مملکت خداداد کے چلبل پانڈے
پاکستان چونکہ مملکت خدا داد ہے،اس کی برکت ہے کہ ہمارے لنگڑے گھوڑے بھی ریس میں اولآتے ہیں
ہمارے ہاں ایسے حروف شناس اور حروف سازوں کی کمی نہیں ہے جن کے ''علم دریاؤ'' سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے ۔ بلھے شاہ نے ایسے ہی دیدہ وروںکی نکتہ آفرینیوں سے گھبرا کر فرمایا تھا۔
علموں بس کریئں، اؤیار
سانھوں اکو الف درکار
پاکستان چونکہ مملکت خدا داد ہے،اس کی برکت ہے کہ ہمارے لنگڑے گھوڑے بھی ریس میں اولآتے ہیں۔ ایل ایل بی فیل بلند پایہ وکیل اور جج بن جاتے ہیں،ذرا سوچیں! حضرت علامہ سر محمد اقبال اگرالگ وطن کا خواب نہ دیکھتے، قائد اعظم پاکستان نہ بناتے اور نواب لیاقت علی خان اپنا مکا نہ لہراتے تو ہمارا کیا بنتا۔ ہم غلام محمد، اسکندر مرزا جیسے عظیم بیوروکریٹس اور ایوب خان جیسے بے مثال فیلڈ مارشل سے محروم ہوجاتے کیونکہ متحدہ ہندوستان میں ان عظیم مسلم ہستیوں کی ایک ٹکے کی قدر نہیں ہونی تھی ۔
یہ مملکت خداداد کا ہی اعجاز ہے کہ ان ہستیوں کو وہ بلند مرتبہ ملا جو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جنرل آغامحمد یحییٰ خان قزلباش، جنرل اقلیم اخترعرف جنرل رانی اور جنرل امیر عبداﷲ نیازی جیسے نابغہ روزگار ہستیاں مملکت خدادادکی نرسری میں ہی تناور درخت بن سکتی تھیں۔ پاکستان نہ ہوتا تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا اقبال کہاں بلند ہوتا۔ ''ھذا من فضل ربی'' کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو مملکت خدا داد پاکستان کا وزٹ ضرور کریں۔
مملکت خداداد میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ ملے گا۔ حروف شناس اور حروف ساز بھی اسی کہکشاں کے ستارے ہیں ، اس قبیلے کی شاخیں اینکرز، تجزیہ کار اور قلم کار ہیں۔ یہ نابغے اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں، ان کے ذرائع شاہی حمام سے لے کر شاہی دسترخواں تک موجود ہوتے ہیں۔یہ اتنے کاری گر ہیں کہ ایک نکتہ ادھر ادھر کرکے مجرم کو محرم بنادیتے ہیں یا محرم کومجرم ڈکلیئر کردیتے ہیں، گدھے کو گھوڑا اور کوئے کو عقاب قرار دیدیں تو ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔اگر یقین نہیں آتا تو سوشل میڈیا واچ کریں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ''سائنسی ترقی'' کسے کہتے ہیں۔ مارک زکربرگ اور الیون مسک کو بھی یقین نہیں تھا کہ مملکت خدادادمیں ان کا کاروباراتنا بھاری بھرکم منافع کماسکتا ہے۔
آج کل محترم قیصر بنگالی صاحب ان کے ہاتھ چڑھے ہوئے ہیں۔ سنا ہے کہ بنگالی صاحب ماہر معیشت ہیں، چند روز قبل انھوں نے حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ حکومت صرف ایک سے سولہ گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کے بجائے گریڈ سترہ سے بائیس گریڈ تک کے افسران کو رائٹ سائزنگ کے دائرہ میں لائے۔ انھوں نے جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی راہ پر گامزن ہے۔
