پاکستان ٹیم کی عبرتناک شکستوں کا ذمہ دار کون
زیادہ پرانی بات نہیں ہے آپ اگر یاد کریں تو پاکستانی کھلاڑی اپنے میدانوں پر شیر ہوا کرتے تھے
بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کا دورئہ پاکستان ان کے ملکی حالات کی وجہ سے خطرے میں تھا،کرفیو کی وجہ سے کھلاڑیوں کو پریکٹس کے مواقع نہ مل سکے،ایسے میں پی سی بی نے انھیں پیشکش کی کہ وہ شیڈول سے چند روز قبل پاکستان آ کر پریکٹس کر لیں، کھلاڑی سخت تشویش کا بھی شکار تھے لیکن جیسے ہی پاکستان پہنچے ان کی تمام تر توجہ صرف کھیل پر مرکوز ہو گئی، بعد میں شکیب الحسن کے خلاف ملک میں قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی لیکن انھوں نے اس پریشانی کا اثر بھی اپنے کھیل پر نہ پڑنے دیا اسی کو کمٹمنٹ کہا جاتا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر بنگلہ دیش کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑے گا شاید ہی کسی نے ایسا سوچا ہو لیکن انہونی اب حقیقت کا روپ دھار چکی، اس پر ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی بے حد افسوس اور تشویش ہے، پاکستان نے 1952 میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا،72 سال میں سب سے بدترین شکست یہی قرار دی جا سکتی ہے،اس میں اہم کردار بولنگ لائن کی ناکامی کا رہا، ایک زمانے میں ہمارے پاس وسیم اکرم،وقار یونس اور شعیب اختر جیسے فاسٹ بولرز ہوا کرتے تھے اب اس شعبے میں ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں، گوکہ شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ اچھے بولرز ہیں لیکن فٹنس مسائل کی وجہ سے ان کی اسپیڈ کم ہو چکی۔
میر حمزہ ان دنوں اچھی بولنگ کر رہے ہیں، انھیں پہلا ٹیسٹ بھی کھلانا چاہیے تھا،خرم شہزاد نے دوسرے ٹیسٹ میں بہترین اسپیل سے پاکستان کو جیت کا موقع فراہم کیا لیکن 26 رنز پر 6 وکٹیں اڑانے کے باوجود ٹیم نے بڑا اسکور بنوا دیا جس سے میچ پر گرفت کمزور ہو گئی، اسپن میں بھی پاکستان کو مسائل کا سامنا ہے، ابرار احمد توقعات پر پورا نہیں اتر سکے،نعمان علی کو کھلایا نہیں گیا۔
میرا پی سی بی کو مشورہ ہے کہ مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اورسعید اجمل جیسے سابق کرکٹرز کی مدد سے ملک میں نئے اسپنرز کی تلاش کرے تاکہ اس شعبے میں قلت کا خاتمہ ہو، ماضی میں ہم ہوم گراؤنڈز پر اسپن پچز بنا کر جیتا کرتے تھے بدقسمتی سے اب یہ ایڈوانٹیج گنوا دیا، اب اگر فاسٹ پچز بنائیں تو اپنے بیٹسمین ہی جدوجہد کرنے لگتے ہیں ، اسپن پچز بنائیں تو ان سے فائدہ کون اٹھائے گا؟
زیادہ پرانی بات نہیں ہے آپ اگر یاد کریں تو پاکستانی کھلاڑی اپنے میدانوں پر شیر ہوا کرتے تھے، مثالیں دی جاتیں کہ یہاں تو رنز کے ڈھیر لگا دیتے ہیں باہر کھیلا نہیں جاتا، اب تو نہ ہوم گراؤنڈز نہ ہی باہر کھیلا جاتا ہے، مسائل کا آغاز اوپننگ سے ہوتا ہے، عبداللہ شفیق نے کیریئر کا آغاز اچھا کیا تھا لیکن اس کے بعد مسلسل ناکامیوں کا شکار ہیں، اگر کوئی کھلاڑی اچھا پرفارم نہیں کر رہا تو اسے مسلسل مواقع دینے کا کوئی جواز نہیں، آپ کسی اور کو سامنے لائیں، اسی طرح صائم ایوب کے باصلاحیت ہونے میں کوئی دو رائے نہیں البتہ وہ جب تک تسلسل سے بڑی اننگز نہیں کھیلیں گے ٹیم میں جگہ پکی نہیں کر سکتے۔
شان مسعود کا بطور کپتان آغاز اچھا نہیں ہوا، شاید اضافی دباؤ کی وجہ سے وہ بیٹنگ میں بھی بڑی اننگز نہیں کھیل پائے، البتہ اب انھیں ذمہ داری سونپی ہے تو پورا وقت دینا چاہیے، شان کو بھی زیادہ توجہ سے کھیلنا پڑے گا کیونکہ بطور کپتان ان سے توقعات زیادہ ہیں،مجھے سب سے زیادہ مایوس بابر اعظم نے کیا، وہ ایسے کھلاڑی ہیں جو تن تنہا میچ کا رخ بدل دیں لیکن نجانے کیا ہو گیا مسلسل ناکامیوں کا شکار ہیں،اس سلسلے کا آغاز جب وہ کپتان تھے تب ہی ہو گیا تھا، اب تو اضافی بوجھ بھی نہیں تو کیوں اسکور نہیں کر رہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔
