ایک فارسی غزل می رقصم
کافی عرصہ پہلے ہم نے اس کالم میں ایک فارسی غزل کا ذکر کیاتھا ، ضرورت یوں پیش آئی تھی کہ اس وقت ایک بڑے کالم نگار نے اس غزل کوحضرت عثمان مروندی عرف لال شھباز قلندر سے منسوب کیا تھا جب کہ اصل میں یہ غزل حضرت عثمان ہارونی کی ہے ، غزل کا قافیہ یار، دیدار ، بازار وغیرہ ہے اور ردیف ''می رقصم'' ہے، ایک قاری کی فرمائش پر قند مکرر غزل کا مطلع ہے ،
نہ می دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
ترجمہ۔ میں نہیں جانتا کہ میں آخر ''دیداریار'' کے وقت ناچتا کیوں ہوں مگر اس بات پر مجھے ناز ہے کہ اپنے یار کے سامنے ناچتاہوں۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ ہربار می رقصم
بہرطرزے کہ می رقصائی من اے یار می رقصم
ترجمہ ۔تم ہردم نغمہ سرا ہوکر مجھے نچاتے ہو اورمیں ہراس طرز پر ناچوں گا جس پر تم نچاوگے۔
بیاجاناں تماشا کس کہ درانبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم
ترجمہ ۔ آؤ جاناں اوردیکھو کہ میں عشاق کی بھیڑ میں کس درجہ سامان رسوائی کے ساتھ سربازار ناچتا ہوں
اگرچہ قطرہ شبنم نہ پوئد برسر خارے
منم آں قطرہ شبنم بہ نوک خارمی رقصم
ترجمہ ۔ اس شعر میں نہایت کمال کی تشبیہہ استعمال کی گئی کہ اگرچہ شبنم کاقطرہ کانٹے کی نوک پرٹکتا نہیں لیکن میں وہ قطرہ شبنم ہوں جو کانٹے کی نوک پر ناچتا ہے
خوشاوندی کہ پامائش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبہ و دستار می رقصم
ترجمہ ۔ شاباش ہے میری''رندی'' پر کہ سو پارسائیاں اس پر نچھاورکردیتا ہوں اورکیا تقویٰ ہے میرا کہ میں جبہ ودستار سمیت ناچتا ہوں
تو آں قاتل کہ بہربک تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیرخنجر خونخوارمی رقصم
ترجمہ۔ تو وہ قاتل ہے کہ صرف ایک تماشے کے لیے میرا خون بہاتے ہو اورمیں وہ بسمل ہوں جو خونخوار خنجر تلے ناچتا ہوں
سراپا برسراپائے خودم ازبے خودی قرباں
زگرد مرکزخود صورت پرکار می رقصم
ترجمہ ۔۔ میں بے خودی میں خود اپنے سراپا پر خود قربان ہوتا ہوں اورخود اپنے ''مرکز'' کے گرد پرکار کی طرح ناچتا ہوں
مراطعنہ مرن اے مدعی طرزادا یم بین
تماشا مے کند خلق ومن ہربار می رقصم
ترجمہ۔ مجھے طعنہ مت دو اے مدعی ذرا میری طرز ادا تو دیکھو کہ لوگوں کے درمیان تماشا بن کر ناچ رہا ہوں
منم عثمان ہارونی مرید شیخ منصورم
ملامت می کندخلقے ومن بردار می رقصم
ترجمہ۔۔ میں عثمانی ہارونی اپنے شیخ منصور کامریدہوں ایک دنیا ملامت کررہی ہے لیکن میں ''دار'' پر ناچ رہا ہوں۔
اس ساری بحث میں باقی تو سب کچھ واضح ہے کہ صوفیانہ کلام ہے اورصوفیانہ اصطلاحات بیان کی گئی ہیں اوروہ بڑے طویل مباحث ہیں لیکن میں یہاں صرف ناچ یارقص کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں یہاں مراد وہ رقص نہیں ہے جسے آج کی دنیا میں عیاشی وفحاشی کاذریعہ بنایاگیا ہے بلکہ یہ وہ رقص ہے جس کاذکر پنجابی کے شاعر بابا بلھے شاہ نے بھی یوں کیا ہے کہ ؎
ترے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا
مثلاً ہندی اساطیر کامشہوردیوتا ''شیو''اس وجہ سے نٹ راج اورنٹورلال بھی کہلاتا ہے کہ تانڈو نام کے ایک مشہور رقص کے لیے مشہورہے ۔
مولانا روم کے درویشوں کا رقص بھی ایک مشہور رقص ہے جس میں درویش ایک ہاتھ زمین اوردوسرا ہاتھ آسمان کی طرف کرکے ناچتے ہیں ۔
رقص اورموسیقی قطعی فطری چیزیں ہیں لیکن مسئلہ اس وقت پیداہوجاتا ہے جب ایک اچھی چیز کو برائی کے لیے استعمال کیا جائے ۔ لگتا ہے اس لحاظ سے رقص وموسیقی کی مخالفت کرنے والے بھی حق بجانب ہوتے ہیں کہ ان کی نظرمیں رقص وموسیقی کے الگ الگ پہلوہوتے ہیں ، اصل میں قدرت کی پیدا کی ہوئی کوئی بھی چیزبری نہیں ہوتی بلکہ برے لوگوں کے برے مقاصد ان کو برا بنادیتے ہیں ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری