لارنس آف عریبیہ کی واپسی
عراق میں جو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ طے پا چکا۔ بہت ہی بھیانک و خوفناک کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔
عراق میں جو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ طے پا چکا۔ بہت ہی بھیانک و خوفناک کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔ پہلے امریکی خفیہ اداروں کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے امریکی میگزین ''ٹائم'' نے ''عراق کا خاتمہ'' کے عنوان سے عراق کی تقسیم پر ایک مفصل رپورٹ شایع کی اور بعد میں داعش نے نقشہ جاری کردیا۔ نہ صرف عراق کی تقسیم، بلکہ ''خلافت اسلامیہ'' نامی نقشے میں متعدد اسلامی ممالک کی تقسیم کا پلان بھی محفوظ ہے، لیکن فی الحال عراق کے حصے بخرے کرنا مقصد ٹھہرا۔ اپنے اپنے مقاصد کے لیے عراق کی تقسیم دونوں کی اولین ترجیح ہے۔
عراق کے پہلو میں اسرائیل اس معاملے سے نہ صرف بے حد خوش، بلکہ ایک طویل عرصے سے کردستان کی صورت میں عراق کی تقسیم کے لیے کوشاں بھی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں واشگاف الفاظ میں اعلان بھی کیا کہ ''اسرائیل عراق میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کاحامی ہے، جواپنی حفاظت اور دفاع کرسکتی ہو۔'' عین ان دنوں جب آئی ایس آئی ایس عراق میں دہشت پھیلاتی ہوئی قبضے پہ قبضہ کیے جا رہی ہے، کردستان کی علاقائی حکومت کے صدر مسعود بارزانی کی جانب سے کردستان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کے اعلان کا واضح مطلب ہے کہ عراق کی تقسیم کے لیے کوشاں تمام متحرک طبقوں کی زنجیر کہیں اور سے مشترکہ طور پر ہلائی جا رہی ہے۔
مقصد عراق کی تقسیم ہے، جس کے لیے بیک وقت مذہب اور قومیت کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ اچانک اور بیک وقت عراق میں سخت گیر گروپوں کا قوت پکڑ جانا بہت ہی خوفناک کھیل کا حصہ ہے۔ آئی ایس آئی ایس اٹھی اور چند روز میں ہی عراق کے بڑے حصے پر قابض ہوگئی، عراقی افواج تمام اسباب کے باوجود ناکام۔ یہ کیسے ممکن؟ کیا دنیا میں کسی آنکھ نے استعماری قوتوں کی پلاننگ کے بغیر کبھی ایسا ہوتا دیکھا کہ کسی ملک کی مسلح افواج ایک گروپ کے سامنے انتہائی برے طریقے سے پسپا ہوجائے؟ آئی ایس آئی ایس کے پاس اچانک اتنی قوت کہاں سے آگئی؟ اس راز کی کھوج لگانا انتہائی ضروری ہے۔
میڈیا کے مطابق چند روز میں یورپ سے چار ہزار کے لگ بھگ جنگجو ''خلافت'' کے قیام کے لیے عراق پہنچے۔ کیا یورپ کا نظام اتنا کمزور ہے کہ وہ جنگجوئوں کو نہ روک پائے۔ ہاں روکنا چاہے تو یقیناً ممکن ہے، لیکن روکا نہیں گیا، کیونکہ عراق میں خونریزی کی آگ بھڑکا کر عراق کو تقسیم کرنا مقصود ہے۔ استعماری قوتیں رواز اول سے امت مسلمہ کی تقسیم کے نت نئے حربے آزماتی آئی ہیں اور یہی حربے ایک بار پھر نئی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر، مگر پلاننگ یقیناً کسی ''لارنس آف عریبیہ'' کے دماغ کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کاروں کے مطابق ''عراقی تقسیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں متعدد علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں ملوث ہیں، جو خاص منصوبے کے تحت عراق میں جاری خونریزی کو ہوا دے رہی ہیں۔
یہ منصوبہ نہ صرف عراق اور قریبی مسلم ممالک کے لیے خطرہ ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔'' پوری اسلامی دنیا کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کے لیے نہایت عیاری کے ساتھ قومیت کے ساتھ عراق میں لڑائی کو مذہبی رنگ میں رنگا گیا اور دو مختلف فرقوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا، جس سے اب ایک کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان یہ تصادم بہت دور تک پھیلتا نظر آ رہا ہے۔ سامراجی قوتوں کی روز اول سے یہی چال رہی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کبھی مذہب اور کبھی قومیت کو استعمال کیا گیا ہے، یہ شاطرانہ طریقہ کار تا حال جاری ہے۔
