علم وتحقیق کا المیہ…
اس معاشرے میں ہر چیز گوارا کی جاتی ہے، لیکن علم وتحقیق کا وجود کسی حال میں گوارا نہیں کیا جاتا ۔
اس معاشرے میں ہر چیز گوارا کی جاتی ہے، لیکن علم وتحقیق کا وجود کسی حال میں گوارا نہیں کیا جاتا ۔ لوگ بے معنی باتوں پر داد دیتے،خرافات پر تحسین وآفرین کے نعرے بلند کرتے ، جہالت کے گلے میں ہار ڈالتے اور حماقت کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں ، مگر کسی علمی دریافت اور تحقیقی کارنامے کے لیے، بالخصوص اگر وہ دین سے متعلق ہو تو اُن کے پاس اینٹ پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا،یہاں سب سے بڑا مرض عامیانہ تقلید کا مرض ہے۔
ہر وہ چیز جسے لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے، جو پہلے سے چلی آرہی ہے ، جس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں،جو اُن کی شناخت بن گئی ہے، جو اُن کے لیے ایک روایت کی حیثیت رکھتی ہے ، وہ اگرچہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو اور اُس نے حقیقت کا چہرہ کتنا ہی مسخ کیوں نہ کردیا ہو اور وہ اللہ کے کسی صریح حکم اور اُس کے رسول کی کسی واضح سنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، لوگ اُس پر کوئی تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
اُنھیں اِس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ کہنے والے نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلیل کیا پیش کی ہے ۔ اُن کی ساری تگ ودو کا محور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی اُس روایت کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں۔چنانچہ وہ تنقید کرنے والے کے دلائل سے گریز کرکے، اُس کے کلام میں تحریف کرکے ، اُس کے مدعا کو تبدیل کرکے ، اُس کی شخصیت کو مجروح کرکے ، اُس کا مذاق اڑا کر ، غرض یہ کہ ہر طریقے سے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس معاملے میں سب سے بُرا رویہ اُن لوگوں کا ہوتا ہے جو بس علم کی بنا پر مذہبی پیشوائوں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اُن سے زیادہ اُن کے عقائد و نظریات کا محافظ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگ چونکہ احساس کمتری کے مریض اورخود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں ، اس وجہ سے دوسرے مذہبی پیشوا اگر کسی رائے کو غلط کہیں تو یہ اُسے گمراہی کہتے ہیں ، وہ اُسے گمراہی قرار دیں تو یہ اُسے فتنہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟
وہ جہاں جاتے ،جو کچھ پڑھتے اور جس سے ملتے ہیں ، اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے کچھ مصالحہ تلاش کرنے اور اپنی سیادت کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈنے کے سوا انھیں کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہوتی۔وہ بحث میں بھی علمی مکالمے کا طریقہ اختیار نہیں ، بلکہ اپنا سارا زور ''لینا، پکڑنا، جانے نہ دینا'' قسم کے نعرے بلند کرکے مذہبی پیشوائوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے پر صرف کرتے ہیں کہ علم و تحقیق کی ہر سمع جس قدر جلد ممکن ہو بجھا دی جائے ۔
اُن کی شخصیت ایک عجیب مجموعہ تضادات ہوتی ہے۔وہ اپنے پیش رو کے سامنے بڑی شان کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے جو رائے قائم کی ہے ، دلیل کی بنا پر قائم کی ہے ، چنانچہ کوئی شخص اگر دلیل سے اُن کی رائے کو غلط ثابت کر دے گا تو وہ بغیر کسی تردد کے اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہونگے ، لیکن کوئی شخص اُن کے نقطہ نظر کے خلاف برہان قاطع لے کر اُن کے سامنے آجاتا ہے تو بے تکلف فرماتے ہیں ، میاں ، دلیل کی حیثیت تو بس ایک لونڈی کی ہے جس سے جو خدمت لینا چاہو گے ، وہ بجا لائے گی۔
