فکری مغالطے
ملکی سالمیت اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شمالی وزیرستان میں گزشتہ ایک ماہ سے فوجی آپریشن جاری ہے۔
ملکی سالمیت اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شمالی وزیرستان میں گزشتہ ایک ماہ سے فوجی آپریشن جاری ہے۔ پوری قوم اس آپریشن میں فوج کے ساتھ ہے ۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے علاوہ بائیں بازو کے قدامت پسند عناصر اپنا الگ نظریہ رکھتے ہیں ۔ تحریک انصاف جو مذاکرات کے حق میں دلائل دیتے نہیں تھکتی تھی، وہ بھی اب آپریشن کی حمایت کر رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت اس مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ۔مسلم لیگ (ن) بھی اس مسئلے پر تقسیم کا شکار ہے۔
جب کہ میجرجنرل(ر)اطہر عباس کے اس انکشاف نے سیاسی وصحافتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے کہ آپریشن کا فیصلہ 2010ء میں ہوگیا تھا، مگر جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث اس وقت شروع نہیں ہوسکا۔ ان بیانات کی روشنی میں یہ دیکھنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتیںاور دیگر شراکت دار کس حد تک آپریشن ضربِ عضب کے بارے میں سنجیدہ ہیں؟ اور اس کی کامیابی کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟ اگر میجر جنرل(ر) اطہر عباس کی بات کودرست تسلیم کرلیا جائے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ انتظامیہ ذہنی طورپر2010ء سے اس آپریشن کے لیے تیار تھی اور بوجہ اسے شروع نہیں کرسکی تھی۔
اس لیے یہ تصورکیا جانا کسی طور غلط نہیں ہے کہ حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں نے اس سلسلے میں تمام ضروری تیاریاں کرلی ہوں گی ۔مگر ایسا نہیں ہوا ۔جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو آپریشن کی رفتار اور اس کی پیش رفت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تزویراتی اور دیگرتیاریاں مکمل تھیں۔لیکن آپریشن سے جڑے دیگر اقدامات جوکہ سویلین انتظام کا حصہ ہیں، وہ انتہائی بے ترتیبی کا شکار ہیں ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ خود حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 7لاکھ سے زائد افراد نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی ہے۔ جب کہ افغانستان سے موصولہ رپورٹ کے مطالق85ہزار کے قریبIDPs افغانستان بھی منتقل ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں شورش زدہ علاقوں میںجب بھی فوجی آپریشن کیا جاتا ہے تو مختلف ریاستی محکمے اپنی اپنی ذمے داریاں سنبھال لیتے ہیں۔آپریشن کے نتیجے میںسب سے پہلا اقدام متاثرہ یعنی بے گھر ہونے والے افراد (IDPs) کی عارضی آبادکاری اور انھیں ضروری سہولیات کی فراہمی سویلین حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے ۔ جن میں محفوظ مقامات پر خیمہ بستیوں کی تعمیر، غذاء اور دیگر سہولیات جن میں پینے کے پانی اور نکاسیِ آب کے نظام کی فراہمی شامل ہے۔
اس کے علاوہ خیمہ بستیوں میں شفا خانے اور بچوں کے لیے عارضی اسکولوں کا قیام اورامن و امان قائم رکھنا بھی سویلین حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ آیا حکومت نے آپریشن شروع ہونے سے قبل یا شروع ہوتے ہی ان سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے یا نہیں ۔توحکومت کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔متاثرین کی آبادکاری کے حوالے سے وفاقی اور KPKکی صوبائی حکومتوں نے اب تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا ہے، بلکہ دونوں بیان بازیوں اور الزام تراشیوں کی جنگ میں مصروف ہیں ۔ادھر شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہوا۔
ادھر پنجاب میں 16اور17جون کی درمیانی شب ریاستی قوت منہاج القران یونیورسٹی کے اطراف لگی رکاوٹیں ہٹانے پر صرف کر دینا درست نہیں تھا۔ جب کہ وفاقی حکومت IDPs کی آبادکاری اور بعد از آپریشن بحالی کے معاملات پر پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل دینے اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنے کے بجائے وزیر اعظم وزراء کی ناز برداریوں میں لگے ہوئے ہیں ۔وفاقی وزراء کے غیر سنجیدہ رویوں کا اندازہ ان کے بیانات اور طرز عمل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
