بُک شیلف
ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ
قرآن اور انسان
مصنف: ڈاکٹر محمد رب نواز خانزادہ، قیمت:700روپے، صفحات:256
ناشر:ادبستان،پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو اس نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا ۔ رہنمائی کے لفظ سے ہی سمجھ جانا چاہیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لیے لائحہ عمل طے کر دیا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے اللہ کے کلام سے زندگی کے معاملات میں رہنمائی حاصل کرنے کی طرف مسلمانوں کی توجہ کم ہے اور صرف اجر اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے الفاظ کو دہرایا جاتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ قرآن مجید کے مضامین پر غوروفکر کرو۔ اگر مسلم امہ اس طرف آ جائے تو آج پوری دنیا پر اس کی حکمرانی قائم ہو جائے ۔
عجمی تو ایک طرف رہے عرب بھی قرآن کی زبان پر عبور رکھنے کے باوجود اس پر کم ہی غورو فکر کرتے ہیں جبکہ بہت سے غیر مسلموں نے قرآن کے مضامین پر غور و فکر کر کے ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ دنیا حیران ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب کا موضوع بھی قرآن اور انسان ہے ۔ عبدالمتین ملک کہتے ہیں '' یہ کتاب اپنے دامن میں بعض نادر تاریخی معلومات رکھتی ہے اور اس کتاب کا مطالعہ ہر ذی شعور کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
اس کتاب میں مصنف نے ایک روحانی بزرگ محترم صوفی شوکت رضا سرکار دامت برکاتہ کے منظوم کلام سے چند لطیف غزلیات بھی شامل کی ہیں جو لمحہ فکریہ کا پیغام دیتی ہیں اور کتاب کے آخری صفحات میں مصنف نے اپنے چاہنے والوں سے اپنے تعلق کا اظہار بھی کیا ہے اور ان کے تعارف کے ساتھ مختصر جملوں میں ان کی سماجی اور معاشرتی خدمات و کارکردگی کو بھی نمایاں کیا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان سے مستفید ہوں ۔ محترم قارئین کرام، کتاب اخلاقی اقدار کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور اسی اخلاق پر حدیث نبویﷺ یاد آ گئی ۔
رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ '' میں تمھیں اس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے ، یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج ، نرم طبیعت اور خوش اخلاق ہو''۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ کا یہ فرمان جناب ڈاکٹر محمد رب نواز خانزادہ پر صادق آتا ہے ۔ شیخ سعدی ؒ سے پوچھا گیا ۔ انسان میں کتنے عیب ہوتے ہیں جواب ملا بے شمار، پر ایک خوبی سب عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اور وہ ہے حسن اخلاق ۔ اخلاق کے بارے عظیم ریاضی دان الخوارزمی نے انسان کو پرکھنے کا ایک انوکھا فارمولا بتایا ہے کہ کسی انسان کے پاس اخلاق ہو تو نمبر ایک دو اور اگر خوبصورتی ہو تو ایک ساتھ صفر لگائو تو یہ دس ہو جائے گا اور اگر دولت بھی ہو تو ایک صفر اور لگائو تو یہ 100 ہو جائے گا اور حسب نسب بھی ہو تو پھر ایک صفر اور لگائو تو یہ ایک ہزار ہو جائے گا ۔ اگر اس فارمولا میں اخلاق کا ایک نمبر نہ ہو تو باقی صرف تین صفر رہ جائیں گے ۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کتاب اتنی ضخیم نہیں لیکن وضاحت اور زور بیان کے اعتبار سے بہت قابل تعریف ہے ۔'' قرآن کا بڑا موضوع ہی انسان ہے کیونکہ ایک ایک لفظ انسان کی رہنمائی کر رہا ہے ، بار بار انسان کو مخاطب کیا گیا ہے اسے دعوت دی جا رہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت اہم موضوعات پر روشنی ڈالی ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
خواب
شاعر: میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی ، قیمت:500 روپے، صفحات:192
ناشر:کانٹی نینٹل سٹار پبلشرز، فیروز سنٹر ، غزنی سٹریٹ ، اردو بازار، لاہور
رابطہ نمبر(03004234798)