اصل تبدیلی تو دل کی تبدیلی ہے اور اُس کی بارگاہ میں دلیل کی کیا حیثیت ؟وہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بغیر کسی تعصب کے اُن کی بات سنیں اور اُس کے کوئی بغیر کسی تعصب کے دوسرے کی بات سننا چاہتا ہے تو اُن کا غضب لاوے کی طرح ابلتا اور خود اُن کے وجود کی ساری غلاظتوں کو ان کے سامنے ڈھیر کردیتا ہے۔وہ دوستوں کو درس دیتے ہیں کہ برے گمانوں سے بچو اور کان لگانے اور ٹوہ میں رہنے سے احتراز کرو، لیکن اپنے کسی مخالف کی کردار کشی کے لیے اُنھیں اگر کسی تنکے کا سہارا ملنے کی توقع ہو تو وہ اس کے لیے ہر پتھر الٹنے اور ہر وادی کو قطع کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
لیکن اس پر شکایت کا کیا محل ؟اس معاشرے میں جہاں صدیوںسے تحقیق واجتہاد کی حیثیت ایک شجر ِ ممنوعہ کی رہی ہو ، جہاں وہ لوگ بھی جو بظاہر اہل دین اور ارباب ِ دانش سمجھے جاتے ہیں ، علم کے جواب میں جہالت اور استدلال کے جواب میں ابتذال کی روش اختیار کرتے ہیں ، جہاں بات کو سننے اور سمجھنے کے بجائے قائل کا نفسیاتی تجزیہ کرنے سے لوگوں کو زیادہ دل چسپی ہوتی ہے ، جہاں ہر وہ چیز جس پر دو چار صدیاں گزر جائیں ، وہ مقدس ہوجاتی ہیں ،جہاں صحیح اور غلط کا معیار بالعموم لوگوں میں پزیرائی ہوتا ہے ، وہاں اس سے بہتر کسی رویے کی توقع آخر کی ہی کیوں جائے ؟
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی حقیقتیں بالعموم اسی طرح کے ماحول میں نمودار ہوئی ہیں۔یہ رویے نہ یوحنا و مسیح کی دعوت میں سد راہ بن سکے ، نہ ابن حزم اور ابن تیمیہ سے اُن کا مقام چھین سکے، نہ سقراط کی حکمت سے دنیا کو محروم کرسکے ، نہ کوپر نیکس اور گلیلیو کی دریافتوں کو چھپانے میں کامیاب ہوسکے ۔ علم وتحقیق کی شمع ہمیشہ اسی طرح روشن رہی ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی ، اگر اللہ نے چاہا تو اسی طرح روشن رہے گی۔
ہر وہ چیز جسے لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے، جو پہلے سے چلی آرہی ہے ، جس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں،جو اُن کی شناخت بن گئی ہے، جو اُن کے لیے ایک روایت کی حیثیت رکھتی ہے ، وہ اگرچہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو اور اُس نے حقیقت کا چہرہ کتنا ہی مسخ کیوں نہ کردیا ہو اور وہ اللہ کے کسی صریح حکم اور اُس کے رسول کی کسی واضح سنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، لوگ اُس پر کوئی تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
اُنھیں اِس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ کہنے والے نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلیل کیا پیش کی ہے ۔ اُن کی ساری تگ ودو کا محور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی اُس روایت کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں۔چنانچہ وہ تنقید کرنے والے کے دلائل سے گریز کرکے، اُس کے کلام میں تحریف کرکے ، اُس کے مدعا کو تبدیل کرکے ، اُس کی شخصیت کو مجروح کرکے ، اُس کا مذاق اڑا کر ، غرض یہ کہ ہر طریقے سے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس معاملے میں سب سے بُرا رویہ اُن لوگوں کا ہوتا ہے جو بس علم کی بنا پر مذہبی پیشوائوں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اُن سے زیادہ اُن کے عقائد و نظریات کا محافظ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگ چونکہ احساس کمتری کے مریض اورخود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں ، اس وجہ سے دوسرے مذہبی پیشوا اگر کسی رائے کو غلط کہیں تو یہ اُسے گمراہی کہتے ہیں ، وہ اُسے گمراہی قرار دیں تو یہ اُسے فتنہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟
