ان کا کیا علاج ہے

سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے، کوئی محکمہ اپنا کام کرتا نظر نہیں آتا

Shireenhaider65@hotmail.com

بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک ملک پاکستان تھا، جس میںآبادی کم تھی، پیسہ کم تھالیکن قناعت تھی، کم میں بھی بہت اچھا گزارا ہوتا تھا۔ لوگ اپنی آمدن کے اندر گزارا باآسانی کر لیتے تھے، مہمان سادہ کھانے سے بھی خوش ہو جاتے تھے۔ کئی کئی دن، ہفتے بلکہ مہینوں مہمان ٹھہرتے تھے اور گھر والوں کو بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ گھر کے اندر جس کو جہاں سونے کی جگہ مل جاتی تھی وہ سو جاتا تھا۔

گاڑیاں خال خال تھیں، سڑکیں کشادہ لگتی تھیں لیکن وقت کا پہیہ یوں تیزی سے گھوما ہے۔ ہر روز ترقی، نہ صرف اسمارٹ فون کے فیچرز میں بلکہ ان کی دن دوگنی اور رات چوگنی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی۔ ہمارے ملک میں ہر خاص اور عام، غریب اور امیر، شاہ و گدا کے بیچ اگر کسی چیز میں فرق نہیں رہا تو وہ اسمارٹ فون کے استعمال کا ہے۔

کرپشن، جھوٹ، بدعنوانی، ریا، گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، آبادی، گاڑیوں کا استعمال، لاقانونیت اور ناجائز تجاوزات میں خوب ترقی ہوئی ہے۔ ساتھ ساتھ معتبر ہونے کے پیمانے مختلف ہو گئے ہیں اور اب ناجائز ذرائع آمدنی کو قبول کر لیا گیا ہے کیونکہ اوپر سے لے کر نیچے تک سب ایک حمام میں ننگے ہیں۔ عوام کے اصل مسائل کو سمجھے اور حل کیے بنا انھیں ایک ایسی دوڑ میں لگا دیا گیا ہے کہ جس کا Finishing point کوئی نہیں ہے، جسے ہمارے ہاں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دینا کہتے ہیں۔

اب ہر گھر میں جتنے افراد رہتے ہیں اتنی گاڑیاں ہونا ضروری ہے ورنہ آپ کی عزت نہیں ہو گی۔ گاڑیوں کی اس بڑھتی تعداد نے دوڑ میں سڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اتنی گاڑیاں ہو گئی ہیں کہ سڑکیں کم پڑ گئی ہیں۔ حکومتوں کی توجہ جب کسی ایک علاقے کی سڑکوں پر مرکوز ہوتی ہے تب تک وہاں سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر لگ بھگ ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ گاڑیاں بہت زیادہ ہیں، ان سب گاڑیوں نے ہر صبح اور شام سڑکوں پر نکلنا ہوتا ہے اور ہر روز دفاتر اور تعلیمی اداروں میں جانے اور واپس آنے والے جس ذہنی کوفت کا شکار ہوتے ہیں اس کا کوئی اندازہ ہے نہ علاج ۔


میرے والد رحمتہ اللہ علیہ دس برس قبل اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تھے اور اس وقت جب گاڑیوں کی تعداد آج کے دور سے نصف سے بھی کہیںکم ہوگی، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ حکومت کو پابندی لگا دینی چاہیے کہ جس گاڑی میں صرف ایک شخص ہے وہ گاڑی سڑک پر نہ آئے، تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر کو پابند کیا جائے کہ ان کے ہاں کام کرنے والے اور طالب علم اس ٹرانسپورٹ پر آئیں گے جو کمپنی، اسکول، کالج یا یونیورسٹی مہیا کرے گی ۔ باقی تمام نجی دفاتر اور تعلیمی اداروں کے لیے بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال لازمی قرار دے دیا جائے ۔ وہ کوئی پالیسی میکر تھے اور نہ ہی ان کا تعلق سیاست سے تھا مگر کچھ مسائل ایسے بھی ہیں کہ جن کے لیے راکٹ سائنس جاننا ضروری بھی نہیں ہے ۔

ہمارے ہاں خوش قسمتی سے اگر کوئی سڑک تین چار رویہ بن ہی جاتی ہے تو چند دن میں اس کے ایک سرے سے ایک دو ریڑھیوں سے کام شروع ہوتا ہے اور دیکھتے دیکھتے ہی پوری سڑک پر دونوں اطراف پورا راجہ بازار بن جاتا ہے۔ پھل، سبزیاں ، غبارے، جھنڈے، مٹی کے برتن، گاڑیوں کے شیڈ، عینکیں، غبارے، نمک کے بنے ہوئے کھلونے اور لیمپ، گڑ، ٹھنڈے مشروبات، ریت والی چھلیاں، بھنے ہوئے دانے، چقیں، گملے، اونٹنی کا دودھ بیچنے والے، نائی ، موچی اور جو جو کچھ بھی آپ سوچ سکیں، ان کے ٹھیلے لگ جاتے ہیں یا یہ سڑک کے کنارے اسٹینڈ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ سڑک پہلے سے بھی تنگ لگنا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ جب وہ کم چوڑائی کی سڑک تھی تو اس پر کم ریڑھیاں اور ٹھیلے تھے۔ کیا یہ ٹھیلے، ریڑھیاں، خوانچے اتنے چھوٹے ہیں کہ انتظامیہ اور پولیس والوں کی نظر ان پر نہیں پڑتی؟ یا وہ انھیں خود ہی نظر انداز کردیتے ہیں کہ انھوں نے اس کے عوض کوئی قیمت وصول کی ہوتی ہے؟