شاعری عطا ہے ، ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ وہ شعر کہہ سکے ، اللہ جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے ، اور یہ بڑا ہی خوبصورت تحفہ ہے کیونکہ شاعر اس واسطے سے اپنے دل کی بات بڑے دلنشیں انداز میں دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی ایسی ہی غزلوں کا گلدستہ ہے جس کا ہر شعر سیدھا دل کو لگتا ہے ، جیسے کہتے ہیں،
مری آنکھوں میں رہتا ہے مری سانسوں میں رہتا ہے
مجھے جب نیند آتی ہے تو پھر خوابوں میں رہتا ہے
وہ دن کو پھول بنتا ہے تو شب کو چاند ہوتا ہے
صبا کے ساتھ کھلتا ہے تو پھر راتوں میں رہتا ہے
میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی لالیاں کے معروف بزرگان دین حضرت میاں محمد صدیق لالی نوری حضوریؒ اور میاں شیخ صالح محمد لالی(شیخ حاجی) کے خانوادے سے ہیں ، اس علاقے میں اسلام کی ترویج و ترقی میں اس خانوادے کی خدمات اظہر من الشمس ہیں ۔ حضرت میاں محمد صدیق لالیؒ نوری حضوری کا عارفانہ کلام بھی راہ سلوک سے تعلق رکھنے والوں کے مشعل راہ ہے ۔ میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی آرمی ایوی ایشن میں خدمات سرانجام دیتے رہے، پھر شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے، مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہ رہے ، شعبہ تعلیم میں انتظامی خدمات بھی سر انجام دیں ۔ ان تمام تر مصروفیات کے باوجود ان کا فنون لطیفہ سے لگائو رہا اور کیونکہ نہ ہو خانوادے کے اثرات کسی نہ کسی صورت ظاہر ہوتے ہیں ، یوں شاعری ان پر اترنے لگی ۔ ان کی شاعری دل موہ لیتی ہے ،
اشک پلکوں پہ رہے اور گرائے نہ گئے
بھر گئے زخم مگر درد بھلائے نہ گئے
مضطرب میں بھی رہا اسکے تصور میں بہت
راز اس سے بھی محبت کے چھپائے نہ گئے
قاری ایک مرتبہ کتاب کھول لے تو بند کرنے کو دل نہیں کرتا ۔ شجاعت رجوی کہتے ہیں '' میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی کو غزل سے طبعی مناسبت ہے ۔ آپ کے مزاج میں موسیقی کی طرف رجحان بہت ہے، ساز و آواز سے دلچسپی ہے ۔ شاعری کا موضوع محبت ہی محبت ہے۔ محبت میں ہجر و فراق کا ہلکا ہلکا احساس سوز و مستی لیے ہوئے ہے ۔ محبت میں انتظار کی کیفیت بھی یہی انداز لیے ہوئے ہے اور آرزوئے وصل کا اظہار بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔ ان کی غزلوں میں جو بحریں برتی گئی ہیں وہ سب موسیقی سے بھرپور ہیں ان کی شاعری پڑھتے ہوئے قتیل شفائی کا یہ شعر باربار یاد آتا ہے ۔
گنگناتی ہوئی آئی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے
ان کی غزلیں گنگناتی ہوئی بوندیں اور یہ فلک سے آتی ہیں یعنی الہامی ہیں ۔ ان کی غزلیں آمد ہی آمد ہیں ان میں آورد کا شائبہ تک نہیں ہے۔ ان کی غزلوں میں سہل ممتنع کی خوبی ہے۔
میرے دل میں تمھی تو رہتے ہو
اس کو کعبہ نیا بنا جائو
شاعری کی یہ مختصر کتاب ہے لیکن ادبی محاسن سے مالامال ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے جس پر مقالات لکھے جائیں گے۔ یہ غزلیں ہمیشہ زندہ رہنے والی غزلیں ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بسمل صاحب کے قلم کی روانی برقرار رکھے۔'' بہت شاندار کتاب ہے ، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
زیب نامہ
مصنف: اورنگ زیب سہروردی، قیمت:600 روپے، صفحات:256
ناشر: احمد پبلی کیشنز، سید پلازہ چیٹر جی روڈ ، اردو بازار، لاہور(03224110460)
'زیب نامہ' کتاب کا عنوان پڑھ کر تھوڑا چونکا، مگر جب صاحب کتاب کے نام پر نظر پڑی تو ماننا پڑا کہ خوب عنوان رکھا ہے ۔ اورنگ زیب سہروردی ایک کاروباری مشیر، ٹرینر ، کالم نویس اور سماجی و معاشی معاملات پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ۔ پروفیشنل زندگی کے وسیع تجربے کے ساتھ ساتھ بزنس ، ابلاغ ، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں قومی و بین الاقوامی اداروں میں تربیت یافتہ ہیں اور تصدیق شدہ پروفیشنل ہیں مصنف کی اس کتاب سے پہلے بھی تین کتابیں انسانی وسائل اور تعلقات عامہ کے موضوعات پر شائع ہو چکی ہیں ۔ اردو کالم نگاری کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے اخبارات میں انگریزی میں کاروباری و معاشی مضامین بھی لکھتے رہے ہیں ۔ سماجی شعبے میں مصنف کئی فلاحی اداروں کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں اور مختلف جامعات میں تدریسی سرگرمیاں بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں ان کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے کالم شامل کئے گئے ہیں جس میں انھوں نے بھرپور تجزیہ کاری کرتے ہوئے عوام کو باخبر اور رہنمائی کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کی تحریر بہت رواں اور شستہ ہے ، آخر تک دلچسپی قائم رہتی ہے ۔
