پاکستان کے حالات

اخبار تو پڑھتے ہی ہیں ناں۔ پاکستان کے کیا حالات ہیں، اسٹیل مل کبھی ہمارے لیے اسٹیل باڈی ہی تھا

انھوں نے اخبار ایک جھٹکے سے کھولا، ان کے انداز میں غصہ تھا جیسے کاغذ کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتے ہوں۔

'' پورے تیس ارب روپوں کی بچت ہوسکتی تھی پر نہیں ہوئی۔ پاکستان کی حالت تو دیکھیے۔'' وہ ہر تھوڑی دیر بعد عادتاً یا شاید واقعی ملک کی حالت پر نوحہ کناں تھے۔

''آپ نے یہ بھی اس اخبار میں پڑھا ہے۔''

''تو اور کیا۔۔۔ پورے تیس ارب کی بچت معمولی بات نہیں ہے، اگر ملک کو ضرورت ہے کہ کچھ اداروں کو کٹ کر کے پیسے بچائے جا سکتے ہیں تو بھلا ہمارے ملک کا ہوگا؟ پاکستان کی حالت تو دیکھیے، اگر ہمارا ملک ہے تو ہم ہیں جناب، پر یہ بات لوگوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔''

'' قیصر بنگالی صاحب کی سمجھ میں تو آگئی تھی ناں۔''

'' اجی یہ تو ہم بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بڑے بڑے اخراجات کو کٹ کرو، اداروں کو کٹ کرو، بڑے بڑے وی آئی پیز کے فالتو اخراجات کو کٹ کرو، ارے کیوں امیروں کو اتنا ریلیف دیا جاتا ہے۔ آپ ان سے بھی بجلی، پانی، گیس کے بل لیں ناں۔''

''الاؤنسز ہوتے ہیں یہ۔ آپ نہیں جانتے چاچا برکت۔''

''ہم اخبار پڑھتے ہیں پاکستان کے کیا حالات ہیں، سب جانتے ہیں۔ ارے اتنے بڑے گریڈ کے امیر لوگوں کو ایسی مراعات کی کیا ضرورت؟ یہ تو ضرورت ہے رحمت علی جیسے لوگوں کو۔ بے چارا سارا دن دھوپ میں کھڑا رہ کر ہمارے گھروں کی رکھوالی کرتا ہے۔ پتا بھی ہے اس کا بجلی کا بل کتنا زیادہ آیا ہے، سخت پریشان تھا۔''

''چاچا جی رحمت علی سیکیورٹی ایجنسی کا ملازم ہے۔''

'' تو اس بے چارے کو کون سا لاکھوں روپے ملتے ہیں، تنخواہ کے نام پر؟ اور ہمارے اپنے گھر کا بل اتنا آیا ہے کہ نہ پوچھو۔''

'' پر چاچا برکت! آپ کو تو گھر بیٹھے پنشن ملتی ہے۔''

'' بالکل ملتی ہے، پر اور سنو۔۔۔ اخبار میں سب لکھا ہے۔ پنشن والے بھی رو رہے ہیں، ارے مہنگائی کا عالم دیکھو، اس پر یہ پنشن کے پیسوں سے کیا ہو سکتا ہے، اس پر بھی کسی وقت بھی بجلی گر سکتی ہے۔ پاکستان کے حالات تو دیکھیں آپ۔''

'' پاکستان کے حالات کس طرح سدھر سکتے ہیں؟''

سوال کچھ پیچیدہ تھا۔ چاچا برکت نے اخبار تہہ کرتے ایک جانب رکھا۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں تشویش کے گہرے سائے تھے۔

'' بیٹا! سچ تو یہ ہے کہ پاکستان تو 71 میں ہی ٹوٹ گیا، جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تھا، پر یہ کس کی دعاؤں سے بچا ہوا ہے یہ رب ہی جانتا ہے۔ یوں لگتا ہے اسے ہر جانب سے توڑنے کی کوشش کی گئی، پر یہ پھر بھی قائم ہے اور انشا اللہ قائم و دائم رہے گا لیکن یہ مستقل مسائل میں گھرا ہی رہا ہے۔ کبھی اندرونی سازشیں تو کبھی بیرونی، اوپر سے قرضوں کی بھرمار۔ بہت سے ادارے ایسے بھی ہیں جو مستقل روگ بنے ہوئے ہیں۔''

'' چاچا برکت! آپ کا اشارہ کس جانب ہے؟''

'' اخبار تو پڑھتے ہی ہیں ناں۔ پاکستان کے کیا حالات ہیں، اسٹیل مل کبھی ہمارے لیے اسٹیل باڈی ہی تھا، پر پھر وہی کہ سرکاری غفلت کہہ لیں یا بڑے افسران کی کرپشن۔ آج چودہ کروڑ روزانہ کے خسارے کے ساتھ اس ملک کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔''