اب مملکت خداداد میں ''ماہرین معاشیات'' کی بھی کمی نہیں ہے۔ قیصر بنگالی صاحب کے منہ سے ''دیوالیہ'' ہونے کی بات نکلی تو دور تک چلی گئی، پھر اﷲ دے اور بندہ لے والا معاملہ ہوگیا۔ ''بنگالی بابا'' نے تو شاید چونکہ چنانچہ کا تکلف رکھ کر بات کی ہو لیکن مملکت خدادادکے حروف شناس اور حروف ساز ''مجھے جب غصہ آتا ہے تو میں خود کی بھی نہیں سنتا'' کا ورد کرتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے اور پاکستان کودیوالیہ قرار دے دیا ہے۔مملکت خداداد کے چلبل پانڈوں نے سچ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ویسے ''سچ'' بولنے کا نشہ تمام نشوں پر بھاری ہوتاہے۔ جب بھی سازگار ماحول ملتا ہے، ایسے ''سچیاروں'' کے دماغ میں کھلبلی مچ جاتی، جسم ملائیکہ اروڑا کا روپ دھارن کرکے ''انارکلی ڈسکو چلی'' کی دھن پر محو رقص ہوجاتا ہے۔ شاید مملکت خدادادکے سچیاروں کو دیکھ کر فریدکوٹ نامی پنجابی میوزک بینڈ کے امرجلال نے یہ گیت گایا ہے۔
جیہڑانشہ نشہ
تیری اکھاں وچوں آوے مینوں
میں ویکھیا بڑا نہ او لکھاں وچوں آوے مینوں
کسی اورکی بات تو کیا کرنی ہے، آج کل میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے ۔ میں بھی آخر مملکت خداداد کا سپوتر ہوں۔جب میرے ہم نشین و ہمنوا کورس کی شکل میں ''دیوالیہ دیوالیہ ہوا رہے'' گا رہے ہوں تو میرا لہو کیوں نہ جوش مارے۔لہذا میں نے اپنا قلم جو شلوار میں نالہ ڈالنے کے لیے خریدا تھا، اسے تلوار بنایا اور ''پنڈاریوں'' کے لشکرجرار میں شامل ہو گیا ہوں۔ جب چہار اطراف قلینکرز، یوتھیوبھڑ اور ٹی فار ٹوئٹر ماسٹرز''ایکس'' کی سلیٹ پر ''وائی زیڈ'' کر رہے ہوں تو میں الف سے ''انارکی'' اور ب سے ''بھونچال'' کا ''راگ دھواں دھواں'' کیوں نہ گاؤں۔
اب آپ ہی بتائیں!جہاں راگ'' تباہی'' کا آلاپ کان پھاڑ رہا ہو، وہاںاستاد برکت علی کی مترنم آواز میں گایا ہوا پنجابی ماہیا ''ساون میں پڑے جھولے'' کون سنے گا۔ کھیت پر ''بلاروں'' کا راج ہوجائے تو بٹیر اور تیتر کی بھلائی اس میںہے کہ وہ پتلی گلی سے ایسے نکلے جیسے کمان سے تیر نکلتا ہے ۔ یاد رکھیں مملکت خدادادمیں وعدے اور عہد وپیماں توڑنے اور بغیر ضرورت شکار کرنے کی شاندار اور اٹوٹ روایت موجود ہے ۔ جناب آصف زرداری نے کیاخوب کہا ہے کہ '' وعدے کوئی قرآن و حدیث تھوڑا ہوتے ہیں جو توڑے نہیں جا سکتے۔'' محترم تبدیلی خان اسی سچ کو یوں بیان کرتے ہیں، یوٹرن لیناعظیم لیڈر کی نشانی ہوتی ہے۔مملکت خدادادکا یہی دستور ہے۔یہاں کے رہبران بالکلسچ کہتے ہیں۔ بلکہ سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔
پاکستان ایسی سرزمین ہے جہاں ''ناممکن'' کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ناممکن کو ممکن کیسے بنایا جاتا ہے،اس کا عملی نظارہ مملکت خدادادمیں دیکھا جاسکتا ہے۔ لاہور میں قومی اسمبلی کی نشست ایک ایسے ''لائر'' نے بھاری اکثریت سے جیت لی، جس نے انتخابی مہم چلائی ہی نہیں تھی۔ اسے کہتے ہیں' ہینگ لگے نہ پھٹکری لیکن رنگ چوکھا آئے۔ رنگ بھی ایسا چڑھا کہ موصوف ایوان زیریں میں اپنی نشست پرسوتے جاگتے پائے گئے' کہتے ہیں، کرسی کا نشہ اترتے اترتے اترتا ہے۔کم از کم پانچ برس تو لگ ہی جاتے ہیں' بہرحال جو جیتا وہی سکندر' میں تو انھیں سیلوٹ کرتا ہوں' مان گئے حضور! ان کے ووٹرز کے ''جذبہ جنوں'' کو بھی سلام!