انیس یعقوب کہتے ہیں '' کالموں کا یہ مجموعہ مصنف کے اردگرد معاشرے میں ہونے والے واقعات اور سماجی مسائل کے ذاتی تجربات پر مشتمل ہے ۔ مصنف نے بہت ہی گہرے مشاہدے ، ذاتی جذبات اور وطن پرستی کو یک جا کر کے مختلف موضوعات پر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ تعلیم ، سیاست ، صحت ، سماجی برائیاں ، حقوق نسواں ، کھیل ، تجارت، ثقافت، الغرض بہت سے دیگر شعبہ ہائے زندگی پر قلم آزمائی کرتے ہوئے پس پردہ حقائق سے پردہ بھی اٹھایا ہے اور مختلف مسائل کے حل کیلئے تجاویز بھی پیش کی ہیں ۔ قلم کی زبان کہیں سادہ اور کہیں نستعلیق ہے ۔کہیں پہ دل و جذبات کا غلبہ ہے تو کہیں پہ سوچ و دماغ کا ۔ کہیں دکھ کا اظہار ہے تو کہیں پر طنز کے نشتر چلائے گئے ہیں ۔
یہ کالم محض ناوک دشنام نہیں ہیں بلکہ سچائی و خلوص سے نم عرضداشتیں ہیں ۔ یہ کالم اگرچہ 2007 اور 2008ء میں مختلف قومی اخبارات میں چھپتے رہے مگر آج بھی اپنی تازگی اور اثر پذیری برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ مصنف کی کچھ نثری تحریریں اور شاعری بھی شامل ہے جو واقعی سماجی زندگی اور قومی سوچ کی عکاس بھی ہیں ۔'' کالم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ قاری کی مثبت رہنمائی کرتا ہے اور مصنف کے تمام کالموں میں یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
زباں فہمی۔۔۔ نقشِ اول
ایک ایسے سماج میں جہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 'زبان وبیان' کسی کی بھی ترجیح نہیں رہا ہے، وہاں اس منچ کو سنبھالنا اور اردو کی درستی اور صحتِ زباں کا اس قدر مستقل مزاجی کے ساتھ پرچار کرنا یقیناً اہلِ دل ہی کا کام ہے اور انھی نایاب لوگوں میں سہیل احمد صدیقی کا بھی شمار ہوتا ہے ۔
جنھوں نے 2015ء میں 'روزنامہ ایکسپریس' میں 'زباں فہمی' کے عنوان سے مستقل سلسلہ شروع کیا، جو مختلف وقفوں کے بعد آج بھی 'سنڈے میگزین' میں جاری وساری ہے ۔ یہ سلسلہ اردو کے معمول کے الفاظ کی غلطیوں سے لے کر 'غلط العام' اور 'غلط العوام' الفاظ تک کے حوالے سے عام قارئین کو ایک سیرحاصل معلومات فراہم کرتا ہے ۔ اردو کے فروغ اور اس کی لفظیات، لہجہ، تلفظ، ہجے اور معانی ومفاہیم تک کی درستی کو برقرار رکھنے کی یہ کاوش بلاشبہ قابل قدر ہے ۔
زیرِتبصرہ کتاب اسی مستقل سلسلے کا 'نقشِ اول' ہے، جس میں 60 مضامین کو جمع کیا گیا ہے، جس میں کہیں 'محبت' کے اعراب کا بیان ہے، تو کہیں 'مردُم شماری' کے زیرو زبر کو درست کیا گیا ہے۔۔۔ کہیں 'السلام علیکم' کی درست ہجے بتائی گئی تو کہیں 'چالو زبان' کے عنوان پر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔۔۔ اور جو اہل ذوق سہیل احمد صدیقی کے قاری ہیں، وہ اس امر سے بہ خوبی واقف ہیں کہ وہ اکثر اپنے قیاس اور دلیل کے حق میں حوالوں کا خوب خیال رکھتے ہیں ۔۔۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ برسبیل تذکرہ ان کی تحریر میں کوئی لفظ در آتا ہے اور وہ اصل مافی الضمیر تک پہنچنے سے پہلے اپنے استعمال کیے گئے لفظ کی ضروری وضاحت بھی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، یوں ''ایک پنتھ (دو نہیں بلکہ) کئی کاج'' والا کام ہو جاتا ہے۔ صاحبِ کتاب کہنے کو یہاں فقط زبان وبیاں اور لسانی موضوعات سمیٹ رہے ہیں ، لیکن وہ اس سے قبل نو کتب قارئین کے لیے پیش کر چکے ہیں۔ ان کی ایک وجۂ شہرت پی ٹی وی کے مشہور زمانہ پروگرام نیلام گھر کا انعام یافتہ ہونا اور 'معلومات عامّہ' پر عبور بھی ہے، تو دوسری طرف شاعری کے عروض اور 'ہائیکو' جیسے متنوع موضوعات بھی ان کے 'گھر کی لونڈی' ہی محسوس ہوتے ہیں ۔