عراق میں استعماری قوتوں کے بنے جانے والے تانے بانے سمجھنے کے لیے اگر ہم ایک صدی پیچھے کو سفر طے کریں تو معاملہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ خلافت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قلزم اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
خلافت عثمانیہ نے اگرچہ عربوں کو بہت مایوس کیا، جس سے عربوں میں خلافت سے کوئی دلچسپی نہ رہی اور خلافت خود بھی بہت کمزور ہو چکی تھی، لیکن سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں امت مسلمہ کے اتحاد کی صورت میں کھٹک رہی تھی، جسے وہ کسی صورت بھی ایک جھنڈے تلے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان حالات میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے لیے لارڈ کرزن نے ہوگرتھ کو مخصوص انگریز چال '' تقسیم کرو اور حکومت کرو'' پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ اس مشن کے لیے برطانوی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس، جسے ٹی ای لارنس کے طور پر جانا جاتا تھا، کو خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط عرب علاقوں میں بغاوت پھیلانے کا فریضہ سونپا گیا۔
اس شخص نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا اور اپنے آپ کو ایک عرب کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے بصرہ کی ایک مسجد میں ہزاروں مسلمانوں کے روبرو صرف دکھاوے کے لیے اسلام قبول کر کے یہ تاثر دیا کہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کر رہا ہے۔ ''لارنس آف عریبیہ'' نے نہایت ہی شاطرانہ طریقے سے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات کو جگا کر خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کو منظم کیا، جس کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔
خلافت عثمانیہ تو 1923 میں اختتام پذیر ہوئی، لیکن خلافت عثمانیہ کے بقایاجات کو 1916 میں ''سائیکس بیکو'' معاہدے کے ذریعے استعماری قوتوں برطانیہ اور فرانس نے روسی شہنشاہ سے مل کر آپس میں بانٹ لیا۔ بعد ازاں 1920ء میں معاہدہ سیورے طے ہوا، جس کے سیکشن III کے آرٹیکل 62 تا 64 کے مطابق کردستان کو بھی آزادی ملنا تھی، لیکن جب معاہدہ لوزان طے پایا تو کردستان کے قیام کا خواب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن کردستان کو عراق سے علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ اگرچہ کردستان کبھی بھی ایک علیحدہ ملک کے طور پر نہیں رہا، لیکن سامراجی قوتوں کو اسے بہر حال عراق سے علیحدہ کرنا تھا، اسی لیے مسلسل کردستان کی علیحدگی کا معاملہ زندہ رکھا گیا۔
اب خفیہ امریکی ادارے مذہب اور قومیت کی بنیاد پر عراق کو تین حصوںمیں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ایک طرف سخت گیر سنی تنظیم داعش عراق کے بڑے حصے پر قابض ہوکر مخالفین کی عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑانے لگی ہے، جب کہ دوسری جانب شیعہ جنگجو میدان میں اتر رہے ہیں، جس سے عراق میں خوفناک خونریزی کا خدشہ ہے اور تیسری جانب کردستان کی علیحدگی کا معاملہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ عراق مکمل طور پر غیر مستحکم ہوچکا ہے۔
