یوم دفاع پر پاک بحریہ بیڑوں میں 2 نئے جنگی بحری جہاز باقاعدہ شمولیت کے لیے تیار
یوم دفاع کے موقع پرپاک بحریہ میں دو بحری جنگی جہازوں پی این ایس بابر اور پی این ایس حنین کی بیک وقت شمولیت ہوگی
یوم دفاع پاکستان کے موقع پر بحری دفاعی صلاحیتوں میں شاندار اضافہ ہونے جا رہا ہے پاک بحریہ کے بیڑے میں 2 نئے جنگی بحری جہازوں کی باقاعدہ شمولیت 6 ستمبر(یوم دفاع پاکستان ) پر ہوگی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق یوم دفاع کے موقع پرپاک بحریہ کےبیڑے میں دوبحری جنگی جہازوں پی این ایس بابر اور پی این ایس حنین کی بیک وقت شمولیت ہوگی ترکی میں تیار کیا جانے والا پہلا ملجم/بابر کلاس جہاز پی این ایس بابر باضابطہ طور پرپاک بحریہ کا حصہ بنےگا جبکہ رومانیہ میں تیار کیا گیا تیسرا آف شور پیٹرول ویسل پی این ایس حنین بھی پاک بحریہ میں شامل ہوگا۔
پی این ایس بابرکی تعمیر کا آغاز 4 جون 2020 کوہوا تھاجبکہ کمیشننگ 23 ستمبر 2023 کو ہوئی ورٹیکل لانچنگ سسٹم سے لیس بابر کلاس کے 4 جہاز پاک بحریہ میں شامل کئےجا رہےہیں۔
پاک، ترک معاہدے کےتحت 2 جہاز استنبول اور 2 کراچی میں تیار کئے جا رہے ہیں بابر کلاس کے 3 دیگر جہاز پی این ایس بدر،طارق اور خیبر اس وقت تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔
بابر کلاس جہاز بیک وقت سطح آب، زیر آب اور فضا میں جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے،2888 ٹن بابر کلاس جہاز پر فضائی خطرات سے نمٹنے کے لئے ورٹیکل لانچ سسٹم کےذریعے ہدف کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
پاک بحریہ کے لئے تیسرا یرموک کلاس او پی وی 2600 بھی رومانیہ کے گالاٹی شپ یارڈ میں تیار کیا گیا ہے یرموک کلاس کے پہلے 2 جہازوں کے مقابلے میں آخری دو او پی ویز 2600 ٹن ڈسپلیسمنٹ کے حامل ہیں۔
یرموک کلاس جہازوں کو بے مثال خوبیوں کی بدولت پاکستان نیوی میں گائیڈڈ میزائل کورویٹس کا درجہ حاصل ہے پی این ایس حنین سمیت یرموک کلاس کے تمام جہاز سطح اور فضا میں جنگ کےساتھ سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کے لئے بھی موزوں ہیں، 98 میٹر طویل پی این ایس حنین کی رفتار 24ناٹس کے لگ بھگ ہے، ورٹیکل لانچنگ سسٹم کی مدد سے پی این ایس حنین سطح سےفضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والےمیزائل داغ سکتا ہے 76ایم ایم مین گن کے ساتھ پی این ایس حنین پر 20 ایم ایم کی دو سیکنڈر گنز بھی نصب ہیں۔
یرموک کلاس کے چاروں جہازوں کواسلامی تاریخ کی اہم جنگوں سے منسوب کیا گیا ہے پی این ایس یرموک اور تبوک کے بعد پی این ایس حنین بھی پاک بحریہ کی قوت واستعداد کار میں بہترین اضافہ ہوگا، یرموک کلاس کا چوتھا اورآخری جہازپی این ایس یمامہ رواں برس فروری میں لانچنگ کے بعد تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔
بابر کلاس جہاز پاک ترک دفاعی تعاون کا مظہر ہیں اور دونوں ممالک میں دفاعی پارٹنرشپ کا ثبوت ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق یوم دفاع کے موقع پرپاک بحریہ کےبیڑے میں دوبحری جنگی جہازوں پی این ایس بابر اور پی این ایس حنین کی بیک وقت شمولیت ہوگی ترکی میں تیار کیا جانے والا پہلا ملجم/بابر کلاس جہاز پی این ایس بابر باضابطہ طور پرپاک بحریہ کا حصہ بنےگا جبکہ رومانیہ میں تیار کیا گیا تیسرا آف شور پیٹرول ویسل پی این ایس حنین بھی پاک بحریہ میں شامل ہوگا۔
پی این ایس بابرکی تعمیر کا آغاز 4 جون 2020 کوہوا تھاجبکہ کمیشننگ 23 ستمبر 2023 کو ہوئی ورٹیکل لانچنگ سسٹم سے لیس بابر کلاس کے 4 جہاز پاک بحریہ میں شامل کئےجا رہےہیں۔
پاک، ترک معاہدے کےتحت 2 جہاز استنبول اور 2 کراچی میں تیار کئے جا رہے ہیں بابر کلاس کے 3 دیگر جہاز پی این ایس بدر،طارق اور خیبر اس وقت تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔
بابر کلاس جہاز بیک وقت سطح آب، زیر آب اور فضا میں جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے،2888 ٹن بابر کلاس جہاز پر فضائی خطرات سے نمٹنے کے لئے ورٹیکل لانچ سسٹم کےذریعے ہدف کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
پاک بحریہ کے لئے تیسرا یرموک کلاس او پی وی 2600 بھی رومانیہ کے گالاٹی شپ یارڈ میں تیار کیا گیا ہے یرموک کلاس کے پہلے 2 جہازوں کے مقابلے میں آخری دو او پی ویز 2600 ٹن ڈسپلیسمنٹ کے حامل ہیں۔
یرموک کلاس جہازوں کو بے مثال خوبیوں کی بدولت پاکستان نیوی میں گائیڈڈ میزائل کورویٹس کا درجہ حاصل ہے پی این ایس حنین سمیت یرموک کلاس کے تمام جہاز سطح اور فضا میں جنگ کےساتھ سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کے لئے بھی موزوں ہیں، 98 میٹر طویل پی این ایس حنین کی رفتار 24ناٹس کے لگ بھگ ہے، ورٹیکل لانچنگ سسٹم کی مدد سے پی این ایس حنین سطح سےفضا میں ہدف کو نشانہ بنانے والےمیزائل داغ سکتا ہے 76ایم ایم مین گن کے ساتھ پی این ایس حنین پر 20 ایم ایم کی دو سیکنڈر گنز بھی نصب ہیں۔
یرموک کلاس کے چاروں جہازوں کواسلامی تاریخ کی اہم جنگوں سے منسوب کیا گیا ہے پی این ایس یرموک اور تبوک کے بعد پی این ایس حنین بھی پاک بحریہ کی قوت واستعداد کار میں بہترین اضافہ ہوگا، یرموک کلاس کا چوتھا اورآخری جہازپی این ایس یمامہ رواں برس فروری میں لانچنگ کے بعد تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔
بابر کلاس جہاز پاک ترک دفاعی تعاون کا مظہر ہیں اور دونوں ممالک میں دفاعی پارٹنرشپ کا ثبوت ہیں۔