الغرض ان کے علمی اور تحقیقی رجحانات کا احاطہ اس مختصر سے تبصرے میں ممکن نہیں اور حق یہ ہے کہ ان کی اس تصنیف کا حق بھی ادا کرنا ہم جیسے ناچیز طالب علم کے لیے ایک امرِ محال ہے، تاہم زبان وبیان کے زوال کے ماحول میں ان کی یہ تحقیقی کاوش ہوا کے کسی خوش گوار جھونکے کی مانند ہے، جو اردو اور اچھی اردو کا ذوق رکھنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ 224 صفحات کی ضخامت رکھنے والی اس مجلد کتاب کی اشاعت آواز پبلی کیشنز (030052111201) راول پنڈی سے عمل میں آئی ہے۔ قیمت 800 روپے ہے۔
مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف
مصنف: جبار مرزا، قیمت: 3000 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ،
رابطہ: 03000515101
شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ سید ضمیر جعفری شاعر نہ ہوتے تو فقیر ہوتے۔
کہتے ہیں کہ جب گھر کا بڑا اٹھ جائے تو وہاں سایہ اٹھ جاتا ہے اور اہل خانہ کڑی دھوپ میں جیتے ہیں ۔ اب اسی بات کو ذہن میں رکھ کر معاشرے کا جائزہ لیجیے ۔ کتنے ہی بڑے اٹھ گئے ۔ اب ہم سب تپتی دوپہر میں سایہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن کہیں کوئی سایہ ملتا ہی نہیں ۔ آج سوچتے ہیں کہ سید ضمیر جعفری اور ان جیسے بڑے لوگ آج بھی زندہ ہوتے تو معاشرے کا رنگ ڈھنگ یوں پھیکا نہ پڑتا ۔
مرحوم اشفاق احمد نے لکھا ' ضمیر جعفری قسم کے لوگ ایک عجیب و غریب مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر ملک میں ان کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن یہ ہر ملک میں ضرور ہوتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو اس ملک کی آبادی بے کاری اور بدکاری کے درمیان سے گزر کر تباہ کاری کے ڈھنڈار ویرانے میں جا کر ختم ہو جائے اور بستیاں بھنور بن کر رہ جائیں۔'
جناب جبار مرزا اس لحاظ سے بھی بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کی مصاحبت سید ضمیر جعفری ایسی نادر شخصیت کے ساتھ رہی ۔ اس قدر قربت کہ بقول مصنف ' گھر بدلنا ان( سید ضمیر جعفری) کا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہیں شفٹ ہوتے تو ان کا سامان باندھنا،ریڑھے پر رکھنا، نئے گھر جانا، سامان کھولنا ، کونوں کھدروں میں لگانا میرے ذمے ہوتا ۔'
اس اعتبار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب جبار مرزا مزاح نگاروں کے کمانڈر انچیف کو کس قدر قریب سے اور کس قدر زیادہ جانتے ہوں گے۔ اور پھر جب زیر نظر کتاب لکھی تو اس میں کیا کچھ نہیں لکھا ہو گا!
یہاں سید ضمیر جعفری کے آباؤ اجداد اور آبائی علاقے کا تذکرہ کیا گیا۔ پیدائش اور پھر لفٹینی تک، زندگی کے اگلے مراحل کا احوال دلچسپ انداز میں لکھا گیا ۔ اس کے بعد مختلف اور منفرد قصے بیان کیے گئے ہیں ۔ جنرل ضیا الحق سے رشتہ داری کی کہانی، گھرداری سے گھر دامادی تک ۔ اس کے بعد ان کی تینوں بیگمات کے الگ الگ ابواب موجود ہیں۔ علامہ اقبال سے رشتہ مشترکہ معاشقہ اور داڑھی ، جمعداری سے کپتانی اور میجری تک ۔ یہ ابواب بھی ہیں ۔ ایک باب' کرامات، ضمیریات، چیدہ چیدہ حالات و جمالیات' کے عنوان سے بھی موجود ہے ۔ یہ باب دیگر ابواب کی نسبت زیادہ تفصیلی ہے ۔ اس میں سید ضمیر جعفری کے انیس سو اکاون کے انتخابات میں حصہ لینے کی مفصل داستان بھی بیان کی گئی ہے ۔ انھوں نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا اور پھر کیوں دستبردار ہوئے؟
کتاب میں سید ضمیر جعفری پر لکھے گئے دیگر اصحاب کے مضامین بھی شامل ہیں ۔ اس اعتبار سے اس کتاب کی صورت میں مرحوم ضمیر جعفری کا یہ تذکرہ جامع ہے اور منفرد ہے ۔ کتاب میں یادگار تصاویر بھی شامل ہیں ۔
رہی بات جناب جبار مرزا کی ، وہ صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں ۔ پہلے صحافت کے میدان میں عرصہ گزارا ، پھر کالم نگاری کی ایک طویل تاریخ رقم کی جو اب بھی رقم ہو رہی ہے ۔ اب ان کی ایک کے بعد دوسری تصنیف منظر عام پر آ رہی ہے ۔ اللہ کرے یہ سلسلہ یونہی قائم و دائم رہے ، ہمیں پڑھنے، جاننے کو بہت کچھ ملتا رہے ۔ ادارہ ' قلم فاؤنڈیشن' لائق داد و تحسین ہے کہ وہ تمام تر نامساعد حالات میں بھی تیزی سے اہم تصانیف انتہائی خوبصورت انداز میں شائع کر رہا ہے ۔
