بلوچستان کا پرنالہ
ہمارا بڑا قومی المیہ یہ ہے کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد ارباب اختیار کو ہوش آتا ہے
ایک جانب ملک کے چاروں صوبوں میں شدید بارشوں سے سیلابی ریلوں نے تباہی مچا رکھی ہے، سڑکیں، کچے مکانات، دیہات اور فصلیں بارش کے پانیوں میں ڈوب گئی ہیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی مون سون سیزن میں بارشوں کے باعث انفرا اسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ملک کے تمام دریاؤں میں پانی کی سطح بھی مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ ممکنہ خطرناک سیلابی صورت حال کے پیش نظر چاروں صوبائی اور وفاقی حکومت کو زبانی بیانات دینے کے بجائے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کر لینے چاہئیں تاکہ عوام اور ان کی املاک کو بڑے نقصانات سے بچایا جاسکے۔
ہمارا بڑا قومی المیہ یہ ہے کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد ارباب اختیار کو ہوش آتا ہے پھر وہ اخباری بیانات اور انٹرویوز و پریس کانفرنسوں کے ذریعے اپنے گھسے پٹے روایتی بیانات کے ذریعے اپنے ''آہنی عزائم'' کا اظہار کرکے قوم کو دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہونے دینے کی یقین دہانیاں کراتے ہیں۔ افسوس کہ دہائیاں گزر گئیں ہماری عادات اور رویے نہیں بدلے نہ ہی سوچ کا انداز بدلا۔ نتیجتاً ہمارے ملک میں نہ سیاسی و جمہوری استحکام آیا نہ معیشت پائیدار بنیادوں پر کھڑی ہو سکی اور نہ ہی امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر کنٹرول میں آسکی۔
قرضوں کے بوجھ اور آئی ایم ایف کی غلامی نے قومی معیشت کو پاتال میں پہنچا دیا ہے۔ غریب عوام بجلی کے بھاری بلوں، ٹیکسوں کے عذاب سے لے کر غربت و مہنگائی طوفان تک برداشت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ تاجر، صنعت کار ہڑتالیں کر رہے ہیں، بے بس لوگ خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر خود کو لاچار پاتے ہیں لیکن حکومت کو کسی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کے مطابق آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز میں 100 ارب کا مزید اضافہ ہوگیا جس کا بوجھ بھی عوام ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ موصوف نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتے۔ گویا عوام پر بجلی عذاب بن کر گرتی رہے گی۔ عوام کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں؟
امن و امان کی صورت حال کا یہ عالم ہے کہ بلوچستان میں تواتر کے ساتھ لاشیں اٹھانا پڑ رہی ہیں۔ 26 اگست کو دہشت گردوں نے اپنی سفاکی، درندگی اور بربریت کا خوفناک اظہارکرتے ہوئے صوبے کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کر کے تین درجہ سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پنجاب کے غریب بے گناہ مزدوروں کو جو روزی کمانے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جا رہے تھے انھیں شناختی کارڈ چیک کرکے بسوں سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دل خراش سانحے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ اس سانحے کی ذمے داری بی ایل اے نے قبول کر لی ہے۔
26 اگست کے واقعے کے بعد پاک فوج نے جوابی کارروائی کرکے درجنوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کردیا، جو حوصلہ افزا خبر ہے۔ بلوچستان میں آئے دن ہونے والے دہشت گردی کے خونی واقعات کے اصل اسباب و علل کا جائزہ لینے اور سنجیدگی سے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ دو اہم چیزیں قابل غور ہیں اول بیرونی عناصر کی خصوصاً بھارت کی کارستانی جس کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے اور افغانستان سے فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کی دراندازی۔ دوم یہ کہ بلوچوں کے مطالبات اور ان کے دیرینہ مسائل کے حوالے سے سنجیدہ غور و فکر اور ان کا قابل قبول حل تلاش کرنا۔ بلوچوں میں بغاوت کا عامل کیوں ہے؟ ان کے حقوق کی پامالی کا کون ذمے دار ہے؟ ہر برسر اقتدار حکومت بلوچستان کے مسئلے کے حل کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں کیوں بہہ رہا ہے؟ بلوچستان میں بہتے لہو کا حساب کون دے گا؟
ہمارا بڑا قومی المیہ یہ ہے کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد ارباب اختیار کو ہوش آتا ہے پھر وہ اخباری بیانات اور انٹرویوز و پریس کانفرنسوں کے ذریعے اپنے گھسے پٹے روایتی بیانات کے ذریعے اپنے ''آہنی عزائم'' کا اظہار کرکے قوم کو دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہونے دینے کی یقین دہانیاں کراتے ہیں۔ افسوس کہ دہائیاں گزر گئیں ہماری عادات اور رویے نہیں بدلے نہ ہی سوچ کا انداز بدلا۔ نتیجتاً ہمارے ملک میں نہ سیاسی و جمہوری استحکام آیا نہ معیشت پائیدار بنیادوں پر کھڑی ہو سکی اور نہ ہی امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر کنٹرول میں آسکی۔
قرضوں کے بوجھ اور آئی ایم ایف کی غلامی نے قومی معیشت کو پاتال میں پہنچا دیا ہے۔ غریب عوام بجلی کے بھاری بلوں، ٹیکسوں کے عذاب سے لے کر غربت و مہنگائی طوفان تک برداشت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ تاجر، صنعت کار ہڑتالیں کر رہے ہیں، بے بس لوگ خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر خود کو لاچار پاتے ہیں لیکن حکومت کو کسی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کے مطابق آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز میں 100 ارب کا مزید اضافہ ہوگیا جس کا بوجھ بھی عوام ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ موصوف نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتے۔ گویا عوام پر بجلی عذاب بن کر گرتی رہے گی۔ عوام کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں؟
امن و امان کی صورت حال کا یہ عالم ہے کہ بلوچستان میں تواتر کے ساتھ لاشیں اٹھانا پڑ رہی ہیں۔ 26 اگست کو دہشت گردوں نے اپنی سفاکی، درندگی اور بربریت کا خوفناک اظہارکرتے ہوئے صوبے کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کر کے تین درجہ سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پنجاب کے غریب بے گناہ مزدوروں کو جو روزی کمانے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جا رہے تھے انھیں شناختی کارڈ چیک کرکے بسوں سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دل خراش سانحے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ اس سانحے کی ذمے داری بی ایل اے نے قبول کر لی ہے۔
26 اگست کے واقعے کے بعد پاک فوج نے جوابی کارروائی کرکے درجنوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کردیا، جو حوصلہ افزا خبر ہے۔ بلوچستان میں آئے دن ہونے والے دہشت گردی کے خونی واقعات کے اصل اسباب و علل کا جائزہ لینے اور سنجیدگی سے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ دو اہم چیزیں قابل غور ہیں اول بیرونی عناصر کی خصوصاً بھارت کی کارستانی جس کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے اور افغانستان سے فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کی دراندازی۔ دوم یہ کہ بلوچوں کے مطالبات اور ان کے دیرینہ مسائل کے حوالے سے سنجیدہ غور و فکر اور ان کا قابل قبول حل تلاش کرنا۔ بلوچوں میں بغاوت کا عامل کیوں ہے؟ ان کے حقوق کی پامالی کا کون ذمے دار ہے؟ ہر برسر اقتدار حکومت بلوچستان کے مسئلے کے حل کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں کیوں بہہ رہا ہے؟ بلوچستان میں بہتے لہو کا حساب کون دے گا؟