ذرا ٹھہریے، لکھتے لکھتے بس یونہی، ایک بات یاد آگئی۔دور عمرانی میں کسی ن لیگی صاحب کے دل میں جذبہ ''تنظیم سازی'' نے جوش مارا تھا،موصوف پارٹی کو متحرک کرنے کے جذبے سے سرشار ہوکر تنظیم سازی کے لیے کسی ''ہم خیال'' کے گھر پہنچ گئے، لیکن مخالفین بھی عقاب کی نگاہ رکھتے تھے، انھوں نے ''تنظیم سازی'' شروع ہونے سے قبل ہی دھاوا بول کر اس ''جمہوری عمل'' کا تیاپانچہ کردیا تھا' سیاست میں جہاں دوست ہوتے وہیں دشمن بھی آستینیں چڑھائے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔لہٰذا '' روم میں رہنا ہے تو وہی کرو جو رومن کیا کرتے ہیں''۔ سیاسی پارٹیز تنظیم سازی لازماً کریں بلکہ دھڑلے سے کریں لیکن تنظیم سازی کی ذمے داری ایسے ورکرز کو دیں، جو ''تنظیم سازی''کے فن میں ماہر ہوں اور اردگرد پر نظر رکھتے ہوں۔ ذرا سی بھول چوک ہوئی تو مملکت خدادادکے حروف شناس اور حروف ساز ایک نکتہ ادھر سے ادھر کرکے محرم کومجرم بنانے میں لمحہ کی تاخیر نہیں کرتے ہیں۔مملکت خداداد میں تو ایسے سیاسی چلبل پانڈے بھی پائے جاتے ہیں جو ''اپنے باپ سے بھی معافی نہیں مانگتے''۔
میرا تو مفت مشورہ ہے کہ مملکت خداداد میں دعا بھی مانگنی ہو تو اردگرد پر نظر ڈال لینی چاہیے کیونکہ ''حروف شناس اور حروف ساز دعا کو دغابنانے میں لمحے کی تاخیر نہیں کرتے۔آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے، باقی کے لیے انتظار فرمائیے۔
علموں بس کریئں، اؤیار
سانھوں اکو الف درکار
پاکستان چونکہ مملکت خدا داد ہے،اس کی برکت ہے کہ ہمارے لنگڑے گھوڑے بھی ریس میں اولآتے ہیں۔ ایل ایل بی فیل بلند پایہ وکیل اور جج بن جاتے ہیں،ذرا سوچیں! حضرت علامہ سر محمد اقبال اگرالگ وطن کا خواب نہ دیکھتے، قائد اعظم پاکستان نہ بناتے اور نواب لیاقت علی خان اپنا مکا نہ لہراتے تو ہمارا کیا بنتا۔ ہم غلام محمد، اسکندر مرزا جیسے عظیم بیوروکریٹس اور ایوب خان جیسے بے مثال فیلڈ مارشل سے محروم ہوجاتے کیونکہ متحدہ ہندوستان میں ان عظیم مسلم ہستیوں کی ایک ٹکے کی قدر نہیں ہونی تھی ۔
یہ مملکت خداداد کا ہی اعجاز ہے کہ ان ہستیوں کو وہ بلند مرتبہ ملا جو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جنرل آغامحمد یحییٰ خان قزلباش، جنرل اقلیم اخترعرف جنرل رانی اور جنرل امیر عبداﷲ نیازی جیسے نابغہ روزگار ہستیاں مملکت خدادادکی نرسری میں ہی تناور درخت بن سکتی تھیں۔ پاکستان نہ ہوتا تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا اقبال کہاں بلند ہوتا۔ ''ھذا من فضل ربی'' کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو مملکت خدا داد پاکستان کا وزٹ ضرور کریں۔