مصنف: ڈاکٹر محمد رب نواز خانزادہ، قیمت:700روپے، صفحات:256
ناشر:ادبستان،پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو اس نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا ۔ رہنمائی کے لفظ سے ہی سمجھ جانا چاہیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لیے لائحہ عمل طے کر دیا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے اللہ کے کلام سے زندگی کے معاملات میں رہنمائی حاصل کرنے کی طرف مسلمانوں کی توجہ کم ہے اور صرف اجر اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے الفاظ کو دہرایا جاتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ قرآن مجید کے مضامین پر غوروفکر کرو۔ اگر مسلم امہ اس طرف آ جائے تو آج پوری دنیا پر اس کی حکمرانی قائم ہو جائے ۔
عجمی تو ایک طرف رہے عرب بھی قرآن کی زبان پر عبور رکھنے کے باوجود اس پر کم ہی غورو فکر کرتے ہیں جبکہ بہت سے غیر مسلموں نے قرآن کے مضامین پر غور و فکر کر کے ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ دنیا حیران ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب کا موضوع بھی قرآن اور انسان ہے ۔ عبدالمتین ملک کہتے ہیں '' یہ کتاب اپنے دامن میں بعض نادر تاریخی معلومات رکھتی ہے اور اس کتاب کا مطالعہ ہر ذی شعور کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
اس کتاب میں مصنف نے ایک روحانی بزرگ محترم صوفی شوکت رضا سرکار دامت برکاتہ کے منظوم کلام سے چند لطیف غزلیات بھی شامل کی ہیں جو لمحہ فکریہ کا پیغام دیتی ہیں اور کتاب کے آخری صفحات میں مصنف نے اپنے چاہنے والوں سے اپنے تعلق کا اظہار بھی کیا ہے اور ان کے تعارف کے ساتھ مختصر جملوں میں ان کی سماجی اور معاشرتی خدمات و کارکردگی کو بھی نمایاں کیا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان سے مستفید ہوں ۔ محترم قارئین کرام، کتاب اخلاقی اقدار کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور اسی اخلاق پر حدیث نبویﷺ یاد آ گئی ۔
رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ '' میں تمھیں اس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے ، یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج ، نرم طبیعت اور خوش اخلاق ہو''۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ کا یہ فرمان جناب ڈاکٹر محمد رب نواز خانزادہ پر صادق آتا ہے ۔ شیخ سعدی ؒ سے پوچھا گیا ۔ انسان میں کتنے عیب ہوتے ہیں جواب ملا بے شمار، پر ایک خوبی سب عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اور وہ ہے حسن اخلاق ۔ اخلاق کے بارے عظیم ریاضی دان الخوارزمی نے انسان کو پرکھنے کا ایک انوکھا فارمولا بتایا ہے کہ کسی انسان کے پاس اخلاق ہو تو نمبر ایک دو اور اگر خوبصورتی ہو تو ایک ساتھ صفر لگائو تو یہ دس ہو جائے گا اور اگر دولت بھی ہو تو ایک صفر اور لگائو تو یہ 100 ہو جائے گا اور حسب نسب بھی ہو تو پھر ایک صفر اور لگائو تو یہ ایک ہزار ہو جائے گا ۔ اگر اس فارمولا میں اخلاق کا ایک نمبر نہ ہو تو باقی صرف تین صفر رہ جائیں گے ۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کتاب اتنی ضخیم نہیں لیکن وضاحت اور زور بیان کے اعتبار سے بہت قابل تعریف ہے ۔'' قرآن کا بڑا موضوع ہی انسان ہے کیونکہ ایک ایک لفظ انسان کی رہنمائی کر رہا ہے ، بار بار انسان کو مخاطب کیا گیا ہے اسے دعوت دی جا رہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت اہم موضوعات پر روشنی ڈالی ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
خواب
شاعر: میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی ، قیمت:500 روپے، صفحات:192
ناشر:کانٹی نینٹل سٹار پبلشرز، فیروز سنٹر ، غزنی سٹریٹ ، اردو بازار، لاہور
رابطہ نمبر(03004234798)
شاعری عطا ہے ، ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ وہ شعر کہہ سکے ، اللہ جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے ، اور یہ بڑا ہی خوبصورت تحفہ ہے کیونکہ شاعر اس واسطے سے اپنے دل کی بات بڑے دلنشیں انداز میں دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی ایسی ہی غزلوں کا گلدستہ ہے جس کا ہر شعر سیدھا دل کو لگتا ہے ، جیسے کہتے ہیں،