عراق کو ان حالات تک پہنچانے کے پیچھے یقیناًکوئی ''لارنس آف عریبیہ'' چھپا ہے، جو ایک صدی پہلے قومیت کی آگ بھڑکا کر خلافت عثمانیہ کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اب مذہب و قومیت کی آڑ میں عراق کی تقسیم کا منصوبہ روبہ عمل ہے۔ اس بھیانک منصوبے کی لپیٹ میں صرف عراق ہی نہیں، بلکہ بیشتر اسلامی ممالک بھی آسکتے ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اب بھی استعمار کی سازشوں کو نہ سمجھ پائے تو خدانخواستہ سامراجی سازشیں تمام اسلامی ممالک کو عراق بنا سکتی ہیں۔
عراق کے پہلو میں اسرائیل اس معاملے سے نہ صرف بے حد خوش، بلکہ ایک طویل عرصے سے کردستان کی صورت میں عراق کی تقسیم کے لیے کوشاں بھی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں واشگاف الفاظ میں اعلان بھی کیا کہ ''اسرائیل عراق میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کاحامی ہے، جواپنی حفاظت اور دفاع کرسکتی ہو۔'' عین ان دنوں جب آئی ایس آئی ایس عراق میں دہشت پھیلاتی ہوئی قبضے پہ قبضہ کیے جا رہی ہے، کردستان کی علاقائی حکومت کے صدر مسعود بارزانی کی جانب سے کردستان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کے اعلان کا واضح مطلب ہے کہ عراق کی تقسیم کے لیے کوشاں تمام متحرک طبقوں کی زنجیر کہیں اور سے مشترکہ طور پر ہلائی جا رہی ہے۔
مقصد عراق کی تقسیم ہے، جس کے لیے بیک وقت مذہب اور قومیت کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ اچانک اور بیک وقت عراق میں سخت گیر گروپوں کا قوت پکڑ جانا بہت ہی خوفناک کھیل کا حصہ ہے۔ آئی ایس آئی ایس اٹھی اور چند روز میں ہی عراق کے بڑے حصے پر قابض ہوگئی، عراقی افواج تمام اسباب کے باوجود ناکام۔ یہ کیسے ممکن؟ کیا دنیا میں کسی آنکھ نے استعماری قوتوں کی پلاننگ کے بغیر کبھی ایسا ہوتا دیکھا کہ کسی ملک کی مسلح افواج ایک گروپ کے سامنے انتہائی برے طریقے سے پسپا ہوجائے؟ آئی ایس آئی ایس کے پاس اچانک اتنی قوت کہاں سے آگئی؟ اس راز کی کھوج لگانا انتہائی ضروری ہے۔
میڈیا کے مطابق چند روز میں یورپ سے چار ہزار کے لگ بھگ جنگجو ''خلافت'' کے قیام کے لیے عراق پہنچے۔ کیا یورپ کا نظام اتنا کمزور ہے کہ وہ جنگجوئوں کو نہ روک پائے۔ ہاں روکنا چاہے تو یقیناً ممکن ہے، لیکن روکا نہیں گیا، کیونکہ عراق میں خونریزی کی آگ بھڑکا کر عراق کو تقسیم کرنا مقصود ہے۔ استعماری قوتیں رواز اول سے امت مسلمہ کی تقسیم کے نت نئے حربے آزماتی آئی ہیں اور یہی حربے ایک بار پھر نئی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر، مگر پلاننگ یقیناً کسی ''لارنس آف عریبیہ'' کے دماغ کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کاروں کے مطابق ''عراقی تقسیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں متعدد علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں ملوث ہیں، جو خاص منصوبے کے تحت عراق میں جاری خونریزی کو ہوا دے رہی ہیں۔
یہ منصوبہ نہ صرف عراق اور قریبی مسلم ممالک کے لیے خطرہ ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔'' پوری اسلامی دنیا کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کے لیے نہایت عیاری کے ساتھ قومیت کے ساتھ عراق میں لڑائی کو مذہبی رنگ میں رنگا گیا اور دو مختلف فرقوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا، جس سے اب ایک کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان یہ تصادم بہت دور تک پھیلتا نظر آ رہا ہے۔ سامراجی قوتوں کی روز اول سے یہی چال رہی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کبھی مذہب اور کبھی قومیت کو استعمال کیا گیا ہے، یہ شاطرانہ طریقہ کار تا حال جاری ہے۔