مملکت خداداد میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ ملے گا۔ حروف شناس اور حروف ساز بھی اسی کہکشاں کے ستارے ہیں ، اس قبیلے کی شاخیں اینکرز، تجزیہ کار اور قلم کار ہیں۔ یہ نابغے اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں، ان کے ذرائع شاہی حمام سے لے کر شاہی دسترخواں تک موجود ہوتے ہیں۔یہ اتنے کاری گر ہیں کہ ایک نکتہ ادھر ادھر کرکے مجرم کو محرم بنادیتے ہیں یا محرم کومجرم ڈکلیئر کردیتے ہیں، گدھے کو گھوڑا اور کوئے کو عقاب قرار دیدیں تو ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔اگر یقین نہیں آتا تو سوشل میڈیا واچ کریں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ''سائنسی ترقی'' کسے کہتے ہیں۔ مارک زکربرگ اور الیون مسک کو بھی یقین نہیں تھا کہ مملکت خدادادمیں ان کا کاروباراتنا بھاری بھرکم منافع کماسکتا ہے۔
آج کل محترم قیصر بنگالی صاحب ان کے ہاتھ چڑھے ہوئے ہیں۔ سنا ہے کہ بنگالی صاحب ماہر معیشت ہیں، چند روز قبل انھوں نے حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ حکومت صرف ایک سے سولہ گریڈ تک کے سرکاری ملازمین کے بجائے گریڈ سترہ سے بائیس گریڈ تک کے افسران کو رائٹ سائزنگ کے دائرہ میں لائے۔ انھوں نے جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی راہ پر گامزن ہے۔
اب مملکت خداداد میں ''ماہرین معاشیات'' کی بھی کمی نہیں ہے۔ قیصر بنگالی صاحب کے منہ سے ''دیوالیہ'' ہونے کی بات نکلی تو دور تک چلی گئی، پھر اﷲ دے اور بندہ لے والا معاملہ ہوگیا۔ ''بنگالی بابا'' نے تو شاید چونکہ چنانچہ کا تکلف رکھ کر بات کی ہو لیکن مملکت خدادادکے حروف شناس اور حروف ساز ''مجھے جب غصہ آتا ہے تو میں خود کی بھی نہیں سنتا'' کا ورد کرتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے اور پاکستان کودیوالیہ قرار دے دیا ہے۔مملکت خداداد کے چلبل پانڈوں نے سچ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ویسے ''سچ'' بولنے کا نشہ تمام نشوں پر بھاری ہوتاہے۔ جب بھی سازگار ماحول ملتا ہے، ایسے ''سچیاروں'' کے دماغ میں کھلبلی مچ جاتی، جسم ملائیکہ اروڑا کا روپ دھارن کرکے ''انارکلی ڈسکو چلی'' کی دھن پر محو رقص ہوجاتا ہے۔ شاید مملکت خدادادکے سچیاروں کو دیکھ کر فریدکوٹ نامی پنجابی میوزک بینڈ کے امرجلال نے یہ گیت گایا ہے۔
جیہڑانشہ نشہ
تیری اکھاں وچوں آوے مینوں
میں ویکھیا بڑا نہ او لکھاں وچوں آوے مینوں
کسی اورکی بات تو کیا کرنی ہے، آج کل میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے ۔ میں بھی آخر مملکت خداداد کا سپوتر ہوں۔جب میرے ہم نشین و ہمنوا کورس کی شکل میں ''دیوالیہ دیوالیہ ہوا رہے'' گا رہے ہوں تو میرا لہو کیوں نہ جوش مارے۔لہذا میں نے اپنا قلم جو شلوار میں نالہ ڈالنے کے لیے خریدا تھا، اسے تلوار بنایا اور ''پنڈاریوں'' کے لشکرجرار میں شامل ہو گیا ہوں۔ جب چہار اطراف قلینکرز، یوتھیوبھڑ اور ٹی فار ٹوئٹر ماسٹرز''ایکس'' کی سلیٹ پر ''وائی زیڈ'' کر رہے ہوں تو میں الف سے ''انارکی'' اور ب سے ''بھونچال'' کا ''راگ دھواں دھواں'' کیوں نہ گاؤں۔
