تحریک انصاف کے جلسے کا مسئلہ
سیاسی داؤ پیچ ،حقائق اور مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ بسا اوقات حقائق تبدیل ہوجاتے ہیں مفروضوں کی بنیادیں بدل جاتی ہیں۔
سیاسی داؤ پیچ ،حقائق اور مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ بسا اوقات حقائق تبدیل ہوجاتے ہیں مفروضوں کی بنیادیں بدل جاتی ہیں۔ جو لائحہ عمل ان تبدیلیوں سے لاتعلق رہتا ہے وہ طاقت کے کھیل کی بساط پر مات کھا جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سیاسی طور پر ایک دوراہے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔عمران خان کی مسلسل احتجاجی پالیسی نے تحریک انصاف کے لیے وہ راستے آہستہ آہستہ بند کرنے شروع کردیے ہیں جن کو کھلا رکھنا سیاسی دانش مندی اور وقت کی ضرورت اکثر تقاضہ کرتی ہے۔کل کی پارٹی میٹنگ سے کوئی خاص خبر سامنے نہیں آئی۔
اتنا ضرور پتہ چلا کہ جماعت میں 14اگست کے جلسے کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔اس کے حق اور مخالفت میں بولنے والے بہرحال اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ انھیں احتجاج کے حتمی اہداف کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں۔حکومت پر دبائو ڈال کر مستقبل کے انتخابی عمل کے لیے اصطلاحات تو کروائی جاسکتی ہیں لیکن جو ہو چکا اُس کی پٹاری کھولنے کے بعد بننے والی تصویر سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔ جب اس احتجاج کا آغاز ہوا تو اُس وقت نوازشریف کی حکومت ہچکولے کھاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔وزراء کے بیانات سے آرمی کے ساتھ پیدا ہونے والی بدمزگی جنرل مشرف کے مقدمے کی کڑواہٹ کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے باہمی تعلقات کو زہر آلودہ کرچکی تھی۔
اُس کے بعد ایک چینل نے نواز لیگ کو مزید پر یشانیوں میں دھکیل دیا۔وہ ایسا وقت تھا جب نواز لیگ کے سنیئر لیڈران آرمی کی طرف سے ممکنہ وار کے خلاف محاذ بندی کے بارے میں سوچ رہے تھے'بڑی گڑ بڑ' ہونے کی پریشانی وزیراعظم نواز شریف تک پہنچ گئی تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور شمالی وزیرستان میں آپریشن پر پس و پیش نے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو گہری کھائیوں میں تبدیل کردیا تھا۔اگر آپ کو یاد ہو تو اُس ماحول میں دیے گئے تحریک انصاف کے بیانات حکومت کی ان غلطیوں کے حوالوں سے بھرے ہوئے تھے۔
تحریک انصاف نے نوازلیگ کو ایک چینل کے مسئلے میں آرمی کے خلاف کھڑا دیکھتے ہوئے اپنی تمام تر قوت وفاقی حکومت کو نیچا دکھانے پر صرف کردی تھی۔خیال یہ تھا کہ اگر کوئی ملک گیر تحریک شروع ہوگئی تو طاقت ور حلقے نوازلیگ کی حکومت کوگرنے سے بچائیں گے نہیں۔ہوسکتا ہے تحریک انصاف کی نظر میں اس 'نیک کام'میں خاموشی سے کچھ حصہ ہی ڈال دے۔ طاہرالقادری نے سڑکوں پر احتجاج کا چیختا چلاتا ہراول دستہ بننا تھا۔تحریک انصاف اور دوسری جماعتیں پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے حب الوطنی کے جھنڈے تھامے ہوئے اپنی تمام تر سیاسی قوت کو بروئے کار لا کر نئے انتخابات کے ذریعے نواز حکومت کی چھٹی کروانے والی قوت بننا چاہتے تھے۔