حکومت کی نااہلی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ جو خیمہ بستیاں قائم کی گئی ہیں ،ان میں ضروری سہولیات کا فقدان ہے،جو متاثرہ خاندانوں کے مسائل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا غم وغصہ بڑھ رہا ہے ۔اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے مناسب حفاظتی اقدامات نہ کیے جانے کے باعث صرفIDPs ہی نہیں بلکہ ان کی آڑمیں شدت پسند عناصر بھی پورے ملک میں پھیل سکتے ہیں جس سے ملک میں دہشت گردی کے نئے واقعات کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
اب دوسری طرف آئیے ۔دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی شدت پسند عناصر کے لیے ہمدردی اور نرم گوشہ سمجھ میں آتا ہے۔ کیونکہ 1980ء کے عشرے سے ان عناصر کو پروان چڑھانے میں ان جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس لیے ان کی حمایت کا منطقی جواز ہے۔لیکن بائیں بازو کے بعض قدامت پسند حلقے جو آج بھی 1917ء کے فکری حصار سے نہیں نکل سکے ہیں ۔وہ موجودہ صورتحال کوبھی ماضی کے روایتی جدلیاتی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ معروضی حالات کا ادراک کرنے اور اس کے مطابق حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ افغانستان میں کھیلا جانے والا کھیل عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے ۔لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جن خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، ان میں ہماری ترجیح کیا ہونا چاہیے ۔ پہلی بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ افغانستان اور پاکستان میں سرگرم جنگجو عناصرکے رویے اور رجحانات میں فرق ہے۔دوئم، پاکستان میں سرگرم شدت پسند عناصر پاکستانی ریاست کی رٹ کو متاثر کر رہے ہیں اور اس ملک کے جغرافیہ اور آئینی تشخص کو نقصان پہنچانے کے علاوہ عام آدمی کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔ وہ تعلیمی ادارے تباہ کر رہے ہیں، اہم قومی تنصیبات پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
بازاروں سمیت عوامی مقامات پربم دھماکے عام آدمی کو جو تین میں ہے نہ تیرہ میں اس کی جان لے رہے ہیں ۔ انھیں کس بنیاد پر بطل حریت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اب جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے تو ان کے اقدامات اور انتہاء پسندانہ اقدامات اس ملک میں خانہ جنگی کا سبب بن رہے ہیں ، جس کے اثرات لازمی طورپر پاکستان پر مرتب ہوں گے ۔ جیسا کہ1980ء کے غلط فیصلوں کے نتائج آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ اس لیے ان عناصر کو بطل حریت قرار دینا تو دور کی بات،ان کے لیے نرم گوشہ بھی ترقی پسندی کے نام پر دھبہ ہے ۔ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان جیسے معاشروں میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ جمہوری اقدارکا فروغ ہے۔
اس لیے آزاد خیال اور جمہوریت نواز حلقوں کا یہ خیال اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ موجودہ معروضی حالات میں پاکستانی عوام کو درپیش سب سے بڑا چیلنج مذہبی شدت پسندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیاں ہیں ۔چونکہ ان رجحانات کی فوری بیخ کنی ضروری ہے ، اس لیے حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے آپریشن کی حمایت کی جانی چاہیے ۔ان حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ اگر پہلے پاکستان کی اپنی جنگ نہیں تھی ، تو اب یہ مکمل طور پر پاکستان کی جنگ بن چکی ہے۔
اس نئی صورتحال کے نتیجے میں پاکستان میں ایک نئی فکری تقسیم پیدا ہوئی ہے، جو وقت گذرنے کے ساتھ گہری ہو رہی ہے ۔اس فکری تقسیم کے نتیجے میںعوام منقسم ہوگئے ہیں ۔ لیکن سب سے زیادہ برا حال بائیں بازو کی جماعتوں کا ہے ، جو پہلے ہی اپنی فکری نرگسیت اورغیر عملی کے باعث عوامی قبولیت سے محروم چلی آرہی ہیں،اب اس مسئلے پر مزید تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہیں۔ تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں خاص طور پر بائیں بازو کا تشخص رکھنے والی جماعتیں بدترین تقسیم کا شکار ہیں۔