مری آنکھوں میں رہتا ہے مری سانسوں میں رہتا ہے
مجھے جب نیند آتی ہے تو پھر خوابوں میں رہتا ہے
وہ دن کو پھول بنتا ہے تو شب کو چاند ہوتا ہے
صبا کے ساتھ کھلتا ہے تو پھر راتوں میں رہتا ہے
میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی لالیاں کے معروف بزرگان دین حضرت میاں محمد صدیق لالی نوری حضوریؒ اور میاں شیخ صالح محمد لالی(شیخ حاجی) کے خانوادے سے ہیں ، اس علاقے میں اسلام کی ترویج و ترقی میں اس خانوادے کی خدمات اظہر من الشمس ہیں ۔ حضرت میاں محمد صدیق لالیؒ نوری حضوری کا عارفانہ کلام بھی راہ سلوک سے تعلق رکھنے والوں کے مشعل راہ ہے ۔ میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی آرمی ایوی ایشن میں خدمات سرانجام دیتے رہے، پھر شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے، مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہ رہے ، شعبہ تعلیم میں انتظامی خدمات بھی سر انجام دیں ۔ ان تمام تر مصروفیات کے باوجود ان کا فنون لطیفہ سے لگائو رہا اور کیونکہ نہ ہو خانوادے کے اثرات کسی نہ کسی صورت ظاہر ہوتے ہیں ، یوں شاعری ان پر اترنے لگی ۔ ان کی شاعری دل موہ لیتی ہے ،
اشک پلکوں پہ رہے اور گرائے نہ گئے
بھر گئے زخم مگر درد بھلائے نہ گئے
مضطرب میں بھی رہا اسکے تصور میں بہت
راز اس سے بھی محبت کے چھپائے نہ گئے
قاری ایک مرتبہ کتاب کھول لے تو بند کرنے کو دل نہیں کرتا ۔ شجاعت رجوی کہتے ہیں '' میاں غلام مصطفیٰ بسمل لالی کو غزل سے طبعی مناسبت ہے ۔ آپ کے مزاج میں موسیقی کی طرف رجحان بہت ہے، ساز و آواز سے دلچسپی ہے ۔ شاعری کا موضوع محبت ہی محبت ہے۔ محبت میں ہجر و فراق کا ہلکا ہلکا احساس سوز و مستی لیے ہوئے ہے ۔ محبت میں انتظار کی کیفیت بھی یہی انداز لیے ہوئے ہے اور آرزوئے وصل کا اظہار بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔ ان کی غزلوں میں جو بحریں برتی گئی ہیں وہ سب موسیقی سے بھرپور ہیں ان کی شاعری پڑھتے ہوئے قتیل شفائی کا یہ شعر باربار یاد آتا ہے ۔
گنگناتی ہوئی آئی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے
ان کی غزلیں گنگناتی ہوئی بوندیں اور یہ فلک سے آتی ہیں یعنی الہامی ہیں ۔ ان کی غزلیں آمد ہی آمد ہیں ان میں آورد کا شائبہ تک نہیں ہے۔ ان کی غزلوں میں سہل ممتنع کی خوبی ہے۔
میرے دل میں تمھی تو رہتے ہو
اس کو کعبہ نیا بنا جائو
شاعری کی یہ مختصر کتاب ہے لیکن ادبی محاسن سے مالامال ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے جس پر مقالات لکھے جائیں گے۔ یہ غزلیں ہمیشہ زندہ رہنے والی غزلیں ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بسمل صاحب کے قلم کی روانی برقرار رکھے۔'' بہت شاندار کتاب ہے ، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
زیب نامہ
مصنف: اورنگ زیب سہروردی، قیمت:600 روپے، صفحات:256
ناشر: احمد پبلی کیشنز، سید پلازہ چیٹر جی روڈ ، اردو بازار، لاہور(03224110460)
'زیب نامہ' کتاب کا عنوان پڑھ کر تھوڑا چونکا، مگر جب صاحب کتاب کے نام پر نظر پڑی تو ماننا پڑا کہ خوب عنوان رکھا ہے ۔ اورنگ زیب سہروردی ایک کاروباری مشیر، ٹرینر ، کالم نویس اور سماجی و معاشی معاملات پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ۔ پروفیشنل زندگی کے وسیع تجربے کے ساتھ ساتھ بزنس ، ابلاغ ، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں قومی و بین الاقوامی اداروں میں تربیت یافتہ ہیں اور تصدیق شدہ پروفیشنل ہیں مصنف کی اس کتاب سے پہلے بھی تین کتابیں انسانی وسائل اور تعلقات عامہ کے موضوعات پر شائع ہو چکی ہیں ۔ اردو کالم نگاری کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے اخبارات میں انگریزی میں کاروباری و معاشی مضامین بھی لکھتے رہے ہیں ۔ سماجی شعبے میں مصنف کئی فلاحی اداروں کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں اور مختلف جامعات میں تدریسی سرگرمیاں بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں ان کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے کالم شامل کئے گئے ہیں جس میں انھوں نے بھرپور تجزیہ کاری کرتے ہوئے عوام کو باخبر اور رہنمائی کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کی تحریر بہت رواں اور شستہ ہے ، آخر تک دلچسپی قائم رہتی ہے ۔
