سی پیک زرعی ماہرین اور زرعی انقلاب

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ہزار ماہرین کو تربیت کے لیے چین بھیجا جائے گا

زراعت میں روایتی طریقہ کاشتکاری میں تبدیلی کی خاطر اور ملک میں زرعی انقلاب لانے کی خواہاں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ہزار ماہرین کو تربیت کے لیے چین بھیجا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تک عمل درآمد ہوتا ہے۔ ماہرین تربیت حاصل کر لینے کے بعد کب تک ملک کی زرعی زمینوں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں یا جلد یا بہ دیر دیگر ممالک میں اپنا ٹھکانہ تلاش کر لیتے ہیں۔


پاکستان کو ابتدا سے ہی اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں تربیت پانے والے ماہرین یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد ان میں سے زیادہ تر افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچھی تنخواہ پر بیرون ملک چلے جائیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ زرعی زمینوں پر تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ملک بھر میں جنگلات کی افزائش کی تربیت بھی ضروری ہے اس کے ساتھ بڑے شہروں جن میں کراچی سرفہرست ہے، میں اس بات کی سخت ترین ضرورت ہے کہ یہاں پر زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے۔


درخت اگائے جائیں ان درختوں کی حفاظت کی ذمے داری بھی ہونی چاہیے۔ کئی عشروں سے ہر سال شجرکاری کی مہم شروع کی جاتی ہے خبروں کی حد تک یا حقیقی معنوں میں ہزاروں درخت لگا دیے جاتے ہیں لیکن ان پودوں کی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب جلد ہی وہ ضایع ہو جاتے ہیں۔ بہت ہی کم ایسا ہوگا کہ تناور درخت بن جائے۔ کراچی کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں دور دور تک میلوں تک درختوں کا نام و نشان نہیں ہے، لہٰذا گرمی کے موسم میں سخت ترین گرمی کی فیلنگ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے گرمی کے موسم میں ایک یا دو دن کے لیے درجہ حرارت بڑھا ہوا محسوس ہوتا تھا اور کبھی کبھار ہیٹ ویو کا سماں ہوا کرتا تھا اب تو پورے کے پورے ہفتے اور مہینے میں کئی بار پورا شہر گرم لُو کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔



اس کے علاوہ زرعی ماہرین کو اس بات کی بھی تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ بارش کے موسم میں کس طرح سے سیلابی پانی یا بارش کے پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ برسات کے موسم میں علاوہ کراچی ملک کے ہر علاقے میں بہت زیادہ بارش ہونے کے سبب سیلابی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے، اس کے ساتھ بھارت کی طرف سے بھی بڑے پیمانے پر نہروں کے ذریعے پانی چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے ارد گرد کے سیکڑوں دیہات اچانک ہی زیر آب آجاتے ہیں، چونکہ بھارت کی طرف سے بلا اطلاع نہروں میں سیلابی پانی چھوڑ دیا جاتا ہے، لہٰذا اکثر دیہاتوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ جب سیلاب کا پانی ان کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے تو انھیں معلوم ہوتا ہے اور ایسے موقعے پر اچانک ہی کچے مکان گر جاتے ہیں۔


پکے مکان پانی میں ڈوب جاتے ہیں، سڑکیں بہہ جاتی ہیں، ہزاروں مال مویشی پانی کی نذر ہو جاتے ہیں اور سیکڑوں شہری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو بچ جاتے ہیں ان کے ارد گرد ہر دم سانپ کا خوف، بھوک پیاس، بے آسرا، بے سہارا۔ نہ انتظامیہ کا نام و نشان۔ جب ہر سال یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے تو پہلے سے انتظام کیوں نہیں کر لیا جاتا۔ بہرحال پانی وافر مقدار میں میسر آ جاتا ہے اب اسے ڈھنگ کے ساتھ اس کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو تو یہی پانی جلد ہی کام میں لایا جاسکتا ہے۔


جب نہریں خشک ہو جاتی ہیں، کھیتوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن پانی میسر ہی نہیں آتا۔ کنویں خشک ہو جاتے ہیں، ٹیوب ویلوں سے پانی آنا گھٹ کر رہ جاتا ہے، ہر طرف خشکی اور قحط کا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جب بھی بارش کا پانی یا سیلابی پانی وافر مقدار میں میسر آ جائے تو وہ ضایع کرنے کے لیے بالکل نہیں ہوتا کسی نہ کسی طور پر اس کو ذخیرہ کر لینا چاہیے تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔


بتایا جا رہا ہے کہ سی پیک کے تحت زرعی شعبے کے تحت ایک ہزار ماہرین کی چین میں تربیت کی جائے گی۔ گزشتہ دنوں وزارت منصوبہ بندی کا اس سلسلے میں اجلاس ہوا جس میں ہمیشہ کی طرح اس بات کو دہرایا گیا کہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ زرعی تعلیم و تحقیق حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ حکومت کی طرف سے اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ تربیت کے لیے چین جانے والے ایک ہزار افراد ملک میں زرعی انقلاب کے معمار بنیں گے۔حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدگی دکھاتے ہوئے ماہرین کو فوری طور پر بھیجنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔


تربیت کا دورانیہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا اور شعبہ زراعت بہت ہی وسیع تر شعبہ ہے۔ اس میں دودھ دینے والے جانوروں، گوشت کی زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے، جنگلات کی افزائش، شہروں میں شجر کاری، ملک میں نہری پانی کی قلت کے دوران فصلوں کی آب پاشی، اس کے علاوہ دیہی علاقوں کی ترقی، فصلوں کی پیداوار حاصل کرنے کے بعد ان کی ذخیرہ کاری، زیادہ سے زیادہ مدت تک فصلوں کی پیداوار کی حفاظت کا انتظام اور بے شمار چھوٹی بڑی شاخیں اور باتیں ایسی ہیں جن کا زیادہ سے زیادہ احاطہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ہزار ماہرین کو صرف اور صرف ایک ہی شعبے کے تحت تربیت دے دینا پورے زرعی نظام کی بہتری کے لیے کارآمد نہ ہوگا۔ لہٰذا کوئی نہ کوئی شعبہ کوئی حصہ جس کا تعلق زراعت اور زراعت سے متعلق ہو تشنہ نہ رہے۔ کیونکہ حکومت زرعی انقلاب کی بات کر رہی ہے لہٰذا اس کے لیے ہر چہار سُو سے کام کریں گے تو پھر کہیں جا کر زرعی انقلاب آئے گا۔

Load Next Story