ترقی پسندی کے دعویدار حلقوں کو معروف ترقی پسند دانشور سبطِ حسن مرحوم کا وہ مشورہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، جو انھوں نے1986ء میں انجمن ترقی پسندمصنفین کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی نظریے کی ترویج ابھی قبل از وقت بات ہے ۔ پاکستان کو اگر ہم ایک جمہوری معاشرے میں تبدیل کرلیتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی بات ہوگی،کیونکہ قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچر کی بندشوں میں جکڑے اس معاشرے میں ثقافتی تنوع اور عقائد کی رنگارنگی کے لیے قبولیت کا پیدا ہونا ہی بہت بڑی پیش رفت ہوگی ۔
جب کہ میجرجنرل(ر)اطہر عباس کے اس انکشاف نے سیاسی وصحافتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے کہ آپریشن کا فیصلہ 2010ء میں ہوگیا تھا، مگر جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث اس وقت شروع نہیں ہوسکا۔ ان بیانات کی روشنی میں یہ دیکھنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتیںاور دیگر شراکت دار کس حد تک آپریشن ضربِ عضب کے بارے میں سنجیدہ ہیں؟ اور اس کی کامیابی کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟ اگر میجر جنرل(ر) اطہر عباس کی بات کودرست تسلیم کرلیا جائے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ انتظامیہ ذہنی طورپر2010ء سے اس آپریشن کے لیے تیار تھی اور بوجہ اسے شروع نہیں کرسکی تھی۔
اس لیے یہ تصورکیا جانا کسی طور غلط نہیں ہے کہ حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں نے اس سلسلے میں تمام ضروری تیاریاں کرلی ہوں گی ۔مگر ایسا نہیں ہوا ۔جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو آپریشن کی رفتار اور اس کی پیش رفت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تزویراتی اور دیگرتیاریاں مکمل تھیں۔لیکن آپریشن سے جڑے دیگر اقدامات جوکہ سویلین انتظام کا حصہ ہیں، وہ انتہائی بے ترتیبی کا شکار ہیں ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ خود حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 7لاکھ سے زائد افراد نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی ہے۔ جب کہ افغانستان سے موصولہ رپورٹ کے مطالق85ہزار کے قریبIDPs افغانستان بھی منتقل ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں شورش زدہ علاقوں میںجب بھی فوجی آپریشن کیا جاتا ہے تو مختلف ریاستی محکمے اپنی اپنی ذمے داریاں سنبھال لیتے ہیں۔آپریشن کے نتیجے میںسب سے پہلا اقدام متاثرہ یعنی بے گھر ہونے والے افراد (IDPs) کی عارضی آبادکاری اور انھیں ضروری سہولیات کی فراہمی سویلین حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے ۔ جن میں محفوظ مقامات پر خیمہ بستیوں کی تعمیر، غذاء اور دیگر سہولیات جن میں پینے کے پانی اور نکاسیِ آب کے نظام کی فراہمی شامل ہے۔
اس کے علاوہ خیمہ بستیوں میں شفا خانے اور بچوں کے لیے عارضی اسکولوں کا قیام اورامن و امان قائم رکھنا بھی سویلین حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ آیا حکومت نے آپریشن شروع ہونے سے قبل یا شروع ہوتے ہی ان سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیے یا نہیں ۔توحکومت کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔متاثرین کی آبادکاری کے حوالے سے وفاقی اور KPKکی صوبائی حکومتوں نے اب تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا ہے، بلکہ دونوں بیان بازیوں اور الزام تراشیوں کی جنگ میں مصروف ہیں ۔ادھر شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہوا۔
ادھر پنجاب میں 16اور17جون کی درمیانی شب ریاستی قوت منہاج القران یونیورسٹی کے اطراف لگی رکاوٹیں ہٹانے پر صرف کر دینا درست نہیں تھا۔ جب کہ وفاقی حکومت IDPs کی آبادکاری اور بعد از آپریشن بحالی کے معاملات پر پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل دینے اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنے کے بجائے وزیر اعظم وزراء کی ناز برداریوں میں لگے ہوئے ہیں ۔وفاقی وزراء کے غیر سنجیدہ رویوں کا اندازہ ان کے بیانات اور طرز عمل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
حکومت کی نااہلی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ جو خیمہ بستیاں قائم کی گئی ہیں ،ان میں ضروری سہولیات کا فقدان ہے،جو متاثرہ خاندانوں کے مسائل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا غم وغصہ بڑھ رہا ہے ۔اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے مناسب حفاظتی اقدامات نہ کیے جانے کے باعث صرفIDPs ہی نہیں بلکہ ان کی آڑمیں شدت پسند عناصر بھی پورے ملک میں پھیل سکتے ہیں جس سے ملک میں دہشت گردی کے نئے واقعات کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