اگر پاکستان کو انگلینڈ سمیت دیگر ٹیموں کو ہرانا ہے تو ان فارم بابر کی بہت ضرورت پڑے گی، ہمیں طویل عرصے بعد بیٹنگ میں کوئی زبردست ٹیلنٹ ملا ہے اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے، سعود شکیل نے بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کا آغاز شاندار کیا لیکن پھر وہ بھی فلاپ ثابت ہوئے، ان کو بھی خامیوں کو جلد دور کرنا چاہیے، محمد رضوان آغاز اچھا لیتے ہیں لیکن پھر اچانک آؤٹ ہو جاتے ہیں، انھیں ٹیل اینڈرز کے ساتھ بڑی شراکتیں بنانے کی کوشش کرنا چاہیے، سلمان علی آغا کو بھی زیادہ اچھا کھیل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں ایسے کھلاڑی چاہیئں جو ڈبل سنچریاں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، سیریز سے قبل باتیں کی گئیں کہ مثبت بیٹنگ کی جائے گی لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ، سب وکٹیں بچانے کی کوشش ہی کرتے رہے، میں سمجھتا ہوں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ نے بنگلہ دیش کو آسان شکار سمجھا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، اگر پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 448 رنز پر اننگز ڈیکلئیرڈ نہ کی جاتی تو شاید نتائج کچھ مختلف ہوتے، 600 تک رنز بنا کر حریف ٹیم کو دباؤ کا شکار کرنے کی کوشش ہونی چاہیے تھی۔
حد سے زیادہ اعتماد نے بھی نقصان پہنچایا، جیسن گلیسپی کا بطور ہیڈ کوچ دور ناکامیوں کے ساتھ شروع ہوا ہے، البتہ ابھی ہمیں انھیں وقت دینا ہوگا،اتنی جلدی کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا مناسب نہیں، پی سی بی کو چاہیے کہ ڈومیسٹک کرکٹ پرفارمرز کو موقع دے، اگر حریرہ کو ہوم سیریز کیلئے منتخب کیا تھا تو کھلانا بھی چاہیے تھا، ٹیم کے یہی کھلاڑی کچھ عرصہ قبل بہتر کھیل رہے تھے اب اچانک انھیں کیا ہو گیا اس کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے، اگر کوئی ذہنی مسائل ہیں تو انھیں دور کیا جائے،اس وقت تو مجھ سمیت تمام کرکٹ سے محبت کرنے والے لوگ موجودہ حالات سے سخت مایوس ہیں، البتہ اب بھی امید برقرار ہے کہ بہتری آئے گی۔n
پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر بنگلہ دیش کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑے گا شاید ہی کسی نے ایسا سوچا ہو لیکن انہونی اب حقیقت کا روپ دھار چکی، اس پر ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی بے حد افسوس اور تشویش ہے، پاکستان نے 1952 میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا،72 سال میں سب سے بدترین شکست یہی قرار دی جا سکتی ہے،اس میں اہم کردار بولنگ لائن کی ناکامی کا رہا، ایک زمانے میں ہمارے پاس وسیم اکرم،وقار یونس اور شعیب اختر جیسے فاسٹ بولرز ہوا کرتے تھے اب اس شعبے میں ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں، گوکہ شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ اچھے بولرز ہیں لیکن فٹنس مسائل کی وجہ سے ان کی اسپیڈ کم ہو چکی۔
میر حمزہ ان دنوں اچھی بولنگ کر رہے ہیں، انھیں پہلا ٹیسٹ بھی کھلانا چاہیے تھا،خرم شہزاد نے دوسرے ٹیسٹ میں بہترین اسپیل سے پاکستان کو جیت کا موقع فراہم کیا لیکن 26 رنز پر 6 وکٹیں اڑانے کے باوجود ٹیم نے بڑا اسکور بنوا دیا جس سے میچ پر گرفت کمزور ہو گئی، اسپن میں بھی پاکستان کو مسائل کا سامنا ہے، ابرار احمد توقعات پر پورا نہیں اتر سکے،نعمان علی کو کھلایا نہیں گیا۔