انیس یعقوب کہتے ہیں '' کالموں کا یہ مجموعہ مصنف کے اردگرد معاشرے میں ہونے والے واقعات اور سماجی مسائل کے ذاتی تجربات پر مشتمل ہے ۔ مصنف نے بہت ہی گہرے مشاہدے ، ذاتی جذبات اور وطن پرستی کو یک جا کر کے مختلف موضوعات پر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ تعلیم ، سیاست ، صحت ، سماجی برائیاں ، حقوق نسواں ، کھیل ، تجارت، ثقافت، الغرض بہت سے دیگر شعبہ ہائے زندگی پر قلم آزمائی کرتے ہوئے پس پردہ حقائق سے پردہ بھی اٹھایا ہے اور مختلف مسائل کے حل کیلئے تجاویز بھی پیش کی ہیں ۔ قلم کی زبان کہیں سادہ اور کہیں نستعلیق ہے ۔کہیں پہ دل و جذبات کا غلبہ ہے تو کہیں پہ سوچ و دماغ کا ۔ کہیں دکھ کا اظہار ہے تو کہیں پر طنز کے نشتر چلائے گئے ہیں ۔
یہ کالم محض ناوک دشنام نہیں ہیں بلکہ سچائی و خلوص سے نم عرضداشتیں ہیں ۔ یہ کالم اگرچہ 2007 اور 2008ء میں مختلف قومی اخبارات میں چھپتے رہے مگر آج بھی اپنی تازگی اور اثر پذیری برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ مصنف کی کچھ نثری تحریریں اور شاعری بھی شامل ہے جو واقعی سماجی زندگی اور قومی سوچ کی عکاس بھی ہیں ۔'' کالم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ قاری کی مثبت رہنمائی کرتا ہے اور مصنف کے تمام کالموں میں یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
زباں فہمی۔۔۔ نقشِ اول
ایک ایسے سماج میں جہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 'زبان وبیان' کسی کی بھی ترجیح نہیں رہا ہے، وہاں اس منچ کو سنبھالنا اور اردو کی درستی اور صحتِ زباں کا اس قدر مستقل مزاجی کے ساتھ پرچار کرنا یقیناً اہلِ دل ہی کا کام ہے اور انھی نایاب لوگوں میں سہیل احمد صدیقی کا بھی شمار ہوتا ہے ۔
جنھوں نے 2015ء میں 'روزنامہ ایکسپریس' میں 'زباں فہمی' کے عنوان سے مستقل سلسلہ شروع کیا، جو مختلف وقفوں کے بعد آج بھی 'سنڈے میگزین' میں جاری وساری ہے ۔ یہ سلسلہ اردو کے معمول کے الفاظ کی غلطیوں سے لے کر 'غلط العام' اور 'غلط العوام' الفاظ تک کے حوالے سے عام قارئین کو ایک سیرحاصل معلومات فراہم کرتا ہے ۔ اردو کے فروغ اور اس کی لفظیات، لہجہ، تلفظ، ہجے اور معانی ومفاہیم تک کی درستی کو برقرار رکھنے کی یہ کاوش بلاشبہ قابل قدر ہے ۔
زیرِتبصرہ کتاب اسی مستقل سلسلے کا 'نقشِ اول' ہے، جس میں 60 مضامین کو جمع کیا گیا ہے، جس میں کہیں 'محبت' کے اعراب کا بیان ہے، تو کہیں 'مردُم شماری' کے زیرو زبر کو درست کیا گیا ہے۔۔۔ کہیں 'السلام علیکم' کی درست ہجے بتائی گئی تو کہیں 'چالو زبان' کے عنوان پر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔۔۔ اور جو اہل ذوق سہیل احمد صدیقی کے قاری ہیں، وہ اس امر سے بہ خوبی واقف ہیں کہ وہ اکثر اپنے قیاس اور دلیل کے حق میں حوالوں کا خوب خیال رکھتے ہیں ۔۔۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ برسبیل تذکرہ ان کی تحریر میں کوئی لفظ در آتا ہے اور وہ اصل مافی الضمیر تک پہنچنے سے پہلے اپنے استعمال کیے گئے لفظ کی ضروری وضاحت بھی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، یوں ''ایک پنتھ (دو نہیں بلکہ) کئی کاج'' والا کام ہو جاتا ہے۔ صاحبِ کتاب کہنے کو یہاں فقط زبان وبیاں اور لسانی موضوعات سمیٹ رہے ہیں ، لیکن وہ اس سے قبل نو کتب قارئین کے لیے پیش کر چکے ہیں۔ ان کی ایک وجۂ شہرت پی ٹی وی کے مشہور زمانہ پروگرام نیلام گھر کا انعام یافتہ ہونا اور 'معلومات عامّہ' پر عبور بھی ہے، تو دوسری طرف شاعری کے عروض اور 'ہائیکو' جیسے متنوع موضوعات بھی ان کے 'گھر کی لونڈی' ہی محسوس ہوتے ہیں ۔