اب دوسری طرف آئیے ۔دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی شدت پسند عناصر کے لیے ہمدردی اور نرم گوشہ سمجھ میں آتا ہے۔ کیونکہ 1980ء کے عشرے سے ان عناصر کو پروان چڑھانے میں ان جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس لیے ان کی حمایت کا منطقی جواز ہے۔لیکن بائیں بازو کے بعض قدامت پسند حلقے جو آج بھی 1917ء کے فکری حصار سے نہیں نکل سکے ہیں ۔وہ موجودہ صورتحال کوبھی ماضی کے روایتی جدلیاتی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ معروضی حالات کا ادراک کرنے اور اس کے مطابق حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ افغانستان میں کھیلا جانے والا کھیل عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے ۔لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جن خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، ان میں ہماری ترجیح کیا ہونا چاہیے ۔ پہلی بات جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ افغانستان اور پاکستان میں سرگرم جنگجو عناصرکے رویے اور رجحانات میں فرق ہے۔دوئم، پاکستان میں سرگرم شدت پسند عناصر پاکستانی ریاست کی رٹ کو متاثر کر رہے ہیں اور اس ملک کے جغرافیہ اور آئینی تشخص کو نقصان پہنچانے کے علاوہ عام آدمی کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔ وہ تعلیمی ادارے تباہ کر رہے ہیں، اہم قومی تنصیبات پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
بازاروں سمیت عوامی مقامات پربم دھماکے عام آدمی کو جو تین میں ہے نہ تیرہ میں اس کی جان لے رہے ہیں ۔ انھیں کس بنیاد پر بطل حریت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اب جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے تو ان کے اقدامات اور انتہاء پسندانہ اقدامات اس ملک میں خانہ جنگی کا سبب بن رہے ہیں ، جس کے اثرات لازمی طورپر پاکستان پر مرتب ہوں گے ۔ جیسا کہ1980ء کے غلط فیصلوں کے نتائج آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ اس لیے ان عناصر کو بطل حریت قرار دینا تو دور کی بات،ان کے لیے نرم گوشہ بھی ترقی پسندی کے نام پر دھبہ ہے ۔ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان جیسے معاشروں میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ جمہوری اقدارکا فروغ ہے۔
اس لیے آزاد خیال اور جمہوریت نواز حلقوں کا یہ خیال اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ موجودہ معروضی حالات میں پاکستانی عوام کو درپیش سب سے بڑا چیلنج مذہبی شدت پسندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیاں ہیں ۔چونکہ ان رجحانات کی فوری بیخ کنی ضروری ہے ، اس لیے حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے آپریشن کی حمایت کی جانی چاہیے ۔ان حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ اگر پہلے پاکستان کی اپنی جنگ نہیں تھی ، تو اب یہ مکمل طور پر پاکستان کی جنگ بن چکی ہے۔
اس نئی صورتحال کے نتیجے میں پاکستان میں ایک نئی فکری تقسیم پیدا ہوئی ہے، جو وقت گذرنے کے ساتھ گہری ہو رہی ہے ۔اس فکری تقسیم کے نتیجے میںعوام منقسم ہوگئے ہیں ۔ لیکن سب سے زیادہ برا حال بائیں بازو کی جماعتوں کا ہے ، جو پہلے ہی اپنی فکری نرگسیت اورغیر عملی کے باعث عوامی قبولیت سے محروم چلی آرہی ہیں،اب اس مسئلے پر مزید تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہیں۔ تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں خاص طور پر بائیں بازو کا تشخص رکھنے والی جماعتیں بدترین تقسیم کا شکار ہیں۔
ترقی پسندی کے دعویدار حلقوں کو معروف ترقی پسند دانشور سبطِ حسن مرحوم کا وہ مشورہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، جو انھوں نے1986ء میں انجمن ترقی پسندمصنفین کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی نظریے کی ترویج ابھی قبل از وقت بات ہے ۔ پاکستان کو اگر ہم ایک جمہوری معاشرے میں تبدیل کرلیتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی بات ہوگی،کیونکہ قبائلیت اور جاگیردارانہ کلچر کی بندشوں میں جکڑے اس معاشرے میں ثقافتی تنوع اور عقائد کی رنگارنگی کے لیے قبولیت کا پیدا ہونا ہی بہت بڑی پیش رفت ہوگی ۔