اب آپ ہی بتائیں!جہاں راگ'' تباہی'' کا آلاپ کان پھاڑ رہا ہو، وہاںاستاد برکت علی کی مترنم آواز میں گایا ہوا پنجابی ماہیا ''ساون میں پڑے جھولے'' کون سنے گا۔ کھیت پر ''بلاروں'' کا راج ہوجائے تو بٹیر اور تیتر کی بھلائی اس میںہے کہ وہ پتلی گلی سے ایسے نکلے جیسے کمان سے تیر نکلتا ہے ۔ یاد رکھیں مملکت خدادادمیں وعدے اور عہد وپیماں توڑنے اور بغیر ضرورت شکار کرنے کی شاندار اور اٹوٹ روایت موجود ہے ۔ جناب آصف زرداری نے کیاخوب کہا ہے کہ '' وعدے کوئی قرآن و حدیث تھوڑا ہوتے ہیں جو توڑے نہیں جا سکتے۔'' محترم تبدیلی خان اسی سچ کو یوں بیان کرتے ہیں، یوٹرن لیناعظیم لیڈر کی نشانی ہوتی ہے۔مملکت خدادادکا یہی دستور ہے۔یہاں کے رہبران بالکلسچ کہتے ہیں۔ بلکہ سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔
پاکستان ایسی سرزمین ہے جہاں ''ناممکن'' کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ناممکن کو ممکن کیسے بنایا جاتا ہے،اس کا عملی نظارہ مملکت خدادادمیں دیکھا جاسکتا ہے۔ لاہور میں قومی اسمبلی کی نشست ایک ایسے ''لائر'' نے بھاری اکثریت سے جیت لی، جس نے انتخابی مہم چلائی ہی نہیں تھی۔ اسے کہتے ہیں' ہینگ لگے نہ پھٹکری لیکن رنگ چوکھا آئے۔ رنگ بھی ایسا چڑھا کہ موصوف ایوان زیریں میں اپنی نشست پرسوتے جاگتے پائے گئے' کہتے ہیں، کرسی کا نشہ اترتے اترتے اترتا ہے۔کم از کم پانچ برس تو لگ ہی جاتے ہیں' بہرحال جو جیتا وہی سکندر' میں تو انھیں سیلوٹ کرتا ہوں' مان گئے حضور! ان کے ووٹرز کے ''جذبہ جنوں'' کو بھی سلام!
ذرا ٹھہریے، لکھتے لکھتے بس یونہی، ایک بات یاد آگئی۔دور عمرانی میں کسی ن لیگی صاحب کے دل میں جذبہ ''تنظیم سازی'' نے جوش مارا تھا،موصوف پارٹی کو متحرک کرنے کے جذبے سے سرشار ہوکر تنظیم سازی کے لیے کسی ''ہم خیال'' کے گھر پہنچ گئے، لیکن مخالفین بھی عقاب کی نگاہ رکھتے تھے، انھوں نے ''تنظیم سازی'' شروع ہونے سے قبل ہی دھاوا بول کر اس ''جمہوری عمل'' کا تیاپانچہ کردیا تھا' سیاست میں جہاں دوست ہوتے وہیں دشمن بھی آستینیں چڑھائے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔لہٰذا '' روم میں رہنا ہے تو وہی کرو جو رومن کیا کرتے ہیں''۔ سیاسی پارٹیز تنظیم سازی لازماً کریں بلکہ دھڑلے سے کریں لیکن تنظیم سازی کی ذمے داری ایسے ورکرز کو دیں، جو ''تنظیم سازی''کے فن میں ماہر ہوں اور اردگرد پر نظر رکھتے ہوں۔ ذرا سی بھول چوک ہوئی تو مملکت خدادادکے حروف شناس اور حروف ساز ایک نکتہ ادھر سے ادھر کرکے محرم کومجرم بنانے میں لمحہ کی تاخیر نہیں کرتے ہیں۔مملکت خداداد میں تو ایسے سیاسی چلبل پانڈے بھی پائے جاتے ہیں جو ''اپنے باپ سے بھی معافی نہیں مانگتے''۔
میرا تو مفت مشورہ ہے کہ مملکت خداداد میں دعا بھی مانگنی ہو تو اردگرد پر نظر ڈال لینی چاہیے کیونکہ ''حروف شناس اور حروف ساز دعا کو دغابنانے میں لمحے کی تاخیر نہیں کرتے۔آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے، باقی کے لیے انتظار فرمائیے۔