اس ماحول میں یہ لائحہ عمل حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے ایک بھر پور چیلنج تھا۔ جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انتخابی تبدیلی پر مختلف جماعتیں راضی ہوجاتی۔اور اس طرح ایک نیا نظام معرض وجود میں آجاتا۔مگر پھر حقائق تبدیل ہوگئے نواز شریف حکومت نے میڈیا کی جنگ میں اپنا نقصان کروانے کے بعد پینترا بدل لیا۔دلیل اور غلیل کی بحث میں سے نکل کر اپنے فوری مفادات کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔چینل بند بھی ہوا اور کھلنے کے بعد کھل بھی نہ سکا،جس کی تیمارداری کے لیے نواز شریف کراچی چلے گئے تھے اب اس حامد میر کا نوازلیگ کے کسی حلقے میں ذکر تک نہیں کیا جاتا۔یہ معاملہ ختم نہیں ہوا لیکن کافی حد تک ٹھنڈا ہوگیا ہے۔حکومت نے خود کو اپنی بنائی ہوئی دلدل میں سے نکال کر ایک ایسی غیر جانب دار پوزیشن اختیار کرلی ہے جہاں دوسروں کے گناہ اس کے سر نہیں تھوپے جا رہے ۔
شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کی فائل بند ہوگئی نواز شریف نے اس کڑوی گولی کو ہنسی خوشی ہضم کرلیا۔فوج کو جس سیاسی مدد کی ضرورت تھی وہ نوازلیگ نے طشتری میں رکھ کر حاضر کردی۔پچھلے چند ہفتوں میں وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی ٹیم نے آپریشن ضرب عضب کو آرمی کے ساتھ تعلقات میں پڑی ہوئی دارڑوں کو پرکرنے کے لیے موثر انداز میں استعمال کیا ہے۔آنیوالے دنوں میں جب اس علاقے میں ترقیاتی کاموں اور وہاں سے نکلے ہوئے شہریوں کی واپسی کے معاملات شروع ہوگئے تو آپ حکومت اور فوج میں مزید قریبی تعلقات دیکھ پائیں گے۔
جنرل پرویز مشرف کا معاملہ بہر حال لٹکا ہوا ہے۔ حکومت نے اگر اس مسئلے پر واضح موقف اپنایا ہوتا تو شاید فوج سابق آرمی چیف کے خلاف کارروائی بادل نخواستہ ہضم کر لیتی۔اگرچہ آج کل چوہدری نثار فوج کو وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے اختیارات سے کہیں زیادہ تجاوز کرتے ہوئے کمٹمنٹ دینے کے الزامات کی زد میں ہیں۔ مگر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو ان وعدوں کا علم نہ ہو جو چوہدری نثار ،شہباز شریف اور ایک آدھ میٹنگ میں محترم اسحق ڈار خود فوج کو دے آئے تھے۔آنے والے دنوں میں اس مسئلے پر حکومت اور فوج میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔مگر اس کے باوجود دو اڑھائی ماہ پہلے بننے والا ماحول کا فوری واپس آنے کا ظاہراً کوئی امکان نہیں۔
مگر عمران خان کے خیال میں نوازشریف کی حکومت اب بھی ایک گرتی ہوئی دیوار ہے جو 14اگست کے دھکے سے گر جائے گی۔اگر حکومت نے اپنے خلاف اپنے ہاتھوں سے کوئی بڑی سازش نہ کردی تو شاید عمران خان کا مفروضہ غلط ثابت ہو اور عین ممکن ہے کہ ان کا احتجاج پارٹی کے گلے پڑ جائے۔تحریک انصاف میں موجود سنجیدہ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ14 اگست کے جلسے کو فیصل آباد، بہاولپور، سیالکوٹ کے جلسوں کا اختتامی ایکٹ ہونا چاہیے۔تحریک انصاف اس کو حکومت کے لیے ایک بڑی وارننگ کے طور پر استعمال کرکے اپنے مطالبات کو پارلیمانی انداز میں مزید تقویت دے سکتی ہے۔
