ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جنگ شد و مد سے جاری ہے۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں بار بار جنگ ستمبر یاد آ رہی ہے

rmvsyndlcate@gmail.com

دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جنگ شد و مد سے جاری ہے۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں بار بار جنگ ستمبر یاد آ رہی ہے۔ ایک دوست نے ہمیں ٹوکا اور کہا کہ یہاں بھی تم اپنے نوسٹلجیا nostalgia سے باز نہیں آئے۔

ہم اپنے دفاع میں اس کے سوا کیا کہہ سکتے تھے کہ بندہ عادت سے مجبور ہے۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ ہر گزشتہ ایسا نہیں ہوتا کہ اسے گزشتہ را صلوۃ کہہ کر فراموش کر دیا جائے۔ ارے وہ دن تو ہمیں ایسے یاد ہیں جیسے یہ کل کی بات ہے۔ اس وقت ہماری ٹانگوں میں بھی اچھا خاصا دم تھا اور ہماری کالم نگاری ہماری پیادہ پائی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ بھاٹی دروازے سے لے کر آرٹ کونسل تک لاہور شہر کا ہر کوچہ ہمارے قدموں کی زد میں تھا۔ اور ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کچھ کر گزرنے کے درپے ہیں۔ سیاسی حلقوں سے بیشک ہم تب بھی دور تھے اور بفضل تعالیٰ اب بھی دور ہیں۔ مگر ہمیں اتنا پتہ تھا کہ کسی سیاسی گروہ نے ایسا کوئی پروگرام نہیں بنایا تھا کہ فوجی ڈکٹیٹر اب آیا ہے ہمارے اڑنگے میں جمہوریت کے نام پر ہو جائے ایک لانگ مارچ پتہ چل جائے گا کتنے پانی میں ہے۔

اصل میں جو اس جنگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے اور صحیح کہا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ اس وقت یہ احساس اب سے بڑھ کر تھا۔ بلکہ اس احساس نے کچھ ایسا جادو کیا تھا کہ جو بھی سیاسی اور غیر سیاسی اختلافات تھے وہ دم کے دم میں معطل ہو گئے۔ سر پہ جو آ پڑی تھی۔ جب ہندوستانی فوجوں نے لاہور کے دروازے پر دستک دیدی تو وہ جنگ ہر فرد بشر کا مسئلہ بن گئی۔ کیا فوجی آمریت کے مخالفین کیا وہ سوچنے والے گروہ جو ابھی تک تقسیم کے تصور کے مفاہمت نہیں کر پائے تھے سب اب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آ رہے تھے۔

''مگر اب؟'' ہمارے دوست نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا اور ٹکڑا لگایا ''سب ہی گروہوں نے اس جنگ پر اثبات میں سر ہلایا ہے۔''

تب ہم نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا کہ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ مگر آگے کا مضمون وہ ہے جس کے بیان کے لیے ہمیں ناصر کاظمی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے؎

تیرا پیغام بھی ضروری ہے

اور مجھے کام بھی ضروری ہے

دوسرا مصرعہ ضرورت شعری کے تحت کوئی تبدیلی نہیں مانگتا مگر آج کی پاکستانی صورت حال کے پیش نظر اس مصرعہ کو اگر یوں پڑھا جائے تو کیا مضائقہ ہے ؎

تیرا پیغام بھی ضروری ہے

اور ہمیں کام بھی ضروری ہیں

ایک دم سے کس کس کو اپنے ملتوی کام یاد آ گئے۔ ون ملین لانگ مارچ کا منصوبہ کب سے معرض التوا میں تھا۔ کیسے تنت وقت پر اس منصوبے میں پھر سے جان پڑی ہے اور علامہ طاہر القادری اچھے بھلے کینیڈا واپس جا کر اطمینان سے بیٹھ گئے تھے۔ اچانک عین اس موقع پر یاد آیا کہ انھیں تو اس حکومت کا تختہ الٹ کر انقلاب لانا تھا۔ بس فوراً ہی جھرجھری لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ؎

ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا


ارے ان دونوں سے اچھے تو جماعت اسلامی والے نکلے۔ انھوں نے بس اتنا استفسار کیا کہ اس جنگ کا ٹائم ٹیبل کیا ہے۔ مطلب یہ کہ جنگ کس تاریخ پر ختم ہو گی۔ جائز سوال ہے۔ ارے اتنا اہتمام تو ہاکی میچ کھلینے والے بھی کرتے ہیں۔ میچ کے آغاز' درمیانی وقفہ اور اختتام کے اوقات طے شدہ ہوتے ہیں۔ امپائر گھڑی دیکھ کر عین اختتام کی گھڑی آنے پر سیٹی بجاتا ہے اور ہاکی کا ہر کھلاڑی فوراً ہی ٹھٹھک کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر ہاکی سنبھال کر فیلڈ سے باہر نکل آتا ہے۔ جب کہ ادھر معاملہ کچھ یوں نظر آ رہا ہے کہ؎

بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے

عزم یہ باندھا جا رہا ہے کہ دہشت گرد جہاں جہاں چھپے بیٹھے ہیں ان کا کھوج لگا کر صفایا کیا جائے۔

اس مقام پر آ کر ہمارے دوست نے ایک مرتبہ پھر ہمیں ٹوکا اور کہا کہ ''تم سارا ملبہ اپوزیشن والوں پر ڈال رہے ہو۔ حکومتی پارٹی پر بھی ایک نظر ڈالی ہوتی۔ وہاں حال یہ ہے کہ عین جنگ کے بیچ ہمارے وزیر باتدبیر روٹھ کر چلے گئے ہیں اور گھر جا کر اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ گئے ہیں۔''

یہ سن کر پہلے ہم روئے پھر ہم ہنسے۔ دوست نے پوچھا کہ عزیز تو کس باعث رویا اور پھر کیا سوچ کر ہنسا۔ پھر ہم نے کہا کہ یار عزیز اس پر ہمیں یاد آیا کہ یونان سے ہمارا اول رشتہ فلسفہ کے راستے سے قائم ہوا تھا۔ اس رشتے کا ٹوٹنا ہمیں یاد آیا اور ہم روئے۔ پھر یہ سوچ کر ہنسے کہ اب کس اوبڑکھابڑ راستے سے جا کر ہمارا ٹانکا یونانیوں سے ملا ہے۔ ارے ٹرائے کی جنگ میں جو دس سال تک لڑی گئی تھی یہی کچھ ہوا تھا۔ عین لڑائی کے بیچ اس وقت کے سب سے بڑے یونانی سورما ایکلیز کو یہ گمان گزرا کہ ساتھیوں میں اس کے خلاف کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ اور کمانڈر انچیف کی بھی نظریں کچھ بدلی بدلی ہیں۔ یہ دیکھ اسے غصہ آیا۔ طیش میں آ کر ہونٹ چباتا میدان جنگ سے نکلا اپنے خیمہ میں جا کر اس نے اپنی فوجی وردی اتار کر الگ پھینکی۔ بدن پر سجے ہوئے ہتھیار اتار کر الگ کونے میں ڈالے اور اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہا۔

رفتہ رفتہ لشکر والوں کو سن گن ہوئی کہ ایکلیز خفا ہو کر میدان جنگ سے نکل گیا ہے اور جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ تب لشکر میں کھلبلی پڑی کہ سب سے بڑے سورما نے تو جنگ کا بائیکاٹ کر دیا اب کیا ہو گا۔

ہمارے دوست نے کہا کہ ''خیر ہمارے سورما کو تو منا لیا گیا ہے۔ غصہ اس کا اتر گیا ہے۔''

ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ کہا کہ اچھی خبر ہے۔

اب دوسرا غصہ اسے کب آئے گا۔

''دوسرا غصہ۔ کیا مطلب''

ہم نے وضاحت کی کہ ''دیکھو ایکلیز کو دو مرتبہ غصہ آیا تھا۔ ایک مرتبہ غصہ آیا تو روٹھ کر اپنے خیمے میں جا کر پڑ رہا۔ پھر جب ساتھیوں نے جا کر اسے اطلاع دی کہ ایکلیز تیری غیرت کو کیا ہوا۔ جو تیرا عزیز ترین دوست تھا وہ بھی مارا گیا۔ اور تو یہاں روٹھا بیٹھا ہے۔ تب ایکلیز چونکا سخت غصے میں اٹھا ہتھیاروں سے آراستہ ہوا اور یہ کہتا ہوا خیمے سے نکلا کہ اب میں اس موذی ہیکٹر کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ پھر اسی کے نام پر اس جنگ کی فتح لکھی گئی۔ تو ہم پوچھ رہے ہیں کہ سورما کو دوسرا غصہ کب آئے گا۔''

قصہ مختصر یہ کچھ دیکھ کر ہی تو جنگ ستمبر کی طرف ہمارا دھیان گیا تھا۔ اور تب ہمیں غیرت بھرا احساس ہوا کہ تب سے اب تک ہم اپنے مقام سے کھسک کر کتنے نیچے آ گئے ہیں۔ اور ہماری یہ جنگ اب یک بام دو ہوا کا مضمون ہے۔ محاذ جنگ پر ہمارے سپاہی لڑ مر رہے ہیں۔ ادھر سول حلقوں میں یار و اغیار اپنے ا پنے ا گلے پچھلے حساب چکانے کی ادھیڑ بن میں لگے ہوئے ہیں۔
Load Next Story