مذاکراتمفاہمت اور بداعتمادی کا کھیل

پی ٹی آئی جو براہ راست اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات چاہتی ہے وہ رسمی طور پر تو ممکن نہیں

salmanabidpk@gmail.com

سیاست میں مذاکرات اور مفاہمت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ مقصد سیاسی اعتماد سازی اور باہمی شکوک وشبہات کو دور کرکے آگے بڑھنے پر اتفاق کرنا ہوتا ہے۔مفاہمت اور مذاکرات لازم و ملزوم اس لیے ہوتے ہیں کہ مذاکرات ہوں گے تو مفاہمت ہوگی۔ سیاست میں ہٹ دھرمی سے باہمی مذاکرات ہوتے ہیں نہ مفاہمت ہوتی ہے ۔ سیاسی مذاکرات اور مفاہمت کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہوسکتا جب تک فریقین اس کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہ کام یکطرفہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ سیاسی مفاہمت اور مذاکرات ایک حکمت عملی ہوتی ہے تاکہ سیاست کے بند دروازے کھولیں جائیں اور مل جل کر آگے بڑھنے کے امکانات کو پیدا کیاجائے ۔

لیکن جب کوئی بھی فریق ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے اور اپنی شرائط سے پیچھے نہ ہٹے تو مذاکرات کا دروازہ نہیں کھولا جاسکتا۔ شاطرانہ انداز میں مذاکرات اور مفاہمت کی باتیں کرنا اور ساتھ ساتھ اشتعال انگیزی بھی جاری رکھنا، مثبت سیاست نہیں ہوتی ۔ ایسی حکمت عملی کسی گروہ کے منفی مقاصد کے لیے تو سود مند ہوسکتی ہے لیکن ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتی۔ اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کو بنیاد بنا کر دوسروں کو مذاکراتی عمل میں منفی بنیادوں پر استعمال کرنے کی کوشش سے تو حالات بہتر نہیںبلکہ بگاڑ کی طرف جاتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات اور مفاہمت کا دروازہ کھولنے کی زیادہ ذمے داری حزب اقتدار کی ہوتی ہے کیونکہ اگر مفاہمت کا عمل آگے نہیں بڑھتا تو زیادہ نقصان حکومت ہی کو ہوتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جو قومی سیاست میں تناؤ اور بداعتمادی کا ماحول ہے اس میں سب ہی سیاسی فریق چاہے وہ حکومت ہو یا حزب اختلاف ، سب ہی اسی نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ حالات میں مسائل کا حل سوائے مذاکرات اور مفاہمت سے ہی جڑا ہوا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر سب ہی مذاکرات اور مفاہمت پر اتفاق کرتے ہیں تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جو مذاکرات کی راہ میںرکاو ٹ بنتی ہیں اور کیوں دونوں فریق مفاہمت کی سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں۔حکومت اور حزب اختلاف یعنی پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے عمل میں جو حائل رکاوٹیں ہیں، ان میں بہت سے مسائل یا تضادات ہیں۔ پی ٹی آئی کے بقول اس حکومت کا مینڈیٹ جعلی بنیادوں پر قائم ہے۔


لہذا اس سے مذاکرات کرنے مطلب حکومت کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہے۔اسی طرح بانی پی ٹی آئی اپنے بیانات میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ حکومت کے پاس مذاکرات کا کوئی اختیار ہی نہیں اور اصل طاقت اسٹیبلیشمنٹ ہے اور اس ہی سے مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں ۔ حکومتی سطح پر ایک طبقہ مذاکرات کا حامی اوردوسرا مخالف ہے ۔حامی طبقہ سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کیے بغیر ہماری حکومتی گاڑی آگے نہیں چل سکے گی اور ہمیں پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت کرنی چاہیے ۔جب کہ مخالف طبقہ کے بقول پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطلب اسے ایک بڑا سیاسی ریلیف دینا ہے اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کو ناراض کرنا ہے جو ہمارے سیاسی مفادات کو نقصان پہنچائے گا۔

اسی لیے مسلم لیگ ن خاص طور پر نو مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کے خلاف اپنے مقدمہ سے دست بردار ہونے کے لیے تیارنہیں اور ان کے بقول جب تک بانی پی ٹی آئی قوم سے 9مئی کے واقعات پر معافی نہیں مانگیں گے ، اس وقت تک مذاکرات ممکن نہیں اور یہ موقف اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہے ۔ ویسے بھی مسلم لیگ ن کی قیادت بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا کر انھیں سیاسی سہارا کیوں فراہم کرے گی اور بلاوجہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کیوں خراب کرے گی۔ بانی پی ٹی آئی کی ترجیح تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرکے اپنے معاملات سیٹل کرنا ہے، ایسے میں مسلم لیگ ن انھیں اپنا کندھا کیوں فراہم کرے گی۔پیپلزپارٹی بھی ان معاملات میں مسلم لیگ ن کی حامی ہے اور وہ بھی نہیں چاہے گی کہ پی ٹی آئی کو کوئی سیاسی راستہ ملے۔

پی ٹی آئی جو براہ راست اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات چاہتی ہے وہ رسمی طور پر تو ممکن نہیں اور نہ ہی ایسا ممکن ہوسکے گا۔البتہ ان خبروں میں کچھ حد تک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان بعض سہولت کاروں نے بات چیت کرانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہورہی۔ پی ٹی آئی میںایک ایسا گروہ موجود ہے جو کسی بھی صورت میںاسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ کا حامی نہیں ہے اور ان کے بقول ہمیں مفاہمت کا راستہ نکالنا ہوگا۔ کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پس پردہ اسٹیبلیشمنٹ سے رابطے ہیںاور وہ عمران خان کے بیانیہ کے حامی نہیں ہیں۔اس بات کا احساس خود عمران خان کو بھی ہے اور وہ بہت سے پارٹی کے لوگوں کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں اور ان پر اعتماد بھی کم کرتے ہیں ۔

مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی سیاست اورمعیشت میں ایک ڈیڈلاک موجود ہے ۔ہم ان مذاکرات اورمفاہمت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔ اس ڈیڈ لاک نے قومی سطح پر ایک بڑی سیاسی تقسیم کو بھی گہرا کردیا ہے ۔اس تقسیم سے ہم قومی سیاست یا معیشت سمیت سیکیورٹی کے معاملات میں اور زیادہ الجھتے جا رہے ہیں۔اس کا حل تلاش کرنا اورناممکن کو ممکن بنا کر مفاہمت سے آگے بڑھنے میںہی ریاست سمیت سب کا مفاد اسی سے جڑا ہوا ہے ، یہ ہی قومی ترجیح ہونی چاہیے۔
Load Next Story