عمران خان 14اگست کے احتجا ج کو تاریخ ساز بنانے کے چکروں میں ہیں۔وہ یہاں سے ایک ایسی تحریک کی شروعات کرنے کا سوچ رہے ہیں جس کے اختتام کے بارے میں وہ باوجود سوالوں کے کوئی واضح جواب نہیں دیتے۔خیبر پختونخواہ کی اسمبلی کے ایک وزیر نے تحریک انصاف کے اس مخمصہ کو دوجملوں میں سمو دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ 14اگست کا جلسہ فی الحال حکومت کے لیے مسئلہ بننے کے بجائے ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اتنا ضرور پتہ چلا کہ جماعت میں 14اگست کے جلسے کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔اس کے حق اور مخالفت میں بولنے والے بہرحال اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ انھیں احتجاج کے حتمی اہداف کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں۔حکومت پر دبائو ڈال کر مستقبل کے انتخابی عمل کے لیے اصطلاحات تو کروائی جاسکتی ہیں لیکن جو ہو چکا اُس کی پٹاری کھولنے کے بعد بننے والی تصویر سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔ جب اس احتجاج کا آغاز ہوا تو اُس وقت نوازشریف کی حکومت ہچکولے کھاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔وزراء کے بیانات سے آرمی کے ساتھ پیدا ہونے والی بدمزگی جنرل مشرف کے مقدمے کی کڑواہٹ کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے باہمی تعلقات کو زہر آلودہ کرچکی تھی۔
اُس کے بعد ایک چینل نے نواز لیگ کو مزید پر یشانیوں میں دھکیل دیا۔وہ ایسا وقت تھا جب نواز لیگ کے سنیئر لیڈران آرمی کی طرف سے ممکنہ وار کے خلاف محاذ بندی کے بارے میں سوچ رہے تھے'بڑی گڑ بڑ' ہونے کی پریشانی وزیراعظم نواز شریف تک پہنچ گئی تھی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور شمالی وزیرستان میں آپریشن پر پس و پیش نے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو گہری کھائیوں میں تبدیل کردیا تھا۔اگر آپ کو یاد ہو تو اُس ماحول میں دیے گئے تحریک انصاف کے بیانات حکومت کی ان غلطیوں کے حوالوں سے بھرے ہوئے تھے۔
تحریک انصاف نے نوازلیگ کو ایک چینل کے مسئلے میں آرمی کے خلاف کھڑا دیکھتے ہوئے اپنی تمام تر قوت وفاقی حکومت کو نیچا دکھانے پر صرف کردی تھی۔خیال یہ تھا کہ اگر کوئی ملک گیر تحریک شروع ہوگئی تو طاقت ور حلقے نوازلیگ کی حکومت کوگرنے سے بچائیں گے نہیں۔ہوسکتا ہے تحریک انصاف کی نظر میں اس 'نیک کام'میں خاموشی سے کچھ حصہ ہی ڈال دے۔ طاہرالقادری نے سڑکوں پر احتجاج کا چیختا چلاتا ہراول دستہ بننا تھا۔تحریک انصاف اور دوسری جماعتیں پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے حب الوطنی کے جھنڈے تھامے ہوئے اپنی تمام تر سیاسی قوت کو بروئے کار لا کر نئے انتخابات کے ذریعے نواز حکومت کی چھٹی کروانے والی قوت بننا چاہتے تھے۔
