈ تانبا پیدا کیا۔ آخر کس نے BHP بلی ٹن کو اپنا %75 حصہ TCC کو دینے کی اجازت دی اور اس میں سے اس نے کتنا منافع کمایا حالانکہ ایک ٹن خام لوہا بھی نہیں نکالا گیا؟ آخر کیا وجہ تھی کہ چلی اور کینیڈا کی کمپنیاں اتنے خطرناک علاقے میں اپنی جان اور سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال رہی تھیں؟اور انھوں نے پاکستان میں دھاتوں کو صاف کرنے والا کوئی پلانٹ (Smelting Plant) نہیں لگایا بلکہ اس کے بجائے کان کنی سے جو بھی خام مال حاصل ہوا اس کو بحری جہازوں میں ڈال کر بیرون ملک لے گئے۔
ملک ریاض حسین جو ایک مشہور تعمیراتی کمپنی کے مالک ہیں اور جن کے پاکستان میں تمام اہم شعبوں میں اعلیٰ ترین سطحوں تک گہرے تعلقات ہیں انھوں نے جون 2012ء میں دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ افتخار چوہدری کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان افتخار نے تین سال کے دوران انھیں بلیک میل کر کے 3.63 ملین ڈالر کی رقم وصول کی۔
تعمیراتی معاہدوں کی رسیدیں حتیٰ کہ پاسپورٹ اور فضائی پروازوں کی تفصیلات بھی ملک ریاض کے ایک ساتھی نے جو کہ ڈاکٹر ارسلان کا دوست تھا اور ارسلان کے غیر ملکی دوروں اور ہوٹلوں میں قیام کے، جن میں لندن کا ہلٹن پارک لین اور مونٹی کارلو کا ہوٹل ڈی پیرس شامل ہیں، ثبوت فراہم کیے جب کہ ارسلان نے ان الزامات کو مخالفانہ پراپیگنڈا قرار دیا۔ ان کے والد نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے اپنے بیٹے کے خلاف تحقیقات شروع کروائی جس کی پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
شعیب سڈل نے بہت سے ناقابل تردید شواہد اکٹھے کیے تاہم افہام و تفہیم کے ذریعے معاملہ ختم کرا دیا گیا۔ بیورو کریسی جسٹس چوہدری کے سوموٹو اقدامات سے بہت دہشت زدہ تھی اور ان دونوں پر عدالتی کمروں میں برسر عام الزامات عائد کیے جاتے تھے لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ارسلان کی طرف سے اپنے باپ کے خلاف منفی تنازعہ شروع کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ سابقہ چیف جسٹس پر یہ الزام بھی تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو کم گریڈ کے باوجود میڈیکل اسکول میں داخلہ دلوایا اور پھر سرکاری ملازمت میں اس کو بڑی تیزی سے ترقی دلوائی۔ ارسلان نے بالآخر میڈیکل کے پیشے کو خیرباد کہہ دیا اور ٹیلی کمیونیکیشن بزنس شروع کر کے ٹیلی کام مینجمنٹ اور مینٹینس کے شعبے میں کام شروع کر دیا۔
پھر اسے بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ (BIB) کے وائس چیئرمین کے متنازعہ عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ ارسلان کا پہلا اعلان یہ تھا کہ اربوں کھربوں ڈالر ملکیت کی ریکوڈک کی سونے کی کانوں کا ٹھیکہ بین الاقوامی ٹینڈر کے ذریعے جاری کیا جائے گا جو سب سے زیادہ بولی دینے والی پارٹی کو دے دیا جائے گا۔ بلوچستان حکومت کے سرکاری ترجمان جان بلیدی نے تسلیم کیا کہ بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے TCC کے ساتھ ماورائے عدالت سودا کاری کے لیے یہ اقدام کیا۔ جان بلیدی کا مزید کہنا ہے کہ اس کے خیال میں TCC کو ٹینڈر کی بولی میں حصہ لینے سے روکنا ناجائز اقدام تھا۔
باوثوق ذرایع نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ سابقہ چیف جسٹس نے ایک مشاورتی آفس قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ یہ قانونی کارروائی سب سے پہلے 7 جنوری 2013ء کو کی گئی جب سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جس کی سربراہی ارسلان کے والد کر رہے تھے 20 جولائی 1993ء کے اس معاہدے کو کالعدم قرار دیدیا جو بلوچستان حکومت اور TCC کے درمیان طے پایا تھا جب کہ یہ عمل پاکستان کے قوانین کے منافی تھا۔جب چاروں طرف سے اس پر تنقید ہونے لگی تو ارسلان پر زور دیا گیا کہ وہ بارہ دن کے اندر مستعفی ہو جائے تا کہ وہ اس تنازع سے باہر نکل سکے۔
بلوچستان کے دیانتدار وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے بڑی جرات مندی سے تسلیم کر لیا کہ ارسلان کی تعیناتی ایک بڑی غلطی تھی۔ نیشنل پارٹی کے حاصل خاں بزنجو نے، جو پاکستان کے سب سے زیادہ ایماندار سیاستدان غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے ہیں جنھیں کہ1973 میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے گورنر بلوچستان کے عہدے سے غیر قانونی طور پر برطرف کر دیا تھا، ارسلان کے اس جھوٹ کی بڑی سختی سے تردید کی ہے کہ اس کے والدکو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔
حالانکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈر مشاہد اللہ نے ارسلان کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تعیناتی ان کے والد افتخار چوہدری کی قومی خدمات کا انعام تھا۔ لیکن قومی خدمات کا یا ن لیگ کے لیے خدمات کا؟اب ارسلان افتخار اپنے اسکینڈل سے توجہ ہٹانے کے لیے عمران خان کی کردار کشی کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ارسلان کے والد اب پہلے والے بھاری اختیارات کے منصب پر فائز نہیں ہیں۔