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے نہ اس میں کوئی مبالغہ کہ ہمارے ہاں موڑ، چوک، چوڑی سڑکیں ، اشارے والا چوک اور جہاں جہاں ٹریفک اکثر بلاک ہو جاتی ہے وہ سب سودے بیچنے اور گداگروں کے لیے آئیڈیل جگہیں ہیں مگر ان جگہوں کا ایک جگا ٹیکس ہوتا ہے جو دے کر باقی ہر ٹیکس سے جان چھوٹ جاتی ہے ۔ یہ قصہ ہر صدی کا قصہ ہے، ہر حکومت کا حصہ ہے اور ہماری بد قسمتی کہ کسی دور میں بھی ان مسائل کو مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا ہے جن کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ فضا آلودہ اور بیماریوں کی آماجگاہ بن چکی ہے اور ہمارے شہر لاہور کو دنیا بھر میں آلودگی میں پہلا مقام مل چکا ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسانی صحت کو لاحق خطرات کا کسی کو شاید ادراک نہیں ہے۔

نہ صرف گلے اور سانس کی بیماریوں کے نتیجے میں مقامیوں کے پھیپھڑے ناقص صحت کے حامل ہیں بلکہ ہر روز صبح اور شام ٹریفک گھنٹوں جام رہنے کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس نے عوام کو نفسیاتی مسائل سے دو چار کر دیا ہے۔ صبح گھر سے نکل کر سڑک پر گالی گلوچ دیتا اور سنتا ہوا شخص کس طرح اچھے طریقے سے اپنے فرائض منصبی سرانجام دے سکتا ہے۔ شام کو جب گھر لوٹتے وقت بھی وہ اسی اژدہام میں سے گزر کر نفسیاتی جنگ لڑتا ہوا گھر پہنچتا ہے تو وہ گھر والوں کو ہر بات پر لتاڑتا اور ڈانٹتا ہے اور گھر کی فضا میں سکون نہیں رہتا ۔ میں حیران ہوتی ہوں کہ ہمارے لیڈر ان بیرون ممالک میں اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ گزارتے ہیں، پھر بھی انھیں نظر نہیں آتا کہ اگر کسی جگہ سڑک پر بارش کی وجہ سے بھی گڑھا بن جائے اور وہاں کوئی حادثہ ہو جائے تواس حادثے کا سارا ذمہ اس کمپنی کا ہو گا جنھوں نے وہ سڑک بنائی ہے، ان ممالک میں کوئی حادثہ ہو تو متعلقہ وزیر استعفی دے دیتے ہیں اور ہمارے وزیر ایسی صورت حال میں کہتے ہیں کہ اللہ کی رضا تھی۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے، کوئی محکمہ اپنا کام کرتا نظر نہیں آتا، کوئی حکومت اپنے عوام کے حقوق، ان کے مسائل اور ان کی مشکلات سے آگا ہ نہیں ہے۔ ہر شخص اقتدار کی ہوس میں، ہر کوئی طاقت کے زعم میں، ہر کسی کا مسئلہ کہ کس طرح اس ملک کو زیادہ سے زیادہ لوٹ لیں۔ ان کا کچھ داؤ پر نہیں ہے، ان کے اثاثے، ان کی اولادیں، ان کی جائیدادیں ، ان کی شہریت اور ان کے مفادات... سب کچھ پاکستان سے باہر ہے۔ کتنے سو سال پہلے برصغیر پاک و ہند کو سونے کی چڑیا جان کر انگریز نے اس ملک پر اپنی اجارہ داری قائم کی اور بڑی محنت، مشقت اور قربانیوں کے بعد ان سے آزادی حاصل کی گئی، انھیں نکال دیا گیا ۔ ہمسایہ ملک میں بھی غربت ہے اور ان کے ہاں بھی کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر اس ملک میں آپ کو کوئی حکومتی عہدے دار ایسا نہیں ملے گا جس کے اثاثے، جائیدادیں، بچے اور مفادات ملک سے باہر ہوں، وہ لوگ ملک سے وفادار ہیں اور ہمارے ہاں ابھی تک... سیاستدان اس '' سونے کی چڑیا '' میں طاقت کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
Load Next Story