اس ماحول میں یہ لائحہ عمل حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے ایک بھر پور چیلنج تھا۔ جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انتخابی تبدیلی پر مختلف جماعتیں راضی ہوجاتی۔اور اس طرح ایک نیا نظام معرض وجود میں آجاتا۔مگر پھر حقائق تبدیل ہوگئے نواز شریف حکومت نے میڈیا کی جنگ میں اپنا نقصان کروانے کے بعد پینترا بدل لیا۔دلیل اور غلیل کی بحث میں سے نکل کر اپنے فوری مفادات کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔چینل بند بھی ہوا اور کھلنے کے بعد کھل بھی نہ سکا،جس کی تیمارداری کے لیے نواز شریف کراچی چلے گئے تھے اب اس حامد میر کا نوازلیگ کے کسی حلقے میں ذکر تک نہیں کیا جاتا۔یہ معاملہ ختم نہیں ہوا لیکن کافی حد تک ٹھنڈا ہوگیا ہے۔حکومت نے خود کو اپنی بنائی ہوئی دلدل میں سے نکال کر ایک ایسی غیر جانب دار پوزیشن اختیار کرلی ہے جہاں دوسروں کے گناہ اس کے سر نہیں تھوپے جا رہے ۔
شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کی فائل بند ہوگئی نواز شریف نے اس کڑوی گولی کو ہنسی خوشی ہضم کرلیا۔فوج کو جس سیاسی مدد کی ضرورت تھی وہ نوازلیگ نے طشتری میں رکھ کر حاضر کردی۔پچھلے چند ہفتوں میں وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی ٹیم نے آپریشن ضرب عضب کو آرمی کے ساتھ تعلقات میں پڑی ہوئی دارڑوں کو پرکرنے کے لیے موثر انداز میں استعمال کیا ہے۔آنیوالے دنوں میں جب اس علاقے میں ترقیاتی کاموں اور وہاں سے نکلے ہوئے شہریوں کی واپسی کے معاملات شروع ہوگئے تو آپ حکومت اور فوج میں مزید قریبی تعلقات دیکھ پائیں گے۔
جنرل پرویز مشرف کا معاملہ بہر حال لٹکا ہوا ہے۔ حکومت نے اگر اس مسئلے پر واضح موقف اپنایا ہوتا تو شاید فوج سابق آرمی چیف کے خلاف کارروائی بادل نخواستہ ہضم کر لیتی۔اگرچہ آج کل چوہدری نثار فوج کو وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے اختیارات سے کہیں زیادہ تجاوز کرتے ہوئے کمٹمنٹ دینے کے الزامات کی زد میں ہیں۔ مگر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو ان وعدوں کا علم نہ ہو جو چوہدری نثار ،شہباز شریف اور ایک آدھ میٹنگ میں محترم اسحق ڈار خود فوج کو دے آئے تھے۔آنے والے دنوں میں اس مسئلے پر حکومت اور فوج میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔مگر اس کے باوجود دو اڑھائی ماہ پہلے بننے والا ماحول کا فوری واپس آنے کا ظاہراً کوئی امکان نہیں۔
مگر عمران خان کے خیال میں نوازشریف کی حکومت اب بھی ایک گرتی ہوئی دیوار ہے جو 14اگست کے دھکے سے گر جائے گی۔اگر حکومت نے اپنے خلاف اپنے ہاتھوں سے کوئی بڑی سازش نہ کردی تو شاید عمران خان کا مفروضہ غلط ثابت ہو اور عین ممکن ہے کہ ان کا احتجاج پارٹی کے گلے پڑ جائے۔تحریک انصاف میں موجود سنجیدہ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ14 اگست کے جلسے کو فیصل آباد، بہاولپور، سیالکوٹ کے جلسوں کا اختتامی ایکٹ ہونا چاہیے۔تحریک انصاف اس کو حکومت کے لیے ایک بڑی وارننگ کے طور پر استعمال کرکے اپنے مطالبات کو پارلیمانی انداز میں مزید تقویت دے سکتی ہے۔
عمران خان 14اگست کے احتجا ج کو تاریخ ساز بنانے کے چکروں میں ہیں۔وہ یہاں سے ایک ایسی تحریک کی شروعات کرنے کا سوچ رہے ہیں جس کے اختتام کے بارے میں وہ باوجود سوالوں کے کوئی واضح جواب نہیں دیتے۔خیبر پختونخواہ کی اسمبلی کے ایک وزیر نے تحریک انصاف کے اس مخمصہ کو دوجملوں میں سمو دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ 14اگست کا جلسہ فی الحال حکومت کے لیے مسئلہ بننے کے بجائے ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