الغرض ان کے علمی اور تحقیقی رجحانات کا احاطہ اس مختصر سے تبصرے میں ممکن نہیں اور حق یہ ہے کہ ان کی اس تصنیف کا حق بھی ادا کرنا ہم جیسے ناچیز طالب علم کے لیے ایک امرِ محال ہے، تاہم زبان وبیان کے زوال کے ماحول میں ان کی یہ تحقیقی کاوش ہوا کے کسی خوش گوار جھونکے کی مانند ہے، جو اردو اور اچھی اردو کا ذوق رکھنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ 224 صفحات کی ضخامت رکھنے والی اس مجلد کتاب کی اشاعت آواز پبلی کیشنز (030052111201) راول پنڈی سے عمل میں آئی ہے۔ قیمت 800 روپے ہے۔
مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف
مصنف: جبار مرزا، قیمت: 3000 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ،
رابطہ: 03000515101
شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ سید ضمیر جعفری شاعر نہ ہوتے تو فقیر ہوتے۔
کہتے ہیں کہ جب گھر کا بڑا اٹھ جائے تو وہاں سایہ اٹھ جاتا ہے اور اہل خانہ کڑی دھوپ میں جیتے ہیں ۔ اب اسی بات کو ذہن میں رکھ کر معاشرے کا جائزہ لیجیے ۔ کتنے ہی بڑے اٹھ گئے ۔ اب ہم سب تپتی دوپہر میں سایہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن کہیں کوئی سایہ ملتا ہی نہیں ۔ آج سوچتے ہیں کہ سید ضمیر جعفری اور ان جیسے بڑے لوگ آج بھی زندہ ہوتے تو معاشرے کا رنگ ڈھنگ یوں پھیکا نہ پڑتا ۔
مرحوم اشفاق احمد نے لکھا ' ضمیر جعفری قسم کے لوگ ایک عجیب و غریب مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر ملک میں ان کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن یہ ہر ملک میں ضرور ہوتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو اس ملک کی آبادی بے کاری اور بدکاری کے درمیان سے گزر کر تباہ کاری کے ڈھنڈار ویرانے میں جا کر ختم ہو جائے اور بستیاں بھنور بن کر رہ جائیں۔'
جناب جبار مرزا اس لحاظ سے بھی بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کی مصاحبت سید ضمیر جعفری ایسی نادر شخصیت کے ساتھ رہی ۔ اس قدر قربت کہ بقول مصنف ' گھر بدلنا ان( سید ضمیر جعفری) کا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہیں شفٹ ہوتے تو ان کا سامان باندھنا،ریڑھے پر رکھنا، نئے گھر جانا، سامان کھولنا ، کونوں کھدروں میں لگانا میرے ذمے ہوتا ۔'
اس اعتبار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب جبار مرزا مزاح نگاروں کے کمانڈر انچیف کو کس قدر قریب سے اور کس قدر زیادہ جانتے ہوں گے۔ اور پھر جب زیر نظر کتاب لکھی تو اس میں کیا کچھ نہیں لکھا ہو گا!
یہاں سید ضمیر جعفری کے آباؤ اجداد اور آبائی علاقے کا تذکرہ کیا گیا۔ پیدائش اور پھر لفٹینی تک، زندگی کے اگلے مراحل کا احوال دلچسپ انداز میں لکھا گیا ۔ اس کے بعد مختلف اور منفرد قصے بیان کیے گئے ہیں ۔ جنرل ضیا الحق سے رشتہ داری کی کہانی، گھرداری سے گھر دامادی تک ۔ اس کے بعد ان کی تینوں بیگمات کے الگ الگ ابواب موجود ہیں۔ علامہ اقبال سے رشتہ مشترکہ معاشقہ اور داڑھی ، جمعداری سے کپتانی اور میجری تک ۔ یہ ابواب بھی ہیں ۔ ایک باب' کرامات، ضمیریات، چیدہ چیدہ حالات و جمالیات' کے عنوان سے بھی موجود ہے ۔ یہ باب دیگر ابواب کی نسبت زیادہ تفصیلی ہے ۔ اس میں سید ضمیر جعفری کے انیس سو اکاون کے انتخابات میں حصہ لینے کی مفصل داستان بھی بیان کی گئی ہے ۔ انھوں نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا اور پھر کیوں دستبردار ہوئے؟
کتاب میں سید ضمیر جعفری پر لکھے گئے دیگر اصحاب کے مضامین بھی شامل ہیں ۔ اس اعتبار سے اس کتاب کی صورت میں مرحوم ضمیر جعفری کا یہ تذکرہ جامع ہے اور منفرد ہے ۔ کتاب میں یادگار تصاویر بھی شامل ہیں ۔
رہی بات جناب جبار مرزا کی ، وہ صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام ہیں ۔ پہلے صحافت کے میدان میں عرصہ گزارا ، پھر کالم نگاری کی ایک طویل تاریخ رقم کی جو اب بھی رقم ہو رہی ہے ۔ اب ان کی ایک کے بعد دوسری تصنیف منظر عام پر آ رہی ہے ۔ اللہ کرے یہ سلسلہ یونہی قائم و دائم رہے ، ہمیں پڑھنے، جاننے کو بہت کچھ ملتا رہے ۔ ادارہ ' قلم فاؤنڈیشن' لائق داد و تحسین ہے کہ وہ تمام تر نامساعد حالات میں بھی تیزی سے اہم تصانیف انتہائی خوبصورت انداز میں شائع کر رہا ہے ۔