عراق میں استعماری قوتوں کے بنے جانے والے تانے بانے سمجھنے کے لیے اگر ہم ایک صدی پیچھے کو سفر طے کریں تو معاملہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ خلافت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قلزم اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
خلافت عثمانیہ نے اگرچہ عربوں کو بہت مایوس کیا، جس سے عربوں میں خلافت سے کوئی دلچسپی نہ رہی اور خلافت خود بھی بہت کمزور ہو چکی تھی، لیکن سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں امت مسلمہ کے اتحاد کی صورت میں کھٹک رہی تھی، جسے وہ کسی صورت بھی ایک جھنڈے تلے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان حالات میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے لیے لارڈ کرزن نے ہوگرتھ کو مخصوص انگریز چال '' تقسیم کرو اور حکومت کرو'' پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ اس مشن کے لیے برطانوی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس، جسے ٹی ای لارنس کے طور پر جانا جاتا تھا، کو خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط عرب علاقوں میں بغاوت پھیلانے کا فریضہ سونپا گیا۔
اس شخص نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا اور اپنے آپ کو ایک عرب کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے بصرہ کی ایک مسجد میں ہزاروں مسلمانوں کے روبرو صرف دکھاوے کے لیے اسلام قبول کر کے یہ تاثر دیا کہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کر رہا ہے۔ ''لارنس آف عریبیہ'' نے نہایت ہی شاطرانہ طریقے سے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات کو جگا کر خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کو منظم کیا، جس کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔
خلافت عثمانیہ تو 1923 میں اختتام پذیر ہوئی، لیکن خلافت عثمانیہ کے بقایاجات کو 1916 میں ''سائیکس بیکو'' معاہدے کے ذریعے استعماری قوتوں برطانیہ اور فرانس نے روسی شہنشاہ سے مل کر آپس میں بانٹ لیا۔ بعد ازاں 1920ء میں معاہدہ سیورے طے ہوا، جس کے سیکشن III کے آرٹیکل 62 تا 64 کے مطابق کردستان کو بھی آزادی ملنا تھی، لیکن جب معاہدہ لوزان طے پایا تو کردستان کے قیام کا خواب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن کردستان کو عراق سے علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ اگرچہ کردستان کبھی بھی ایک علیحدہ ملک کے طور پر نہیں رہا، لیکن سامراجی قوتوں کو اسے بہر حال عراق سے علیحدہ کرنا تھا، اسی لیے مسلسل کردستان کی علیحدگی کا معاملہ زندہ رکھا گیا۔
اب خفیہ امریکی ادارے مذہب اور قومیت کی بنیاد پر عراق کو تین حصوںمیں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ایک طرف سخت گیر سنی تنظیم داعش عراق کے بڑے حصے پر قابض ہوکر مخالفین کی عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑانے لگی ہے، جب کہ دوسری جانب شیعہ جنگجو میدان میں اتر رہے ہیں، جس سے عراق میں خوفناک خونریزی کا خدشہ ہے اور تیسری جانب کردستان کی علیحدگی کا معاملہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ عراق مکمل طور پر غیر مستحکم ہوچکا ہے۔
عراق کو ان حالات تک پہنچانے کے پیچھے یقیناًکوئی ''لارنس آف عریبیہ'' چھپا ہے، جو ایک صدی پہلے قومیت کی آگ بھڑکا کر خلافت عثمانیہ کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اب مذہب و قومیت کی آڑ میں عراق کی تقسیم کا منصوبہ روبہ عمل ہے۔ اس بھیانک منصوبے کی لپیٹ میں صرف عراق ہی نہیں، بلکہ بیشتر اسلامی ممالک بھی آسکتے ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اب بھی استعمار کی سازشوں کو نہ سمجھ پائے تو خدانخواستہ سامراجی سازشیں تمام اسلامی ممالک کو عراق بنا سکتی ہیں۔