وہ جہاں جاتے ،جو کچھ پڑھتے اور جس سے ملتے ہیں ، اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے کچھ مصالحہ تلاش کرنے اور اپنی سیادت کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈنے کے سوا انھیں کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہوتی۔وہ بحث میں بھی علمی مکالمے کا طریقہ اختیار نہیں ، بلکہ اپنا سارا زور ''لینا، پکڑنا، جانے نہ دینا'' قسم کے نعرے بلند کرکے مذہبی پیشوائوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے پر صرف کرتے ہیں کہ علم و تحقیق کی ہر سمع جس قدر جلد ممکن ہو بجھا دی جائے ۔
اُن کی شخصیت ایک عجیب مجموعہ تضادات ہوتی ہے۔وہ اپنے پیش رو کے سامنے بڑی شان کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے جو رائے قائم کی ہے ، دلیل کی بنا پر قائم کی ہے ، چنانچہ کوئی شخص اگر دلیل سے اُن کی رائے کو غلط ثابت کر دے گا تو وہ بغیر کسی تردد کے اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہونگے ، لیکن کوئی شخص اُن کے نقطہ نظر کے خلاف برہان قاطع لے کر اُن کے سامنے آجاتا ہے تو بے تکلف فرماتے ہیں ، میاں ، دلیل کی حیثیت تو بس ایک لونڈی کی ہے جس سے جو خدمت لینا چاہو گے ، وہ بجا لائے گی۔
اصل تبدیلی تو دل کی تبدیلی ہے اور اُس کی بارگاہ میں دلیل کی کیا حیثیت ؟وہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بغیر کسی تعصب کے اُن کی بات سنیں اور اُس کے کوئی بغیر کسی تعصب کے دوسرے کی بات سننا چاہتا ہے تو اُن کا غضب لاوے کی طرح ابلتا اور خود اُن کے وجود کی ساری غلاظتوں کو ان کے سامنے ڈھیر کردیتا ہے۔وہ دوستوں کو درس دیتے ہیں کہ برے گمانوں سے بچو اور کان لگانے اور ٹوہ میں رہنے سے احتراز کرو، لیکن اپنے کسی مخالف کی کردار کشی کے لیے اُنھیں اگر کسی تنکے کا سہارا ملنے کی توقع ہو تو وہ اس کے لیے ہر پتھر الٹنے اور ہر وادی کو قطع کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
لیکن اس پر شکایت کا کیا محل ؟اس معاشرے میں جہاں صدیوںسے تحقیق واجتہاد کی حیثیت ایک شجر ِ ممنوعہ کی رہی ہو ، جہاں وہ لوگ بھی جو بظاہر اہل دین اور ارباب ِ دانش سمجھے جاتے ہیں ، علم کے جواب میں جہالت اور استدلال کے جواب میں ابتذال کی روش اختیار کرتے ہیں ، جہاں بات کو سننے اور سمجھنے کے بجائے قائل کا نفسیاتی تجزیہ کرنے سے لوگوں کو زیادہ دل چسپی ہوتی ہے ، جہاں ہر وہ چیز جس پر دو چار صدیاں گزر جائیں ، وہ مقدس ہوجاتی ہیں ،جہاں صحیح اور غلط کا معیار بالعموم لوگوں میں پزیرائی ہوتا ہے ، وہاں اس سے بہتر کسی رویے کی توقع آخر کی ہی کیوں جائے ؟
تاریخ گواہی دیتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی حقیقتیں بالعموم اسی طرح کے ماحول میں نمودار ہوئی ہیں۔یہ رویے نہ یوحنا و مسیح کی دعوت میں سد راہ بن سکے ، نہ ابن حزم اور ابن تیمیہ سے اُن کا مقام چھین سکے، نہ سقراط کی حکمت سے دنیا کو محروم کرسکے ، نہ کوپر نیکس اور گلیلیو کی دریافتوں کو چھپانے میں کامیاب ہوسکے ۔ علم وتحقیق کی شمع ہمیشہ اسی طرح روشن رہی ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی ، اگر اللہ نے چاہا تو اسی طرح روشن رہے گی۔