تیل کی قیمتیں گرنے سے پاکستانی معیشت کو فائدہ ہوگا جے ایس گلوبل رپورٹ
حکومت کو پی ایل ڈی میں مزید اضافے کی گنجائش ملتی ہے تاکہ مالیاتی توازن برقرار رکھ سکے
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد تک ہونے والی کمی کے باعث پاکستان کے تیل کے درآمدی بل میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی اور جس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو استحکام ملے گا بلکہ بروقت بین الاقوامی ادائیگیوں میں مدد ملے گی جس کے مثبت اثرات جلد معیشت پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
اس بات کا اظہار جہانگیر صدیقی گلوبل کی جانب سے اس حوالے سے شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ جے ایس گلوبل کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے اور خام تیل کی قیمت فی بیرل 72 ڈالر کی سطح پر آگئی ہے جبکہ پانچ ماہ قبل اپریل 2024 میں خام تیل کی قیمت 91 ڈالر 17 سینٹ فی بیرل تھی یعنی اب تک اس میں 20 فیصد گراوٹ آچکی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے حکومت پاکستان کو موقع ملا اور اس نے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس یعنی پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں مزید دس روپے کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 70 روپے فی لیٹر کردیا تاکہ رواں مالی سال کے دوران ایک کھرب 28 ارب روپے محصولات کا ہدف حاصل کرنے میں سہولت ہوسکے۔
جے ایس گلوبل کی ہیڈ آف ریسرچ امبرین سورانی کے مطابق خام تیل کی فی بیرل قیمتوں میں پانچ ڈالر کمی کے نتیجے میں پاکستان کے سالانہ تیل کے درآمدی بل میں 90 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر میں 35 بنیادی پوائنٹس مزید گھٹتے ہیں اور اس کے نتیجے میں حکومت کو پی ایل ڈی میں مزید اضافے کی گنجائش ملتی ہے تاکہ مالیاتی توازن برقرار رکھ سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ رواں کھاتوں کے خسارے میں جو کمی واقع ہوئی ہے اور اگست کے دوران یہ گزشتہ گیارہ ماہ کی کم ترین سطح پر ہے جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ کے دوران بھی اس میں 4 فیصد کی کمی نظر آتی ہے تو اس کی بنیادی وجوہ میں بنیادی درآمدات کو ترجیح دینا اور موجودہ معاشی صورت حال کے باعث طلب میں کمی بھی ہے۔
اپنی رپورٹ میں امبرین سورانی کا کہنا تھا کہ تیل کی درآمدی بل میں کمی کی وجہ سے جاری کھاتوں کا خسارے میں کمی کا تخمینہ 80 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا صفر اعشاریہ 2 فیصد بنتا ہے جبکہ اس سے 90 کروڑ ڈالر سالانہ کی بچت بھی ہوگی جو کہ مرکزی بینک کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کا تقریبا 10 فیصد بنتا ہے جو اس وقت 9 ارب 40 کروڑ ڈالر کی سطح پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق برآمدی بل میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام کے نتیجے میں حکومت کے پاس اگلے دو ماہ تک اشیا کی درآمدات کی سہولت حاصل رہے گی۔ رپورٹ میں امبرین سورانی کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ رواں مالی سال 2025 کے دوران افراط زر کی شرح 9 فیصد کے آس پاس رہے گی۔
اس بات کا اظہار جہانگیر صدیقی گلوبل کی جانب سے اس حوالے سے شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ جے ایس گلوبل کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے اور خام تیل کی قیمت فی بیرل 72 ڈالر کی سطح پر آگئی ہے جبکہ پانچ ماہ قبل اپریل 2024 میں خام تیل کی قیمت 91 ڈالر 17 سینٹ فی بیرل تھی یعنی اب تک اس میں 20 فیصد گراوٹ آچکی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے حکومت پاکستان کو موقع ملا اور اس نے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس یعنی پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں مزید دس روپے کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 70 روپے فی لیٹر کردیا تاکہ رواں مالی سال کے دوران ایک کھرب 28 ارب روپے محصولات کا ہدف حاصل کرنے میں سہولت ہوسکے۔
جے ایس گلوبل کی ہیڈ آف ریسرچ امبرین سورانی کے مطابق خام تیل کی فی بیرل قیمتوں میں پانچ ڈالر کمی کے نتیجے میں پاکستان کے سالانہ تیل کے درآمدی بل میں 90 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر میں 35 بنیادی پوائنٹس مزید گھٹتے ہیں اور اس کے نتیجے میں حکومت کو پی ایل ڈی میں مزید اضافے کی گنجائش ملتی ہے تاکہ مالیاتی توازن برقرار رکھ سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ رواں کھاتوں کے خسارے میں جو کمی واقع ہوئی ہے اور اگست کے دوران یہ گزشتہ گیارہ ماہ کی کم ترین سطح پر ہے جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ کے دوران بھی اس میں 4 فیصد کی کمی نظر آتی ہے تو اس کی بنیادی وجوہ میں بنیادی درآمدات کو ترجیح دینا اور موجودہ معاشی صورت حال کے باعث طلب میں کمی بھی ہے۔
اپنی رپورٹ میں امبرین سورانی کا کہنا تھا کہ تیل کی درآمدی بل میں کمی کی وجہ سے جاری کھاتوں کا خسارے میں کمی کا تخمینہ 80 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا صفر اعشاریہ 2 فیصد بنتا ہے جبکہ اس سے 90 کروڑ ڈالر سالانہ کی بچت بھی ہوگی جو کہ مرکزی بینک کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کا تقریبا 10 فیصد بنتا ہے جو اس وقت 9 ارب 40 کروڑ ڈالر کی سطح پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق برآمدی بل میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام کے نتیجے میں حکومت کے پاس اگلے دو ماہ تک اشیا کی درآمدات کی سہولت حاصل رہے گی۔ رپورٹ میں امبرین سورانی کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ رواں مالی سال 2025 کے دوران افراط زر کی شرح 9 فیصد کے آس پاس رہے گی۔