میرا پی سی بی کو مشورہ ہے کہ مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اورسعید اجمل جیسے سابق کرکٹرز کی مدد سے ملک میں نئے اسپنرز کی تلاش کرے تاکہ اس شعبے میں قلت کا خاتمہ ہو، ماضی میں ہم ہوم گراؤنڈز پر اسپن پچز بنا کر جیتا کرتے تھے بدقسمتی سے اب یہ ایڈوانٹیج گنوا دیا، اب اگر فاسٹ پچز بنائیں تو اپنے بیٹسمین ہی جدوجہد کرنے لگتے ہیں ، اسپن پچز بنائیں تو ان سے فائدہ کون اٹھائے گا؟
زیادہ پرانی بات نہیں ہے آپ اگر یاد کریں تو پاکستانی کھلاڑی اپنے میدانوں پر شیر ہوا کرتے تھے، مثالیں دی جاتیں کہ یہاں تو رنز کے ڈھیر لگا دیتے ہیں باہر کھیلا نہیں جاتا، اب تو نہ ہوم گراؤنڈز نہ ہی باہر کھیلا جاتا ہے، مسائل کا آغاز اوپننگ سے ہوتا ہے، عبداللہ شفیق نے کیریئر کا آغاز اچھا کیا تھا لیکن اس کے بعد مسلسل ناکامیوں کا شکار ہیں، اگر کوئی کھلاڑی اچھا پرفارم نہیں کر رہا تو اسے مسلسل مواقع دینے کا کوئی جواز نہیں، آپ کسی اور کو سامنے لائیں، اسی طرح صائم ایوب کے باصلاحیت ہونے میں کوئی دو رائے نہیں البتہ وہ جب تک تسلسل سے بڑی اننگز نہیں کھیلیں گے ٹیم میں جگہ پکی نہیں کر سکتے۔
شان مسعود کا بطور کپتان آغاز اچھا نہیں ہوا، شاید اضافی دباؤ کی وجہ سے وہ بیٹنگ میں بھی بڑی اننگز نہیں کھیل پائے، البتہ اب انھیں ذمہ داری سونپی ہے تو پورا وقت دینا چاہیے، شان کو بھی زیادہ توجہ سے کھیلنا پڑے گا کیونکہ بطور کپتان ان سے توقعات زیادہ ہیں،مجھے سب سے زیادہ مایوس بابر اعظم نے کیا، وہ ایسے کھلاڑی ہیں جو تن تنہا میچ کا رخ بدل دیں لیکن نجانے کیا ہو گیا مسلسل ناکامیوں کا شکار ہیں،اس سلسلے کا آغاز جب وہ کپتان تھے تب ہی ہو گیا تھا، اب تو اضافی بوجھ بھی نہیں تو کیوں اسکور نہیں کر رہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔
اگر پاکستان کو انگلینڈ سمیت دیگر ٹیموں کو ہرانا ہے تو ان فارم بابر کی بہت ضرورت پڑے گی، ہمیں طویل عرصے بعد بیٹنگ میں کوئی زبردست ٹیلنٹ ملا ہے اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے، سعود شکیل نے بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کا آغاز شاندار کیا لیکن پھر وہ بھی فلاپ ثابت ہوئے، ان کو بھی خامیوں کو جلد دور کرنا چاہیے، محمد رضوان آغاز اچھا لیتے ہیں لیکن پھر اچانک آؤٹ ہو جاتے ہیں، انھیں ٹیل اینڈرز کے ساتھ بڑی شراکتیں بنانے کی کوشش کرنا چاہیے، سلمان علی آغا کو بھی زیادہ اچھا کھیل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں ایسے کھلاڑی چاہیئں جو ڈبل سنچریاں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، سیریز سے قبل باتیں کی گئیں کہ مثبت بیٹنگ کی جائے گی لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ، سب وکٹیں بچانے کی کوشش ہی کرتے رہے، میں سمجھتا ہوں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ نے بنگلہ دیش کو آسان شکار سمجھا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، اگر پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 448 رنز پر اننگز ڈیکلئیرڈ نہ کی جاتی تو شاید نتائج کچھ مختلف ہوتے، 600 تک رنز بنا کر حریف ٹیم کو دباؤ کا شکار کرنے کی کوشش ہونی چاہیے تھی۔
حد سے زیادہ اعتماد نے بھی نقصان پہنچایا، جیسن گلیسپی کا بطور ہیڈ کوچ دور ناکامیوں کے ساتھ شروع ہوا ہے، البتہ ابھی ہمیں انھیں وقت دینا ہوگا،اتنی جلدی کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا مناسب نہیں، پی سی بی کو چاہیے کہ ڈومیسٹک کرکٹ پرفارمرز کو موقع دے، اگر حریرہ کو ہوم سیریز کیلئے منتخب کیا تھا تو کھلانا بھی چاہیے تھا، ٹیم کے یہی کھلاڑی کچھ عرصہ قبل بہتر کھیل رہے تھے اب اچانک انھیں کیا ہو گیا اس کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے، اگر کوئی ذہنی مسائل ہیں تو انھیں دور کیا جائے،اس وقت تو مجھ سمیت تمام کرکٹ سے محبت کرنے والے لوگ موجودہ حالات سے سخت مایوس ہیں، البتہ اب بھی امید برقرار ہے کہ بہتری آئے گی۔n