''آپ کے خیال میں اسٹیل مل کو فروخت کردیں تو ملک کی حالت سدھر جائے گی۔ آپ سارا دن مختلف اخبار پڑھتے رہتے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟''

''بیچنے کے وقت جو دام لے رہے تھے، ہمارے اندازے کے مطابق وہ ریٹ نہایت نامناسب تھے، چلو جی اس وقت کے چیف جسٹس نے درمیان میں پڑ کر معاملہ ختم کرا دیا، پر اس وقت بھی اور آج بھی میں بالکل بھی اس حق میں نہیں ہوں کہ اپنے قومی ادارے غیر ملکیوں کے ہاتھ فروخت کرو۔ کچھ خبر بھی ہے کہ ایک زمانے میں وہ ہے ناں بھارت میں اپنے بچوں کی شادی پر پانی کی طرح پیسہ بہانے والا۔۔۔۔''

'' مکیش امبانی۔۔۔'' ان کو سوچ میں پڑتے دیکھ کر لبوں سے ادا ہوا۔

'' ہاں ہاں وہی، جسے مودی سرکار نے ہتھیاروں کے دھندے میں لگا کر اس قدر امیر کردیا۔''

'' پر چاچا برکت! مکیش امبانی کا اِدھر کیا تذکرہ؟'' ان کی بات ربڑی کی طرح کھنچی جا رہی تھی۔

'' ارے اس کے بھائی انیل امبانی کی بھی ہماری اسٹیل مل پر نظر تھی، تو کیا پیٹ کی آگ بجھانے اسے بھی ایک دشمن کے ہاتھ فروخت کر دیتے؟''

''پر کیا تو نہیں۔ سنا ہے کہ اب تو کوئی اسے خرید بھی نہیں رہا۔''

'' نہ خریدے۔۔۔ پر وہاں بھی اخراجات،کرپشن، چوریاں، زمینوں پر قبضے سب لکھا ہے اخباروں میں، کیا چھپا ہے بتاؤ؟ ملک کے حالات دیکھیں اور لوگوں کا لالچ دیکھیں، ارے یہ ملک ہماری ماں ہے۔ آخرکب تک اس ماں کو لوٹ کر کھاؤ گے؟'' چاچا برکت جذباتی ہو رہے تھے، بری طرح ہانپ رہے تھے۔

''چاچا برکت! سوال پھر اپنی جگہ قائم ہے کہ ہمارے ملک کی حالت کیسے سدھرے گی؟'' چاچا کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔

''بیٹا! یہ تو ایک بچے کو بھی معلوم ہے کہ اسے اپنے بستے، اپنی کتابوں، اپنے یونیفارم کو کیسے صاف رکھنا ہے۔''

''چاچا برکت! ایسا نہیں ہے۔ یہ اتنا آسان ہرگز نہیں ہے۔''

'' تو مشکل بھی نہیں ہے بیٹا! کیونکہ ہم نے شریر بچوں کو سنوارنے کے بجائے مزید بگاڑنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے، ہم ہر ادارے میں مافیاز بنا رہے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے بجلی، پانی،گیس جیسے اداروں کو بھی لوگوں کے لیے جن بھوت بنا دیا گیا ہے، عام عوام کیا جانے اقتصادی مسائل اور ان کی پالیسیاں۔ پر سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تعصبات میں گھرکر مساوات کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں، ہم نے گرا ہوا آدمی، عام آدمی، خاص آدمی اور نہایت خاص آدمی کی اصطلاح بنا لی ہے، بس ہم ان میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں، نہ ہمارے بستے صاف ہیں نہ کتابیں اور نہ ہی یونیفارم۔''''آپ کی مراد کیا ہے؟''

''میری مراد صرف اسلام سے ہے بیٹا!'' انھوں نے تہہ شدہ اخبار اٹھایا۔

''یہ اخبار میں لکھا ہے چاچا برکت۔۔۔۔؟'' ان کی مدلل گفتگو خاصی متاثر کن تھی۔

''اخبار میں تو خبریں لکھی ہوتی ہیں بیٹا جی! رب العزت نے تو چودہ سو سال پہلے ہی ایک مکمل ضابطہ حیات قرآن کی صورت میں ہمیں عنایت کر دیا تھا، پر ہم نے ہمیشہ اس سے روگردانی کی اور اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک کی آج آپ حالت دیکھیں۔'' انھوں نے مسکراتے ہوئے اخبار پھر سے کھولا۔

'' توکیا ہمارے ملک کے حالات کبھی اچھے نہیں ہوں گے؟'' آنکھیں بھر آئیں۔

''یہ تو میں نے نہیں کہا، کیونکہ مایوسی کفر ہے بیٹا !'' انھوں نے اخبار سے ذرا نظریں ہٹا کر مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔
Load Next Story